ایس انجم آصف
امریکا کے معروف نشریاتی ادارے سی این بی سی نے انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ چین نے جنوبی چینی سمندر (ساؤتھ چائنا سی) میں واقع کئی جزائر پر جدید ترین ایچکیو-9 بی قسم کے طویل فاصلوں تک مار کرنے والے اینٹی ایئرکرافٹ میزائل اور طویل فاصلوں تک مار کرنے والے وائےجے-12 بی قسم کے سپر سانک اینٹی شپ میزائل نصب کردیئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین ان جزائر پر اپنی فوجی موجودگی کو مضبوط بنا رہا ہے۔ واضح رہے کہ جنوبی چینی سمندر کے جن جزائر پر چین نے یہ جدید ترین میزائل نصب کئے ہیں ان کو چین نے سمندر میں مصنوعی طور پر تیار کیا ہے اور وہاں پہلے ہی سے ایک ایئر اسٹرپ بھی تعمیر کی جا چکی ہے جس کے ذریعے چینی ایئر فورس کے جنگی طیارے اتر اور پرواز کرسکتے ہیں۔
جن جزائر پر چین نے یہ جدید ترین میزائل نصب کئے ہیں وہاں 2013ء سے اب تک چین نے سات جزائر پر اپنی فوجی موجودگی کو یقینی بنا رکھا ہے۔ چین نے ان جزائر پر 3000 ایکڑ مصنوعی زمین تیار کی ہے جہاں چین نے فوجی تنصیبات اور پورٹ کی تعمیر کی ہے۔ ان جزائر پر چین نے جو سہولیات تعمیر کی ہیں ان میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سینسر ارایس اور رن وے قابل ذکر ہیں جس پر ہر قسم کے فوجی طیارے لینڈ اور ٹیک آف کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ چین نے ان جزائر پر 100 طیاروں کے لئے حفاظتی حصار (شیلٹرز)، ایندھن اور ایمونیشن کے لئے مضبوط بنکرز اور میزائل بیٹریوں کے لئے محفوظ مقامات تعمیر کئے ہیں۔
چین کی جانب سے ان جزائر پر جدید ہتھیاروں کی تنصیب کوئی نیا اقدام نہیں۔ اس سے قبل بھی چین نے ان جزائر پر شارٹ رینج میزائل اور پوائنٹ ڈیفنس سسٹم، جیسا کہ اینٹی ایئرکرافٹ گنیں اور کلوز ان ویپن سسٹم نصب کر رکھے تھے۔ اس کا مقصد ان جزائر پر حملہ آور ہونے والے میزائلوں سے دفاع کرنا تھا۔ چین کی وزارتِ دفاع نے ان ہتھیاروں کی تنصیب کو دفاعی اقدامات قرار دیا تھا اور اب نئے ہتھیاروں کی تنصیب کو بھی دفاعی اقدام قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کسی کو بھی ان چینی ہتھیاروں سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ چین نے ان ہتھیاروں کو دفاعی مقاصد کے تحت نصب کیا ہے، جارحانہ مقاصد کے لئے نہیں۔
لیکن امریکا کو ان چینی ہتھیاورں کی تنصیب پر واضح اعتراضات ہیں اور وہ چین کے ان اقدامات کو جارحانہ قسم کے اقدامات تصور کرتا ہے۔ امریکی بحریہ کی پسیفک کمانڈ کے انچارج ایڈمرل فلپ ڈیوڈمن نے ان چینی ہتھیاروں کی تنصیب کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’امریکا نے چین کے ان اقدامات پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے اور اہم اس ضمن میں بے خبر نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ چین ان متنازعہ جزائر پر بڑی تیزی سے اپنی فوجی موجودگی کو بڑھا رہا ہے اور ہم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ چین اپنے منصوبے کے مطابق اپنی مضبوط فوجی موجودگی کے باعث مستقبل میں امریکا کو چیلنج کرنا چاہتا ہے۔‘‘ ایڈمرل فلپ ڈیوڈمن کے مطابق چین ان جزائر پر فوجی قوت میں جو اضافہ کررہا ہے اس کا مقصد مستقبل میں نہ صرف اس علاقے میں امریکا کی موجودگی کو چیلنج کرنا ہے بلکہ چین ان جزائر پر دعویٰ رکھنے والے اپنی دیگر پڑوسی ممالک کو بھی کسی بھی فوجی کارروائی کی صورت میں بھرپور فوجی قوت کے ذریعے کچلنے کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مستقبل میں امریکا کے ساتھ کسی بھی ممکنہ تصادم کی صورت میں تمام علاقے کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔
امریکا کے ایک دفاعی ماہر کا کہنا تھا کہ چین کے ان اقدامات کا مقصد دراصل ان جزائر پر جدید قسم کے ہتھیاروں کو نصب کرکے علاقے کے دیگر ممالک جن میں ویت نام، جاپان اور آسٹریلیا فہرست ہیں، کے ردعمل کو بھانپنا ہے کہ امریکا کی ان حلیف ممالک کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین کو امریکا سمیت علاقے کے کسی بھی ملک کے کسی بھی ردعمل کی پرواہ نہیں، کیونکہ چین نے تھائی لینڈ کی جانب سے ان متنازعہ جزائر کو ملکیت کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف ک ے فیصلے کو بھی رد کردیا تھا جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ چین ان جزائر کی ملکیت سے کسی بھی صورت میں دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے۔ اس نے ماضی میں ان جزائر پر جو ہتھیار نصب کئے تھے انہیں عارضی طور پر نصب کیا گیا تھا لیکن اب چین نے جن جدید قسم کے ہتھیاروں کو نصب کیا ہے ان کی نوعیت مستقل ہے۔
امریکی ماہر نے امریکا اور علاقے کے دیگر ممالک کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کے ان جزائر پر جدید قسم کے ہتھیاروں کی تنصیب کو معمولی تصور نہ کیا جائے، کیونکہ چین نے اب یہ صلاحیت حاصل کرلی ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر انتہائی پھرتی کے ساتھ اپنی فورس کو تعینات کرسکتا ہے جس میں فائٹر، بمبار طیارے اور روایتی اور ایٹمی وار ہیڈز سے لیس بیلسٹک میزائل بھی شامل ہیں جو طویل فاصلوں تک اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیتے رکھتے ہیں جبکہ علاقائی سمندر میں موجود حریف بحری جہاز بھی ان میزائل کا ہدف بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ چین اپنے میزائلوں سے جنوبی چینی سمندر کے باہر موجود اہداف کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔
چین کو ان جزائر پر جدید قسم کے میزائلوں کی تنصیب کی ضرورت کیوں پیش آئی 2015ء میں امریکا نے کہا تھا کہ وہ چین کے ساتھ مذاکرات کے بعد ایک ڈیل تک پہنچا ہے جس کے مطابق امریکا سے ان متنازعہ جزائر اور جنوبی چینی سمندر میں جاسوسی سرگرمیوں میں دور رہنے کی بات کی گئی تھی، مگر ایسا ہو نہ سکا بلکہ امریکا نے اپنے ایپی-3ای ارییس-3 جاسوس طیاروں کو جدید کیمروں سے آراستہ کرکے ان کی پروازیں جنوبی چینی سمندر میں شروع کردیں تاکہ علاقے کی تصاویر حاصل کی جاسکیں۔ چنانچہ چین نے بھی ان جزائر میں جدید ہتھیاروں کی تنصیب کا فیصلہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا فریڈم آف نیوی گیشن کے تحت ان متنازعہ جزائر میں اپنی بحری مداخلت سے باز نہیں آتا، جس کو چین پسند نہیں کرتا۔ مزید یہ کہ امریکی حمایت کے بعد ان جزائر پر اپنا دعویٰ رکھنے والے ویت نام نے بھی جنوبی چینی سمندر کے نزدیک اپنے علاقے میں اسرائیلی ساختہ ایکسٹرا نامی جدید ترین راکٹ آرٹلری سسٹم نصب کردیا ہے جس کی زد میں ان جزائر پر موجود تقریباً نصف سے زائد چینی اوٹپوسٹس آتی ہیں۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ چین کی طرف سے ان جزائر پر جدید ترین قسم کے میزائلوں کی تنصیب کے بعد چین کی انٹ ایکسس اینڈ ایریہ ڈینیئل کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا جبکہ امریکی نیوی کے لئے مشکلات بڑھیں گی۔ وال اسٹریٹ نے اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ چین نے ان جزائر میں کچھ مقامات پر جدید ترین الیکٹرانک وار فیئر سسٹم بھی نصب کر رکھا ہے۔ چین ان الیکٹرانک وار فیئر آلات کی مدد سے امریکی طیاروں کو جام کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ امریکی ہوابازوں نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ چین کی ان کوششوں کا مقصد امریکی طیاروں کو جنوبی چینی سمندر سے دور رکھنا ہے۔ اخبار کے مطابق حال ہی میں ملنے والی رپورٹوں کے مطابق چین نے امریکی طیاروں کے ریڈاروں کو جام کرنے کے لئے اور ان کی کمیونی کیشن نیوی گیشن کو جام کرنے کے لئے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں۔ فلپائن کی جی ایم اے نیوز کے مطابق امریکی نیوی نے چین کی جانب سے جدید ترین الیکٹرانک وار فیئر آلات کے استعمال کی تصدیق کی ہے۔
امریکی نیوی کے ایک ہوا باز نے تصدیق کی ہے کہ اس علاقے میں پرواز کے دوران اسے کئی مرتبہ یہ محسوس ہوا کہ ان کے طیارے کے ریڈار کمیونی کیشن اور نیوی گیشن کو جام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امریکا نے اس علاقے میں اور خصوصی طور پر سمندر میں ایسے آلات اور سینسرز نصب کر رکھے ہیں جو چینی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں اور چینی باتیں سننے کی صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ امریکی نیوی کے طیاروں نے جو جاسوسی آلات سے لیس ہوتے ہیں اس علاقے میں اپنی پروازوں میں اضافہ کردیا ہے۔
امریکی آخر کار چینی ایچکیو-9بی لانگ رینج سرفیس ٹو ایئر میزائل اور واےے-12بی سپر سانک لانگ رینج اینٹی شپ کروز میزائل سے خوفزدہ کیوں ہیں؟ چینی ساختہ ایچکیو-9بی دراصل ایک طویل فاصلوں تک مار کرنے والا اینٹی ایئر کرافٹ میزائل ہے۔ یہ روسی ایس -300 کا ہم پلہ اور مساوی صلاحیتوں کا حامل ہے۔ اسے چینی ایئر ڈیفنس سسٹم کا سب سے زیادہ باصلاحیت اور تباہ کن میزائل تصور کیا جاتا ہے۔ یہ میزائل طیاروں کے علاوہ، نچلی اور بلند سطح پر پرواز کرنے والے ڈرونز اور کروز میزائلوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ڈیفنس سسٹم کے علاوہ بی ماڈل انتہائی جدید قسم ہے اور اس میں ڈول میڈ سیاکیر نصب کیا گیا ہے جو سیمی آٹومیٹک ریڈار کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ یہ میزائل انفراریڈ ہومنگ صلاحیت کا حامل ہے جس کے باعث یہ کئی اقسام کے اہداف کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ چین نے اس جدید ترین ایچکیو-9بی میں ایسے سینسرز نصب کئے ہیں جس کے باعث اسے جام نہیں کیا جاسکتا۔ ایچکیو-9بی میزائل 200 کلومیٹر سے دور اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
چین کا واےے-12بی سپر سانک لانگ رینج اینٹی شپ کروز میزائل ایک جدید ترین اینٹی شپ کروز میزائل ہے۔ یہ ایک لینڈ پیڈ میزائل سسٹم ہے۔ اس میزائل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ روسی ےایچ-31 میزائل پر انتحصار کرکے تیار کیا گیا ہے جبکہ اس کی کارکردگی پرانے ورژن واےے-12 اے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ واےے-12بی کروز میزائل کلوز ان ویپن سسٹم کو دھوکہ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ ایواسوے مانیورس کا حامل ہے۔ چین نے اس میزائل کو مزید بہتر اور موثر بنانے کے لئے اس میں اضافی کاؤنٹر -کاؤنٹر میجرز نصب کئے ہیں۔ اس میزائل کی رینج 300 کلومیٹر ہے۔