Thursday, May 9, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

چین اور سعودی عرب کے تعلقات میں اضافہ

حمید اللہ بھٹی
چین کے صدر شی جن پنگ اندرونِ ملک خود کو مضبوط بنانے کے بعد اپنی تمام تر توانائیاں معیشت کو بہتر بنانے اور بیرونِ ملک چینی اثرورسوخ میں اضافہ کرنے پر صرف کررہے ہیں حیران کُن امر یہ ہے کہ ملک کے اندر اور باہر انہیں متواتر کامیابیاں حاصل ہورہی ہے۔ گزشتہ سال 2022ء میں 7 سے 9 دسمبر کے دوران انہوں نے تجارتی و تذویراتی حوالے سے سعودی عرب کا کامیاب سرکاری دورہ کیا ہے جس کے دوران اُن کا گرم جوشی سے پُرتپاک استقبال ہوا، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے روایات سے ہٹ کر شاندار آؤبھگت کی، یہ آؤبھگت امریکی صدر جوبائیڈن کے جولائی 2022ء میں ہونے والے استقبال کے برعکس اور بڑھ کر ہے، اِس استقبال کو اِس نظر سے دیکھنا کہ چین اور سعودیہ تیل کی منڈی کے بڑے کردار ہیں کیونکہ سعودیہ اگر تیل کی پیداوار اور فروخت کے حوالے سے دُنیا کا ایک اہم ملک ہے جبکہ چین تیل کا ایک بڑا خریدار ہے، سعودی تیل کا چوتھا حصہ چین خریدتا ہے، یہ استقبال اِس ضرورت سے بھی بڑھ کر محسوس ہوتا ہے کیونکہ پہلی بار کسی چینی صدر کو سعودی عرب نے اتنی پذیرائی دی، صدر شی جن پنگ 2016ء میں بھی سعودی عرب آئے مگر موجودہ وارفتگی عنقا دکھائی دی، چینی صدر نہ صرف ریاض میں منعقدہ چین اور عرب ریاستوں کے سربراہی اجلاس میں شریک ہوئے بلکہ خلیجی تعاون کونسل کے اجلاس میں شرکت کی، ایسی اہمیت و عزت دینا ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عرب کسی ایک پر تکیہ کرنے کے بجائے دیگر عالمی طاقتوں دونوں سے بھی دوطرفہ تعاون بڑھانے کی روش پر گامزن ہیں جو مشرقِ وسطیٰ کے منظرنامے میں آتی تبدیلیوں کی طرف اشارہ ہے۔
ریاستوں کے باہمی تعلقات اخلاص نہیں مفادات کے تابع ہوتے ہیں اسی لئے دوست اور دشمن بدلنا عام بات ہے، ”واشنگٹن پوسٹ“ کے ایک صحافی ڈیوڈ کو 2004ء میں دیئے گئے انٹرویو میں سعودی وزیرِخارجہ سعود الفیصل نے ایک بڑی ہی معنی خیز بات کہی کہ امریکا اور سعودیہ کے تعلقات کیتھولک شادی نہیں بلکہ مسلمانوں کو چار شادیوں کی اجازت ہے، اِس طرح یہ وضاحت کی کہ کسی ایک طاقت کے پابند نہیں بلکہ جو ہمارے لئے بہتر ہوگا وہ کریں گے، اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ دیگر ممالک سے تعلقات بڑھانے کا مطلب امریکا سے طلاق ہونا نہیں مگر گزشتہ سال 2022ء کے دوران کئی ایک ایسے واقعات ہوئے ہیں جس سے اِس تاثر کو تقویت ملنے لگی ہے کہ ریاض اور واشنگٹن کے تعلقات کا عروج نہیں رہا جس کی ایک اہم وجہ وہ فیصلہ ہے جس میں 5 اکتوبر 2022ء کو اوپیک ممالک نے یومیہ تیل کی پیداوار میں 2 ملین بیرل یومیہ کمی کا اعلان کیا جس سے سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات میں کشیدگی آئی کیونکہ امریکا سمجھتا ہے اوپیک کے فیصلے سے روسی معیشت کو فائدہ ملے گا، دوسری وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب کو امریکا انسانی حقوق کی پامالی کا مرتکب قرار دیتا ہے، صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت کے واقعہ کو اُچھالنے اور پھر عالمی میڈیا کی زینت رکھنے پر بھی ولی عہد محمد بن سلمان خفا ہیں، روس اور یوکرین جنگ کے باوجود سعودی عرب کے روس سے بڑھتے تعلقات پر بھی امریکا کو اعتراض ہے، اسی لئے دونوں ممالک کی ترجیحات کی نوعیت بدل رہی ہے، حالانکہ اب ٹرمپ کی طرح یہ دھمکی دینے کا زمانہ بھی نہیں رہا کہ ہمارے بغیر سعودی اپنے دفاع کے قابل بھی نہیں، وجہ ایک سے زائد عالمی سطح پر متبادل کا میسر ہونا ہے۔ چین حالیہ دہائی میں مشرقِ وسطیٰ کا اہم کردار بن چکا ہے، وہ نئی تجارتی منڈیاں تلاش کرنے کے ساتھ بااعتماد دوست بنانے کے لئے ہر قسم کے دفاعی تعاون پر بھی آمادہ ہے، یہ وہی پالیسی ہے جس سے روس نے شام جنگ میں صدر بشارالاسد کا ساتھ دے کر تبدیلی کی کوششوں کو ناکام بنایا، اسی بنا پر اُسے عالمی تعاون مل رہا ہے۔
امریکی دھمکیاں آزاد و خودمختار ممالک کو سخت ناگوار ہیں مگر امریکا اپنے طرزِ عمل پر نظرثانی نہیں کررہا بلکہ انسانی حقوق کی آڑ میں دفاعی سازوسامان کی خریدوفروخت پر پابندیاں لگاتا رہتا ہے، شاہ فیصل بن عبدالعزیز کو عرب اسرائیل جنگ کے دوران تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے سے باز رہنے کا مطالبہ اور پھر ایسا نہ کرنے کی صورت میں دھمکی سے زمانہ آشنا ہے، سعودی شاہ نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ ہم اپنی پرانی بدویانہ طرز کی زندگی میں دوبارہ لوٹ جانا منظور کرلیں گے لیکن کسی کی ہدایات یا حکم قبول نہیں کرسکتے، بعدازاں غیرطبعی موت مارے گئے۔ یہ تو 1973ء کی بات ہے اب 2023ء ہے جب معاشی اور دفاعی حوالے سے چین کی مسلسل پیش قدمی جاری ہے، اِسی لئے بظاہر سعودی قیادت کو چین کی طرف مائل ہونے سے باز رکھنے کی کوئی فوری صورت بنتی نظر نہیں آتی بلکہ ایسا لگتا ہے کہ سات آٹھ دہائیوں سے مشرقِ وسطیٰ سے امریکا ایک دیرینہ حلیف کے اعتماد سے محروم ہونے کے قریب ہے جس کا رسمی اعلان تو ابھی نہیں ہوا مگر سفارتی حلقے چینی صدر کے سعودی عرب کے دورے سے یہی پیغام لے رہے ہیں، البتہ کوئی نہ سمجھے اور بدستور سب اچھا ہے پرمُصر رہے، 2018ء میں جمال خاشقجی صحافی کے ترکی میں موجود سعودی سفارتخانے میں قتل پر بھی امریکا و سعودیہ تعلقات ناہموار ہوئے بعدازاں 10 ارب ڈالر کا اسلحہ خریدنے کے عوض ٹرمپ نے مملکت کو عالمی چھوت بنانے کے وعدوں پر نظرثانی کرلی لیکن چینی صدر کا حالیہ دورہ حالات کو یکسر بدلنے کے ساتھ سعودیہ کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے، اب شاید دھمکی دے کر کسی کو کام نکلوانے کا موقع نہ ملے۔
چینی صدر کا حالیہ دورہ تجارتی تعلقات سے بڑھ کر ہے، سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے ہونے والی ون ٹو ون ملاقاتوں اور بات چیت کے دوران تعلقات میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر اتفاق ہوا، دونوں حکومتوں کے وفود نے بھی طویل بات چیت کے بعد اعلیٰ حکام کی موجودگی میں 29 بلین ڈالر کے 34 معاہدوں پر دستخط کئے، جن میں گرین ہائیڈروجن، ٹرانسپورٹ، صحت، آئی ٹی، پیٹروکیمیکلز سمیت چینی زبان سکھانے جیسے معاہدے شامل ہیں۔ مہمان صدر نے دورے کے دوران ڈالر کے بجائے چینی کرنسی یوآن میں تیل خریداری کی خواہش کا اظہار کیا جس پر ابھی فیصلہ تو نہیں ہوا مگر یہ بھی کیا کم ہے کہ اِس حوالے سے بات چیت جاری ہے، اگر ایسا ہوجاتا ہے اور اوپیک تنظیم بھی ڈالر کے بجائے تیل کی فروخت یوآن کی منظوری دے دیتی ہے تو ڈالر کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔ کیا ایسا فوری طور پر ہوجائے گا؟ بظاہر بہت مشکل ہے کیونکہ امریکا ایسا کوئی فیصلہ ہونے سے روکنے کے لئے کسی حد تک بھی جاسکتا ہے، چین تجارت کے ساتھ دفاعی معاہدے کرنے میں ہچکچانے کی پالیسی ایک دہائی قبل ترک کرچکا ہے، اب وہ ہر میدان میں پیش قدمی کرنے لگا ہے، پانچ سو ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والا نیوم سٹی ویژن 2030ء کے منصوبے میں بھی سعودی ایما پر وہ معاہدہ کرچکا ہے حالانکہ قبل ازیں اِس منصوبے کی تعمیر و توسیع کا کام صرف امریکا اور مغربی ممالک کے پاس تھا، بلند وبالا عمارات کی تعمیر کے معاہدے کے علاوہ سعودیہ اور چین میں آئی ٹی کے فروغ کا ایک ایسا معاہدہ بھی طے پا چکا ہے جس کی خاص بات یہ ہے کہ سعودی عرب نے جس چینی کمپنی ہواوے سے معاہدہ کیا ہے اُس پر امریکا نے جاسوسی کے الزامات لگا کر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، خیر سعودی اور امریکی تعلقات میں موجودہ تناؤ اور سردمہری حیران کُن نہیں مگر کیا ایسا ہمیشہ رہے گا؟ ماہرین واضح جواب دینے میں ابھی تذبذب کا شکار ہیں کیونکہ ماضی میں ایک سے زائد بار امریکا اور سعودیہ تعلقات غیرہموار ہوئے لیکن جلد ہی دونوں تعاون کی راہ میں آنے والی رکاوٹیں ہٹا کر ایک ہوگئے، اب بھی نئی عالمی صف بندی سے ترقی وخوشحالی کی راہیں کھلیں گی یا ٹکراؤ کا ایک نیا جہان دیکھنے کو ملے گا، اِس بارے فوری طور پر وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے البتہ اِس میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ امریکا پر انحصارکم کرتے ہوئے سعودیہ نے چین کو بھی اپنا ایک قابلِ اعتماد ساتھی بنا لیا ہے، یہ فیصلہ عالمی صف بندی پر کتنا اثرانداز ہوگا؟ درست جواب حاصل کرنے کے لئے انتظار بہتر رہے گا۔

مطلقہ خبریں