Saturday, November 23, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

چین امریکا کا سخت حریف

نصرت مرزا

امریکی صدر جوبائیڈن نے امریکی وزارتِ خارجہ کے دورے پر جو پالیسی تقریر 4 فروری 2021ء کی اس میں انہوں نے چین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکا کا بہت سنجیدہ حریف ہے، جو ہمیں لگتا ہے کہ یہ بیان ذرا سا مثبت ہے، ماضی کی امریکی انتظامیہ نے اُسے دشمن ون قرار دیا تھا۔ جوبائیڈن نے روس کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیا ہے اور چین کو بہت سخت حریف۔ مگر یہ اس بیان سے مختلف ہے جس میں کہا تھا کہ وہ چین کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہیں، جواباً چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان ونگ وین بن نے 5 فروری 2021ء کو کہا کہ امریکا اور چین کے درمیان تعاون کے لئے بہت کچھ ہے۔ یہ بات جو جوبائیڈن کی تقریر میں چھپی ہوئی ہے جو کچھ انہوں نے کہا، مگر پھر بھی چین کے بارے میں اُن کی پالیسی واضح نہیں ہے۔ جوبائیڈن نے اپنی تقریر میں چین کا نام چھ مرتبہ لیا لیکن تعاون کے معاملے میں صرف ایک جملہ ادا کیا اور سارے وقت مقابلہ اور دھمکیوں سے بھری ہوئی تقریر تھی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ایران اور شمالی کوریا کے ایٹمی معاملات پر کوئی بات نہیں کی۔ البتہ یورپ اور مشرق وسطیٰ کے اتحادیوں کی تعریف ضرور کی۔ روس کے خلاف بہت سخت الفاظ ادا کئے۔ جوبائیڈن اپنے تقریر کے دوران بہت تھکے ہوئے نظر آئے۔ اُن کے ریمارکس میں کوئی ٹھوس اقدامات کا ذکر نہیں تھا۔ انہوں نے حساس اور سخت موضوعات کو چھیڑنے سے گریز کیا۔ انہوں نے ماضی کے صدر کی خارجہ پالیسی سے دوری اختیار کرنے کی بات نہیں کی۔ شاید بائیڈن کی ٹیم میں اِس معاملے میں اتفاق رائے نہیں پایا جاتا، اس لئے وہ مخمصہ کا شکار نظر آتے ہیں۔ روس کے خلاف سخت الفاظ اور اُس کو دشمن قرار دینے کے بعد انہوں نے چین کے بارے میں کہا کہ چین کی طرف سے جو چیلنج درپیش ہیں، جو تحفظ، ترقی و خوشحالی اور جمہوری اقدار کے حوالے سے ہیں، اُن کا مقابلہ کریں گے۔ اِن ریمارکس پر چین امریکی اسٹڈیز کے ماہر ژیاؤ ڈلینگ جورینمن یونیورسٹی چین سے تعلق ہے کا کہنا ہے کہ امریکا چین کے بارے میں شک و شبہات یا خطرہ اس سے کہیں زیادہ محسوس کررہا ہے، جس کا وہ اظہار کررہا ہے۔ اس کے برعکس چین کے سب سے اہم ذمہ دار شخص یانگ جے ژی نے کہا کہ چین کا امریکا کی دُنیا میں پوزیشن یا اس کی حیثیت کو چیلنج کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور امریکا چین کی باتوں پر اعتماد نہیں کررہا ہے اور چین کی حیثیت کو تسلیم کرنے سے گریز کررہا ہے۔ جن کون لونگ جو ایسوسی ایٹڈ ڈین آف اسکول آف انٹرنیشنل اسٹیڈز ریمن یونیورسٹی سے تعلق ہے کا کہنا ہے کہ چین اور امریکا نے ایک دوسرے کو بہت اہمیت دے رکھی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ امریکا چین کو ایک طاقت کے طور پر تسلیم نہیں کررہا ہے بلکہ اس کو اپنے مدمقابل کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ اگرچہ چین امریکا کو بارہا یقین دلاتا رہا ہے کہ اس کا امریکا سے مقابلہ کا کوئی ارادہ ہیں۔ مگر امریکا کا یہی رویہ رہا تو پھر چین کو ایک عدم اعتماد اور مشتبہ امریکا کے طور پر امریکا سے تعلق رکھنا ہوں گے۔ جوبائیڈن نے مزید کہا کہ اب چین کے معاشی غلطیوں کا مقابلہ کریں گے یعنی معاشی محاذ پر مقابلہ کریں گے کیونکہ چین معاشی طور سے امریکا سے آگے نکل گیا ہے، ہم اس کے جارحانہ اقدامات کا مقابلہ کریں گے، اس کا شاید بھارت کے لداخ، تبت اور تائیوان کی طرف اشارہ ہو، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر چین کو دبائیں گے، دانشورانہ پراپرٹی حقوق ان ٹیلکچول پراپرٹی رائٹس، عالمی حکمرانی پر بھی چین کو دبایا جائے گا، گاؤلنگ یون جو کہ انسٹیوٹ آف ورلڈ اکنامکس اینڈ پولیٹلکس کے ماہر ہیں نے چین کے گلوبل ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ اکنامک ایب یوز سے جوبائیڈن کا یہ مقصد ریاستی ملکیتی اداروں کی طرف اشارہ ہے جو رعایت دیتے ہیں اور ٹیکنالوجی کو منتقل کرتے ہیں۔ جو اگرچہ اب ماضی کی بات ہوچکی ہے اُس کے ذکر سے جوبائیڈن کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے اور یورپ میں ایک سروے کیا گیا اور سروے کرنے والا ادارہ جیسے فنڈز یورپین اسٹینڈرڈ چارٹرڈکہا جاتا ہے، کا کہنا تھا کہ یورپ کے غیرملکی تجارت کرنے والے لوگ جوبائیڈن اکنامک ایب یوز کا ساتھ نہیں دیتے کیونکہ یہ غلط بات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چینی مارکیٹ تک رسائی بہت آسان ہوگئی ہے اور غیرملکی سرمایہ کار اس بات پر خوش ہیں کیونکہ وہ چین کی مارکیٹوں میں اپنے ملک سے یا چین خود جا کر اور باہر بیٹھ کر چینی مارکیٹ تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ غیرملکی سرمایہ کاروں کی چین میں سرمایہ کاری کرنا اُن کی طویل مدتی پالیسی ہے۔ چاہے امریکا چین کے ساتھ تعلقات کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ 90 فیصد سرمایہ داروں کا کہنا ہے کہ چین کی اہمیت میں روزافزوں اضافہ ہورہا ہے، 61 فیصد کا کہنا ہے کہ اگلے 12 مہینوں میں وہ چین میں زیادہ سرمایہ کاری کرنے جارہے ہیں، جہاں تک عالمی حکمرانی کا معاملہ ہے اس میں جوبائیڈن زیادہ بوکھلاہٹ کا شکار ہیں، کیونکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے بہت سے معاہدات اور پلیٹ فارم سے اپنے آپ کو نکال لیا تھا، جس سے امریکا کی اہمیت اور اثرورسوخ اور حیثیت پر بُرا اثر پڑا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی بے ایمانی اور خودغرضی نے امریکا کی عالمی حاکمیت میں خلاء پیدا کردیا جبکہ چین ایک ذمہ دار عالمی طاقت بن کر ابھرا ہے اور امریکا نے جو جگہ خالی کی ہے اُس کو بھرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ چین نے کووڈ-19 کے المیہ میں ذمہ دارانہ کردار کیا، عالمی ماحولیاتی تبدیلی کے معاملے میں چین عالمی ذمہ داری ادا کرتا رہا جبکہ امریکا اس معاہدہ سے علیحدہ ہوگیا اور 4 لاکھ امریکیوں کو کووڈ-19 کی نذر کردیا۔ اس لئے تمام دُنیا اور خصوصاً تیسری دُنیا کے لوگ امریکا سے یہ ضرور پوچھیں گے کہ جب وہ مصیبت سے دوچار تھے تو امریکا کیا کررہا تھا اور چین مثبت کردار ادا کررہا تھا۔ ایک اور سروے جو عرب بیرو میٹر کہلاتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کے مقابلے میں چین زیادہ مقبول ہے۔ نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ جنوبی امریکا کے لوگوں کی بھی یہی رائے ہے۔ یہ بات وائس آف امریکا نے خود اپنی رپورٹ کی ہے۔ یہ رپورٹ 12 جنوری 2021ء کو جاری ہوئی ہے، اس کے مطابق تیونس، الجزائر، مراکش، لیبیا، لبنان اور اردن میں اس سلسلے میں چین نے امریکا سے زیادہ ووٹ لئے ہیں۔ اگرچہ کئی ممالک امریکا کے خوف سے خاموش ہیں مگر خود اُس کے اتحادی خصوصاً جرمن اور یورپ کے دوسرے ممالک یہ بات برملا کہہ رہے ہیں کہ چین نے اِس دورانیہ میں ایک ذمہ دارانہ عالمی کردار ادا کیا، اس لئے وہ عالمی حاکمیت کے معاملے میں چین کی شمولیت کو خوش آئند قرار دیں گے مگر جوبائیڈن چین کے سربراہ سے ذاتی طور پر بات نہیں کررہے ہیں کیونکہ اس سلسلے میں وہ اپنے اتحادیوں سے صلاح مشورہ کررہے ہیں۔ بالآخر جوبائیڈن کو پتہ چل جائے گا کہ امریکا کے موقف اور اُن کے اتحادیوں کے چین کے متعلق موقف میں بہت واضح فرق ہے۔ جوبائیڈن نے اپنی تقریر میں چین کو پیچھے دھکیلنے کی بات کی ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے اس کا بھی اعتراف کیا ہے کہ وہ چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں، اس طرح وہ ایک ملاجلا ردعمل دے رہے ہیں، ایک طرف دھمکی اور دوسری طرف تعاون کی بات۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا کے نئے صدر جوبائیڈن چین کے خلاف پالیسی پر اپنے وسائل کو زیادہ خرچ کرنا نہیں چاہتے اور انہوں نے خاموشی سے اس بات کو مان لیا ہے یا سمجھ لیا ہے کہ چین کے ساتھ تعاون ہی امریکا کے لئے بہتر ہے۔ چین میں امریکا کے سابق سفیر گرے لوکی نے کہا ہے کہ یہ اچھا ہوگا کہ چین اور امریکا کے درمیان تعلقات اچھے ہوجائیں۔ دُنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ امریکا اور چین مل کر عالمی مسائل کو حل کریں۔ جن کا اس دُنیا کو آج سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ بات امریکی سفیر نے ایک کانفرنس میں جو ایک ادارہ کمیٹی آف 100 کہلاتی ہے میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ماحولیاتی معاملہ شاید سب سے آسان مسئلہ ہے جو چین اور امریکا مل کر حل کرسکتے ہیں۔ سابق امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے رائٹر سے گفتگو کرتے ہوئے 4 فروری 2021ء کو کہا کہ وہ چین کے نمائندہ برائے ماحولیات کے خصوصی نمائندہ سے ملنا پسند کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ 20 سال سے ژی کو جانتے ہیں اور ان کے ساتھ 20 سال سے کام کررہے ہیں۔ اس طرح یہ سمجھا جارہا ہے کہ ایک مثبت اشارہ ہے کہ اس طرح چین اور امریکا کے درمیان گفتگوکاری شروع ہوسکتی ہے، اس طرح امریکا یہ بات کہنا کا موقع مل جائے گا کہ وہ ماحولیات پر گفتگوکاری کررہے ہیں اور باہمی مذاکرات نہیں۔ چینی دانشور ڈیانو کا کہنا ہے کہ امریکا میں موجود قدامت پسند چین کے ساتھ گفتگوکاری میں رکاوٹ ڈالیں گے مگر عالمی مفاد میں یہ ہے کہ امریکا اور چین مل کر کام کریں۔

مطلقہ خبریں