روس نے کبھی بھارت اور امریکا کے بڑھتے تعاون پر تشویش ظاہر نہیں کی چنانچہ روس اور پاکستان کے بڑھتے اور تعاون پر بھارت کو بھی کسی قسم کی شکایت نہیں کرنی چاہئے، روسی صدر ولادیمیرپیوٹن کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف
ایس انجم آصف
جنوبی ایشیا کی سیاسی صورتِ حال میں گزشتہ دنوں بڑی نمایاں اور غیرمعمولی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ جس کے تحت کئی روایتی حلیف حریف اور کئی مخالف دوستوں میں تبدیل ہوگئے۔ پاکستان اور بھارت 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد ہی سے ایک دوسرے کے مخالف کیمپوں میں رہے ہیں۔ بھارت اور روس ہمیشہ سے اسٹرٹیجک پارٹنرز رہے ہیں جبکہ پاکستان امریکا کے نزدیک رہا اور سرد جنگ کے زمانے میں دونوں ممالک کے تعلقات بہت قریبی تھے۔ اسی طرح پاکستان اور چین کی دوستی 1950ء سے تاحال قائم و دائم ہے۔ چین، پاکستان اکنامک کاریڈور منصوبے سے دونوں ممالک کی قربت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
پاکستان، روس اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات دنیا کے لئے باعث حیرت و استعجاب ہیں۔ 2016ء سے اب تک جو اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، اس سے یہ اندازہ کرنا قطعاً مشکل نہیں کہ ان تینوں ممالک پر مشتمل ایک نیا بلاک وجود میں آرہا ہے، جس میں ایران کی شمولیت کا بھی امکان ہے۔ ان تین ممالک کے نزدیک آنے کی کئی اہم وجوہات ہیں۔ سرفہرست بھارت اور امریکا کے تیزی سے برھتے ہوئے تعلقات ہیں۔ اس کی واضح مثال دونوں کے درمیان ملٹری لاجسٹکس ایکسچینج معاہدہ ہے۔ لاجسٹکس ایکسچینج میمورینڈم آف ایگری مینٹ کے تحت امریکا اور بھارت ایک دوسرے کی سرزمین، فضا اور نیول بیسز استعمال کرسکتے ہیں۔ امریکا نے دراصل بھارت کو اپنا اہم ترین دفاعی پارٹنر قرار دے دیا ہے۔ بالفاظ دیگر امریکا نے بھارت کو دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت تسلیم کرلیا ہے۔ بھارت اور امریکا کے درمیان یہ معاہدہ انتہائی اہم نوعیت کا ہے۔ دوسری بڑی وجہ بھارت کی روایتی ذہنیت ہے جس کے تحت وہ پاکستان کو اپنا اولین دشمن قرار دیتا ہے۔ بھارت اپنے اس عناد اور بغض کے تحت سی پیک سے بھی عناد رکھتا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ پاکستان میں چین کی وسیع سرمایہ کاری کو روکے۔ سی پیک کو ناکام بنانے کے لئے وہ ہرممکن جتن بھی کررہا ہے۔ ظاہر ہے بھارت کی ان حرکتوں کو چین بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔ سی پیک پر کوئی بھی بھارتی حملہ اقدام جنگ تصور کیا جائے اور اس پر پاکستان اور چین کا اتفاق ہے۔
امریکا بھی دراصل پاک چائنا اکنامک کوریڈور سے خائف ہے۔ چنانچہ بھارت کو خاموشی سے سپورٹ کررہا ہے۔ امریکا خود چین کو گھیرنے کے کئی منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔ وہ چین کے سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبوں سے بُری طرح خائف ہے اور ان منصوبوں کو اپنے اور اپنے علاقائی حلیفوں کے مفاد کے خلاف تصور کرتا ہے۔ امریکا کے خائف ہونے کی ایک اور اہم وجہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر چین کے یہ منصوبے کامیابی سے ہمکنار ہوگئے تو وہ اقتصادی طور پر امریکا کو نہ صرف پیچھے چھوڑ دے گا بلکہ امریکا کی بطور ایک سپر پاور حیثیت کو چیلنج کردے گا۔ امریکا کے لئے یہ ایک بھیانک خواب کی مانند ہے۔ مزید یہ کہ روس اور چین اقتصادی طور پر ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ چنانچہ روس بھی امریکا کے مقابلے پر چین کو اور خاص کر چین کے اقتصادی مفادات کو ہی سپورٹ کرے گا۔ چین اور روس کی قربت بھی بڑھ رہی ہے جبکہ دونوں کے امریکا سے تعلقات کچھ زیادہ خوشگوار بھی نہیں۔
تیسری بڑی وجہ افغانستان کی پیچیدہ صورتِ حال ہے۔ جہاں امریکا گزشتہ 14 برسوں سے طالبان کے خلاف جنگ کررہا ہے، مگر اسے تاحال فتح نصیب نہیں ہوسکی۔ عملاً امریکا افغان طالبان سے شکست کھا چکا ہے مگر اپنی شکست کو ماننے پر تیار نہیں۔ امریکا افغانستان میں ایک انتہائی کمزور حکومت کو سپورٹ کررہا ہے۔ جس کی رٹ کابل میں چند ہی مقامات تک محدود ہے۔ طالبان افغانستان میں ایک بڑی قوت کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ امریکی فوج کے افغانستان سے جانے کے بعد اس خلا کو داعش اور دیگر گروپ پُر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ روس، چین، ایران اور پاکستان داعش کا ایک بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں جبکہ بھارت افغانستان میں موجود رہ کر اشرف غنی کی کمزور اور بے اختیار حکومت کو متواتر سپورٹ کررہا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ افغانستان میں طالبان کو کچل دیا جائے۔ اس صورتِ حال کو روس، چین، ایران اور پاکستان اپنے اپنے مفادات کے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں، کیونکہ بھارت کا کردار افغانستان میں داعش کے بڑھاوے کا سبب بن سکتا ہے۔ چنانچہ روس، چین، ایران اور پاکستان چاہتے ہیں کہ داعش کو ایک مکمل اور بڑا خطرہ بننے سے قبل ہی کچل دیا جائے۔
یہ محض اقتصادی مفادات ہی نہیں کہ چین، روس اور پاکستان کے درمیان قربتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے بلکہ تینوں مملک کے سیکورٹی مفادات ہیں جو انہیں قریب لائے ہیں۔ تینوں ممالک کے سیکورٹی خدشات یکساں نوعیت کے ہیں۔ روس نے 2016ء میں اپنے خارجہ تعلقات پر نظرثانی کی اور اپنی ترجیحات کا تعین ازسرنو کیا۔ بھارت نے امریکا اور مغرب سے قربت بڑھائی۔ امریکا سے لاجسٹکس ڈیل کی جو روس کے لئے ناپسندیدہ ہے۔ چنانچہ روس نے پاکستان سے اپنے تعلقات کو ایک بار پھر سے بہتر بنانے کی جانب پیش رفت شروع کی۔ روس کے فوجی دستوں نے پاکستان آ کر پاک فوج کے ساتھ مشترکہ مشقوں میں حصہ لیا۔ ان مشقوں کی ٹائمنگ بڑی اہم تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت میں اڑی کے فوجی بیس پر مجاہدین نے حملہ کیا تھا اور بھارت پاکستان پر اس حملے کا الزام لگا کر اس سے بدلہ لینے کے لئے بے چین تھا، لیکن روس نے پاکستان کے موقف کو سپورٹ کیا اور عالمی طور پر بھارت روس کی حمایت حاصل کرنے سے محروم رہا۔
اکتوبر 2017ء میں بی آر آئی سی ایس کانفرنس میں بھارت کو ایک زبردست جھٹکا اس وقت لگا جب روس اور چین نے نہ صرف پاکستان کو سپورٹ کیا۔ بلکہ بھارت کو سختی سے خبردار کیا کہ وہ بی آر آئی سی ایس کے پلیٹ فارم کو پاکستان کے خلاف کسی بھی پراپیگنڈے کے لئے استعمال سے باز رہے۔ بھارت کے لئے یہ سب کچھ غیرمتوقع تھا۔ خاص کر روس سے بھارت کو ایسی توقع ہرگز نہ تھی۔ بھارت نے بی آر آئی سی ایسکانفرنس میں وہی کاٹا جو اس نے روس کے خلاف بویا تھا۔ آج روس اور بھارت کے تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی مفقود ہوچکی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دوریاں بڑھ رہی ہیں۔
آج پاکستان اور روس کے تعلقات میں پہلے سے زیادہ بہتری آ چکی ہے اور ان تعلقات کا مستقبل تابناک ہے۔ روس، چین اور پاکستان کی قربت کی ایک اہم وجہ امریکا سے ان ممالک کے تعلقات بھی ہیں۔ پاکستان کو امریکا نے اپنا نان نیٹو اتحادی بنا رکھا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا کھل کر ساتھ دیا۔ پاک آرمی نے اس جنگ میں ہزاروں فوجیوں کی جانوں کی قربانی دی جبکہ دہشت گردی میں ہزاروں پاکستانی جاں بحق ہوئے۔ اس کے علاوہ پاکستانی معیشت کو 120 ارب ڈالرز سے زائد کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر امریکا پاکستان کی قربانیوں کے اعتراف کے بجائے اس سے ڈومور کا مطالبہ کرتا رہا اور اب بھی کررہا ہے۔ امریکا بھارت کو سویلین نیوکلیئر ٹیکنالوجی بھی فراہم کررہا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکا پاکستان کا دوست ہرگز نہیں۔
بھارت اور امریکا کی تشویش میں اس وقت بہت زیادہ اضافہ ہوگیا جب روسی اور پاکستانی میڈیا نے یہ خبر دی کہ روس کے فیڈرل سیکورٹی سروسز چیف الیگزینڈر بوگڈونوو نے گوادر پورٹ کا دورہ کیا، کیونکہ روس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ سی پیک میں شامل ہوگا جو اس کے مفادات کے لئے بہتر ہے۔ چنانچہ اب روس کے بحری جہاز گوادر پورٹ استعمال کرسکیں گے۔ پاکستان اور روس کے درمیان اہم بین الاقوامی معاملات میں مشاورت کا عمل باقاعدہ طور پر شروع ہوچکا ہے۔ اس ضمن میں دونوں ممالک کے اجلاس اسلام آباد اور ماسکو میں ہوچکے ہیں جبکہ مستقبل میں بھی ایسے کئی اجلاس ہوں گے۔
دراصل سی پیک ایک اہم عنصر ہے جس نے پاکستان اور روس کے تعلقات کو خوشگوار اور دوستانہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سی پیک نے ایک اسٹریٹجک شفٹ کا کردار ادا کیا ہے، کیونکہ سی پیک ان تینوں ممالک کے سیاسی اور اقتصادی اثرورسوخ کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گا جو بھارت اور امریکا کے لئے کسی ڈراؤنے خواب کی طرح ہے۔ پاکستان اور روس کے مابین بڑھتے ہوئے تعلقات اور اس پر بھارتی تشویش کے بارے میں روسی صدر ولادیمیرپیوٹن کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف نے کہا ہے کہ ’’روس نے کبھی بھارت اور امریکا کے بڑھتے تعاون پر تشویش ظاہر نہیں کی۔ چنانچہ روس اور پاکستان کے بڑھتے اور تعاون پر بھارت کو بھی کسی قسم کی شکایت نہیں کرنی چاہئے۔ ابھی تو روس اور پاکستان کے درمیان تعاون ابتدائی سطح پر ہے اور بھارت پریشان ہوگیا ہے۔‘‘27 دسمبر 2017ء کو ماسکو میں پاکستاں، روس اور چین کے درمیان سہ فریقی کانفرنس ہوئی۔ جس میں افغانستان کے پُرامن حل کے بارے میں بات چیت کی گئی۔ اس کانفرنس میں افغان حکومت اور بھارت کو دعوت نہیں دی گئی۔ اس کانفرنس کے اختتام پر روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زاخرووا نے کہا کہ ’’تینوں ممالک نے افغانستان کی صورتِ حال اور خاص طور پر افغانستان میں داعش کی بڑھتی سرگرمیوں کے بارے میں بات چیت اور صلح مشورے کئے۔ تینوں ملکوں نے افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا فیصلہ بھی کیا تاکہ افغانستان کا پُرامن حل ممکن ہوسکے۔‘‘ دراصل افغانستان میں داعش کی بڑھتی موجودگی چین، روس اور پاکستان کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ چنانچہ ضرورت پڑنے پر داعش کے خلاف تینوں ممالک کا مشترکہ فوجی ایکشن بعید از قیاس نہیں۔ مستقبل میں ایسا ہوسکتا ہے۔ ایران بھی داعش کی موجودگی سے تشویش محسوس کرتا ہے۔ داعش کے خلاف مستقبل کے مشترکہ فوجی آپریشن میں ایران بھی حصہ لے سکتا ہے۔