Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

تائیوان چین کی دکھتی رگ

نصرت مرزا

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جو طے شدہ خطوط پر ذہنی مریض ہیں، وہ 6 جنوری کے واقعہ کے بعد بھی اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ ملک کے صدر کے عہدے پر فائز رہیں، اس کے لئے وہ دُنیا اور خصوصاً چین کے ساتھ جنگ کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس کے علاوہ امریکا میں مسلح جدوجہد شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کا ان کے حمائتیوں نے باقاعدہ اعلان بھی کردیا ہے۔ ٹرمپ کو اس بات کا علم ہے کہ امریکی عوام چین کے خلاف جو بھی کارروائی کی جائے گی اس کو امریکی عوام میں پذیرائی ملے گی، اس لئے انہوں نے چین کے ساتھ چھیڑچھاڑ کا سلسلہ شروع کررکھا ہے، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ تائیوان چین کی دکھتی رگ ہے اس لئے وہ اس پر ضرب پر ضرب لگا رہا ہے۔ چین کا اخبار گلوبل ٹائمز جوکہ چین کا سرکاری اخبار ہے، اس میں 11 جنوری 2021ء کو ایک اداریہ لکھا ہے کہ واشنگٹن نے یہ اعلان کیا ہے کہ اقوام متحدہ میں تعینات امریکی خاتون مندوب کیلی کرافٹ رواں ہفتہ میں تائیوان کا دورہ کررہی ہیں۔ اس کے لئے امریکی وزیرخارجہ مائیک پمپیو نے تائیوان سے رابطہ کرنے کی پابندیاں اٹھانے کا اعلان بھی کردیا ہے، جس کے بعد امریکا اور تائیوان نمائندے ایک دوسرے کے ممالک میں جا کر صلاح و مشورہ کرسکیں گے۔ یہ پابندیاں چین سے اچھے تعلقات قائم کرنے کے لئے لگائی گئی تھیں، ان پابندیوں کو ہٹانے کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ ٹرمپ انتظامیہ چین سے دوری کا راستہ اختیار کررہی ہے اور چین کو مشعل کرنا چاہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح ٹرمپ انتظامیہ اپنے دور کے آخری ہفتہ میں چین کے خلاف اشتعال انگیزی کرنے کی کوشش کیوں کررہی ہے؟ اور وزیرخارجہ پمپیو کو اس کے لئے استعمال کررہی ہے اور وہ خوشی سے استعمال ہورہے ہیں اور دنیا کے ساتھ خود امریکا کو خطرہ میں ڈال رہے ہیں، یعنی اس طرح کی اشتعال انگیزی سے امریکا اور چین کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پمپیو میں وقار نام کی کوئی چیز نہیں، وہ ایک غلام ذہن کا بندہ ہے۔ ٹرمپ جیسے مریض شخص کے حکم پر دُنیا کو جنگ کی آگ میں جھونکنے کی کوشش میں حصہ دار بن رہا ہے۔ اب صرف 8 روز باقی رہ گئے ٹرمپ کی حکومت کے جانے میں مگر وہ اس 8 روز میں چین اور امریکا کے تعلقات کو اس قدر بگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں کہ چین مشتعل ہو کر کوئی کام ایسا کرے کہ ٹرمپ ایمرجنسی لگا دے اور اعلانِ جنگ کرکے جوبائیڈن کو حلف لینے سے روک دے۔ وہ اس وقت انٹی چین کارڈ کھیل رہے ہیں۔ اگرچہ دیکھا جائے تو پمپیو کا غلامانہ ذہن ایک ہاری ہوئی جنگ میں پیچھے ہٹتی ہوئی فوج کا کردار ادا کررہے ہیں، وہ عمارت کو تباہ کررہے ہیں اور ایسی بارودی سرنگیں بچھا رہے ہیں کہ اُن کے جانے کے بعد دھماکے ہوتے رہیں اور تباہی پھیلتی رہے۔ بقول گلوبل ٹائمز کے اس صورت میں چین کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اپنے مفاد کو بچانے کے لئے سخت اقدامات اٹھائے اور نقصان کرنے والے امریکی اقدامات سے بچنے کی کوشش کرے۔ چین امریکا کے کسی بھی غلط اقدامات کو برداشت نہیں کرے گا، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ اور پمپیو کی ٹیم جلد اقتدار سے علیحدہ ہوجائے گی اس لئے چین کو بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ جانے والی انتظامیہ کے لگائے ہوئے پھندوں سے بچے تاکہ چین اور امریکا کے درمیان تعلقات کو پروان چڑھنے میں مدد ملے۔ ایسا کرنا چین کے عین مفاد میں ہے لیکن اِس بات کا انحصار اِس بات پر ہے کہ جانے والی انتظامیہ صورتِ حال کو مزید خراب نہ کرے اور وہ قاعدے اور قوانین کے مطابق معاملات چلائے اور تباہ کن اور تعلقات خراب کرنے والی حرکتوں سے باز آئے لیکن وہ ایسا نہیں کررہے ہیں۔ پمپیو اور اس جیسے بہت سے امریکی قابو سے باہر ہورہے ہیں اور امریکی اسٹیبلشمنٹ اس میں صرف تماش بین بنی ہوئی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خود ان کا کوئی ایجنڈا ہے۔ جب ہی تو یہ ڈونالڈ ٹرمپ اور پمپیو جیسے مغرور اور تباہی کو ہوا دینے والے لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہے اور چین اور امریکا کے درمیان تعلقات کو خراب سے خراب تر کررہے ہیں۔ انہوں نے تائیوان کے معاملے کو اس لئے چنا ہے کہ یہ سب سے اچھی جگہ ہے جس سے چین کے ضبط کا دامن چھوٹ سکتا ہے، اس لئے وہ تائیوان پر اپنے اقتدار کا جوا کھیل رہے ہیں۔ گلوبل ٹائمز کا یہ بھی کہا ہے کہ امریکا کو یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ آبنائے تائیوان میں چینی ہتھیار اور اسلحہ بہت تیزی سے پہنچائے جاسکتے ہیں۔ جب گلوبل ٹائمز یہ بات لکھتا ہے کہ اس کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ مائیک پمپیو یہی تو چاہتا ہے کہ چین مشتعل ہو کر حرکت میں آئے اور وہ امریکا پر حکمرانی کا موقع حاصل کرلیں۔ گلوبل ٹائمز کا یہ کہنا ہے کہ تائیوان کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے پُرامن کوشش میں لگا ہوا ہے مگر چین اگر اپنی ملٹری طاقت استعمال کرے تو اپنے ساتھ شامل کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ ہمارے خیال میں یہ درست تو ہے مگر اس سے تو جوبائیڈن بھی ڈونالڈ ٹرمپ کی راہ پر چل پڑیں گے۔ اس لئے اس پر چین کو خوب سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئے۔ گلوبل ٹائمز یہ دھمکی دے رہا ہے کہ چین کو اپنی طاقت کو مجتمع کرلینا چاہئے اور پختہ ارادہ کرکے امریکا کی اشتعال انگیزی کا جواب دینا چاہئے۔ اخبار کا یہ خیال بھی ہے جو کہ خود چین کی حکومت کا خیال مانا جائے گا کیونکہ وہ حکومت کا ترجمان اخبار مانا جاتا ہے کہ پمپیو اور اُس کے حواری چین کی طاقت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے ہیں، اگر چین حرکت میں آیا تو وہ بہت کچھ کرسکتا ہے اور ساری دُنیا جانتی ہے کہ اس طرح امریکا کو یہاں شکست ہوجائے گی، ممکن ہے ایسا ہو مگر یہ جنگ تو یہاں ختم نہیں ہوگی بلکہ بڑھ جائے گی۔ خود چین کے لئے کافی مشکلات پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ پمپیو اور اُن کے حواری امریکی طاقت کو یا اپنی طاقت سے زیادہ اپنے آپ کو طاقت ترین مقام پر فائز کررہے ہیں جس کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی اور چین کی طاقت کو یعنی چین کی طاقت کو گنتی کی شمار میں نہیں لا رہے ہیں، وہ کمپیوٹر پر کھیل کھیلنے کے عادی ہوگئے ہیں اور اپنے آپ کو ناقابل تسخیر سمجھتے ہیں، مگر جنگ پھر جنگ ہوتی ہے اور چین نے اس میدان کافی پیش رفت کی ہے اور اگر روس بھی اس میں شامل ہوجائے تو امریکا کے لئے مشکلات بڑھ جائے گی، اسی لئے چینی سرکاری اخبار یہ لکھ ریا ہے کہ اگر امریکی وزیرخارجہ اور اس کے حواری اس سے آگے بڑھے تو چین کرے گا کہ تائیوان کو سزا دے گا کہ دنیا دیکھے گی۔ چینی تائیوان کے معاملے میں کافی جذباتی ہورہے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ وہ آبنائے تائیوان کے بحران کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ چاہے اس سے کوئی طوفان ہی کیوں نہ اٹھ کھڑا ہو اور تائیوان کے علیحدگی پسندوں کو سبق سکھا دیں گے اور جو پمپیو اور امریکا کے شرمندگی کا باعث ہوگا۔ چاہے اس طرح چین اور امریکا تعلقات میں بڑا بگاڑ ہی کیوں نہ آ جائے۔ اس کا کہنا ہے کہ امریکا اس تبدیلی حکومت کے دورانیہ میں عقلمندی سے کام لے تو یہ امریکا کے مفاد میں بہتر ہوگا۔ ہمارے خیال میں خود چین اگر تحمل کا مظاہرہ کرے اور یہ ہفتہ حکمت عملی سے گزار دے تو چین اور دنیا کے لئے اچھا ہے، البتہ اگر چین کے پاس یا اس کا یہ تجزیہ ہو کہ یہ موقع اچھا ہے تو پھر اپنے منصوبہ پر عمل کر ڈالے۔

مطلقہ خبریں