Thursday, November 21, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بلوچستان کی سماجی اور معاشی ترقی میں افواجِ پاکستان کا کردار

ترقیاتی منصوبے مکمل ہونے کے بعد بلوچستان کے قدرتی وسائل سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا جائے گا، جس سے بلوچ عوام کی زندگی بدل جائے گی

علی جاوید نقوی

افواج پاکستان کا کردار صرف سرحدوں کے دفاع تک محدود نہیں، قوم کو جب بھی کسی مشکل یا قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا پاک فوج نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ زلزلہ ہو یا سیلاب یا دہشت گردی کے خلاف جنگ فوج قوم کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہے۔ قوم بھی اپنی فوج سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔ ملک بھر میں ایک نہیں درجنوں منصوبے ہیں جو فوج کی وجہ سے پایہئ تکمیل تک پہنچے۔ سی پیک پروجیکٹس کو مکمل کرنے میں فوج کا کردار سب کے سامنے ہے۔ آج ہم بات کریں گے بلوچستان کی، جس کی سماجی ومعاشی ترقی میں پاک فوج انتہائی اہم کردار ادا کررہی ہے، جو دوست بلوچستان کے دوردراز علاقوں کا دورہ کرکے آئے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ بلوچستان چند سال میں ہی بدل گیا ہے۔ جہاں کبھی کچی سڑکیں اور پگڈنڈیاں ہوتی تھیں، اب ان پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی شاندار سڑکیں بن چکی ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ اتنے کم عرصہ میں یہ کیا ماجرا ہوگیا ہے۔ گوادر نے بھی شاندار ترقی کی ہے اور یہ سفر تیزی سے جاری ہے۔ ایک نئے اور مضبوط انفرااسٹرکچر کے باعث بلوچستان کے رہنے والوں کو روزگار کے نئے مواقع ملے ہیں اور ان کی زندگیوں میں بھی انقلاب آیا ہے۔ کراچی سے چمن اور کوئٹہ جانے والی شاہراہ این 25 جسے آرسی ڈی بھی کہا جاتا ہے، چند سال قبل اس کی حالت انتہائی خستہ تھی لیکن اب ایک شاندار شاہراہ بن چکی ہے۔ یہ سڑک 813 کلومیٹر طویل ہے۔ ایک دور تھا کراچی سے کوئٹہ بائی روڈ سفر کرنے سے پہلے دس دفعہ سوچنا پڑتا تھا لیکن اب کراچی اور کوئٹہ کے رہنے والوں خاص کر مقامی سیاحوں، تاجروں اور زائرین کا ان شاہراؤں پر سفر کرنا معمول بن گیا ہے۔
غیرملکی میڈیا نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افواج پاکستان بلوچستان کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لئے دن رات کام کررہی ہیں، ترقیاتی منصوبے مکمل ہونے کے بعد بلوچستان کے قدرتی وسائل سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا جائے گا، جس سے بلوچ عوام کی زندگی بدل جائے گی۔ بلوچستان پاکستان کی ترقی میں ایک انجن کا کردار ادا کرے گا۔ سی پیک تیزی سے مکمل ہورہا ہے، توانائی، انفرااسٹرکچر، بندرگاہ کے منصوبے پاکستان میں صنعتی انقلاب کی بنیاد بن رہے ہیں۔
پاکستان میں جہاں بھی وسائل کی کمی ہے، زمینی مشکلات یا سیکیورٹی کے مسائل ہیں، ان علاقوں میں محفوظ ماحول بنانے، سماجی اور معاشی سرگرمیوں کی راہ ہموار کرنے میں فوج کا اہم کردار رہا ہے۔ مسلح افواج نے بلوچستان کی ترقی کے لئے جو متعدد منصوبے شروع کئے ہیں، اُن سے عوام کے لئے خوشحال اور بامعنی زندگی گزارنے کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی بلوچستان کی ترقی و بہبود کے لئے سب سے اہم منصوبوں میں سے ایک ایس بی ڈی پی ہے۔ جس میں 654 ارب روپے لاگت کے 199 پروجیکٹس شامل ہیں۔ اس منصوبے کے تحت گیارہ سو کلومیٹر طویل سڑکوں کے ذریعے مواصلات کو بہتر بنایا جارہا ہے، یوں 19 لاکھ لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہورہے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کرنے اور پینے کا پانی فراہم کرنے کے لئے پانچ لاکھ ملین ایکڑ فٹ پانی کے ذخیرے کا انتظام شامل ہے۔ قدرتی وسائل کا یہ استعمال 5 لاکھ سے زیادہ لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرے گا۔ روشن پاکستان منصوبے کے ذریعے بلوچستان میں 57 فیصد علاقوں تک بجلی کی فراہمی یقینی بنائی گئی، یہ حیرت انگیز کارنامہ ہے، کم آبادی اور چھوٹے شہروں، قصبوں میں طویل فاصلہ ہونے کے باعث یہ ایک بڑا چیلنج تھا۔ ایل پی جی کی فراہمی کو 100 فیصد کیا گیا جو اس سے پہلے 61 فیصد علاقوں میں دستیاب تھی۔ اسی طرح ایک کھرب روپے مالیت کے یو اے ای کے منصوبوں کے لئے فنڈنگ فوجی سفارت کاری کے ذریعے حاصل کی گئی، یہ تمام رقم بلوچستان کی ترقی پر خرچ کی گئی، جس سے پنجگور (تمرِ پنجگور) میں کھجور کے پروسیسنگ پلانٹ مکمل کئے گئے، اس پلانٹ سے سالانہ 1500 ٹن اعلی معیار کی کھجوریں تیار کی جاسکتی ہیں اور مقامی لوگوں کے لئے ایک باعزت روزگار بھی مہیا کیا جا رہا ہے۔ اگر بلوچ عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کا جائزہ لیں تو کوئٹہ میں شیخ محمد بن زاہد النیان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی قائم کیا گیا۔ آواران، ژوب، خضدار اور پنجگور میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتالوں کی سہولیات کو بھی اسی منصوبے کے تحت بہتر کیا گیا۔ فوج کی نگرانی میں بلوچستان میں 160 کروڑ روپے سے زائد کی فنڈنگ کے ذریعے 912 فوری اثرات کے منصوبوں، کیو آئی پی ایس پر عمل درآمد کرتے ہوئے پانی، صحت، تعلیم کی فراہمی پر توجہ دی گی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں بلوچستان کے عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی بھی ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے 8.837 ارب روپے کی لاگت سے 510 نئے صاف پانی کے منصوبے بنائے گئے۔ عوام کی سہولت کے لئے بدین، چمن اور کیچ میں بارڈر مارکیٹیں قائم کی گئیں جن سے تجارتی ومعاشی سرگرمیوں اور مقامی لوگوں کے روزگار میں اضافہ ہوا۔ سچی بات ہے ہم خود میڈیا میں یہ خبریں اور نیوز پیکیج چلاتے رہے ہیں کہ حکومت اور مقامی انتظامیہ گوادر کی ترقی میں مقامی آبادی کو صاف پانی کی فراہمی اور تجارتی مواقع فراہم کرنا بھول گئی ہے۔ فوج نے اس طرف بھی خصوصی توجہ دی، اب گوادر کے غریب عوام کو بھی صاف پانی کی فراہمی یقینی بنا دی گئی ہے۔ گوادر میں ڈی سیلینیشن پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھا گیا جو مقامی آبادی کے لئے یومیہ 44 لاکھ گیلن پانی مہیا کرے گا۔ اکیس ارب روپے کی لاگت سے مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کی گئی۔ فرنٹیئر کور بلوچستان (نارتھ) اور ضلعی انتظامیہ نے تقریباً 2,000 مقامی خاندانوں کی دوبارہ آبادکاری کے عمل میں سہولت فراہم کی جو قبائلی لڑائی جھگڑوں اور بدامنی کی وجہ سے بے گھر ہوگئے تھے، یہ لوگ بلوچستان کے ضلع کوہلو کی تحصیل کاہان میں دوبارہ آباد ہوئے ہیں۔

اب ذرا بات ہوجائے ریکوڈک تنازعے کی، میڈیا میں ایسی خبریں آرہی تھیں کہ ہمیں اربوں ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ یہ خبریں سن اور پڑھ کر پریشانی بڑھ جاتی تھی، ایک طرف پاکستان کو ڈالرز کی ضرورت ہے اور دوسری طرف اربوں ڈالر جرمانہ ادا کرنے کی تلوار سر پر لٹکی ہوئی تھی، یہ کیس ہمارے گلے کی ہڈی بن گیا تھا۔ پاک فوج کے ذمہ داران کو سلام جنہوں نے دن رات محنت کرکے ریکو ڈک تنازعے کو حل کرکے پاکستان کو گیارہ ارب ڈالر کے جرمانے سے بچایا اور معاہدے کو زیادہ بہتر شرائط پر کیا۔ نئی شرائط سے بلوچستان کے لئے 8 ہزار بالواسطہ اور 12 ہزار بلاواسطہ روزگار کے مواقع فراہم ہوں گے۔ ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ اس معاہدے میں بلوچستان کا خاص خیال رکھا گیا ہے، بلوچستان حکومت کو کوئی سرمایہ کاری کئے بغیر 25 فیصد منافع ملے گا اور تقریباً 60 کروڑ ڈالر سالانہ ملیں گے۔ اس رقم سے بلوچستان میں ترقی کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
اب آجائیے تعلیم جیسے اہم شعبے پر، جسے بہتر بنائے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ اگر بلوچستان میں تعلیم کے فروغ میں فوج کے کردار پر نظر ڈالیں تو وہ بھی قابل تحسین ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی مسلح افواج کے زیرسایہ تعلیمی ادارے معیاری اور جدید تعلیم فراہم کررہے ہیں، جن میں 157 اسکول، 9 کیڈٹ کالجز، 2 جدید یونیورسٹیز، 3 ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ اور ڈسٹنس لرننگ پروگراموں کے ذریعے تقریباً سات لاکھ طلباء کو بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلیم کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ پاکستان آرمی فرنٹیئر کور کی زیرنگرانی 113 اسکولز چل رہے ہیں جن میں 40 ہزار طلباء زیرتعلیم ہیں۔ اسی طرح 12 آرمی پبلک اسکولز میں تقریباً 2 ہزار طلباء کو تعلیمی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ صوبے میں 9 کیڈٹ کالج بھی قائم کئے گئے ہیں جو سوئی، پشین، مستونگ، پنجگور، جعفرآباد، کوہلو، تربت، نوشکی اور آواران میں ہیں۔ ان کیڈٹ کالجز میں 2622 سے زائد طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ 2022ء میں تربت میں پہلا گرلز کیڈٹ کالج قائم کیا گیا جو انفرااسٹرکچر اور معیار میں اپنی مثال آپ ہے۔ بلوچستان کے طلباء کو اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے کے لئے کوئٹہ میں نسٹ یونیورسٹی کیمپس اور کوئٹہ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز قائم کئے گئے ہیں۔ بلوچستان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن، گوادر انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور آرمی انسٹیٹیوٹ آف معدنیات بلوچستان کے لوگوں کو ٹیکنیکل ٹریننگ فراہم کررہے ہیں۔ ان تمام اقدامات کے نتائج آئندہ چند سال میں آنا شروع ہوجائیں گے۔ ان تعلیمی اداروں کے باعث بلوچ نوجوانوں کو آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے نئے مواقع بھی ملیں گے۔
مجھے یاد ہے جب میں رپورٹنگ کرتا تھا، بلوچستان کے اُس وقت کے وزیراعلی لاہور آئے، ان سے ملاقات اور سوال وجواب کی نشست ہوئی۔ میں نے کہا کہ آپ بلوچ عوام کو تعلیم،صحت اور بجلی فراہم کرنے کے لئے اقدامات کیوں نہیں کررہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ”ان کی صوبائی حکومت ترجیحی بنیادوں پر یہ سب کچھ کرنے کو تیار ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان میں آبادی بہت پھیلی ہوئی ہے، ان کی حکومت کے لئے ممکن نہیں کہ کوئٹہ اور بڑے شہروں کو نظرانداز کرکے دوردراز علاقوں میں رہنے والوں کے لئے اربوں اور کھربوں روپے خرچ کرے۔ بجلی اور گیس پائپ لائن بچھائے۔ چھوٹے شہروں میں اسپتال بنا بھی دیں تو ڈاکٹر اور عملہ جانے کے لئے تیار نہیں ہوتا“۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے جواب میں بعض دوستوں کو وزن لگے، لیکن عوام کو صحت، تعلیم، روزگار اور جان ومال کا تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس لئے صوبائی یا وفاقی حکومت کو بری الذّمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کا فائدہ شرپسند عناصر اٹھاتے ہیں اور ریاست کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں۔
روزگار اور تعلیم کی طرح صحت کی سہولتوں کی فراہمی بھی بہت ضروری ہے۔ اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بلوچستان میں صحت کے شعبے میں بھی پاک فوج نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ بلوچستان میں پانچ کمبائنڈ ملٹری اسپتال کوئٹہ، لورالائی، خضدار، ژوب اور سبی مقامی لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کررہے ہیں۔ ان اسپتالوں سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد ماہانہ تقریباً دس ہزار افراد ہے جو ان کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 2016ء سے اب تک 650 فری میڈیکل کیمپوں میں 60 ہزار مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح 2018ء سے، ٹیلی میڈیکل سینٹرز بھی کام کررہے ہیں جو ویڈیو لنک کے ذریعے دور دراز علاقوں میں طبی خدمات فراہم کررہے ہیں۔ اب تک تقریباً 25 ہزار مریض اس سہولت سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔
دوستوں ہم جانتے ہیں چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)، پاکستان اور خاص کر بلوچستان کے لئے ایک گیم چینجر منصوبہ ہے، اس سے ہمارے دشمنوں کو سب سے زیادہ تکلیف ہے۔ افواجِ پاکستان کی قیادت پر اعتماد کی وجہ سے چین نے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ بلوچستان میں گزشتہ پانچ سال سے افواجِ پاکستان اور صوبائی انتظامیہ کی مشترکہ کوششوں سے اس راہداری کے 17 پروجیکٹ مکمل ہوچکے ہیں جب کہ 18 منصوبے ابھی زیرتکمیل ہیں۔ افواجِ پاکستان کی مشترکہ کاوشوں کی بدولت 1500 کلومیٹر کی سڑکوں کا جال بچھا کر بلوچستان کے عوام کی بڑی منڈیوں تک رسائی یقینی بنائی گئی۔ اس کے علاوہ ملکی پیداوار میں پانچ ہزار میگاواٹ بجلی کی شمولیت بھی اسی راہداری کے تحت جاری منصوبوں کی تکمیل سے کی جائے گی، جس میں سرفہرست حب میں کوئلے سے چلنے والے 1,320 میگاواٹ پاور پلانٹ کی تکمیل ہے۔ 16 ارب روپے لاگت سے گوادر ڈیپ سی پورٹ کے پہلے مرحلے کی تکمیل اور خصوصی اقتصادی زونز کا قیام بھی افواج پاکستان کی کوششوں سے ممکن ہوا۔ ان تمام منصوبوں کی پُرامن تکمیل کے لئے دو اسپیشل سیکیورٹی ڈیویژنز بنائے گئے ہیں جن کا بنیادی مقصد سی پیک منصوبوں کو سیکیورٹی مہیا کرنا ہے۔ منصوبوں کی یہ وسیع فہرست اس بات کا ثبوت ہے کہ افواجِ پاکستان بلوچستان کے عوام کی بہتری کے لئے ہر شعبے میں مدد فراہم کررہی ہیں۔ آرمی چیف اس عزم کی تجدید کرچکے ہیں کہ بلوچستان کا امن اور خوشحالی پاکستان کی ترقی کی بنیاد ہے۔
ہمارے یہاں بعض لوگ خواہ مخواہ یاخود کونمایاں کرنے اور خبروں میں رہنے کے لئے اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ میڈیا، سول سوسائٹی اور فوج کے درمیان کوآرڈینیشن یا تعاون ہر ملک میں ہوتا ہے۔ یہ بہت ضروری بھی ہے، تمام ادارے ایک پیج پر نہ ہوں تو ترقی ممکن نہیں۔ امریکا کی ہی مثال لے لیں، میں نے وہاں دیکھا امریکی فوجی ہیڈکوارٹر پینٹاگون کی راہداریوں میں اخبارات اور جرائد میں شائع ہونے والی رپورٹس اور ٹائٹلز کو انتہائی فخر اور خوبصورتی کے ساتھ سجایا ہوا ہے، جن میں ان کی فوج کے کارناموں کو سراہا گیا ہے۔ ہالی ووڈ کی فلمیں بھی آپ کے سامنے ہیں، یہاں تک کہ اسٹیج ڈراموں میں بھی امریکی عوام میں اپنی فوج سے محبت کا جذبہ جگانے اور بڑھانے کے لئے خصوصی مناظر شامل کئے جاتے ہیں۔ میں واشنگٹن میں تین سو ڈالر کا ٹکٹ لے کر اسٹیج ڈرامہ دیکھنے گیا تو اس ڈرامے کی مرکزی کہانی بھی امریکی فوج کے بہادری کے قصوں کے گرد گھوم رہی تھی، وہاں موجود امریکی آبدیدہ بھی ہوئے اور خوب تالیاں بھی بجائیں۔ شاید اس کا مقصد امریکی عوام کو یہ بتانا ہے کہ فوج ان کے ملک کے دفاع اور ترقی میں کتنا اہم کردار ادا کررہی ہے۔ امریکی صحافیوں میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ دو بڑے اخبارات ”واشنگٹن پوسٹ“ اور ”نیویارک ٹائمز“ کے دو دروازے ہیں، ایک اخبار کے دفتر میں کھلتا ہے اور دوسرا پینٹاگون میں۔ وال اسٹریٹ جرنل کے بارے میں بھی کچھ ایسا ہی مشہور ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں چند لوگ یہ ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں کہ فوج، عوام اور سول اداروں کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں۔ سوشل میڈیا کو بھی ایک خاص ایجنڈے کے تحت اداروں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ بات کسی اور طرف نہ نکل جائے میں اصل موضوع کی طرف واپس آتا ہوں۔ امریکا، برطانیہ اور دُنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح افواج پاکستان بھی ملک کی تعمیروترقی میں زبردست کردار ادا کررہی ہیں، ہمیں کھلے دل کے ساتھ اس کا اعتراف کرنا چاہئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو فوجی جوان اور افسر اپنی جانوں کی قربانیاں دے ہیں انہیں ہمارا سلام ہے۔ اسی طرح بلوچستان سمیت خیبرپختونخوا اور ملک کے دوسرے حصوں میں تعمیروترقی کے لئے دن رات جو کام ہورہا ہے وہ بھی قابل ستائش ہے۔ کبھی برفانی چوٹیوں اور بل کھاتے دریا کے درمیان گذرتی عظیم شاہراہ قراقرم کے بارے میں سوچیں جس کی تعمیر پر مغربی دنیا کے انجینئرز بھی حیران ہیں۔ اس شاہراہ کی تعمیر میں کتنے جوانوں نے اپنا خون پیش کیا، شاید ہمیں یاد بھی نہیں۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں جو جدید ترین انفرااسٹرکچر بن رہا ہے وہ ایک خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان کی نوید ہے۔

خونِ دل دے کر نکھاریں گے رُخِ برگِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

مطلقہ خبریں