Thursday, May 9, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

کرپشن۔۔ ملکوں کی ترقی میں حائل بڑی رکاوٹ

حکمران جب تک قوانین تیار نہیں کرتے اس وقت تک پاکستان میں گڈگورننس کا خواب پورا نہیں ہوسکتا
انور خان لودھی
گورننس یعنی بہتر طرزحکمرانی سے مراد یہ ہے کہ حکومتی معاملات کا انتظام وانصرام اس طرح کیا جائے کہ اس سے ایک مثالی معاشرہ جنم لے اور اس کیلئے کسی بھی ریاست کو معاشی، سیاسی اور انتظامی سطح پر اس انداز میں چلایا جاتا ہے کہ ادارہ جاتی اصلاحات، چیک اینڈ بیلنس اور اجتماعی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے منصفانہ انداز میں معاشرے کے ہر طبقے کو ملک کے استحکام اور خوشحالی میں اپنے جائز حقوق کا تحفظ قانونی انداز میں کرتے ہوئے اپنا حقیقی کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ گڈگورننس کی اصطلاح بیسویں صدی کی آخری دہائی میں اس وقت منظرعام پر آئی جب عالمی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈبینک نے تیسری دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبنے اور غیرموثر معاشی پالیسیوں کی وجہ سے انہیں ناکام ریاست قراردینا شروع کردیا، چنانچہ اس پر یواین ڈی پی نے ترقی پذیر ممالک کو معاشی وسائل کے بہتر اور مؤثر استعمال پر عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے فراہم کردہ قرضوں اور گرانٹس کو استعمال کرنے کے طریقے بھی سمجھانا شروع کردیئے، اسی لئے آج ہم آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت ان کی شرائط مانتے ہیں، یوایس ایڈ اپنی امداد کے متعلق یہ اشتہار دیتی ہے کہ اگر کہیں حکومتی ادارے اس امداد میں کرپشن کررہے ہیں تو ان کی ویب سائٹ پر اطلاع دی جائے مگر متعدد ممالک میں کرپٹ اشرافیہ نے ادارتی کرپشن کو فروغ دیا۔ سماجی وسیاسی علوم کے ماہرین گڈگورننس کوچند بنیادی اجزا کا مجموعہ قرار دیتے ہیں، ایسی حکومت جو شرکت داری، اتفاق رائے، تحرک، جوابدہی، شفافیت، انصاف اور قانون کی عملداری جیسے خواص پر کاربند ہو، تجزیہ کاروں کی رائے میں اچھی گورننس بدعنوانی کو کم کرتی ہے اور اس میں معاشرے کے کمزور طبقات کی آواز کو فیصلہ سازی کا حصہ بنایا جاتا ہے جبکہ ملک کی موجودہ اور آئندہ ضروریات کو مدنظر رکھ کر اقدامات کئے جاتے ہیں۔ بیسویں صدی کے آخری عشروں میں ترقی بذریعہ اچھی حکمرانی کا بہت چرچا رہا ہے کیونکہ معاشی اور سماجی ترقی کا گڈگورننس کے ساتھ گہرا تعلق ہے، جب تک اچھی پالیسیاں نہیں ہوں گی، ادارہ جاتی ڈھانچہ نہیں ہوگا، رول آف لا نہیں ہوگا، اسٹیٹ، سوسائٹی اور حکومت کے درمیان باہم مربوط ورکنگ ریلیشن شپ نہیں ہوگا تو ظاہر ہے اس کا فرق معیشت پر پڑے گا، اچھی گورننس کا براہ راست تعلق معاشی اور سماجی ترقی کے ساتھ ہے، جب تک یہ طے نہ کرلیا جائے کہ معیشت کیسے چلانی ہے، اس کیلئے جو فیصلے کرنے ہوتے ہیں وہ اہم ہیں، اس بات پر گہرا انحصار ہے کہ حکومت کے سربراہان نے خطرات کا تجزیہ کس طرح کر رکھا ہے، اس کی ٹیم کیسی ہے اور وہ فیصلوں پر کس طرح سے عملدرآمد ہوتا دیکھتے ہیں،گورننس میں ایک اہم مسئلہ طویل مدتی پالیسیوں کا فقدان ہے، اچھی گورننس معاشی اور سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اہداف کے حصول کیلئے اداروں کی استعدادکار بہتر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے، حکومت کو سب سے پہلے تو فائرفائٹنگ کے مرحلے سے باہر نکلنا پڑتا ہے، ایڈہاک بنیادوں پر کئے جانے والے اقدامات گڈگورننس کی تمام تھیوریز کے برعکس جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق حکمرانوں کو ہر پالیسی بیان پر اپنے اہداف بدلنے سے گریز کرنا چاہئے، معیشت بنیادی مسئلہ ہے، اگر حکومت اس کو سنبھالنے میں کامیاب ہوتی ہے تو عوام کا اعتماد حاصل کرسکتی ہے۔ اچھی گورننس کے ذریعے معاشی اور سماجی ترقی کے اہداف کا حصول حکومت کی ترجیح ہونی چاہئے۔ بہت ضروری ہے کہ نظام بہتر ہو، جواب دہی کا عمل بہتر ہو۔ اس عمل میں غیرجانبداری بھی ہونی چاہئے اور گورننس کے سسٹم میں آسانی بھی ہونی چاہئے۔ تجزیہ کاروں اور سماجی علوم کے ماہرین اچھی گورننس کو معاشی شرح نمو کے لیے اہم خیال کرتے ہیں۔ تاہم ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 80 کی دہائی میں افریقی ممالک میں خاص طور پر ترقی بذریعہ گورننس پر توجہ مرکوز رہی۔ معیشت اور گورننس کا چولی دامن کا ساتھ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ ہی گڈ گورننس عوام کی ایک تشنہ خواہش رہی ہے۔پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے، صرف ریکوڈک کے ذخائر سے اربوں ڈالر حاصل کیے جا سکتے ہیں تاہم کئی سالوں گزرنے کے باوجود ہم یہاں سے گولڈ اور کاپر کے ذخائر دریافت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے، اگر کمی ہے تو عزم اور محنت کی ہے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے آج سے 74 سال قبل انسانی حقوق کے عالمی منشور کو منظور کیا تھا،اس اعلامیہ میں بیان کردہ نظریات ہر جگہ اور ہر ایک کے لئے اقتصادی، ثقافتی، سماجی اور سیاسی خوشحالی کے حصول کے لئے ضروری ہیں۔ ہمیں پائیدار ترقی کے ایجنڈا 2030ء کے اہم اصولوں سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے عدم مساوات اور ناانصافی سے پاک معاشرے کے حصول کے لئے یکجہتی کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔ ترقی و خوشحالی کی راہ میں کرپشن ایک بڑی رکاوٹ ہے، معاشرتی اقدار کا زوال کرپشن کی شرح بڑھاتا ہے، کرپشن سے ادارے کمزور، لوگوں کا گورننس سے اعتبار اٹھ جاتا ہے، یہ ایک ایسا ایشو ہے جس پر برسوں سے بحث مباحثے ہورہے ہیں لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ رشوت ستانی اور کرپشن پر قابو پانے کے لئے جو ادارے بنائے گئے ہیں اور جو قوانین تشکیل دیئے گئے ہیں وہ سب بے اثر ثابت ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے قوانین اور ضوابط کو بروئے کار لا کر جو مالی فوائد حاصل کئے جاتے ہیں، انہیں ختم کیا جانا چاہئے۔ حکمران اور افسران جب تک اپنے اختیارات اور مراعات محدود نہیں کرتے اور قوانین تیار نہیں کرتے اس وقت تک پاکستان میں گڈگورننس کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔

مطلقہ خبریں