Thursday, November 21, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بحرالکاہل کی اہمیت

دُنیا اسی کی ہے جس کا سمندروں پر کنٹرول ہے، امریکا کی بحرالکاہل میں دلچسپی انیسویں صدی کے وسط میں ہوئی جب اس نے میکسیکو کو جنگ میں شکست دے کر کیلی فورنیا کا علاقہ اس سے چھین لیا اور اسے امریکا کا حصہ بنا لیا
عدنان عادل
بحرالکاہل دُنیا کا سب سے بڑا سمندر ہے جو امریکا اور چین کے درمیان واقع ہے۔ دونوں بڑے ملکوں کی تجارت کے لئے یہ وسیع و عریض سمندر شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا اور چین کے مابین تناؤ اور کشیدگی کا علاقہ، فلیش پوائنٹ تائیوان اسی سمندر میں واقع ہے۔ یہاں پر ایٹمی ہتھیاروں اور بلاسٹک میزائلوں سے لیس شمالی کوریا بھی ہے جو امریکی بالادستی اور خطہ میں اس کے اتحادی ممالک کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ بحرالکاہل چھ کروڑ ساٹھ لاکھ مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کا طول و عرض زمین پر خشکی کے مجموعی رقبہ سے بھی زیادہ ہے۔ بحرالکاہل کا محل وقوع ایسا ہے جہاں دُنیا کے امیر ترین ممالک واقع ہیں۔ اس کے مشرق میں امریکا اور لاطینی امریکا کے ممالک واقع ہیں اور مغرب میں چین، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور مشرق بعید کے دیگر ممالک جو دُنیا کی بڑی معیشتوں کے حامل ہیں۔ شمال مشرق میں رُوس کی سرحد لگتی ہے۔ اس کے اندر بڑے ملکوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے آباد اور غیرآباد جزائر واقع ہیں۔ ان میں خاص طور سے ہیٹی، فیجی، نیو کیلی ڈونیا، نیو گینیا، نیو آئیر لینڈ، نیو جارجیا ایسے جزائر شامل ہیں۔ برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، پرتگال کے جہازرانوں، تاجروں اور حکمرانوں کو تین سو سال پہلے ہی یہ سمجھ آگئی تھی کہ دنیا پر غلبہ کے لئے بحرالکاہل پر تسلط حاصل کرنا ضروری ہے۔ ہسپانوی بادبانی جہازوں سے لاطینی امریکا سے چاندی یورپ اور ایشیا لے جاتے تھے اور گرم مصالحے، ریشم، سونا اور دیگر چیزیں ایشیا اور یورپ سے امریکا اور لاطینی امریکا پہنچاتے تھے۔ اس وقت ایشیا کے زرعی معاشرے بالخصوص مسلمان سلطنتیں جیسے سلطنت عثمانیہ، مغل سلطنت اپنی خوشحالی میں مگن زندگی گزار رہی تھیں اور باہر کی دُنیا کی طرف متوجہ نہیں تھیں۔ یورپی اقوام سمندری راستوں پر غالب ہوتی گئیں اور بالآخر انہوں نے مسلمان سلطنتوں اور دیگر ایشیائی معاشروں جیسے چین اور جاپان کو اپنا محکوم بنا لیا۔ دُنیا اسی کی ہے جس کا سمندروں پر کنٹرول ہے۔ امریکا کی بحرالکاہل میں دلچسپی انیسویں صدی کے وسط میں ہوئی جب اس نے میکسیکو کو جنگ میں شکست دے کر کیلی فورنیا کا علاقہ اس سے چھین لیا اور اسے امریکا کا حصہ بنا لیا۔ یورپی اقوام نے امریکی براعظم کے مغرب کی جانب ہجرت کرنی شروع کی۔ چین سے بیش بہا تجارت بحرالکاہل سے متصل امریکا کے مغربی ساحلوں سے ہوتی تھی۔ انیسویں صدی کے وسط میں کوئلہ سے چلنے والے بحری جہاز بن گئے تو بحری تجارت اور تیز ہوگئی۔ ان جہازوں کے لئے وسیع و عریض بحرالکاہل میں ایسے زمینی اسٹیشنوں کی ضرورت تھی جہاں اُن میں کوئلہ بھرا جاسکے، کیونکہ بحری جہاز میں جلنے والا کوئلہ بیچ سمندر میں ختم ہوجاتا تھا۔ اسی مقصد کے لئے 1898ء میں امریکا نے ہوائی جزائر پر قبضہ کرکے انہیں اپنی ریاست میں شامل کرلیا۔ ان جزائر کی مشہور خوبصورت بندرگاہ پرل ہاربر بحری جہازوں میں کوئلہ بھرنے کا بڑا اسٹیشن تھی۔ ہوائی جزائر پر قبضہ کے بعد ہی امریکا بحرالکاہل کی بڑی طاقت کے طور پر ابھرا۔ ان جزائر سے ساڑھے پانچ ہزار میل دور جاپان کا زرعی معاشرہ اس وقت اپنی دنیا میں مست تھا۔ باہر کی دنیا سے بے خبر۔ امریکیوں کو بحری جہازوں میں کوئلہ بھرنے اور عارضی قیام کے لئے جاپان کے ساحلوں کی بھی ضرورت تھی۔ امریکیوں نے جاپان سے اس کی بندرگاہوں کو استعمال کرنے کا معاہدہ کیا۔ جاپان انیسویں صدی کے آخر میں بڑی صنعتی طاقت بنا اور اس نے بحری جہاز بنانے شروع کئے۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے ہوائی جزائر میں امریکا کے اہم بحری اڈہ پرل ہاربر پر اچانک فضائی حملہ کرکے اس کی بحریہ کو شدید نقصان پہنچایا۔ امریکا کے لئے یہ ناقابل برداشت تھا۔ وہ بحرالکاہل میں اپنی بالادستی کھونے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اس نے جواب میں جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرائے اور اُسے مغلوب کرلیا۔ آج جاپان فوجی اور سفارتی اعتبار سے امریکا کا بغل بچہ ہے۔ بحرالکاہل میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے امریکا نے جنوبی کوریا میں اپنے فوجی اڈّے بنائے۔ ویت نام میں ہولناک جنگ کی۔ فلپائن اور آسٹریلیا کو اتحادی بنایا۔ انڈونیشیا میں سہارتو کی فوجی بغاوت کروا کر اسے اپنے حلقہئ اثر میں شامل کیا۔ مغربی ساحل سے لے کر آسٹریلیا تک بحرالکاہل میں امریکا کے چھ بحری بیڑے، ایٹمی ہتھیاروں سے چلنے والے درجنوں جنگی بحری جہاز اور آبدوزیں اور ان پر تعینات جدید ترین جنگی ہوائی جہاز تعینات رہتے ہیں۔ پھر بھی امریکا کو چین کے عروج کی وجہ سے اس سمندر میں اپنی بالادستی کھونے کا اتنا خوف ہے کہ اس نے حال میں کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا کے ساتھ ”آکس“ نامی فوجی معاہدہ کیا۔ اس سمجھوتہ کے تحت انکل سام آسٹریلیا کو ایٹمی توانائی سے چلنے والی جدید ترین بحری آبدوزیں دینے اور ان کو تیار کرنے کی ٹیکنالوجی فراہم کرنے جارہا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک سمجھتے ہیں کہ بیجنگ بحرالکاہل میں غیرآباد جزائر کو آباد کرکے ان پر قبضہ کررہا ہے اور وہاں اپنے بحری، فوجی اڈے تعمیر کررہا ہے۔ امریکا اور جاپان نہیں چاہتے کہ چین باقاعدہ طور پر تائیوان کو اپنا حصّہ بنائے۔ وہ تائیوان کو آزاد اور اپنا اتحادی دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ تائیوان جنوب چینی سمندر میں ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں سے ضرورت پڑنے پر چین کی ناکہ بندی کی جاسکتی ہے۔ بیجنگ اعلان کرچکا ہے کہ تائیوان اس کا لازمی جزو ہے اور اس کی علیحدہ آزاد ملک کی حیثیت اس کے لئے قابل قبول نہیں۔ بحرالکاہل کے مغرب میں جڑا ہوا بحرہند ہے۔ یہاں امریکا نے چین کو محدود کرنے کے لئے بھارت کو اپنے اتحاد ”کواڈ“ میں شامل کیا ہے۔ بحرالکاہل میں چین کے گھیراؤ کی امریکی کوششیں بحرہند میں پاکستان کی اہمیت کو اُجاگر کرتی ہیں۔ پاکستان کی بندرگاہیں اور وسط ایشیا اور ایران سے زمینی راستے چین کو متبادل بحری، تجارتی راستہ فراہم کرتی ہیں۔

مطلقہ خبریں