بھارتی وزارت خارجہ نے چین کی جانب سے اروناچل پردیش میں بعض مقامات کے نام تبدیل کرنے کے اقدام پر سخت اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ اروناچل پردیش ہمیشہ ہندوستان کا اٹوٹ انگ رہا ہے اور رہے گا۔ چین کی جانب سے اروناچل پردیش میں ان ناموں میں تبدیلی سے متعلق رپورٹس پر ردعمل دیتے ہوئے بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ چین نے ماضی میں بھی ایسا کیا ہے لیکن اس سے حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اطلاعات کے مطابق چین نے اروناچل پردیش میں 15 مقامات کے لئے چینی، تبتی اور رومن میں نئے ناموں کی فہرست جاری کی ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے زیراثر سمجھے جانے والے انگریزی روزنامے ”گلوبل ٹائمز“ نے اس سے متعلق خبر شائع کی تھی۔ اس خبر کے مطابق چین کی شہری امور کی وزارت نے اعلان کیا کہ اس نے زنگنان (اروناچل پردیش کا چینی نام) کے 15 مقامات کے نام چینی، تبتی اور رومن میں جاری کئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق چینی حکومت نے 15 مقامات کے نام تبدیل کئے ہیں اور ان کی حد بندی بھی کی ہے۔ ان میں سے آٹھ رہائشی مقامات، چار پہاڑ، دو دریا اور ایک پہاڑی درہ شامل ہے۔ ”گلوبل ٹائمز“ نے بیجنگ میں قائم سینو تبت ریسرچ سینٹر کے ایک ماہر لیین ژیانگمن کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ اعلان ان جگہوں کے ناموں کے بارے میں ایک قومی سروے کے بعد کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے کہا کہ ہم نے اسے دیکھا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب چین نے اروناچل پردیش کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کی ہو۔ چین اپریل 2017ء میں بھی ایسے نام رکھنا چاہتا تھا۔ ”اروناچل پردیش“ ہمیشہ سے بھارت کا اٹوٹ انگ رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا، اروناچل پردیش میں ایجاد کردہ ناموں سے حقیقت نہیں بدلتی۔ چین اروناچل پردیش کو جنوبی تبت کہتا ہے۔ چین نے اکتوبر 2021ء میں نائب صدر وینکیا نائیڈو کے دورے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کو ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہئے، جس سے سرحدی تنازع میں توسیع ہو۔ چین کے اس اعتراض پر بھارت نے کہا تھا کہ بھارتی رہنماؤں کے اروناچل پردیش کے دورے پر اعتراض کی کوئی منطق نہیں ہے۔ اس سے قبل چین نے وزیراعظم نریندر مودی اور وزیردفاع راج ناتھ سنگھ کے 2019ء میں اروناچل پردیش کے دورے پر بھی احتجاج کیا تھا۔ چین نے وزیرداخلہ امت شاہ کے 2020ء میں اروناچل پردیش کے دورے پر بھی اعتراض کیا تھا۔ واضح رہے کہ بھارت اور چین کے درمیان تقریباً 3500 کلومیٹر طویل سرحد پر تنازع چل رہا ہے، جسے لائن آف ایکچوئل کنٹرول یا ایل اے سی کہا جاتا ہے۔ تبت اور بھارت کے درمیان سنہ 1912ء تک کوئی واضح سرحد کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی۔ ان علاقوں پر نہ مغلوں اور نہ انگریزوں کا کنٹرول تھا۔ بھارت اور تبت کے لوگوں کو بھی کسی واضح حد بندی کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ انگریز حکمرانوں نے بھی اس کی پرواہ نہ کی مگر جب وہاں کے مقام توانگ سے بدھ مت کا مندر ملا تو باؤنڈری لائن کا تعین شروع ہوا۔ سنہ 1914ء میں تبت، چین اور برطانیہ کے زیرتسلط بھارتی نمائندوں کی شملہ میں ملاقات ہوئی اور سرحد کی نشاندہی کی گئی۔ چین نے تبت کو کبھی بھی آزاد ملک نہیں سمجھا۔ سنہ 1914ء کے شملہ معاہدے میں بھی انہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ سنہ 1950ء میں چین نے تبت کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ چین چاہتا تھا کہ توانگ اس کا حصہ بنے جو تبتی بدھوں کے لئے بہت اہم ہے۔