Saturday, June 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سی پیک پاک چین دوستی کا شاہکار

شکیل فاروقی

ہماری آنکھوں میں وہ منظر آج بھی محفوظ ہے جب چین کے وزیراعظم چو این لائی پنڈت جواہر لعل نہرو کی دعوت پر بھارت یاترا کے لئے تشریف لائے تھے۔ دہلی میں رام لیلا گراؤنڈ جہاں انہیں استقبالیہ دیا گیا تھا، دلہن کی طرح سجا ہوا تھا، جب نہرو اور چو این لائی ایک ساتھ جلسہ گاہ میں آئے تو فضائیں ہندی چینی بھائی بھائی کے نعروں سے گونج اٹھیں۔ اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آنے والے وقتوں میں حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔
پھر اچانک ہوا کا رخ پلٹا اور بھارت نے چین کو انڈرایسٹیمیٹ کرتے ہوئے اس سے لڑائی مول لے لی۔ یہ سودا بھارت کو بڑا مہنگا پڑا کیونکہ اس کے بے شمار فوجی لڑے بغیر برف میں دھنس کر ہلاک ہوگئے جس سے بھارتی فوج کے حوصلے بالکل پست ہوگئے۔ اس صدمے نے وزیراعظم نہرو کو بُری طرح نڈھال کردیا اور وہ اس کی تاب نہ لاکر شدید بیمار پڑ گئے، ایک روایت یہ بھی ہے کہ ان کے دماغ پر فالج کا اثر ہوگیا تھا۔
یہ واقعہ خطے کی سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ  ثابت ہوا۔ اسے پاکستان کے حق میں ایک خیر بلیسنگ ان ڈسگیوز بھی کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی قیادت نے اس وقت اور موقع کو غنیمت جانا اور خوب فائدہ اٹھایا، چین کے ساتھ سرحدی معاملات نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ ہمیشہ کے لئے طے کر لئے گئے اور دائمی دوستی کی مضبوط بنیاد رکھ دی گئی۔
بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ پاک چین تعلقات کا خواب سب سے پہلے پاکستان کے سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی (مرحوم) نے دیکھا تھا، اس کے بعد کے پاکستانی حکمرانوں نے اسے عملی جامہ پہنایا اور شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اسے بامِ عروج تک پہنچایا۔ پاک چین دوستی کو برقرار رکھنے میں دونوں ممالک کے تمام حکمرانوں نے بلاتخصیص بھرپور کردار ادا کیا اور کررہے ہیں۔
سب سے اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کی ہر قیادت اس دوستی کو مضبوط سے مضبوط اور وسیع سے وسیع تر بنانے کے لئے پوری قوت اور زیادہ سے زیادہ دلچسپی اور جذبہ خیرسگالی کے ساتھ کوشاں ہے۔ پاکستان کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے چین کو اقوام عالم میں اس کا جائز مقام دلانے اور بین الاقوامی امور میں اس کی ہر موقع پر حمایت کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے، پاکستان کی حمایت کے حوالے سے یہی بات چین پر بھی صادق آتی ہے، دونوں ممالک کی یہ سچی اور پکی دوستی دنیا بھر میں ایک قابل رشک مثال ہے لیکن بعض ممالک کی آنکھوں میں یہ دوستی کانٹا بن کر کھٹک رہی ہے جن میں دونوں ممالک کا سب سے بڑا حاسد اور دشمن ملک بھارت سرفہرست ہے، جس کے ان دونوں ممالک کے ساتھ شدید تنازعات ہیں۔
بھارت کا بس نہیں چلتا کہ ان دونوں کو کچا چبا جائے۔ بھارت میں جو بھی قیادت برسراقتدار آتی ہے اسے پاکستان اور چین سے خدا واسطے کا بیر ہوتا ہے، بھارت کو موجودہ قیادت اس سلسلے میں امریکا کی چھتری کو استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہے جس میں اسے کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں ہوگی کیونکہ ؂
مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
پاک چین دوستی کے فروغ میں دونوں ملکوں کے قائدین نے قابل تعریف کردار ادا کیا ہے وہیں یہ بات بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ دونوں ممالک کے سفارت کاروں کا بھی اس کام کو انجام دینے میں بہت بڑا ہاتھ ہے، سچ پوچھئے تو آج کا سی پیک انہی مخلصانہ کاوشوں کا سب سے بڑا اور اہم ترین ثمر ہے جو ہمارے دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کر بُری طرح کھٹک رہا ہے۔ جہاں تک پاکستان کی حکومت اور عوام کا تعلق ہے تو انہیں سی پیک کی اہمیت اور افادیت کا پورا احساس اور اندازہ ہے اور انہیں یقین ہے کہ یہ واقعی گیم چینجر ثابت ہوگا اور اس سے پاکستان کی معیشت کا پھانسا پلٹ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کی غالب اکثریت اس کے حق میں ہے۔ تاہم پاکستان کے بعض حلقوں میں اسے موضوعِ بحث بنایا جا رہا ہے اور اس کے بارے میں وقتاً فوقتاً تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے جوکہ کوئی بُری بات نہیں کیونکہ ایک پاکستانی کی آنکھ سے اس کے تمام پہلوؤں کو دیکھنے کا ہر پاکستانی کا جائز اور فطری حق ہے۔
دوسری جانب چینی اسکالرز، ماہرین، دانشور اور اہلکار بھی شامل ہیں اس بارے میں اپنے خیالات، تاثرات اور ردعمل کا اظہار کررہے ہیں جو ایک فطری امر اور ان کا بھی جائز حق ہے۔ اب اگر کوئی اس سے منفی تاثر لینے کی کوشش کرے تو یہ بڑے افسوس اور بدقسمتی کی بات ہوگی۔ چونکہ چین اور اس کے عوام میں پاکستان اور اس کے عوام کے بارے میں بے مثال خیرسگالی کے جذبات پائے جاتے ہیں اس لئے ان کی تشویشات اور مشوروں پر توجہ دینا لازمی اور انتہائی اہم ہے، چین نے 2013ء میں ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کے نام سے جس پہل قدمی کا اعلان کیا تھا اس کے تحت وہ دنیا بھر کے 60 ممالک میں ایک ٹریلین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کے ذریعے 6 مختلف راہداریاں قائم کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک میں چین کے اس اقدام کو پذیرائی کی نظر سے دیکھا گیا ہے مگر چینی دوستوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ پاک چین دوستی کے آزمائے ہوئے سابقہ ریکارڈ کے باوجود پاکستانی میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا میں بعض حلقوں کی جانب سے منفی رویوں کا اظہار کیا جارہا ہے جوکہ ناقابل فہم اور ناقابل ہضم ہے، حالانکہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں اور قطعی ناقابل تردید ہے کہ دونوں ممالک میں قیادت کی تبدیلی کا دونوں ملکوں کے اٹوٹ باہمی تعلقات پر کبھی بھی کوئی منفی اثر نہیں پڑا اور یہ تعلقات کسی بھی تبدیلی سے بالاتر رہے ہیں۔ اس پس منظر کے باوجود سی پیک کے حوالے سے ایسٹ انڈیا کمپنی جیسی مثالوں کا ذکر چھیڑنا بڑی نامناسب اور بے جا سی حرکت معلوم ہوتی ہے۔ جو لوگ اس قسم کی باتیں چھیڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے عوام میں چین کے حوالے سے شکوک و شبہات کے بیج بونے کی کوشش کررہے ہیں، جس کا واحد مقصد دونوں ملکوں کی سچی اور پکی دوستی میں دراڑ ڈالنے کے سوائے اور کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔
پاکستان کے توانائی کے شعبے میں پی پی  کی سرمایہ کاری پالیسی کا ایک حصہ رہا ہے اور یہ کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے۔ پاکستان کو توانائی کے بحران سے نجات دلانے کے لئے کوئی آگے نہیں بڑھا لیکن اب جوں ہی چین نے 35 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے لئے قدم اٹھایا ہے تو بعض حلقوں کے پیٹ میں سی پیک کے حوالے سے اس بارے میں مروڑ اٹھنے شروع ہوگئے ہیں اور اس بارے میں سوالات اٹھائے جارہے ہیں حالانکہ یہ اقدام بھی سابقہ انرجی پالیسی ہی کا جزو ہے۔
اگر پاکستانی وسائل کا یہ استعمال چینیوں کے فائدے کی خاطر ہوتا تو اس طرح کی انگشت نمائی شاید جائز کہی جاسکتی تھی لیکن ان حالات میں جب کہ اس کا فائدہ صرف اور صرف پاکستان کی صنعتوں اور گھریلو صارفین کو ہی ہوگا اس قسم کے ناجائز اعتراضات کا سرے سے کوئی جواز ہی نہیں ہے، اس سرمایہ کاری سے نہ صرف لوڈشیڈنگ کے عذاب سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل ہوگی بلکہ جی ڈی پی میں سالانہ دو فیصد اضافہ بھی ہوگا۔
چین کی کمپنیاں مقررہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں گی جن کے لئے چین کے سرکاری ملکیت والے بینک نرم اور آسان شرائط پر قرضوں کا بندوبست کریں گے۔ بعض صنعتیں چین اور پاکستانی کمپنیوں کی مشترکہ شراکت داری سے قائم کی جائیں گی جن کا مقام گوادر کا آزاد اکنامک زون حاصل ہوگا جس کے ثمرات سے صوبے کے عوام کی زندگی میں انقلاب برپا ہوگا۔
پاکستانی فوج، چینی ماہرین اور کارکنوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے لئے ایک نیا فوجی ڈویژن تشکیل دے رہی ہے جس کے نتیجے میں بلوچستان کی سیکیورٹی کا برسوں پرانا مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہوجائے گا اور پاکستان دشمن غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کی شہ پر شورش برپا کرنے والے کرائے کے ٹٹوؤں پر مشتمل وطن دشمن عناصر کا خاتمہ ہوجائے گا۔ گویا آم کے آم گٹھلیوں کے دام بلاشبہ سی پیک پاک چین دوستی کا عظیم شاہکار ہے۔

مطلقہ خبریں