بھارت کے تمام ایٹمی اثاثے ہمارے ہدف پر ہیں، امر واقع یہ ہے کہ ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی میں بھارت کے اسٹرٹیجک ہتھیاروں کے چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ہے
محترم خالد محمود چیئرمین بورڈ آف گورنرز انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی)، محترم سہیل محمود ڈائریکٹر جنرل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد، محترم ملک قاسم مصطفی ڈائریکٹر آرمز کنٹرول اینڈ ڈس آرمنٹ سینٹر (ACDC) آئی ایس ایس آئی، معزز مقررین، خواتین و حضرات۔
مجھے بہت فخر ہے کہ آئی ایس ایس آئی کے آرمز کنٹرول اینڈ ڈس آرمنٹ سینٹر نے یوم تکبیر کی 25 ویں سالگرہ کے حوالے سے منعقد کردہ سیمینار کے موقع پر پیغام بھیجنے کے لئے کہا گیا۔ یوم تکبیر کے بعد سے لے کر اب تک 25 سال تک پاکستان کے جوہری پروگرام کے ساتھ گہری وابستگی کا شرف حاصل کرنے کے بعد مجھے اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے واقعی بہت خوشی ہوگی۔ پاکستان کے جوہری پروگرام کے تمام پہلوؤں کا جامع احاطہ کرنے کے لئے اور اس کے اثرات جو جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام اور خود پاکستان میں اس کے جو اثرات مرتب ہوئے میں اس کے پیش نظر اس موضوع کاانتخاب کیا گیا ہے۔
پاکستان کے قومی کیلنڈر میں 28 مئی اور 30 مئی 1998ء کے بعد دو عشرے تاریخی اہمیت رکھتے ہیں جو پاکستان کے تحفظ کے لئے قومی طاقت، قومی عزم اور قومی فیصلہ کے ساتھ ساتھ فخر کا مقام کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ یہ جذبات سماجی حلقوں اور سیاسی اسپیکٹرم، پاکستان کے عوام ایٹمی پروگرام کے مالک ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو خطرے کا معمولی سا خطرہ بھی شکوک و شبہات کو جنم دے گا اور عوام کونا قابل قبول ہوگا۔
بھارت کے 11 اور 13 مئی 1998ء کو کئے گئے پانچ ایٹمی تجربات کا جواب اپنے چھ ایٹمی تجربات سے دینا پاکستان کا تاریخی فیصلہ تھا۔ یہ ایک جامع قومی سیاسی، سائنسی اور سفارتی کوششوں کا خاتمہ تھا جو پاکستان کے قومی مفاد کو بیرونی جارحیت سے بچانے کے لئے تھا۔ 1971ء کی جنگ میں ناکامی اور 1974ء میں بھارتی جوہری پروگرام کے آغاز کے بعد خطے میں توازن برقرار رکھنے کے لئے پاکستان کا جوہری پروگرام شروع کرنا ناگزیر تھا۔ اس لئے تمام کریڈٹ پاکستان کی اس وقت کی قومی قیادت کو جاتا ہے جس نے آگے بڑھ کر یا جس نے ملک کی سلامتی کے مفاد میں صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کیا۔ جوہری پروگرام کے علاوہ کوئی بھی فیصلہ ایک اسٹرٹیجک تباہی اور سنگین غفلت شمار ہوتی لیکن پاکستان کی اس وقت ہی قیادت نے جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔
آج جب ہم یوم تکبیر کے 25 سال منا رہے ہیں، ہمیں سب سے پہلے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی اور سائنسی ماہرین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان لوگوں کو سلام پیش کرنا چاہئے جن کے سیاسی دانشمندی اور بصیرت کی بدولت آج ہم 1971ء کے دہرائے جانے کے خوف کے بغیر نسبتاً امن اور استحکام کے ماحول میں جی رہے ہیں۔ پاکستان کے جوہری پروگرام کو دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا دور 1972ء سے مئی 1998ء تک کے 26 سالوں پر محیط ہے جس میں مختلف حکومتوں نے سیاست سے بالاتر ہو کر قومی مفاد میں درست فیصلے کئے۔ اس دوران جوہری کوششوں کو بیرونی نقصان سے بچانے کے لئے بہترین سفارت کاری کی گئی۔
اللہ پاک کی ذات ہمارے ساتھ تھی جس نے تقریباً ایک دہائی تک ایٹمی پروگرام کو پروان چڑھنے دیا جب 1979ء میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا اور بین الاقوامی طاقتوں کی نظر میں پاکستان کا جوہری پروگرام پس منظر میں چلا گیا۔ 26 سالوں کے اس پہلے دور نے پاکستان کو اس قابل بنایا کہ وہ بہت سی سائنسی سطحوں پر تیزی سے آگے بڑھ سکے اور اس وقت صفر سے ایک پوائنٹ تک پہنچ گیا جب ہندوستانی ایٹمی تجربات کے بعد دو ہفتوں کے عرصے میں پاکستان کی سائنسی برادری نے 28 اور 30 مئی 1998ء کو کامیابی کا جشن منا کر اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ اقوام عالم بالخصوص بھارت دنگ ہو کر رہ گیا۔
پاکستان نے آنے والے ہر دور کے لئے اسٹریٹیجی کو مساوی و متوازن رکھا تھا جبکہ بھارت کے نسبتاً روایتی عدم توازن کا فائدہ اور اس کی حکمت عملی اپنے سیاسی مقاصد کی حمایت میں فوجی سازوسامان کو استعمال کرنے کے لئے سمجھوتہ کرتی رہی۔ پاکستان کے پاس دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے والے اسٹرٹیجک سائنسی کمیونٹی کے خاموش سپاہیوں اور ہیروز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جنہوں نے پاکستان کی قومی سلامتی کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ ان ہیروز کی کوششوں کا اعتراف کرنے کے لئے ان میں سے کچھ کے نام لینا انتہائی ضروری ہے، پروفیسر عبدالسلام، ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی، منیر احمد خان، ڈاکٹر اشفاق احمد، پروفیسر ڈاکٹر ریاض الدین، ڈاکٹر ثمر مبارک مند، پرویز بٹ، انور علی، عرفان برنی، ڈاکٹر انصر پرویز، نعیم احمد، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) سے ڈاکٹر غلام نبی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔
ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز (KRL) سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی شاندار ٹیم کے ساتھ بھرپور انداز میں کام کیا، ان کی ٹیم میں ڈاکٹر فخر ہاشمی، ڈاکٹر جاوید مرزا، ڈاکٹر نسیم احمد، کریم احمد، ڈاکٹر اعجاز مختار، ڈاکٹر ولایت حسین اور دیگر بہت سے حضرات شامل تھے اور بلاشبہ یہی پاکستان کے حقیقی ہیروز میں سے ہیں، جن کے ہم بہت شکرگزار ہیں اور اُن کو شاندار خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کو جارحیت محفوظ بنایا۔
پاکستان کے ایٹمی منصوبے کا دوسرا دور مئی 1998ء کے بعد کے ٹیسٹ کے دور سے شروع ہوا اور آج تک شمار کیا جاسکتا ہے۔ ایٹمی منصوبے کے دھاگے پہلے دور کے اختتام سے اٹھائے گئے جب سائنسدانوں نے ایٹمی تجربات کے ذریعے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو ثابت کیا تھا۔ اس دوسرے دور میں کام پاکستان کی جوہری صلاحیت کو مختلف قسم کے جوہری ہتھیاروں پر مبنی ایک مضبوط جامع آپریشنل صلاحیت میں تبدیل کرکے اسے ترقی دینے اور محفوظ بنانے کے مراحل سے گزر کر آگے بڑھایا گیا۔ اُسے انتہائی مضبوط کرنے لگے ہوئے ہیں۔
نتیجے کے طور پر آج پاکستان کی جوہری ڈیٹرنس صلاحیتیں زمینی، فضائی اور سمندری صلاحیتوں پر مبنی ہیں جو کسی بھی جارحیت کو جامع طور پر روکتی ہیں۔ یہ نیشنل کمانڈ اتھارٹی (این سی اے) اور اسٹرٹیجک پلانز ڈویژن (ایس پی ڈی) کے تحت ایک مضبوط کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کی چھتری تلے کام کرتے ہیں۔ اور مکمل اسپیکٹرم ڈیٹرنس کی پالیسی کو روبہ عمل لانے میں مصروف ہیں۔
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہتر طور واضح کرنے کے لئے میں مختصراً پاکستان کی فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس کی پالیسی کے بیانات اور مضمرات پر بات کروں گا اور یہ کہ یہ کس طرح بھارت کے جارحانہ عزائم بشمول بھارتی فوج کے کولڈ اسٹارٹ نظریے کو روکتا ہے اور اس طرح امن کے نفاذ میں براہ راست تعاون کرتا ہے۔ یہ کتنا ہی نازک کیوں نہ نظر آئے مگر یہ سہ فریقی فوج کا کام جنوبی ایشیا میں اسٹرٹیجک استحکام کو برقرار رکھنا ہے۔ پاکستان کی مکمل اسپیکٹرم ڈیٹرنس کی صلاحیت، معتبر کم از کم ڈیٹرنس کے بڑے فلسفے کے اندر رہتے ہوئے افقی طور پر مختلف قسم کے جوہری ہتھیاروں کی ایک مضبوط سہ فریقی فوج پر مشتمل ہے، آپ کہہ سکتے ہیں تو ٹرائیڈ۔ یہ آرمی اسٹرٹیجک فورس کمانڈ (ASFC) کے ساتھ زمین پر، نیول اسٹرٹیجک فورس کمانڈ (NSFC) کے ساتھ سمندر میں اور ایئرفورس اسٹرٹیجک کمانڈ (AFSC) کے ساتھ فضا میں ملک کے دفاع کیلئے مصروف ہے۔ عمودی طور پر اسپیکٹرم 0 میٹر سے 2750 کلومیٹر تک کافی حد تک کوریج کے ساتھ ساتھ جوہری ہتھیاروں کی تباہ کن پیداوار کو تین درجوں پر سمیٹتا ہے۔ اسٹرٹیجک، آپریشنل اور ٹیکٹیکل۔ اس لئے بھارت کے وسیع مشرقی اور جنوبی جغرافیائی جہتوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ خاص طور پر مکمل اسپیکٹرم ڈیٹرنس کا بیان درج ذیل کا مطلب ہے:
یہ کہ پاکستان کے پاس تین قسموں میں جوہری ہتھیاروں کا مکمل اسپیکٹرم موجود ہے: اسٹریٹجک، آپریشنل اور ٹیکٹیکل، جو بڑے بھارتی زمینی پھیلاؤ اور اس کے مضافاتی علاقوں کو اپنے دائرہ اثر میں کرلیتا ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی میں بھارت کے اسٹرٹیجک ہتھیاروں کے چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ہے اور یہ کہ پاکستان کے پاس کلوٹن (کے ٹی) کے لحاظ سے ہتھیاروں کی پیداواری کوریج کا ایک سلسلہ موجود ہے اور بڑے پیمانے پر جوابی کارروائی کی مخالف کی اعلان کردہ پالیسی کو روکنے کے لئے تعداد کو مضبوطی سے محفوظ کیا گیا ہے۔ اس لئے زیادہ نہ بھی کہا جائے تب بھی پاکستان کا جوابی حملہ بہت شدید ہوگا۔ انتقامی کارروائی کرسکتے ہیں۔ یہ کہ پاکستان ایک ”ٹارگٹ سے مالا مال ہندوستان“ میں اہداف کے مکمل اسپیکٹرم میں سے انتخاب کرنے کی آزادی کو برقرار رکھتا ہے، دیسی بھارتی بی ایم ڈی یا روسی S-400 کے باوجود، کاؤنٹر ویلیو، کاؤنٹر فورس اور میدان جنگ کے اہداف کو شامل کرنے کے بعد بھی ہمارا مکمل اسپیکٹرم کارآمد ثابت ہوگا۔
مذکورہ بالا وضاحت سے یہ بات بالکل واضح ہوجائے گی کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے پچھلے 25 سالوں پر مشتمل دوسرے دور کو پاکستان کے اسٹرٹیجک سفر کے بغیر کسی رکاوٹ کے تسلسل کے طور پر دیکھا جانا چاہئے جو 26 سال کے پہلے دور سے شروع ہوا تھا۔ اس لئے تاریخ کے لحاظ سے، دو اچھے وقتوں کے شعبہ جات جوکہ ایک دوسرے کے ممدومعاون ہیں۔ پہلا دور 1972ء سے مئی 1998ء تک، اور دوسرا دور مئی 1998ء سے مئی 2023ء تک۔ اس کے باوجود یہ سفر سائنسی اور تزویراتی کمالات کے حصول میں جاری ہے۔
معیار کی بہتری کے خواہاں تو ہیں لیکن واضح طور پر ایک بے عقل اور کافی غیرضروری جوہری ہتھیاروں کی دوڑ سے کنارہ کشی اختیار کرنا۔ مستقبل میں بھی پاکستان کی مکمل اسپیکٹرم ڈیٹرنس کی صلاحیت اس بات کو یقینی بنانے کے لئے جاری رہے گی کہ جنوبی ایشیا میں امن اور تزویراتی استحکام غالب رہے گا اور عدم استحکام کو متعارف نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اگر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ Mutually Assured Destruction (MAD) کی غیرمنطقی منطق جنوبی ایشیا میں اتنی ہی متعلق رہے گی جس طرح کہ یہ یورپ اور بحر اوقیانوس میں ہے۔
اس سے پہلے کہ میں اپنی بات ختم کروں، میں ترقی کے لئے سول استعمال کے حصول میں پاکستان کی جوہری صلاحیتوں کے استعمال کے پہلوؤں پر مختصراً بات کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ آج کے بعد ڈاکٹر انصر پرویز صاحب کے پاس اپنے مقالہ میں اور بھی بہت کچھ کہنا ہوگا۔ اس سلسلے میں پاکستان کی بڑی کامیابی جوہری توانائی کے شعبے میں رہی ہے جہاں این سی اے کے منظور شدہ نیوکلیئر انرجی ویژن۔2050ء کے تعاقب میں پاکستانی سائنسدانوں اور انجینئرز نے سات نیوکلیئر پاور پلانٹس فراہم کئے ہیں جن میں 120 میگاواٹ کے KANUPP-1، چشمہ-1 شامل ہیں۔ چشمہ-2، چشمہ-3 اور چشمہ-4، 325 میگاواٹ بجلی فراہم کرتے ہیں، اور KANUPP-2 اور KANUPP-3 دونوں الگ الگ 1100 میگاواٹ کی بجلی فراہم کر رہے ہیں۔ اگر حکومتیں زیادہ معاونت کریں اورنیوکلیئر انرجی ویژن۔2050ء۔۔ پر عمل در آمد کریں تو 2050ء تک 42000 میگاواٹ بجلی فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ایک علمی موازنہ کے لئے یہ تقریباً دس کالاباغ ڈیموں کے برابر ہے۔
مزید برآں ایٹمی شعبہ نے تمام صوبوں میں کینسر کے علاج کے 19 اسپتالوں اور جوہری زراعت کے تحقیقی مراکز کو چلانے میں بھی بہت زیادہ تعاون کیا ہے۔ پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن (پی اے ای سی) کے تحت پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز (پی آئی ای اے ایس) کو پہلی شرح کی ڈگری دینے والی یونیورسٹی بھی موجود ہے تاکہ پاکستانی طلباء کو حساس مضامین میں گریجویٹ، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی پروگراموں کے تحت کام کرنے کا موقع ملے، جو بصورت دیگر انہیں بین الاقوامی سطح پر میسر نہ ہوتی ممکن ہے ایسی تعلیم حاصل کو خواہشمند مسترد کردئے جاتے۔
آخر میں خواتین و حضرات، پاکستان کے جوہری منصوبے نے قومی کوششوں کے تمام شعبوں میں خاص طور پر پاکستان کو بیرونی جارحیت سے محفوظ بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان کے اسٹرٹیجک پروگرام سے پیدا ہونے والے ڈیٹرنس اثرات نے پاکستان کو آنے والے وقتوں کے لئے ایک اسٹرٹیجک ڈھال فراہم کی ہے اور اس نے بھارت کے نسبتاً روایتی ہم آہنگی کے فوائد کو تقریباً غیرمتعلق کردیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہم اپنے ان تمام قومی ہیروز کو خراج تحسین پیش کا حق ادا نہیں کرسکتے جنہوں نے ایٹمی پروگرام اور ایٹمی ڈراوے کو ممکن بنایا۔ یوم تکبیر پر پاکستان کو محفوظ بنانے کے لئے عاجزی کو بروئے کار لا کر اللہ تعالیٰ کا ہر وقت شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔
میں اے سی ڈی سی، آئی ایس ایس آئی اور تمام شرکاء کے کامیاب ہونے کی خواہش کرتا ہوں اورمیں آپ سب تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔