Sunday, June 22, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

خودمختار خارجہ پالیسی کیلئے معاشی خودمختاری لازمی ہے

پاکستان کی تزویراتی اہمیت سے عالمی طاقتیں آگاہ ہیں، چین، پاکستان کا ہر حوالے سے اسٹرٹیجک پارٹنر ہے، خارجہ پالیسی میں توازن قائم رکھنا پاکستان کے لئے چیلنج ہے، چین کے مسلسل عروج سے مستفید ہونے کا وقت آگیا ہے، امریکا اور مغرب کو پاکستان کی مشکلات کو سمجھنا ہوگا، بھارت مختلف مغربی اتحاد میں شمولیت کے باوجود چین سے تجارت کررہا ہے، بھارت کی خطے میں بالادستی چین کے ساتھ پاکستان کے لئے بھی ناقابل قبول ہے
لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد احمد قدوائی این آئی, ایچ آئی, ایچ آئی(ایم) کا بی ٹی ٹی این کے سیمینار سے اختتامی خطاب
معزز گورنر بلوچستان جناب ملک عبدالولی کاکڑ صاحب قابل قدر مقررین، بلوچستان تھنک ٹینک نیٹ ورک کے کنسلٹنٹ جناب بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل صاحب، ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلوچستان تھنک ٹینک نیٹ ورک ڈاکٹر ظفر خان، معزز خواتین و حضرات السلام علیکم
میرے لئے یہ نہایت خوشی کا مقام ہے کہ مجھے اِس اہم سیمینار کے اختتام پر اپنی رائے کے اظہار کا موقع فراہم کیا گیا۔ میں اس موقع پر بی ٹی ٹی این کی شاندار کوششوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا جنہوں نے اس قدر اہم اور کامیاب سیمینار کا انعقاد ممکن بنایا اور اس پلیٹ فارم پر ہم سب کو ایک جگہ جمع ہو کر ملک کی بہتری، ترقی، خوشحالی، تحفظ اور اُن سے جڑے مسائل اور اُن کے حل تجویز کرنے کا موقع فراہم کیا۔
پاکستان کے معاشی و معاشرتی اور سیاسی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں جوکہ آج کے اس سیمینار کا اصل موضوع ہے، اُسے نہایت مناسب طریقے سے مزید دو سیشنز اور تین ذیلی موضوعات میں تقسیم کیا گیا۔ تمام چھ موضوعات سے متعلقہ مواد اور فراہم کی گئی معلومات نہایت مفید اور کا رآمد ہیں۔
ذیلی موضوعات میں سے ہر ایک موضوع اہم تھا اور ہمارے آگے بڑھنے کے لئے اس پر بات چیت اور بحث اور مباحثہ کی ضرورت تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ہر موضوع اور ہر سیشن سے نامور مقررین اور شرکاء نے بھرپور انصاف کیا۔ مقررین کی گفتگو اور اس کے بعد ہونے والی بحث فکری طور پر حوصلہ افزا تھی اور فکرانگیز خیالات کا بھی اظہار کیا گیا۔ میں ان معزز مقررین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جن میں سے ہر ایک کو موضوع کے ماہر کے طور پر جانا جاتا ہے اور انہوں نے دیئے گئے موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔
اس سیمینار میں مختلف قسم کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کی گئی جوکہ زیربحث تھے۔ میری رائے میں آج کی کارروائی نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ ذاتی سطح پر بھی ہم میں سے ہر ایک کو انفرادی طور پر متاثر کرتی ہے۔
ہمارے متعلقہ شہری اور دیہی علاقوں میں برادریاں اور سوسائٹیز کے اراکین کے طور پر اور وسیع پیمانے پر تینوں حکومتی، بلدیاتی اداروں، صوبائی اور وفاق کے لئے پیغامات ہیں۔ آج کے سیمینار میں اٹھائے جانے والے تمام مسائل نے ہماری ذاتی بحث و مباحثہ میں خواہ وہ رسمی انداز سے کئے گئے ہوں یا ہمارے ڈرائنگ رومز میں زیر بحث آتے ہوں، ہمارے ذہنوں میں ارتعاش پیدا کردیا ہے۔
مساوات میں عدم توازن، ناانصافی اور حکومت کی ان سطحوں میں سے ہر ایک پر اچھی حکمرانی کی عدم موجودگی ہماری روزمرہ زندگی پر گہرا اثر ڈال رہی ہے۔ اگرچہ ان تمام ناانصافیوں اور مساوات کی عدم فراہمی کے بوجھ کے ساتھ ہی ہم نے زندگی کو جیسے تیسے گزارنا سیکھ لیا ہے، پر یہ ہمارے عوام اور معاشرے پر بڑا بھاری ہے خاص طور پر پسے ہوئے غریب طبقے پر۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے کثیرالجہتی سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کی بنیاد ہے،یہ نہ صرف نظریاتی بحث کے ذریعے بلکہ اس بنیاد پر عملی عمل کے ذریعے خوشگوار اور فوری حل کے لئے آواز اٹھاتے ہیں، اس طریقے سے کہ پاکستانی عوام اپنی زندگیوں میں مثبت تبدیلی کو دیکھ اور محسوس کرسکیں۔ 75 سال گزر چکے ہیں اور ریاست اپنی ہر ایک شہری کو انفرادی طور پر ایسا بہت کچھ ہے جس کی وہ جوابدہ ہے اور اسی طرح ہر شہری بھی بہت ریاست کو جوابدہ ہے۔ یہ ایک دوطرفہ لین دین کا معاہدہ ہے، ایک سماجی معاہدہ جو کہ پاکستان میں ابتری کا شکار ہے۔
بی ٹی ٹی این نے سیمینار کے لئے چھ عنوانات کا انتخاب کیا اور سچ کہوں تو میرے لئے ان میں سے کسی ایک عنوان کا انتخاب کرنا مشکل ہے جو کہ غیراہم قرار دیا جاسکے، ہر موضوع اہمیت کا حامل ہے ہر ایک پر توجہ درکار ہے ہر مسئلہ اپنا حل چاہتا ہے تاکہ پاکستان کو اُس کے شہریوں کے لئے ایک خوشگوار جگہ بنایا جاسکے۔ وقت کی شدید قلت کے باعث آج میں نے دو عنوانات کا انتخاب کیا ہے جن پر میں تبصرہ کرنا چاہوں گا۔
پہلا عنوان تو اُس دیرینہ معاہدے سے جڑا ہے جو ریاست اپنے شہری اور اسی طرح شہری اپنی ریاست کے ساتھ استوار کرتاہے۔ اس تناظر میں میں اس نقطے کو واضح کرنے کے لئے ماضی کی تاریخ کے دو واقعات اور نسبتاً جدید تاریخ کے دو واقعات پر بہت مختصراً روشنی ڈالوں گا۔ چاروں واقعات پاکستان اور اس کی عوام سے مطابقت رکھتے ہیں۔
سب سے پہلے سماجی معاہدے کا نظریہ جس کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا اُسے فرانس کے جین جیکس روسیو نے متعارف کروایا جس نے 1789ء میں کرۂ ارض کے سب سے بڑے واقع فرانسیسی انقلاب کو جنم دیا۔ فرانس کا انقلاب بالآخر پورے یورپ میں جدید جمہوریت کی ماں بن گیا بلکہ شمالی امریکا اور چند تیسری دُنیا کے ممالک کے لئے بھی۔
وہ سماجی معاہدہ جو درحقیقت فرد اور ریاست کے درمیان دوطرفہ ذمہ داریوں کی تکمیل کو متعارف کرواتا ہے۔ منصفانہ اور جمہوری معاشروں کی بنیاد بنا دیتا ہے تاہم جمہوریت میں حقیقت تلاش کرکے ایک طرززندگی کے طور پر اپنانے کی بات کی جاتی ہے لیکن جب اس کے اصول و ضوابط لاگو کرنے کی بات آتی ہے تو پاکستان اور انفرادی شہری کے درمیان سماجی معاہدہ کافی حد تک عدم توازن کا شکار ہے۔
دوسرے نمبر پر فرانسیسی انقلاب سے 12 صدی پہلے 810 اور 632 صدی عیسوی کے دوران ہمارے پیارے نبیؐ نے ہم مسلمانوں کو 22 سال کی قلیل مدت میں ہمارے اپنے مذہب، قرآن اور احادیث پر مشتمل ہمارا اپنا ایک سماجی معاہدے کا تصور دیا جوکہ ایک بہترین طرز زندگی سکھاتا ہے، اسلام تاریخ میں ایک عظیم تر اثرات مرتب کرنے والا ایک جامع انقلاب تھا کسی انقلاب سے زیادہ موثر اور مربوط۔ اس نے براعظموں کی تاریخ اور طرززندگی کو ہمیشہ کے لئے بدل کر رکھ دیا۔

یہ حیرت کی بات تو نہیں ہے کہ ممتاز مغربی اسکالرز نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تاریخ اور طرز زندگی تشکیل دینے والی سب سے بااثر شخصیت قرار دیا ہے۔ لیکن ایک بار پھر جب پاکستان جیسے معاشروں میں اسلام کے اصول و ضوابط کے اطلاق کی بات آتی ہے تو بدقسمتی سے ہم ایک بار پھر عوام کی اُمیدوں پر پورے نہ اتر سکے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ریاست اور شہریوں کے درمیان انفرادی سماجی معاہدہ اس حوالے سے کافی عدم توازن کا شکار ہے۔ تیسرے، انگریزوں کی زیرحکومت انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت میں 1940ء میں ایک ملک کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ پاکستان کی صورت میں 1947ء کو وقوع پذیر ہوا۔ توقع کی گئی تھی کہ یہ خاص و عام کو انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے دو قومی نظریہ کے تحت آزادی ملے گی بلکہ یہ بھی توقع کی گئی کہ یہ خوابوں کی سرزمین بنے گی جہاں پر ہر فرد کو دُنیاوی ضروریات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اپنے مذہبی عقائد پر عمل پیرا ہونے کو بھی آزادی ہوگی۔ آج 75 سال بعد اس سیمینار میں بیٹھ کر ہم اس بات کا فیصلہ کرسکتے ہیں اور ایک رپورٹ کارڈ بنانے کی بھی کوشش کرسکتے ہیں کہ پاکستان کی ریاست اپنے شہریوں کو باہمی دوطرفہ ذمہ داریوں کے لین دین میں کتنی موثر یا کامیاب رہی ہے۔ ایمانداری سے تشکیل دی گئی متوازن رپورٹ کارڈ شاید ریاست اور افراد دونوں کی طرف سے کامیابی اور ناکامی کو ظاہر کر پائے گی۔ چوتھے، پاکستان کے آئین کا اطلاق دیر سے ہوا لیکن 1973ء چاروں صوبوں میں موجود سیاسی سوچ کے تمام حلقوں سے تعلق رکھنے والوں کی رضامندی سے اسے لاگو کیا گیا۔ یہ آئین آج پچاس سال گزر جانے کے باوجود باقی ہے جو کسی طرح ایک معجزے سے کم نہیں، اگرچہ یہ آئین متعدد بار مختلف ترامیم سے گزرا جیسا کہ اکثر اہم دستاویزات گزرا کرتے ہیں۔ ہر پاکستانی آج بھی اپنی اور اپنے خاندان کی مخصوص ضروریات زندگی اور بقا کے حقوق کو آئین یا قانون کی دفعات کے مطابق پورا کرنے کے لئے ریاست کی طرف بڑے تحمل سے آس لگائے بیٹھا ہے۔ مقررین اور شرکاء نے سیشن کے تین ذیلی عنوانات میں چار پہلوؤں کا اچھی طرح احاطہ کیا اور ان کا تجزیہ بھی کیا۔ اس معاملے میں میرا موقف انتہائی سادہ ہے، پاکستان کا 1973ء کا آئین تقریباً ہر دور میں ترامیم سے گزرا ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں کے عوام کی خواہشات کا اظہار ان کے منتخب شدہ نمائندوں کے ذریعے آزادانہ طور پر کرتا ہے۔ یہ وہ فریم ہے جو پاکستان اور اس کے لوگوں کو باضابطہ طور پر ایک قوم کی صورت میں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتا ہے۔ 1973ء کے آئین نے سختیاں اور کھینچاتانی جھیلی ہے۔ یہ ہمارا قیمتی اثاثہ ہے، اسے خوب احتیاط اور محبت سے استعمال کیا جانا چاہئے۔ آپ شاید میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ ناکامی کی وجہ آئینی دستاویز نہیں بلکہ وہ تمام لوگ ہیں جنہیں اِس آئین کو لاگو کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور یہاں ایک بار پھر ہم یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ ریاست اور عام شہری کے درمیان طے شدہ سماجی معاہدہ یہاں بھی عدم توازن کا شکار ہے۔ دوسرا موضوع جس پر میں اظہار خیال کرنا چاہتا ہوں وہ سیشن II کا پانچواں بڑی قوتوں کے Geostrategic تقابلی مطالبات، اطلاق اور انتظامی اختیارات ہیں۔ خواتین و حضرات، پاکستان کی سلامتی کسی خلاء میں معلق نہیں۔ اس کا تعلق مقامی طور پر جنوبی ایشیا کے لئے مخصوص علاقائی سلامتی کی طرز سے ہے۔ اس میں مدافعتی اثر بھی یقیناً دوسرے اثرات کے ساتھ شامل ہے۔ جب ہم علاقے میں سلامتی اور تحفظ کی بات کرتے ہیں خصوصاً جنوبی ایشیا کے اس جوہری ماحول میں پاکستان کے نقطہ نظر سے نقشے کا ایک سادہ سا مطالعہ جغرافیہ کے لئے ایک اسٹرٹیجک محل و قوع یا جغرافیائی یا جیو اسٹرٹیجک مسابقتی تقاضون کو بالکل واضح کرتا ہے، میں دوبارہ کہوں گا کہ جنوبی ایشیا جوکہ انڈیا اور پاکستان کی ریاستوں کے باعث وجود کا حامل ہے، جنوبی ایشیا کی نئی اصطلاح سے نہیں جسے بھارت نے چین کو شامل کرنے کے سیاسی مقصد کے ساتھ وضع کیا ہے۔ یہ جنوبی ایشیا کا خطہ ہے جہاں بھارت اور پاکستان واقع ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، دونوں ممالک کے درمیان منفی تعلقات ہیں۔ یہی نقطہ ہے جس کا پاکستان کا تعلق ہے، جوہری جہت جہاں سے شروع ہوتی ہے یا علاقائی سلامتی کی جوہری کوششیں شروع ہوتی ہیں اور یہیں اختتام پذیر بھی ہوتی ہیں۔مزید براں ہمیں ایک بار پھر جوہری تناظر میں پاکستان مخالف دشمن کے جوہری ہتھیاروں کی سطح زمین اورسمندر میں موجودگی اور تنصیب کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا یا سمندر کے اندر پہلے اور دوسرے ایٹمی حملہ کی صلاحیت کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ سمندر پر جوہری ہتھیاروں کی تنصیب پاکستان کی سلامتی کے لئے براہ راست تشویش کا باعث ہے اور ہمارے خطرے کے تخمینے میں اس کا عنصر زیادہ ہے، یہ منطقی بات ہے کہ جنوبی ایشیا کے زمینی حجم کو ایک خطے کے طور پر جنوب کی جانب پھیلا ہوا سمجھا جائے اور اسے توسیع شدہ جنوبی ایشیا کا خطہ کہا جائے۔ اس میں بحرہند کے کچھ ایسے حصے ہیں بشمول بحرہ عرب بھی جو پاکستان کے تحفظ کے لئے تشویش کا علاقہ ہے، دراصل یہ پاکستان کے مفاد کا علاقہ ہے جس میں موجود خطرے اور اس سے نمٹنے کے لئے ہمارے تصورات بالکل واضح ہیں، جنوبی ایشیا کے بڑے زمینی حصے اور بحرہند کے متعلقہ علاقوں کے حوالے سے ہمارے ردعمل کی وضاحت کرتا ہے، اس سے آگے کی اگر ہم بات کریں تو وہ یہ ہے کہ دانشور اور علمی ماہرین آزادانہ بحث کریں کہ توسیع شدہ جنوبی ایشیا کا ایشیا پیسفک ریجن سے تعلق ہے یا نہیں۔

چونکہ بھارت نے اپنے سلامتی کے مفاد کے لئے کواڈ یا کواڈلیٹرل ڈائیلوگ کے ذریعے دوردراز ایشیا پیسفک خطے تک بڑھانے کا انتخاب کیا ہے اور عام طور پر اپنی سرحدی سلامتی پالیسیوں کو مسابقت، تصادم اور Containment یعنی گھیرنے کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ امریکا اور مغرب نے اس پالیسی کے باعث نہ صرف سیاسی فوائد حاصل کرنا شروع کردیئے ہیں بلکہ فوجی سازوسامان اور جدید ٹیکنالوجی کی ترسیل سے مالی منفعت بھی حاصل کررہے ہیں۔ یہ غیرمعمولی ٹھوس فوائد کے پاکستان کی سلامتی پر براہ راست اثرات پڑتے ہیں۔ اس لئے اسے ہمارے خطرے کی کتاب میں شامل کیا جانا چاہئے۔ 2011ء سے امریکی صدر اوبامہ نے ایشیا کو اپنی پالیسی کا محور بنایا۔ اس کا مقصد چین کے عروج در عروج کو روکنا تھا، ریاست ہائے متحدہ امریکا کی توجہ اس بات پر ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر ڈرائیونگ سیٹ پر برقرار رہے اور ایشیا خاص طور پر توسیع شدہ جنوبی ایشیا کے معاملے میں علاقائی، جغرافیائی سیاسی منظر اس کی منشا کے مطابق ہو۔ اس واضح ہوتے ہوئے عالمی اور علاقائی جغرافیائی سیاسی ماحول میں جنوبی ایشیا اور توسیع شدہ جنوبی ایشیا کہاں ہے۔ پاکستان کے لئے ابھرتے ہوئے چیلنجز یا مسابقتی مطالبات کیا ہیں، خاص طور پر ایک طرف چین کے ساتھ پاکستان کے روایتی اور مضبوط تزویراتی تعلقات ہیں، ساتھ ہی دوسری جانب امریکا کے ساتھ لین دین کی طویل تاریخ کی وجہ سے کیا ایسا متوازن عمل ممکن ہے جو پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ کرے، پاکستان کو اپنے سلامتی کے قومی مفادات کے تناظر میں واضح تزویراتی انتخاب کو کس طرح کرنا چاہئے کے توازن قائم رہے کیونکہ امریکا نے گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ چین کے مقابلے میں بھارت کو ہرممکن طریقے سے کھڑا کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اگرچہ خارجہ پالیسی کا انتخاب کرنا آسان نہیں ہوتا لیکن پاکستان جیسی ریاستیں جو Crush zone میں واقع ہوں مشکل انتخاب کا بوجھ اٹھاتی ہیں جوکہ وجود کے قائم رکھنے کی حد تک آجاتی ہیں۔ اس انتخاب کے لئے ایک وسیع وژن کا استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے کہ پاکستان کے اہم قومی مفادات کہاں ہیں، تاریخ عارضی ہے جبکہ پڑوسی نہیں اس لئے قومی مفادات مستقل ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں کے علاوہ پاکستان تزویراتی تجربات کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہوجانا چاہئے کہ پاکستان کے اہم قومی مفادات چین کے ساتھ تزویراتی تعلقات سے جڑے ہوئے ہیں، وقت کی آزمائش نے پاکستان اور چین کے اسٹرٹیجک تعلقات کو ہماری 75 سالہ تاریخ میں گہرا کیا ہے، ہم چیلنج کرتے ہوئے جیو پولیٹیکل ماحول میں ہر امتحان میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں، انتخاب اگر کبھی کوئی اور تھا تو یہ بھی بالکل واضح ہے کہ پاکستان کوکسی بھی صورت میں چین سے دوستی ختم نہیں کرنا چاہئے اور اسکے اسٹریٹیجک بندھن میں جڑے رہنا چاہئے۔ ہم پہلے بھی ایسا کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ایسا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ چین کے ساتھ اپنے تزویراتی تعلقات وقت کے ساتھ آزمائے ہوئے ہیں۔ ان بنیادی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے افہام و تفہیم کے ساتھ آگے بڑھناچاہئے جنہوں نے ماضی میں پاکستان چین دوستی اور تعلقات کی رہنمائی کی ہے، ایسا کرنے سے پاکستان تاریخ کے صحیح رخ پر رہے گا اور چین کے مسلسل عروج سے مستفید ہوگا، جو سب کے لئے بالکل واضح اور ناگزیر ہے۔ ایک کثیرجہتی فورم شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن بن کر پاکستان نے صحیح کام کیا ہے اور اس طرح چین، روس اور وسطی ایشیائی جمہوریہ کے ساتھ تزویراتی توازن قائم کیا ہے۔ ہمیں BRICS (برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ) کے کثیرالجہتی گروپ کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو بھی سنجیدگی سے لینا چاہئے، جہاں یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاکستان کے پڑوسی ممالک کی ایک بڑی تعداد اس میں خاص دلچسپی لے رہی ہے۔یہ کہنا بھی درست ہے کہ امریکا اور دیگر اہم طاقتوں کے ساتھ کام کرنے والے تعلقات کو برقرار رکھنا بھی ضروری ہے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے پڑوس میں جہاں امریکا اب بھی سپرپاور والا اثرورسوخ رکھتا ہے اور اس کی خواہش رد نہیں کی جاتی۔تاہم حاصل گفتگو یہ ہے کہ پاکستان کو خودمختار خارجہ پالیسی کے لئے اپنی صلاحیتوں کو دوبارہ حاصل کرنا ہوگا اور اس راستے کے انتخاب کو بروئے کار لانے کے لئے اپنی اقتصادی خودمختاری کو یقینی بنانا ہوگا جو بدقسمتی سے اس وقت بہت مشکل میں پڑی ہوئی ہے۔ معاشی خودمختاری کے بغیر خودمختار خارجہ پالیسی کو اپنانا ایک چیلنج رہے گا۔ اگر ہم اپنے پڑوس کے اردگرد نظر دوڑائیں اور یہ دیکھیں کہ کون سے ممالک سودمند خارجہ پالیسی کے انتخاب کو استعمال کررہے ہیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ چاہے وہ ہندوستان ہو جس کے زرمبادلہ کے ذخائر 600 بلین امریکی ڈالر ہیں یا سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ایران اپنی وسیع اقتصادی دولت کے ساتھ یہاں تک کہ ترکیہ نسبتاً مستحکم معیشت کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کو اہم قومی مفادات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا لطف اٹھا رہے ہیں، اقتصادی خودمختاری خودمختار خارجہ پالیسی کی کلید ہے، میں زور دینے کے لئے دہراتا ہوں کہ اقتصادی خودمختاری کلید ہے۔

اپنی گزارشات ختم کرنے سے قبل ایک بار پھر بی ٹی ٹی این ٹیم، بریگیڈیئر آغا احمد گل اور ڈاکٹر ظفر خان کو اس سیمینار کے انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں منعقد کرنے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں نامور مقررین کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ ان کے ماہرانہ خیالات پر شرکاء کا متحرک انداز سے بحث کرنا خوش آئند ہے، خصوصی طور پر گورنر بلوچستان عبدالولی کاکڑ صاحب کی موجودگی ہمارے لئے باعث اعزاز ہے جو اپنی مصروفیات کے باوجود ہمارے ساتھ موجود ہے۔
خواتین و حضرات آپ کا شکریہ۔

مطلقہ خبریں