افغان حکومت کو طویل عرصہ سے سلامتی کونسل کی پابندیوں کے باعث ہتھیاروں کی خریداری اور سفری پابندی کا سامنا ہے
اسلم اعوان
پچھلے ماہ مئی میں سہ فریقی کانفرنس میں شرکت کے لئے چینی اور افغان وزرائے خارجہ، کن چنگ اور مولوی امیر متقی، کی اسلام آباد آمد جنوبی ایشیا میں ان نئے سیاسی تغیرات کی علامت دکھائی دی جو ہماری داخلی سیاسی کشمکش میں شدت کا محرک بھی بن سکتے ہیں۔ افغان طالبان کو طویل عرصہ سے یو این سلامتی کونسل کی پابندیوں کے باعث اثاثوں کے انجماد، ہتھیاروں کی خریداری اور سفری پابندی کا سامنا ہے تاہم افغانستان کے عبوری وزیرخارجہ امیر متقی کو گزشتہ ماہ مئی کے اوائل میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سفری پابندی سے استثنیٰ دے کر پاکستان کا سفر کرنے کی اجازت دی تھی۔ سہ فریقی مذاکرات کے پانچویں مرحلہ میں شرکت کے بعد چین اور افغان وزرائے خارجہ نے بلاول بھٹو زرداری سے دوطرفہ امور پہ بات چیت کی تاہم مولوی امیر متقی کی خاص طور پر یہاں کی مذہبی اور پختون قوم پرست جماعتوں کی لیڈرشپ سے ملاقاتیں کرا کے طالبان کے بارے میں پاکستانی رائے عامہ کا تاثر بھی پہنچایا گیا۔ افغان وزارتِ خارجہ کے ترجمان زیاد احمد توکل نے میڈیا کو بتایا ”افغان حکومت دوطرفہ سیاسی و تجارتی تعلقات، علاقائی استحکام، افغانستان اور پاکستان کے درمیان راہداری معاملات پر جامع مذاکرات کی متمنی ہے“۔چینی وزیرخارجہ کا تو یہ پہلا دورۂ پاکستان تھا لیکن امیر متقی آخری بار نومبر 2021ء میں افغان طالبان کے کابل پر کنٹرول سنبھالنے کے چند ماہ بعد اسلام آباد آئے تھے۔ افغان وزیر کی سہ فریقی کانفرنس میں شرکت اسی وقت ممکن ہوئی، جب اقوام متحدہ نے دوحہ میں افغانستان پر ایک ایسی کانفرنس کی میزبانی کی، جس میں طالبان حکمرانوں کو مدعو نہیں کیا گیا، چنانچہ قطر میں اقوام متحدہ کی دوحہ کانفرنس افغان قیادت کی عدم شمولیت کے باعث بے نتیجہ رہی۔ 2 مئی کو دوحہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے افغانستان میں طالبان کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سمیت خواتین کے حقوق کو دبانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم خواتین کے حقوق پر بے مثال نظامی حملوں پر چپ نہیں رہ سکتے۔ گوتریس نے سوال کیا کہ ہم ہمیشہ اس وقت بات کریں گے جب لاکھوں خواتین کو خاموش اور نظروں سے اوجھل کردیا جائے گا؟ گوتریس نے دوحہ میں نامہ نگاروں کو بتایا ”یہ اجلاس طالبان حکام کو تسلیم کرنے کے لئے نہیں بلکہ مشترکہ بین الاقوامی نقطہ نظر کو فروغ دینے کے بارے میں تھا“۔ بلاشبہ پاکستان اپنے اس پڑوسی سے قریبی تعلقات چاہتا ہے جس سے وہ 2,600 کلومیٹر لمبی مشترکہ سرحد رکھتا ہے، اس لئے متقی کے دورہ کے شمال مغربی خیبرپختونخوا اور جنوب مغربی بلوچستان صوبہ میں پُرتشدد حملوں میں غیرمعمولی اضافہ کے تناظر میں دیکھا گیا۔ پاکستانی حکام کہتے ہیں، حملے افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی والوں نے کئے، جو افغان طالبان کے ساتھ گہری نظریاتی وابستگی رکھتے ہیں لیکن دونوں ممالک کے حکام کے درمیان تلخ جملوں کے تبادلے کے باوجود، پاکستان نے افغان طالبان کو سرکاری طور پر ملک کی قانونی حکومت کے طور پر تسلیم کئے بغیر ان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ہندوستان میں شنگھائی تعاون تنظیم سے خطاب میں، وزیرخارجہ بھٹو زرداری نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا تھا کہ وہ عبوری افغان حکومت کے ساتھ بامعنی مشغولیت اختیار کریں کیونکہ عالمی طاقتوں کے لئے بار بار جنگ کا میدان بننے کے بعد، ہم سب افغانوں کے مقروض ہیں، ہمیں ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے بچنا چاہئے۔ امیر متقی کا دورہ دونوں ممالک کے تعلقات میں خاص طور پر حالیہ کشیدگی کی روشنی میں اہم پیشرفت تصور ہوگا کیونکہ گزشتہ چند مہینوں میں ٹی ٹی پی کے پے در پے حملوں بالخصوص رواں سال جنوری میں پشاور پولیس لائن سانحہ کے بعد، پاکستان نے افغان حکومت پر اعتراضات اٹھائے تو متقی کی طرف سے سخت جواب دیا گیا تھا لیکن امیر متقی کا حالیہ دورہ مثبت پیش رفت اور فریقین کے موقف میں نرمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ بات چیت کا تیسرا فریق چین، افغانستان اور پاکستان میں اہم اقتصادی اور تزویری مفادات رکھنے کے علاوہ بیجنگ پاکستان کا کلیدی اقتصادی اور دفاعی شراکت دار ہے، اس نے سی پیک منصوبے میں 60 بلین ڈالر کی بھاری سرمایہ کاری کر کے مڈل ایسٹ کے تیل تک آسان رسائی کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنایا۔ چین اب افغانستان کے راستے روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے توانائی کے ذخائر اور مشرقی یورپ کی اقتصادی منڈیوں پر تصرف پانے کی تگ و دو سرگرداں ہے، اس وقت چینی کمپنیاں افغانستان میں سرمایہ کاری کررہی ہیں۔