Sunday, June 22, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

دہشت گردی۔۔ علاقائی اور عالمی خطرہ

امریکی اخبار ”واشنگٹن پوسٹ“ میں پینٹاگان کی ایک جائزہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان پھر سے ایسی دہشت گرد تنظیموں کا اڈا بن چکا ہے جو ناصرف افغانستان کی سرحدوں سے باہر جنوبی اور وسطی ایشیا میں اس کے ہمسایہ ممالک بلکہ امریکا اور مغربی یورپ میں امریکا کے اتحادی ممالک کو بھی نشانہ بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں
ڈاکٹر رشید احمد خاں
امریکی اخبار ”واشنگٹن پوسٹ“ میں پینٹاگان کی ایک جائزہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان پھر سے ایسی دہشت گرد تنظیموں کا اڈا بن چکا ہے جو نہ صرف افغانستان کی سرحدوں سے باہر جنوبی اور وسطی ایشیا میں اس کے ہمسایہ ممالک بلکہ امریکا اور مغربی یورپ میں امریکا کے اتحادی ممالک کو بھی نشانہ بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ یاد رہے کہ ستمبر 2001ء میں امریکا میں دہشت گردی کے بڑے واقعہ نائن الیون کے بارے میں بھی امریکا کا دعویٰ ہے کہ اس کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی۔ اگرچہ جوبائیڈن انتظامیہ نے واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والی اس خبر کی تصدیق نہیں کی تاہم امریکی حکومت ایک عرصہ سے الزام عائد کررہی ہے کہ اگست 2021ء سے افغانستان میں اقتدار پر قابض طالبان اپریل 2020ء میں طے پانے والے معاہدے کے مطابق ان دہشت گرد تنظیموں کو دیگر ممالک اور امریکا کے خلاف دہشت گرد کارروائیاں کرنے سے نہیں روک سکے جو گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سال کی مدت میں نہ صرف افغانستان میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے میں کامیاب ہوچکی ہیں بلکہ علاقائی اور عالمی سطح پر امریکا اور اس کے دوست ملکوں کے مفادات کو نشانہ بنانے کے لئے ایک نیٹ ورک قائم کرنے میں بھی کامیاب ہوچکی ہیں۔ اس سلسلے میں داعش کا خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے جس نے افغانستان سے امریکیوں کے نکلنے کے بعد جنوبی اور وسطی ایشیا سے نوجوانوں کو بھرتی کرکے اپنے جنگجوؤں کی تعداد میں تین گنا اضافہ کرلیا۔ (امریکی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے مطابق افغانستان میں اس وقت داعش کے باقاعدہ تربیت یافتہ اور ایکٹو جنگجوؤں کی تعداد 3 ہزار کے لگ بھگ ہے)۔ واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والی اس خبر سے پہلے مارچ میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل مائیکل کوریلا نے سینیٹ کی آرمڈ فورسز کمیٹی کے روبرو ایک بیان میں خبردار کیا تھا کہ افغانستان اور پاکستان میں داعش کے حملوں میں تیزی آ چکی ہے اور وہ اب ان حملوں کا دائرہ افغان سرحدوں سے باہر ایسے ٹارگٹس تک پھیلانا چاہتی ہے جن میں امریکی ہوم لینڈ اور چینی مفادات بھی شامل ہیں۔ امریکا کی طرف سے افغانستان میں موجود ان دہشت گرد تنظیموں سے ممکنہ طور پر لاحق سیکیورٹی خطرات کا اظہار کہاں تک درست ہے؟ اور اگر ان میں کچھ سچائی ہے تو ان خطرات کے افغانستان اور اس کے اردگرد کے علاقوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا اس خطے کو ایک دفعہ پھر دہشت گردی کے خلاف اقدامات کی آڑ میں عدم استحکام کا شکار بنانے کی تیاریاں ہورہی ہیں اور سب سے اہم یہ کہ پاکستان کو نہ صرف اپنی بارڈر سیکیورٹی بلکہ اندرونی سیاسی حالات میں کون سے نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا؟ یہ اہم سوالات ہیں۔
افغانستان میں غیرملکی جنگجو تنظیموں کی موجودگی کا اعتراف خود طالبان نے کابل پر قبضہ کے بعد ایک سرکاری بیان میں کیا تھا۔ اس بیان میں طالبان کی طرف سے یہ بھی اعتراف کیا گیا تھا کہ ان تنظیموں، جنہیں ان کے ملک کالعدم قرار دے چکے ہیں، کے جنگجو افغانستان میں امریکا اور نیٹو کے خلاف جنگ میں طالبان کی صفوں میں شامل ہو کر ان کے شانہ بشانہ حصہ لے چکے ہیں اور طالبان کی طرف سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ افغانستان سے امریکیوں کے نکلنے اور جنگ بند ہونے کے بعد ان جنگجوؤں کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ انہیں ان کے ممالک کی طرف نہیں دھکیل سکتے کیونکہ ان کی تنظیمیں وہاں خلافِ قانون قرار دی جا چکی ہیں، البتہ انہیں اپنے ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لئے افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ طالبان نے دوحہ معاہدے کے تحت امریکیوں سے ایسا کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ یہ وعدہ نبھانے میں ناکام رہے۔ یہ شکایت امریکا ہی نہیں کر رہا بلکہ پاکستان کی طرف سے بھی گلہ کیا جا رہا ہے کہ کابل میں طالبان کی انتظامیہ کالعدم تحریک طالبان کے جنگجوؤں کو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لئے افغان سرزمین استعمال کرنے سے روکنے میں ناکام رہی ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف اس ضمن میں متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے افغانستان میں اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں جہاں سے وہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہیں لیکن سب سے زیادہ تشویش حال ہی میں (13 اپریل) کو ازبکستان کے شہر سمرقند میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک پاکستان، ایران، ازبکستان، تاجکستان، ترکی، لبنان، روس اور چین کی چوتھی وزارتی کمیٹی کے اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں ظاہر کی گئی ہے۔ اس اعلامیہ کے مطابق تمام دہشت گرد گروپ، جن میں داعش، القاعدہ، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ ، ٹی ٹی پی، بی ایل اے، جند اللہ، جیش العدل، جماعت انصاراللہ اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ سے افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتِ حال انتہائی ابتر ہوچکی ہے اور یہ صورتِ حال علاقائی اور عالمی سطح پر سیکیورٹی کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ امریکا نے تو دبے لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ وہ فوجی مداخلت کے بغیر ان دہشت گرد تنظیموں کو جدید ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں سے ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر اس کے باوجود مقامی ممالک کے ساتھ دفاع اور سیکیورٹی کے شعبوں میں تعاون کو خارج از امکان نہیں کیا بلکہ پاکستان کے ساتھ ان شعبوں میں بڑھتے ہوئے تعاون سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں یا ہفتوں میں نہ سہی تو مہینوں میں پاکستان اور امریکا کے درمیان انسداد دہشت گردی کے شعبے میں عملی تعاون میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ اس امکان کے پیشِ نظر پاکستان کو زیادہ احتیاط اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان اس سے قبل دو دہائیوں تک امریکا کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کے تجربے سے گزر چکا ہے اور اس کے نتائج بھی بھگت چکا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس تعاون سے دہشت گردی ختم ہونے کے بجائے اس میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں اور صوبہ خیبرپختونخوا کی موجودہ صورتِ حال اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر پاکستان کی کسی حکومت نے بھی علاقے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خلاف امریکا کے ساتھ پہلے کی طرح اتحاد کیا تو اس سے دہشت گردی ختم ہونے کے بجائے اس میں اضافہ ہی ہوگا کیونکہ چین اور روس کے ساتھ محاذ آرائی کے تناظر میں جنوبی ایشیائی خطوں میں امریکی اقدامات پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی بے بسی کی وجہ سے افغانستان میں ایسے دہشت گرد گروپوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے جن کے نشانے پر صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ افغانستان کی سرحدوں سے باہر ممالک بھی ہیں۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ سمرقند کی میٹنگ میں افغان طالبان انتظامیہ کے قائم مقام وزیرخارجہ امیر خان متقی بھی شریک ہوئے تھے۔ ان کی موجودگی میں یہ مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں بالواسطہ طور پر اعتراف کیا گیا ہے کہ امریکیوں کے خلاف جنگ کے دوران کی صورتِ حال سے فائدہ اٹھا کر جن دہشت گرد تنظیموں نے طالبان کی صفوں میں شریک ہو کر جگہ بنالی تھی، جنگ کے خاتمہ کے بعد انہوں نے افغانستان میں اپنے ٹھکانوں سے ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیاں تیز کردی ہیں۔ اس لئے میٹنگ میں شرکت کرنے والے تمام ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لئے سب، جن میں افغانستان کی طالبان انتظامیہ بھی شامل ہے، تعاون کریں۔ مشترکہ اعلامیہ میں جن اقدامات کی سفارش کی گئی ہے ان پر عمل کرنے سے دہشت گردی کے موجودہ چیلنج سے نمٹا جا سکتا ہے اور یہی بہتر راستہ ہے۔ باہر سے کسی بڑی طاقت کو مداخلت کا موقع فراہم کرنے سے یہ خطہ ایک دفعہ پھر عالمی سطح پر جاری طاقت کے حصول کے لئے رسہ کشی کا میدان بن جائے گا۔

مطلقہ خبریں