Sunday, June 22, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

دریائے سندھ معاہدہ میں ترمیم

کیا صورتِ حال جنگ تک لے جائے گی

نصرت مرزا
بھارت دریائے سندھ کے معاہدہ میں اپنی ضرورت کے مطابق ترمیم کرنے پر تل گیا ہے، وہ اس معاہدہ کی شق 9 کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اِس ترمیم کو روکنے کے لئے پاکستان کو کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہونا پڑے گا، اگرچہ اس وقت وہ حقیقت پسندانہ طریقہ اپنائے گا، وہ عالمی بینک اور عالمی اداروں سے رجوع کرکے بھارت کی سندھ طاس کے معاہدہ میں کسی قسم کی تبدیلی کو روکنے کی کوشش کرے گا۔ بھارت ابھی بھی ایسے منصوبہ جات روبہ عمل لا رہا ہے جو سندھ طاس منصوبہ کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں، وہ اُن تین مغربی دریاؤں پر ڈیم بنا رہا ہے جو دراصل سندھ طاس معاہدہ کے تحت پاکستان کے حصے میں آتے ہیں، اس بھارتی ترمیم کی وجہ پاکستان کی زندگی اور موت کا سوال پیدا ہوگیا ہے اس لئے اِس سے پہلے کہ معاملہ جنگ کی طرف بڑھے پاکستان کے لئے لازم ہے کہ اِس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھائے اور بھارت کو عالمی دباؤ میں لائے، ابھی تو دُنیا بھارت کے خلاف زبان کھولنے کو تیار نہیں ہے، چہ جائیکہ وہ بھارت کو مجبور کرے کہ پاکستان کو پانی سے محروم کرنے کے عمل سے باز آجائے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ دُنیا بھارت کو اُس کی سلامتی کو خطرہ پڑ جانے کے خدشہ پر سمجھائے ورنہ بھارت کسی کی بات سننے کو تیار نہیں ہے اور اپنی من مانی کرنے پر تلا ہوا ہے اور کیونکہ دُنیا کی تمام بڑی طاقتیں جن میں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان، آسٹریلیا، روس اور یہاں تک چین بھی بھارت کے خلاف کوئی کارروائی تو کجا سخت الفاظ میں بیان دینے سے گریز کرتی ہیں۔ چین اور بھارت کے درمیان تجارت بہت بڑے پیمانے پر ہورہی ہے، روس سے وہ تیل خرید کر روس کی معیشت میں حصہ ڈال رہا ہے، امریکا اور یورپ کا تو وہ اسٹرٹیجک اتحادی بنا ہوا ہے۔ امریکا نے چین کے خلاف اس سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، اِس کے ساتھ کئی فوجی معاہدات کرچکا ہے۔ وہ بھارت کو جکڑنے میں لگا ہوا ہے، روس اور چین بھارت پر اپنا اثرورسوخ بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں اور بھارت کو لوٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کوئی تیل بیچ رہا ہے تو کوئی بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتا ہے اور اُسے جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح کررہا ہے اور بھارت کو بحرجنوبی چین میں کئی ممالک سے دوستی کرا رہا ہے، جیسے اس نے حال ہی میں امریکا، انڈیا اور ویت نام کے ساتھ ایک معاہدہ پر دستخط کردیئے ہیں۔ بھارت اپنا برہمواس میزائل کا نظام یا صرف میزائل بحر جنوبی چین، منگولیا اور دیگر ممالک کو بیچ رہا ہے، پاکستان کے مقابلے میں امریکی بھارت کی مارکیٹنگ کررہے ہیں، اُس کے حملہ آور فضائی ”تیجا“ کو فروخت کرانے میں بھارت کی مدد کررہے ہیں اور پاکستان کا لڑاکا طیارہ جے ایف تھنڈر جو ایک جدید ترین لڑاکا جہاز ہے کی فروخت میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں، فرانس اس لئے خوش ہے کہ اس میں وہ کئی معاہدات میں جڑا ہوا ہے، فرانس نے انڈیا سے رافیل طیارے خریدے ہیں اور اُن کی فضائی صلاحیت پر اندھا اعتماد کررہے ہیں۔ انڈیا کی معیشت روزافزوں ترقی کررہی ہے اس لئے انڈیا کے پیر زمین پر ٹک نہیں رہے ہیں، امریکا اس سے دولت بھی اینٹھ رہا ہے اور اُسے چین کے خلاف بطور آلہ استعمال کرنا چاہتا ہے جبکہ انڈیا اِس صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو پہلے علاقائی طاقت اور پھر عالمی طاقت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اور دُنیا کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے اپنی اہمیت بڑھا کر وہ دریائے سندھ طاس منصوبہ میں تبدیلی کی باتیں شروع کررکھی ہیں۔ اس صورتِ حال سے پاکستان پر شدید دباؤ ہے جبکہ پاکستان میں سیاسی کشمکش اس عروج پر پہنچی ہوئی ہے کہ وہ پانی کے خطرے کو بھانپنے یا اس پر سخت ردعمل دینے سے بھی قاصر ہے۔ پاکستان کا اندرونی سیاسی اور معاشی بحران اس قدر بڑھ گیا ہے کہ بحران کی آخری حد کو چھو رہا ہے جو بالآخر پاکستان کے لئے بڑی مشکل کا باعث ہوگا۔ کیا پاکستان کے عوام اپنی زمینوں کو بنجر ہوتے دیکھ سکیں گے یا پاکستان کے عوام اپنی آزادی پر کسی قسم کا سودا کرلیں گے۔ پاکستان نے اپنی فوجی طاقت میں جو اضافہ کیا ہے اور جو بھارت اپنے ایٹمی پروگرام سے جو خوف پیدا کیا ہے اس سے وہ صرف نظر کرلیں گے اور پانی کے بغیر ماہی بے آب کی طرح تڑپتے رہیں گے۔ میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان کے عوام اور اس کے ادارے بہت دیر تک اِس صورتِ حال کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، انہیں ایک دم اپنی بقا کے لئے اٹھ کھڑا ہونا ہوگا اور وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوں گے اور وہ بھی اس محاورے کے مصداق کہ ”مرتا کیا نہ کرتا“۔
اس لئے پاکستان کی حکومت سے ایک متفق شدہ اور مربوط منصوبہ روبہ عمل لانے کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا ہوگی تو انڈس واٹر معاہدہ کے کمیشن کو مضبوط کرکے اُس کے ذریعے دُنیا بھر کو اس خطرے سے آگاہ کرنا ہوگا جو بھارت کے اس عمل سے پیدا ہوگا جو بالآخر جنگ پر جا کر رُکے گا، پھر کسے معلوم کہ یہ جنگ کس قسم کی ہوگی صرف جنگ یا ایٹمی جنگ جس کے بعد کچھ نہیں بچے گا، نہ انڈیا اور نہ ہی پاکستان بلکہ ساری دُنیا اس سے بُری طرح متاثر ہوجائے گی، اس لئے پاکستان کے لئے دُنیا کو اپنی خاطر انڈیا پر دباؤ بڑھانا لازمی ہوگیا ہے، اس سلسلے میں حکومت پاکستان کو غیرمعمولی طور پر متحرک ہونا پڑے گا۔ اقوام متحدہ کو بھی جھنجھوڑنا ہوگا اور عالمی تنازعات کے حل کی عدالت میں بھی پاکستان کو اپنا کیس انتہائی موثر انداز سے پیش کرنا چاہئے۔ عین ممکن ہے کہ بھارت عالمی عدالت کی کارروائی کو اہمیت دے اور اس کی کارروائیوں میں حصہ ہی نہ لے۔ تاہم پاکستان کو ہر وہ ممکن کوشش کر لینی چاہئے جو اہتمام حجت کے زمرے میں آتی ہے، جو ترمیم انڈیا انڈس واٹر ٹریٹی میں کرنا چاہتا ہے، اس کی بھارت کو قطعاً ضرورت نہیں کہ وہ اس معاہدہ کی شق نمبر 9 میں پہلے سے موجود ہے، اصل میں وہ پاکستان کو اشتعال دلانا چاہتا ہے۔ اگرچہ معاملات باہمی مذاکرات سے طے کئے جاسکتے ہیں مگر اس نے خطہ کا چوہدری کا کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے، جو دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید خرابی کی طرف لے جائے گا۔ انڈیا معاہدہ کی خلاف ورزی کررہا ہے مگر اپنا موقف کو دُنیا بھر میں بڑے موثر انداز میں پیش کررہا ہے، اس کے برعکس پاکستان اپنا موقف موثر انداز میں پیش کرنے میں تاحال قاصر ہے، اگرچہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان اپنے موقف کو زیادہ موثر انداز میں پیش کرکے دُنیا بھر کو قائل کرے کہ بھارت ہماری زمینوں کو بنجر اور ہمیں پیاسا مارنا چاہتا ہے جو پاکستان کے لئے ناقابل قبول ہے اور یہ کہ یہ پاکستان کی زندگی اور موت کا معاملہ بن رہا ہے جس پر پاکستان ہر حد کو پار کرنے کو تیار ہوجائے گا۔ اس طرح حالت مجبوری میں اپنی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈالے گا۔
اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان اپنے مفادات کے تحفظ کرنے میں اللہ کی طرف سے دیئے گئے ایٹمی علاج کی صورت میں جو اس کے پاس موجود ہے۔ بقول اسٹرٹیجک پلاننگ ڈویژن کے 15 سالوں تک سربراہ رہنے والے لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد احمد قدوائی (فوجی کمانڈ اتھارٹی کے سربراہ) کے
”عالمی تناظر میں جوہری علاج کے امکانات پر بحث کرتے ہوئے سب کچھ بہت اچھا ہے، میں اپنی گردن بارگاہ الٰہی کے سامنے جھکانا چاہتا ہوں اور اعتماد کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے لئے خواہ اقتصادی لحاظ سے ہو یا سیکیورٹی کے لحاظ سے، جوہری علاج جو ایک خدا کا بھیجا ہوا ہے اور وہ پاکستان کے پاس ہے۔ ان دونوں شعبوں میں پاکستان نے بہت سے خدشات کو دور کرنے کے لئے اچھی طرح سے کام کیا ہے۔ فوجی لحاظ سے پاکستان کی جوہری صلاحیت بلاشبہ ایک حفاظتی علاج اور ایک اثاثہ جات کے طور پر ہے، کیونکہ اس نے پاکستان کے مشرق میں اس کے مخالف روایتی قوتوں کی عدم توازن کے دیرینہ منصوبے کو تسلی بخش طریقے سے حل کیا ہے۔ فل اسپکیٹرم ڈیٹرنس (مکمل خوف اور ڈراوا، قوس و قزح کے رنگوں کی طرح) کی پالیسی کے ذریعے واضح جوہری ہتھیاروں کی مضبوط صلاحیت کی وجہ سے پاکستان اپنے بڑے پڑوسی ملک کی ممکنہ جارحیت سے محفوظ ہے۔ میں نے متعدد مواقع پر یہ بات کہی ہے اور اس بات پر زور دینے کے لئے دہرانا چاہوں گا کہ پاکستان کی جوہری صلاحیت عظیم توازن کے طور پر جنوبی ایشیا میں امن کو قائم رکھنے کا ایک آلہ ثابت ہوئی ہے۔“

مطلقہ خبریں