Sunday, June 22, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاک بھارت امن۔۔

دو اہم مواقع جن سے فائدہ نہ اٹھایا جاسکا
ڈاکٹر رشید احمد خاں
بھارت کا ایک مشہور سفارت کار ستندرکمار لامبا (Satinder Kumar Lambah) کی کتاب ”In Pursuit of Peace” میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گزرے ہوئے تقریباً 24 برسوں کے دوران میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کم از کم دو مواقع ضرور ایسے آئے جب دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کے ایک متفقہ حل پر سمجھوتہ ہوگیا تھا، بس معاہدات پر دستخط ہونا باقی تھے اور اس کی وجہ دونوں ملکوں کی اس وقت کی حکومتوں کو اچانک اور غیرمتوقع حالات کا سامنا تھا۔ ستندر کمار لامبا، جو پاکستان میں بھارت کے سفیر رہ چکے ہیں، پچھلے سال جون میں سورگباشی ہوگئے تھے۔ یہ کتاب ان کی وفات کے بعد شائع کی گئی ہے۔ بھارت کے مشہور صحافی اور اینکر پرسن کرن تھاپر نے اس کتاب کے ریویو میں ان دو اہم واقعات پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ ”ہندوستان ٹائمز“ میں چھپنے والے اس ریویو کے مطابق ان دو مواقع میں سے ایک نواز شریف اور دوسرا پرویز مشرف کے دور میں آتے آتے رہ گیا۔ اس میں درپردہ سفارتی روابط نے اہم کردار ادا کیا تھا، جن کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان مئی 2003ء سے مارچ 2004ء تک 36 ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ اس عمل میں پاکستان کی طرف سے نواز شریف اور پرویز مشرف جبکہ بھارت کی طرف سے اٹل بہاری واجپائی اور ڈاکٹر من موہن سنگھ اہم کردار ادا کررہے تھے۔
کرن تھاپر کا اشارہ 1999ء میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورۂ لاہور کے دوران میں وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ایک فریم ورک پر اتفاق تھا۔ اس کا ذکر وزیراعظم شہباز شریف نے اس سال 5 فروری کو مظفر آباد میں آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کے دوران کیا تھا۔ اس کی تفصیلات مشہور بھارتی صحافی کلدیپ نائر نے بھی اپنے ایک کالم میں بیان کی تھیں۔ کلدیپ نائر ”دوستی بس“ کے ذریعے پاکستان آنے والے بھارتی وزیراعظم واجپائی کے وفد کے رکن تھے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے مطابق بھارتی وزیراعظم واجپائی نے لاہور میں مینار پاکستان کے وزٹ کے دوران اعلان کیا تھا کہ اگرچہ ”تقسیم (ہند) ہمارے لئے ایک بہت بڑا گھاؤ تھا، مگر اسے بھول کر آج سے ہم پاکستان کو ایک حقیقت تسلیم کر کے اس کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کررہے ہیں“۔ پاکستان کے ایک سیکریٹری خارجہ اور کشمیر پر بھارت کے ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی میں مرکزی کردار ادا کرنے والے پاکستانی سفارت کار نیاز اے نائیک کے مطابق وزیراعظم واجپائی کے دورہ (فروری 1999ء) کے دوران میں دونوں ملکوں کے درمیان مسئلہ کشمیر کو حل کرنے پر چند اصولوں پر مبنی ایک فارمولے پر اتفاق ہو چکا تھا۔ اسے چناب فارمولا کا نام دیا گیا تھا اور اس سال ستمبر میں اسے ایک باقاعدہ معاہدے کی شکل دینے کے لئے سرکاری مذاکرات کا آغاز ہونا تھا، مگر مئی 1999ء میں کارگل کی جنگ نے اس روڈ میپ کو ڈی ریل کردیا۔
دوسرا موقع 2007ء میں پیدا ہوا جب پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولے میں بھارت نے دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی طرف سے کچھ تجاویز پیش کی تھیں۔ ان تجاویز کو اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے امرتسر میں اپنی مشہور تقریر میں بیان کیا تھا۔ اس تقریر میں بھارتی وزیراعظم نے ریاست جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کو برقرار رکھتے ہوئے ریاست کے دونوں حصوں کے درمیان ”سافٹ بارڈرز“ کا تصور پیش کیا تھا۔ اس کے مطابق کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان آمدورفت اور تجارت کی پوری آزادی کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ پاکستان نے چار نکاتی فارمولے پر بھارت کے مثبت ردعمل کا خیرمقدم کیا اور وزیراعظم منموہن سنگھ کی کشمیر میں ”سافٹ بارڈرز“ کے تصور میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کے وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری نے بھی اپنی کتاب میں مشرف کے چار نکاتی فارمولے کا ذکر کیا ہے جس میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے آرپار تجارت اور آمدورفت کے علاوہ کشمیر کو چار زونز (Zones) میں تقسیم کر کے اس میں پاکستان اور بھارت کی فوجوں کی بتدریج کمی اور کشمیری عوام کو ان کی مرضی کے مطابق خودمختاری کی بنیاد پر حکومتی معاملات کو چلانے کی آزادی دینا شامل تھی۔ کشمیر کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرکریک اور سیاچین کے مسائل بھی سخت کشیدگی کا باعث تھے۔
جب ڈاکٹر منموہن سنگھ بھارت کے وزیراعظم تھے تو سرکریک کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے پر سمجھوتہ ہوگیا تھا اور اطلاعات کے مطابق اس پر دستخط کرنے کے لئے بھارتی وزیراعظم کے دورۂ پاکستان پر بھی بات چیت ہورہی تھی، لیکن مشرف کے خلاف سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی کے مسئلے پر وکلا تحریک کی وجہ سے سارے انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ کرن تھاپر کے ریویو کے مطابق ڈاکٹر من موہن سنگھ کے دورۂ پاکستان کے دوران میں مشرف کے چار نکاتی فارمولے کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے کو بھی حل کرنے پر سمجھوتے کے ایک مسودے پر اتفاق ہوگیا تھا اور اسے ایک باقاعدہ معاہدے کی شکل دے کر دستخط کرنا باقی تھے مگر پاکستان کے سیاسی حالات کی خرابی کی وجہ سے اس کی نوبت نہ آ سکی۔ کرن تھاپر کے ریویو میں ایک نئی اور دلچسپ بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے بھی 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے اپنے پیشرو ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں پاکستان کے ساتھ مستقل امن اور خصوصاً کشمیر پر ہونے والی پیش رفت کی بنیاد پر نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان معاہدے کو آخری شکل دے کر اس پر پاکستان کے ساتھ دستخط کرنے کے لئے اپنا ذہن تیار کرلیا تھا اور اپریل 2017ء میں مسٹر لامبا کو پاکستان بھیجنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ 1948ء سے اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر حل طلب ہے اور اس میں ناکامی کی وجہ سے دونوں ملکوں میں دو بڑی (1948ء اور 1965ء) اور ایک چھوٹی (کارگل) جنگ ہوچکی ہے۔ اسی دوران میں دونوں ملک متعدد بار سمجھوتے پر دستخط کرتے کرتے رہ گئے اور جھگڑا بدستور باقی ہے۔ اس کی بڑی وجہ دونوں ملکوں کے موقف کے درمیان بڑا فاصلہ ہے، تاہم ستندر لامبا کی کتاب کے ریویو پر مبنی کرن تھاپر کے آرٹیکل سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ بھارت کی طرف سے کشمیر کو ایک طے شدہ مسئلہ قرار دینے کے باوجود کشمیر کا مسئلہ اب بھی زندہ ہے اور جب تک کشمیری عوام کی تسلی کے مطابق اسے مستقل طور پر حل نہیں کیا جاتا یہ زندہ رہے گا۔
بھارت کی پارلیمنٹ میں دو دفعہ قراردادیں منظور کروا کر کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا جا چکا ہے۔ بھارت کے ہر وزیراعظم نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہر مسئلے پر بات چیت ہوسکتی ہے مگر کشمیر پر نہیں۔ اس کے باوجود آر ایس ایس کے سابق رکن اور کٹر ہندوتوا کی علمبردار جماعت بی جے پی کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو برملا تسلیم کرنا پڑا کہ کشمیر کے مسئلے کوحل کئے بغیر پاکستان اور بھارت کے درمیان پائیدار قیام امن کے جن دو مواقع کے کھو جانے کی بات کی گئی ہے وہ فی الواقع درست ہے لیکن اس کے باوجود مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کی امید معدوم نہیں ہوئی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کشمیری عوام کا جذبہئ حریت اور بے مثال قربانیاں ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان اور بھارت کے عوام میں دونوں ملکوں کے درمیان امن اور تعاون کی خواہش اتنی شدید ہے کہ تین بڑی جنگوں اور ایک، دو مقامی جنگوں، لائن آف کنٹرول پر آئے دن کی جھڑپوں اور تقریباً مستقل کشیدگی سے بھی یہ خواہش معدوم نہیں ہوئی۔

مطلقہ خبریں