اَسدُ اللہ رئیسانی – ریسرچ فیلو بلوچستان تِھنک ٹینک نیٹورک، کوئٹہ
پاکستان کو آزاد ہوئے ۷۵ سال ہو گئے اور اِن ۷۵ سالوں میں ہم نے بحثیتِ قوم کیا پایا اور کیا کھو یا، اِسکا اندازہ چند سوالوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ ۱) کیا ہم وہ مقاصد حاصل کرسکے جو ہمیں بطورِ ریاست اور بحیثیت ایک قوم حاصل کرنے چاہیئے تھے؟ ۲) آزادی کے۷۵ سال بعد ہم ایک قوم ہیں یا صرف ایک ہجوم؟ ۳) کیا پہلی دو نسلیں پاکستان کو ایک مستحکم ملک بنانے میں کامیاب ہوئیں؟ اس سلسلے میں سب سے اہم سوال آخری سوال ہے۔ یہ کالم اِس سوال کا جواب نفی میں دیتا ہے اور اُن وجوہات کی وضاحت کرتا ہے کہ کیوں چند ایک کو چھوڑ کر پوری دو نسلیں کسی بھی مدت میں پاکستان کو مستحکم کرنے میں ناکام رہیں اور وہ کونسی غلطیاں ہیں جو پاکستان کی نئی اور تیسری نسل کو نہیں دوہرانی چاہیئں۔
جدید سماجیات اور عمرانیات کے حقیقی بانی ابن خلدون نے اپنی کتاب ‘مقدمہ’ میں دلیل دی ہے کہ ایک نسل۴۰ سال کے برابر ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان نے اب تک دو نسلیں دیکھی ہیں۔ ایک ۱۹۴۷ سے ۱۹۸۷ تک اور دوسرا ۱۹۸۷ سے آج تک۔ پہلی نسل نے بلاشبہ پاکستان کو بہت بُرے حالات میں پایا۔ چند بڑے مسائل اور چیلنجز جو پاکستان کے ساتھ پیدا ہوئے تھے وہ ہیں، حکومت کا قیام، خاص طور پر اس کے بانی کی وفات کے بعد؛ غیر منصفانہ تقسیم، ہندوستان اور پاکستان کے درمیان فوجی سازوسامان کی تاخیر سے تقسیم، اقتصادی عدم توازن، آئین کی تشکیل کا مسئلہ، اردو اور بنگالی کے درمیان قومی زبان کے انتخاب کے مسائل، برصغیر کی تقسیم کے بعد ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہونے والے مہاجرین کی آباد کاری اور بحالی وغیرہ شامل ہیں۔
یہ نسل ان میں سے کُچھ مسائل تو حل کر سکی لیکن ان رکاوٹوں کو مکمل طور پر عبور نہ کرسکی۔ مثال کے طور پر، فوجی سازوسامان کی فراہمی میں تاخیر کے باوجود، پاکستان کے پاس ایک منظم فوج ہے، جس کا شمار دنیا کے پیشہ ور افواج میں ہوتا ہے۔ اس نسل نے حدود کی غیر منصفانہ تقسیم کے ساتھ زندگی بسر کی اور محدود وسائل کے ساتھ صنعتیں بنانا شروع کر دیں۔ مسلمانوں کو، جو تشدد کا نشانہ بنے اور اپنے مذہب کی وجہ سے ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے، ان کا بھی یہاں تہہ دل سے استقبال کیا۔ یہاں تک کہ، پاکستان کے فوجی حکمرانوں میں سے ایک، پرویز مشرف ان ہی میں سے ایک تھے جن کا خاندان ہندوستان چھوڑ کر پاکستان آیا تھا۔
تاہم یہ نسل بنگالیوں کو مساوی شہری تسلیم کرنے میں ناکام رہی۔ ۱۹۴۸ میں محمد علی جناح کی موت نے لیاقت علی خان کو ریاستی امور چلانے کا واحد اہل آپشن چھوڑا۔ جبکہ ۱۹۵۱ میں لیاقت علی خان کے قتل نے ملک میں سیاسی استحکام کے تمام امکانات کو معدوم کر دیا۔ اس نسل کو ایک آئین بنانے میں آٹھ سے نو سال لگے۔ وہ آئین بھی دو سال سے زیادہ نہ چل سکا۔ ۱۹۵۸ میں صدر اسکندر مرزا نے آئین کو منسوخ کرتے ہوئے ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا۔ اس کے برعکس، ہندوستان نے نومبر ۱۹۴۹ میں اپنا آئین بنایا اور اُس آئین نے بھارت میں جمہوریت اور سیاسی استحکام کی راہ ہموار کی۔
اس کے بعد۱۹۶۲ میں متعارف کرائے جانے والے ایک اور آئین کو بنانے میں ایوب خان کا بڑا کردار تھا۔ لیکن ۱۹۶۹ میں انہوں نے سیاسی عدم استحکام کے سبب آئین پر عمل کرنے اور اقتدار کو ایوان کے اسپیکر شیخ مجیب الرحمان کو منتقل کرنے کے بجائے صدارت ایک اور فوجی آمر یحییٰ خان کو سونپ دی۔ یہ نسل مُلک کے مشرقی حصے کو مختلف کی وجہ سے متحد رکھنے میں بھی ناکام رہی۔ اِس نسل نے بھارت کے ساتھ دو جنگیں بھی لڑیں۔
تاہم یہ بات تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ۱۹۶۵ کی جنگ میں پاک فوج نے ہندوستانی مسلح افواج سے سات گنا چھوٹی ہونے کے باوجود حریف قوت کا برابری سے مُقابلہ کیا جو کہ قابلِ تحسین ہے۔ اور ۱۹۷۱ میں ملک کا ایک حصہ کھونے کے باوجود، سیاسی قیادت، خاص طور پر ذوالفقار علی بھٹو، ہزاروں پاکستانی فوجیوں کو ہندوستانی جیلوں سے واپس لانے میں کامیاب ہوئے اور اپنی غیر معمولی سفارتی مہارت کے ذریعے کھوئے ہوئے علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ یہ قیادت ملک کو ایک مظبوط آئین دینے میں بھی کامیاب رہی۔
۱۹۷۷ میں ملک میں ایک مرتبہ پھر آمریت کادور شروع ہوا۔ ضیاء الحق کی حکومت نے افغانستان میں سابق سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ کی مدد کی اور سابق سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جہاد کی حمایت کی۔ کلاشنکوف کلچر، سرحدی مسائل، نسلی تنازعات، فرقہ واریت اور سرحدی دہشت گردی کے بیج بوئے گئے۔ پھر بھی اُس دور کے لاتعداد لوگوں نے بڑے حوصلے کے ساتھ اُس مشکل وقت کا سامنا کیا اور اُس وقت کی حکومتی پالیسیوں کے خلاف ثابت قدم رہے جو کہ قابلِ تعریف ہے۔
پھر ۱۹۸۸ میں ضیائالحاق کی موت کے بعد َاس ملک کی دوسری نسل نے پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی۔ یہ نسل، خاص طور پر سویلین قیادت، ۱۹۹۰ کی دہائی میں سیاسی استحکام حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اِس نسل کا ایک بڑا کارنامہ مئی ۱۹۹۸ میں ایٹمی تجربات کرکے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کی حامل ریاست قرار دینا تھا۔ ان تجربات اور کارگل کے واقعے کے فوراً بعد ۱۹۹۹ میں ایک مرتبہ پھر ملک میں آمریت آئی۔ نائن الیون(۱۱/۹) کے بعد امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ دیا گیااور اِن حالیہ دہائیوں میں ہر گزرتے سال کے ساتھ ملک کی معیشت بد سے بدتر ہونے لگی۔
اقتدار کی آسان منتقلی اِس نسل کی ایک اور بڑی کامیابی ہے کہ جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے ۲۰۱۳ میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی نو منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کیا اور بعد ازاں ۲۰۱۸ میں اقتدار پاکستان تحریک انصاف کو سونپ دیا گیا۔ جبکہ سیاسی استحکام حاصل کرنے، بدعنوانی کے خاتمے، سیاست میں ٹانگیں کھینچنے کے کلچر اور ملکی معیشت کو مستحکم کرنے میں ابھی تک یہ ناکام ہے۔
تاہم، نئی اور آنے والی نسل کو اثرات سے زیادہ اسباب پر توجہ دینی چاہیے۔ کیونکہ بنیادی طور پہ شعور کی کمی سبب ہے بدعنوانی، بدانتظامی اور مفادپرست سیاست کا۔ مثال کے طور پر، پنکچر کی دکان پر بیٹھے شخص کو ۲۰ روپے کا جبکہ ایک اشرافیہ کو ۲۰ ارب روپے چوری کرنے کا موقع ملتا ہے تو دونوں ہی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ دونوں ہی کرپٹ ہیں پر شعور کی کمی کی وجہ سے اپنی چوری کے اثرات سے مُنہ پھیردیتے ہیں اور اپنے ضمیر کو دلاسہ دیتے ہیں کہ ’ہر کوئی چوری کر رہا ہے، اگر میں نے بھی کر لی تو کونسی قیامت آگئی؟’درحقیقت، دونوں ہی اس بات سے بے خبر ہیں کہ وہ معاشرے کو کتنے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا رہے ہیں۔ دونوں ہی معاشرے میں بد اعتمادی پیدا کر رہے ہیں، دونوں ہی بدعنوانی کے مختلف طریقے سکھا رہے ہیں اور دونوں ہی ایمانداری اور شائستگی کے معاشرتی اصولوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔اور اِس میں کوئی بعید نہیں کہ کل اگر اُس پنکچر لگانے والے کو ۲۰ ارب اور اُس اشرافی کو ۲۰۰ ارب روپے چوری کرنے کا موقع ملیگا تو وہ اُسے ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔
مزید یہ کہ ایمانداری اور شہری احساس کی کمی ہمارے معاشرے میں عدم استحکام اور بدعنوانی کے دیگر دو بڑے پہلو ہیں۔ مثال کے طور پر، مسجد عبادت کی جگاہ ہے جہاں بندہ خدا سے مخاطب ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ نماز پڑھتے وقت یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کہیں اُن کے جوتے چوری تو نہیں ہو نگے۔ گویا خُدا کے گھر کے آداب تک ہمیں بحیثیتِ قوم معلوم نہیں، موقع ملتا ہے تو ہم نمازیوں تک کے جوتے نہیں چھوڑتے۔
اس نئی نسل کا ایک حتمی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ لوگوں کو اچھے کام کرنے کی جزا اور برائی کی سزا سینہ صرف آگاہ کرے بلکہ اپنے اِختیارات کے مطابق جزا اور سزا کو یقینی بھی بنائے۔ مختصراً یہ کہ قانون کی حکمرانی کو ہر ممکن طریقے سے ممکن بنائیں، خواہ آپ بیوروکریسی، سیاست، اسٹیبلشمنٹ، بزنس انڈسٹری یا کسی اور پیشے میں رہیں۔ مفادات کے لیے میرٹ پر سمجھوتہ ختم ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ نسل کسی لیڈر یا قیادت کی اندھی تقلید نہ کرے پھر چاہے وہ قیادت سیاسی ہو، مذہبی، عسکری یا قبائلی۔ کیونکہ غلطی کرنا انسان کی فطرت ہے اور یہ رہنماء اِس حقیقت سے مُستثنیٰ نہیں۔
خاص طور پر جب دین کی بات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں سورہ نور کی آیت نمبر 15 میں حکم دیتا ہے کہ بغیر تصدیق کے کوئی بات نہ پھیلائی جائے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت بڑا جرم ہے۔ لہٰذا، اس نسل کو کسی بھی بات کو پھیلانے یا کسی مذہبی عالم کی تشریحات و تفسیرات پر عمل کرنے سے پہلے اِس آیت کو خصوصی توجہ میں رکھنا چاہیے۔ مزید یہ کہ مغرب میں زندگی گزارنے کے خواب دیکھنے کے بجائے اپنے محلوں، گاؤں، قصبوں، شہروں، صوبوں اور ملک میں رہن سہن اور اخلاقی معیار کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ مزید برآں، وقت کی پابندی، وعدوں کا احترام کرنا، اور فرائض کو تندہی سے انجام دینا دیگر خصوصیات ہیں جن پر اس نئے نسل کو قائم رہنا چاہیے۔
آخری بات، سیاست گندی نہیں بلکہ ایک اکثریت نے اِسے گندہ بنا دیا ہے، ہمارے سیاست دانوں اور متعلقین (اسٹیک ہولڈرس)کی اکثریت نہ تو اتنی اہل ہے اور نہ ہی اتنی دیانتدار کہ ملک کو صحیح سمت میں لے جا سکے۔ اس لیے اس نئی نسل کو چاہیئے کہ سُستی کرنے اور وقت ضائع کرنے اور الزام تراشی کے بجائے سیاست میں حصہ لے اور اِس عظیم پیشے کو پھر سے عظیم بنائے۔ جیسا کہ افلاطون نے درست کہا ہے، ”سیاست میں حصہ لینے سے انکار کرنے کی سزاو?ں میں سے ایک سزا یہ ہے کہ آپ سے کم اہل لوگ آپ پر مسلط ہوجاتے ہیں۔“