اَسدُ اللہ رئیسانی – ریسرچ فیلو بلوچستان تِھنک ٹینک نیٹورک، کوئٹہ
بہت سے ماہر ین اس بات پہ اِکتفا کرتے ہیں کہ آمدنی میں استحکام اطمینان کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، اس اطمینان کو انفرادی یا اجتماعی دونوں سطحوں پر ہونا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے ہدف نمبر آٹھ جو کہ ”مناسب کام اور معاشی ترقی” کی بات کرتا ہے، کا تعلق بھی آمدنی کے استحکام سے ہے۔ مجموعی قومی خوشی کے اشاریہ میں خوشی کے نو اشارے یا ڈومینز ہیں، ان میں سے سر فہرست تین، یعنی نفسیاتی بہبود، صحت اور تعلیم، کسی نہ کسی طریقے سے آمدنی کے استحکام یا معاشی بہبود سے متعلق ہیں۔ جرنل آف ہیپی نیس اسٹڈیز میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق آمدنی میں عدم مساوات زندگی کی اطمینان پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ پاکستان کا صوبہ بلوچستان اس سلسلے میں کہاں کھڑا ہے، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا تنقیدی تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔
ہارورڈ بزنس اسکول میں تنظیمی رویے کے یونٹ میں بزنس ایڈمنسٹریشن کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر، جون جیکیمووِز کے مطابق، ”… پیسہ لوگوں کو روزانہ کی بہت سی پریشانیوں سے بچنے میں مدد کرتا ہے جو تناؤ کا سبب بنتی ہیں۔ ” اس نے اور اس کے ساتھیوں نے تحقیق کی اور معلوم ہوا کہ مالی مشکلات احساسِ شرم کا ایک قائم سبب ہے، جو جرم کا باعث بنتی ہے۔ کیونکہ، ”ہم نے اس خیال کو معمول بنا لیا ہے کہ جب آپ غریب ہوتے ہیں تو یہ آپ کی
غلطی ہے اور اس لیے آپ کو اس پر شرمندہ ہونا چاہیے۔”
ایک اور مقالے میں جیکیمووِز اور ان کے ساتھیوں نے دلیل دی ہے کہ مالی عدم استحکام روزمرہ کی زندگی میں زیادہ پریشانی کی شدت کا باعث بنتا ہے۔ مقالے میں یہ قیاس بھی کیا گیا ہے کہ پیسہ خوشی نہیں خرید سکتا، لیکن یہ روزمرہ کی زندگی میں تناؤ کی شدت کو کم کر سکتا ہے۔ جیسے ٹیکسی کرنے سے لے کر ہسپتال کے غیر متوقع بل کی ادائیگی تک، آپ کو پیسوں کی ضرورت ہے۔ جیکیمووِز اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے کیئے گئے سروے میں، جہاں انہوں نے ۳۰ دنوں تک ۵۲۲ شرکاء کا مشاہدہ کیا، وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ پیسہ شدید تناؤ کو کم کرتا ہے، زیادہ کنٹرول لاتا ہے، اور زیادہ آمدنی زیادہ اطمینان کا باعث بنتی ہے۔
تاہم اعداد و شمار بلوچستان میں اس حوالے سے عدم اطمینان ظاہر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق بلوچستان کی ۳۰ فیصد آبادی جو کہ۳۵ لاکھ سے زیادہ ہے، نے ۲۰۲۰ کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک غذائی عدم تحفظ ظاہر کی۔ بلوچستان میں ۱۱ لاکھ سیزائد لوگ دباؤ کا شکار ہیں اور تقریباً ۶ لاکھ کے قریب لوگ کسی نا کسی طرح بحران کا شکار ہیں۔ صوبے کی۷۰ فیصد سے زائد آبادی انتہائی غربت میں زندگی گزار رہی ہے۔ اس سال صوبے میں بے روزگاری کی شرح چار فیصدسے اُوپر ہے جس کا مطلب ہے کہ رواں مالی سال صوبے میں تقریباًساڑھے پانچ لاکھ افراد بے روزگار رہیں گے۔
مزید یہ کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق بلوچستان میں لیبر میں نوجوانوں کی شرکت کی شرح ۴۴.۴۴ فیصد ہے جو کہ ملک کے باقی صوبوں سے کم ہے۔ اس کا یہ بھی دعویٰ ہے، ”گزشتہ ۷۰ سالوں میں [ملک میں ] نوجوانوں کی روزگار کی کوئی حکمت عملی یا پالیسی نہیں ہے”۔ ان اعداد و شمار سے ملک کے نوجوانوں میں بالعموم اور صوبہ بلوچستان کے نوجوانوں میں بالخصوص مایوسی کا اندازہ ہوتا ہے۔
بلوچستان میں روزی روٹی کے مواقع بہت کم ہیں، جسکی وجہ سے صوبے کے زیادہ تر نوجوان سرکاری ملازمت کا خواب دیکھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں بچپن سے ہی کہا جاتا ہے کہ وہ محنت کر کے اچھے نمبر حاصل کریں تا کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سرکاری نوکری حاصل کرسکیں۔ نیز، سرکاری ملازمتیں بڑھاپے کی پنشن کو یقینی بناتی ہیں۔ دوسرا، کیریئر کونسلنگ کی کمی بہت سے لوگوں کو ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی راہ پر گامزن کرتی ہے، جہاں بہت سے لوگ پہلی ہی کوشش میں فلٹر ہو جاتے ہیں۔جس کے بعد ان میں سے اکثر مقابلے کے امتحانات جیسے سی ایس ایس اور پی سی ایس کا انتخاب کرتے ہیں اور بہت سے لوگ بنیادی ہنر سیکھنے کے بجائے ڈبل اور ٹرپل بی اے یا ایم اے کرنے کی نہ ختم ہونے والی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں۔
یہاں تک کہ وہ لوگ جو آن لائن سیکھنے اور کمانے کے جدید رجحانات کو اپنانا چاہتے ہیں، سست انٹرنیٹ، بجلی کی لوڈشیڈنگ اور بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں اور کم مواقعوں کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد، خاص طور پر اندرون بلوچستان کے نچلے طبقے کے لوگ اپنے والدین اور اپنی فیملی کے لیے روزی روٹی کمانے میں مدد کرنا شروع کر دیتے ہیں، اور تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔
نجی ملازمتوں کی بات کریں تو صوبے میں صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں جو اتنے بیروزگاروں کو نوکریاں دے سکیں۔ اجرت بھی کم ہے۔ جبکہ یومیہ اجرت پر انحصار کرنے والے بھی وقتاً فوقتاً غربت کا شکار ہیں۔ بلوچستان میں، خاص طور پر جنوب میں سیکورٹی کے خراب حالات کی وجہ سے خوشحال کاروبار کے مواقع بھی اچھے نہیں ہیں۔جبکہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اس سلسلے میں مزید گنجائش نہیں رکھتا۔
ایسی صُورت میں ایران اور افغانستان کی غیر محفوظ سرحدوں پر تجارت، جسے اسمگلنگ کا نام دیا گیا ہے، ہی بہت سے لوگوں کے لیے آمدنی کا آخری راستہ ہے، لیکن ان سرحدوں کی ہر آئے دن بندش اور دونوں طرف کے سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے ہراساں کرنا لوگوں میں پریشانی اور بیزاری کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔
مزید یہ کہ مختلف مطالعات یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ غربت اور آمدنی میں عدم مساوات جرائم کا باعث بنتے ہیں۔ یہ بھی دعوٰی کیا جاتا ہے کہ سرکاری مُلازمت والا شخص شاید ہی تشدد یا جرم کا ارتکاب کرے گا۔ کیونکہ یہ عام فہم ہے کہ جس شخص کے پاس سرکاری ملازمت ہو یا کمانے کے دیگر مواقع ہوں، اُس کے ریاست کے خلاف جانے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ جب کہ جو لوگ مشکل سے کچھ کماتے ہیں، وہ کمزوریوں کا شکار ہوتے ہیں، خاص طور پر جب وہ ریاست کے دوہرے رویوں کے بارے میں اپنے لوگوں کی شکایات سنتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کاریاست کے خلاف ردِعمل کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر بلوچستان میں امن کو یقینی بنا سکتی ہیں۔ کیوں کہ امن کے بغیر دوسرے حقوق کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ دوسرا، ایک مربوط اور مُستقل منصوبے کے بغیر بلوچستان میں بیروزگاری کا خاتمہ مُمکن نہیں، جیسا کہ نومبر ۲۰۱۷ میں کوئٹہ میں وزیراعظم کے یوتھ پروگرام اور آئی ایل او کے تعاون سے نوجوانوں کے روزگار سے متعلق صوبائی مشاورت سے نتیجہ اخذ کیا گیا۔ اس مشاورت میں سات شعبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ۱) تعلیم اور تربیت؛ ۲) صوبے میں روزگار کے مواقع؛ ۳) دیہی ویلیو چینز میں نوجوانوں کا روزگار؛ ۴) میگا ترقیاتی منصوبوں میں نوجوانوں کے لیئے روزگار؛ ۵) بیرون ملک ملازمت؛ ۶) خود روزگار اور انٹرپرائز کی ترقی اور؛ ۷) بے روزگار نوجوانوں کے لیے سماجی تحفظ۔
یونیورسل بیسک انکم یا بے روزگار نوجوانوں کے لیے سماجی تحفظ ہو سکتا ہے۔ یو بی آئی ایک سرکاری پروگرام ہے جس میں ریاست کے ہر بالغ شہری کو مستقل بنیادوں پر ایک مقررہ رقم ملتی ہے۔ بلوچستان جیسا صوبہ اپنے بے روزگار اور ضرورت مند شہریوں کو اُس وقت تک بنیادی رقم فراہم کر سکتی ہے جب تک کہ انہیں کوئی مُناسب روزگار فراہم نہ کیا جائے۔ اِسکے ساتھ ہی صوبے کے ہر کونے میں تیز رفتار انٹرنیٹ کی دستیابی کے لیے کوششیں کی جائیں اور نوجوانوں کو Digiskills.pk جیسے معروف اور مفت پلیٹ فارم کے ذریعے کمائی کے آن لائن ذرائع سیکھنے کی ترغیب دی جائے۔ اِس طرح وہ حکومت پر بوجھ بنے بغیر فری لانسنگ کے ذریعے مناسب آمدن کما سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اسکولوں، کالجز اور جامعات میں کارجوئی یا اپنی مدد آپکے تحت کاروبار کے کورسسز شامل کیئے جائیں اور جو نوجوان اس کورس میں اچھے نمبر لائیں اُنہیں بلا سُود قرضے دیئے جائیں، تا کہ وہ نہ صرف اپنے لیئے روزگار پیدا کریں بلکہ دوسروں کے لیئے بھی روزگار کا سبب بنیں۔ کیونکہ حکومت کے پاس اتنی ملازمتیں پیش کرنے کی صلاحیت نہیں، نہ ہی کسی حکومت کے پاس ہوتی ہے، کہ وہ صوبے کے تمام بیروزگاروں کو روزگار دے سکے۔
آخر میں یہ کہ بلوچستان کے صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ ایران اور افغانستان کے ساتھ سرحدی تجارت اور انسانی سرمائے کی نقل و حرکت کو قانونی شکل دینے کے لیے حقیقی کوششیں کرے تاکہ سرحدوں پہ اسمگلنگ کی بجائے باقاعدہ تجارت کے ذریعے کمانا آسان اور یقینی ہو اور سرمایہ کاروں سے بلوچستان میں سرمایہ کاری کی درخواست کی جائے، اُنہیں سرمایہ کاری کے لیئے موضوع ماحول مُہیّا کیا جائے اور صوبے میں صنعتیں لگا کر مواقع پیدا کیے جائیں۔ یہ تبھی ممکن ہے جب بلوچستان میں امن ہو کیونکہ ترقی کا راستہ امن سے گزر کے جاتا ہے۔