پاکستان، افغانستان اور ایران کو اپنا بھائی سمجھتا ہے اور کبھی بھی اِن کے دشمنوں کی صف میں شامل نہیں ہوسکتا، تاریخ اُٹھا کر دیکھیں تو پچھلے دو ہزار سال سے ان کی عوام بھی ایک ہے، ہمارے حکمران، ہمارے ہیروز، ہمارے شاعر، ہماری کامیابیاں، ہماری خوراک، ہماری ثقافت، ہمارے موسم، ہماری مشکلات، ہماری زیادہ تر تاریخ اور یہاں تک کہ ہمارا مذہب بھی ایک ہے، بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل
زاویہئ نگاہ رپورٹ
بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل
بلوچستان تھنک ٹینک نیٹ ورک (بی ٹی ٹی این) اور مجلس فکر و دانش، کوئٹہ کے زیراہتمام ”پاکستان کی ایران، افغانستان سے منسلک سرحد پر انتظامی امور“ کے موضوع پر ایک روزہ سیمینار 31 اگست 2022ء کو کوئٹہ میں منعقد ہوا۔ اس سیمینار سے بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل نے کلیدی خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا جغرافیہ اور تاریخ مل کر ہماری شخصیت کا تعین کرتے ہیں، ہمارے ہمسائے، ہمارا رہن سہن، ہمارا لباس، ہمیں وہ بتاتا ہے جو ہم ہیں، ہمیں نہ صرف سوچنے بلکہ اس خطے اور تمام دْنیا کو اپنی نظر سے پرکھنے کے قابل بناتا ہے، ہم سب اپنی اپنی جگہ نظریات کے قیدی ہیں۔ صوبہ بلوچستان کی سرحدیں، ہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں جبکہ جنوب میں بحیرہ عرب موجود ہے جو کہ بلوچستان کی سرحد کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ ایران اور افغانستان وہ دو ہمسایہ ممالک ہیں جو نہ صرف صوبہ بلوچستان بلکہ پاکستان کے لئے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ انہی وجوہات کے پیش نظر اکثر کئی سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں، مثلاً کہ اِن سرحدوں پر حفاظتی اقدامات کو کیسے ممکن بنایا جاتا ہے؟ اِن مشترکہ سرحدوں کا ممالک کے اندرونی اور باہمی تعلقات پر کیا اثر پڑتا ہے؟ ان ممالک کو کن کن سیاسی اور معاشی و معاشرتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ اور یہ کہ ان تمام مسائل کے ہوتے ہوئے ان ممالک کو اپنا مستقبل کہاں دکھائی دیتا ہے؟
اس گفتگو کا مقصد اس خطے کی موجودہ صورتِ حال اور جغرافیائی تاریخ سے متعلق حقائق پر تفصیلی نقطہ نظر کی وضاحت ہے۔ اس گفتگو کی مرحلہ وار ترتیب کچھ یوں ہے:
(الف) علاقائی جغرافیہ (ب) علاقائی تاریخ (ح) سوویت یونین اور امریکی مداخلت کے بعد کی تاریخ (و) سرحدی انتظامات کے لئے مستقبل کا لائحہ عمل، تجاویز۔
علاقائی جغرافیہ
ایران، افغانستان اور پاکستان کی مشترکہ سرحد کئی سو کلو میٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس خطے میں کہیں پہاڑ ہیں تو کہیں صحرا اور کہیں یہ بالکل بنجر ہے۔ بارش نہ ہونے کے برابر ہے اور موسم میں انتہائی شدت پائی جاتی ہے۔ سردی کے موسم میں جما دینے والی برفانی ہوائیں اور گرمی میں تپتی گرم ریت کے طوفان عام بات ہے۔ یہ تمام عوامل اِس خطے میں زندگی کو بڑا مشکل بنا دیتے ہیں۔ زمانہ قدیم سے یہاں کے لوگوں کا گزر بسر بکریاں چرا کر یا پھر تجارتی قافلوں سے لوٹ مار کرکے ہی ممکن ہو پاتا تھا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کاکڑ خراسان پہاڑی سلسلے کے شب و فراز واقع ہیں جوکہ چترال میں موجود ہندوکش رینج سے شروع ہو کر شمال مغرب تک پھیلے ہوئے ہیں اور مغرب کی طرف رباط (ایک چھوٹی سی چوکی) جہاں یہ سلسلہ ایران سے جا ملتا ہے اور ایک سرحدی حدود بناتا ہے جسے ”ڈیورنڈلائن“ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ سرحد عام طور پر پہاڑی چوٹیوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہے لیکن کہیں کہیں درمیان میں گزرگاہیں بھی ہیں۔ کچھ پہاڑی چوٹیوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہے لیکن کہیں کہیں درمیان میں گزرگاہیں بھی ہیں، بالکل ایسے ہی پاکستان ایران سرحد کو کوئی قدرتی رکاوٹ جدا نہیں کرتی جوکہ عام طور پر کچھ پہاڑی، صحرائی اور بنجر علاقہ سے ہوتا ہوا بحر عرب کے علاقہ جیوانی سے رباط جوکہ تافتان کے شمال میں واقع ہے، تک جاتا ہے۔ یہ بنجر، مشکل گزار علاقے حملہ آوروں کے لئے کبھی بھی کشش کا باعث نہیں رہے لیکن اپنی دشوار گزاری کے باوجود یہ علاقے حملہ آوروں کے لئے راہگزر کا کردار ادا کرتے ہیں۔ جو مشرق اور مغرب میں واقع زرخیز علاقوں کی طرف حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔ ان بنجر علاقوں میں زندہ رہنے کے لئے قبائل خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج تک چلا آ رہا ہے۔ ان مشکل اور نامساعد حالات کے باعث لوگ سرحدی علاقے کے آس پاس پھیلے خطے میں تکلیف دہ اور غربت سے بھری زندگی گزار رہے ہیں، وہ اپنے آبائی پیشہ تجارت کو آج تک زندہ رکھے ہوئے ہیں، جو اُن کے لئے واحد ذریعہ معاش ہے، جسے آج کل عرفِ عام میں اسمگلنگ کا نام دیا جاتا ہے، اِس مخلوط سرحدی راہداری کو ملک دشمن عناصر اپنے مذموم مقاصد کے لئے اکثر استعمال کرتے ہیں، نتیجتاً منشیات کے کاروبار کو خوب فروغ حاصل ہورہا ہے اور یہ تمام عوامل ان ممالک کے باہمی تعلقات پر منفی اثرات مرتب کرنے کا باعث بھی ہیں۔
اب کچھ باتیں تاریخی ورثہ کے بارے میں
علاقائی تاریخ
تاریخ کے صفحات پلٹنے پر سب سے پہلے جو ان ممالک کا ذکر ہمیں ملتا ہے وہ 550 قبل از مسیح کا ہے جب ایران سے سائرس نامی بادشاہ نے ایک ایچی منیدس ریاست قائم کی جو پہلی عالمی سلطنت تھی، یہ مصر سے لے کر وادی سندھ تک پھیلی ہوئی تھی اور بابل سے بیکٹریا، سینٹرل ایشیا اور قفقار تک پھیلی ہوئی تھی۔
دو سو سال کے بعد سکندر اعظم نے اس تمام علاقے کو فتح کرلیا، اُس کے انتقال کے بعد اُسی کے ایک جنرل سیلیوکوس نے اپنے نام سے سیلیوسیڈ ریاست قائم کی جوکہ وادی سندھ سے لے کر عراق، اناطولیا، بیکٹریا اور وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی تھی۔
تقریباً 2000 سال بعد ہمارے ممالک پھر تاریخ میں آیا۔ سب سے قابل ذکر حملہ آور نادر شاہ کو گردانہ جاتا ہے جس کا تعلق ایران سے تھا۔ 1739ء میں دہلی کو تباہ و برباد کرنے کے بعد اُس نے دریائے سندھ کے مغرب میں واقع تمام علاقوں پر قبضہ کرلیا اور مغل بادشاہ کو باج گزار بنا لیا۔ 1742ء میں اُس نے مشرقی فارس کا نام بدل کر سیستان بلوچستان اور مشرق ہی کے بلند و بالا علاقے کا نام بدل کر قلاتی بلوچستان رکھا، جہاں زیادہ تر براہوی قبائل آباد تھے۔
یہ تب تک جنوبی خراسان کا حصہ تھا۔ یہ خراسان وہی علاقہ ہے جو یونان نے فتح کیا تو یہ آریانہ کہلایا جبکہ برطانوی حکومت نے 1840ء میں اسے افغانستان کا نام دیا۔ 1747ء میں نادر شاہ کے انتقال کے ساتھ ہی اُس کی ریاست کا زوال شروع ہوگیا۔ احمد شاہ ابدالی جو نادر شاہ کی اپنی فوج کا جرنیل تھا اور پشتون سدوزئی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا، اُس نے خراسان کی آزادی کا اعلان کردیا اور قندھار میں بادشاہت کی بنیاد رکھی، تب یہ خطہ افغانستان نہیں کہلاتا تھا، اُس کا راج بحیرہ عرب سے بخارا تک پھیلا ہوا تھا۔ مغرب میں ہرات، مشرق میں کشمیر اور انڈیا پر مراٹھوں کو 1761ء میں شکست دینے کے بعد قابض ہوگیا، قلاتی بلوچستان جوکہ توران بھی کہلاتا تھا، میر نصیر کے حوالے کردیا گیا جو براہوی تھا اور گندھاوا جنوبی سبی سے تعلق رکھتا تھا۔
اینگلو، افغان جنگ، ایک عظیم کھیل 1838ء میں روس اور فرانس کے ممکنہ حملے سے بچاؤ کے لئے انڈیا میں موجود برطانوی حکومت نے اپنی فوجیں شمالی مغربی سرحدوں پر تعینات کردیں۔ افغانستان پر دو کامیاب حملوں اور فارس کے ساتھ جارحانہ سفارتکاری کے نتیجے میں وہ افغانستان سے قلاتی بلوچستان چھیننے میں کامیاب ہوگئے۔ 1843ء میں برطانیہ نے سندھ پر بھی قبضہ کرلیا۔ اُنیسویں صدی کے آخر تک انہوں نے نئی سرحدیں متعارف کروائیں، جو آج تک کم و بیش اُسی حال میں موجود ہیں۔
قلاتی بلوچستان اور سیستان بلوچستان
قلاتی بلوچستان اور سیستان بلوچستان کے درمیان سرحد کا تعین نادر شاہ نے 1742ء میں کیا لیکن اس کی نشاندہی نہ کی۔ 1864ء میں سامراجی برٹش انڈیا مکمل طور پر قلاتی بلوچستان پر بھی قابض تھا۔ شاہ فارس سے مشورے کے بعد ایران اور قلات کی ریاست کے مابین سرحد کی نشاندہی کی گئی۔ میں یہاں بتاتا چلوں کہ خاران، مکران اور بیلا کی ریاستیں بعد میں برطانیہ کے حکم پر وجود میں آئیں اور فیڈریشن آف قلات اسٹیٹس کے نام سے جانی جانے لگیں۔ پاکستان کو یہ سرحد آزادی کے وقت ورثہ میں ملی۔ 1961ء میں پاکستانی صدر ایوب خان اور شاہ ایران نے ان سرحدوں پر نئے سرے سے کام کرنے کا باہمی فیصلہ کیا اور اس میں کچھ ردوبدل کی گئی اب پاکستان اور ایران سرحد کے معاملے میں دونوں ممالک میں کوئی تضاد موجود نہیں۔ 1973ء میں جب بھٹو نے عطااللہ مینگل کی حکومت کو ہٹایا تو شمال مشرقی اور جنوبی بلوچستان میں احتجاج کے طور پر شورش نے زور پکڑ لیا۔ جنوبی بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند، جنہیں بیرونی حمایت حاصل ہوتی ہے وہ اکثر سیستان میں پناہ لیتے ہیں، جنداللہ اور دوسرے علیحدگی پسند، جنہیں امریکا کی حمایت حاصل ہو، وہ پاکستان کے قلاتی بلوچستان میں پناہ ڈھونڈتے ہیں، ایرانی سرحد پر اسمگلنگ، خاص طور پر افغانستان سے آنے والی منشیات کے ساتھ ساتھ عسکریت پسندوں کا بھی نشانہ بنتی ہے، لہٰذا ایران کو اپنے بارڈرز پر کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔
پاک افغان سرحد 1947ء میں آزادی کے وقت جو سرحد پاکستان کو افغانستان کے ساتھ ورثہ میں ملی، اُسے ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے، افغانستان نے کبھی اس بارڈر کو قبول نہیں کیا، افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کے خلاف ووٹ دیا، 1948ء میں افغانستان میں لویہ جرگہ کا انعقاد ہوا جس میں برطانیہ کے ساتھ ہونے والے سرحدی معاہدے کی منسوخی کا اعلان کیا گیا جس کے نتیجے میں اُس بارڈر لائن نے جنم لیا جسے ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے۔ اس لائن کے مطابق افغانستان نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان پر دعویٰ ظاہر کیا۔ افغانستان نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے اس نام نہاد صوبے کا نظام فقیر آف ایپی کے حوالے کرنے کا اعلان کیا، جسے پشتونستان کا نام دیا گیا۔ پاکستان آزادی کے بعد ابھی پوری طرح اپنے پیروں پر کھڑا بھی نہ ہو پایا تھا باوجود اس کہ پاکستان نے ان معاملات کو سفارتکاری کوششوں کے ذریعے حل کرنا چاہا مگر افغانستان اِسے یکطرفہ تنازع بنائے رکھنے پر بضد تھا۔ کئی دہائیوں تک افغانستان نے ”پشتونستان“ کے نام پر پاکستانی علاقوں پر قبضہ کی کوشش جاری رکھی اور اسی سلسلے میں چترال اور چمن کے مقام پر سرحدوں پر حملہ آور بھی ہوا لیکن عسکری اور معاشی اعتبار سے افغانستان اس قابل نہ تھا کہ پاکستان کو کوئی نقصان پہنچا پاتا۔ مزید یہ کہ اقوام متحدہ اور دوسرے کئی ممالک نے پاکستان کے علاقوں پر افغانستان کے ان دعوؤں کو جھوٹا قرار دے دیا، سونے پر سہاگہ یہ کہ پشتونستان نامی صوبہ میں بسنے والے عوام نے افغانستان میں شامل ہونے سے صاف انکار کردیا۔
ڈیورنڈ لائن
ڈیورنڈ لائن کا تنازع طول پکڑتا گیا۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس 2670 کلومیٹر طویل بین الاقوامی طور پر منظورشدہ پاک افغان بارڈر لائن کی وضاحت کی جائے۔ انیسویں صدی کے آخر میں جب بڑی یورپی طاقتوں نے ”گریٹ گیم“ سے لاتعلقی کا ارادہ کرلیا تو روس کے سفیر، شاہ فارس افغانستان کے بادشاہ امیرعبدالرحمن اور برطانوی حکومت کے درمیان لندن میں ایک اجلاس منعقد ہوا اور افغانستان کو ایک ”بفر اسٹیٹ“ کا درجہ دے دیا گیا جس کا کام روسی سلطنت اور سامراجی برطانوی انڈیا کے درمیان مفاہمت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرنا قرار پایا۔ برطانوی مورخین کے مطابق 12 نومبر 1893ء میں باہمی رضامندی کے بعد افغانستان کی سرحد مغرب میں ایران کے ساتھ خانیٹس آف سینٹرل ایشیا جوکہ شمال میں واقع تھی اور مشرق اور جنوب میں واقع انڈیا کے ساتھ نئے سرے سے تشکیل دیا گیا جبکہ بعد میں آنے والے مورخین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ کابل میں طے پایا جوکہ درست نہیں، اسے سرمورٹی مور ڈیورنڈ کے نام سے منسوب کیا گیا جوکہ برٹش انڈیا کے سفارتکار تھے، برطانیہ نے تو چترال کی شمالی پٹی بھی افغانستان کے حوالے کردی جسے ”واخان کوریڈور“ کے نام سے جانا جاتا ہے تاکہ کوئی برٹش انڈیا کی طرف معاہدے کے شرکاء میں سے کوئی برٹش انڈیا کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھ سکے۔ افغان عوام جانتے ہی نہیں کہ ڈیورنڈ لائن صرف پاک افغان بارڈر نہیں بلکہ اُن کے ملک کی مکمل بارڈر لائن کا تعین کرتی ہے۔ باہمی مفاہمت کے ذریعے ڈیورنڈ لائن میں اُس وقت کے افغانستان کے کچھ علاقے شامل تھے جبکہ بلوچی اور پشتون قبائل کی تقسیم اور شمالی سندھ کے کچھ حصوں کو بھی شامل کرکے اُسے برٹش بلوچستان کا نام دیا گیا۔ جس میں فاٹا اور ڈیرہ جات کو بھی کچھ عرصہ کے لئے شامل کیا گیا۔
ڈیورنڈ لائن کے مضمرات
برطانیہ نے سرحد کا تعین عسکری اعتبار سے قابل دفاع پہاڑی علاقے پر کیا، جو حکمت عملی کے اعتبار سے مناسب پر معاشرتی اور معاشی اعتبار سے انتہائی نامناسب تھا۔ برطانوی حکومت اور شاہ افغانستان نے وہاں صدیوں سے مقیم قبائل کو نظرانداز کردیا، یہ جانے بغیر کہ یہ ڈیورنڈ لائن اُن کے درمیان سے گزرے گی، کئی مقامات پر یہ لائن بلوچستان میں موجود پشتون دیہاتوں کے درمیان سے گزرتی ہے۔ فاٹا اور ڈیرہ جات کو بعد میں برٹش انڈیا کے حوالے کردیا گیا۔ فاٹا قبائل کے زیرانتظام کسی حد تک خودمختار قرار دیا گیا اور ایک برطانوی افسر کے زیرسایہ دے دیا گیا۔ 2018ء تک پاکستان نے اس سلسلے کو جاری رکھا اور آخرکار فاٹا کو پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کردیا گیا اور قبائلی خودمختاری کی جگہ جمہوریت نے لے لی۔
استعماری سیاسی نقشے
اپنے من پسند سیاسی نقشوں کی تیاری جو استعماری قوتوں کے لئے موزوں ہوں، اُس وقت کا ایک عام چلن تھا، ایشیا اور افریقہ میں دُنیا ابھی تک اُس وقت کے بنائے گئے نقشوں کی وجہ سے مضطرب ہے۔ کیا ہم مزید 100 سال تک اس کے اثرات بھگتتے رہیں گے یا پھر ہمیں اِس ڈیورنڈ لائن کو سرحد کے طور پر قبول کرلینا چاہئے جسے دُنیا پہلے ہی قبول کرچکی ہے اور اُن کا ماننا ہے کہ اسے قبول کرلینا ہی دونوں ممالک کے عوام کے مفاد میں ہے۔ افغانستان کی آبادی تقریباً 38 ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ جس میں سے 17 ملین پشتون ہیں جبکہ پاکستان کی کل آبادی 220 ملین جس میں سے 80 ملین پشتون ہیں۔ ہمارے افغان بھائیوں کو اس معاملے پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
سوویت یونین اور امریکا کے حملہ آور ہونے کے بعد کی تاریخ
افغان مہاجرین کا بندوبست
سوویت یونین اور پھر امریکا کے افغانستان پر حملے کے بعد کے مناظر ابھی تک ہماری یادداشتوں میں محفوظ ہیں۔ جس بات کا خلاصہ میں یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ 1980ء میں جب لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے تو ہم نے ان کے ساتھ بھائیوں کی طرح برتاؤ کیا۔ انہیں پاکستان میں کاروبار چلانے، جائیداد خریدنے تک کی آزادی دی گئی اور اُن کا والہانہ خیرمقدم کیا گیا نہ صرف پشتون اکثریت والے علاقوں میں بلکہ ملک بھر میں۔ مہاجر کیمپ تو UNHCR (اقوام متحدہ کا ادارہ) کی مدد کے حصول کے لئے بہت بعد میں قائم کئے گئے، چار ملین افغان مہاجرین میں سے تقریباً 1.5 ملین رجسٹرڈ مہاجرین آج بھی پاکستان میں موجود ہیں اور تقریباً اتنی ہی تعداد ایسے افغان مہاجرین کی ہے جنہیں آج تک رجسٹر ہی نہیں کیا جاسکا۔ کئی افغان مہاجرین نے یہاں شادیاں کیں، مہاجرین کی تقریباً دو نسلیں یہاں پیدا ہوئیں، جو یہیں پلی بڑھیں اور انہوں نے یہیں تعلیم حاصل کی۔
پاکستانی ثقافت پر منفی اثرات:
افغانستان پر سوویت یونین کے قبضہ کے بعد پاکستانی معاشرے پر پڑنے والے منفی اثرات میں سرفہرست کلاشنکوف اور منشیات کی ریل پیل تھی، اس کے علاوہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی ”خاد“ کی طرف سے میزائل حملوں اور بمباری بھی ہوتی رہی۔ امریکا کے افغانستان پر قبضے کے بعد حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے، جن میں 3 جولائی 2021ء تک کوئی بہتری نظر نہ آئی، تحریک طالبان پاکستان، انڈین انٹیلی جنس ایجنسی ”را“ اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی ”این ڈی ایس“ کی ملی بھگت سے پاکستان میں تخریب کاری کرتی رہی۔ امریکا کے زیرانتظام ڈرون حملوں کے نتیجے میں پاکستان پچھلے 19 سالوں میں تقریباً 80,000 قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو چکا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کو تقریباً 150 بلین ڈالر کا خسارہ اٹھانا پڑا۔ پاک افواج کی دخل اندازی کے نتیجے میں دہشت گردی اور عسکریت پسند عناصر کی سرگرمیوں میں بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے لیکن ففتھ جنریشن وار یعنی پانچویں نسل کی جنگ کی وجہ سے پاکستان کے بیرونی دشمنوں کے اوچھے ہتھکنڈے جوں کے توں عروج پر ہیں۔ اب جبکہ امریکا نے بالآخر افغانستان کو اپنے شکنجے سے آزاد کردیا ہے لیکن یہ ایسا کوئی بھی سیاسی حل تجویز کئے بغیر جس سے افغانستان میں امریکا کی عدم موجودگی میں امن قائم ہوپاتا۔ ایک بار پھر افغانستان میں خانہ جنگی کا عالم ہے جو جانے کتنے مظلوم لوگوں کی جان لے کر ٹلے گی اور ان تمام تر عوامل کے منفی اثرات ایک بار پھر پاکستان کو بھگتنے پڑیں گے۔
تاریخ سے اخذ شدہ نتائج
اب میں ان تینوں ممالک کی تاریخ کے خلاصے کے بعد کچھ نتائج جو میں نے اخذ کئے ہیں وہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، سب سے اہم نتیجہ جو اخذ کیا جاسکتا ہے میں آپ لوگوں کی توجہ اُس طرف مبذول کرنا چاہوں گا اور وہ یہ ہے کہ افغانستان، ایران اور پاکستان کافی عرصوں تک ایک ہی ملک رہے ہیں۔ تاریخ اُٹھا کر دیکھیں تو پچھلے 2000 سال سے ان کی عوام بھی ایک ہے۔ ہمارے حکمران، ہمارے ہیروز، ہمارے شاعر، ہماری کامیابیاں، ہماری خوراک، ہماری ثقافت، ہمارے موسم، ہماری مشکلات، ہماری زیادہ تر تاریخ اور یہاں تک کہ ہمارا مذہب بھی ایک ہے۔ پاکستان، افغانستان اور ایران کو اپنا بھائی سمجھتا ہے اور کبھی بھی اِن کے دشمنوں کی صف میں شامل نہیں ہوسکتا۔ میں اکثر سنتا ہوں کہ ہمارے کچھ افغانی بھائی ہم سے ناراض ہیں، جس کی اصل وجہ کوئی غلط فہمی یا پھر دشمنوں کا پھیلایا ہوا منفی پروپیگنڈا ہے، ہمارے افغان بھائی پاکستان بھر میں آزادی سے اپنی زندگی بسر کررہے ہیں، سوائے چند خودکش حملہ آوروں کے جن کا تعلق افغانستان سے ثابت ہوچکا ہے، ہم اپنے افغان بھائیوں کو اپنے ملک میں ہر طرح کی مراعات مہیا کررہے ہیں۔ ان خودکش حملہ آوروں نے کئی پاکستانیوں کو اُن کی جانوں سے ہاتھ دھونے پر مجبور کردیا اور کچھ بھارتی جاسوس بھی پکڑے گئے ہیں جوکہ ایران سے تخریب کاری کررہے تھے۔ ایک عام پاکستانی شہری کے دل میں اپنے افغان یا ایرانی بھائی کے لئے نفرت کے کوئی جذبات نہیں۔ ہاں ہماری سرحدیں خطرے میں ہیں۔ افغانستان میں کچھ ایسے طالبان بمباری اور قیمتی جانوں کے زیاں میں ملوث پائے گئے جن کا تعلق پاکستان سے تھا لیکن ہمارا اُن سے کوئی لینا دینا نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں آج اپنے قدم مضبوط کرنا ہوں گے تاکہ ایک بہتر مستقبل کی اُمید رکھی جاسکے، یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اپنی باہمی سرحدوں کو محفوظ بنا سکتے ہیں، چند گنے چنے بکاؤ دہشت گردوں کی پھیلائی دہشت سے گھبرا کر ہمیں اپنے اوسان خطا نہیں کرنے ہیں، ہمیں صبر کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔
سرحدوں کی دیکھ بھال کے لئے مستقبل کا لائحہ عمل
تجاویز
یکطرفہ پالیسی کسی کارآمد لائحہ عمل جو دوسرے ملکوں کو بھی قبول ہو، کے بغیر کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتی، پھر چاہے وہ جتنی بھی ضروری کیوں نہ ہو۔ پیش کی جانے والی رائے کا تقاضا یہ ہے کہ بارہا بلکہ مسلسل گفت و شنید کی جاتی رہے تاکہ کسی بہترین نتیجے پر پہنچا جاسکے۔
میری دانست میں درج ذیل تجویزات کو قابلِ غور سمجھا جانا چاہئے:
سرحد کے بغیر کسی ملک کا تصور ناممکن ہے، ہمیں ایک دوسرے کی سرحدوں کی تعظیم کرنا ہوگی۔
افغانستان اور ایران تاریخی طور پر ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں، خاص طور پر پاکستان کے۔ ہمیں ایک دوسرے کے معاملات میں خاص احتیاط برتنی ہوگی۔
ہمسایوں میں اکثر اختلافِ رائے اور چھوٹے موٹے تنازعات کا جنم لینا ایک عام سی بات ہے لیکن بیرونی طاقتیں اِن اختلافات کو بڑھاوا دینے اور غلط رنگ دے کر ہمارے باہمی روابط کو کمزور کرنے کی ہرممکن کوشش کریں گی، ہمیں چاہئے کہ سیاسی، سفارتکاری، عسکری اور عوامی روابط کے قیام کی کوششوں کو تیز تر کردیں تاکہ ہمارے دشمن اپنے ظاہری اور پوشیدہ مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب نہ ہوپائیں۔
ایک دوسرے پر الزام لگانے سے پرہیز کیا جائے۔ افغانستان میں وقوع پذیر ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کا ذمہ دار ہمیشہ پاکستان ہی کیوں ٹھہرایا جاتا ہے۔
بالکل اس طرح پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا ذمہ ہمیشہ ٹی ٹی پی کو ٹھہرایا جاتا ہے جسے افغان طالبان کی حمایت حاصل ہے۔
پاک ایران بارڈر پر بھی کبھی دہشت گردی کے اکادکا واقعات وقوع پذیر ہوجاتے ہیں جس کے پیچھے فرقہ واریت اور علیحدگی پسند عناصر کا ہاتھ ہوتا ہے جنہیں بیرونی امداد حاصل ہوتی ہے۔
کسی تنازع کو حل کرنے یا پھر دہشت گردی کے واقعات کی تفتیش کے لئے دونوں ممالک کی مشترکہ ٹیم تشکیل دی جانی چاہئے تاکہ معاملے کی تہہ تک پہنچ کر ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور اِس امر کو ممکن بنایا جائے کہ ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔ سرحدی اصول و ضوابط کی جو افغان مہاجرین خلاف ورزی کریں، پاکستان کو اُسے بردباری سے نمٹنا چاہئے۔ وہ افغان جو پاکستان میں ہی پیدا ہوئے اُنہیں پاکستانی شہریت بلکہ دُہری شہرت حاصل کرنے کا حق ہونا چاہئے۔
کسی بھی افغان مہاجر کو زبردستی افغانستان نہ بھیجا جائے جب تک کہ وہ کسی جرم میں ملوث نہ پایا جائے۔
اسمگلرز بھی مختلف اقسام کے ہوتے ہیں وہ لوگ جو تھوڑی مقدار میں تیل، اشیائے خوردونوش، فرٹیلائیزرز وغیرہ تجارت کی غرض سے لاتے ہیں، اُنہیں تاجر کا درجہ دیا جانا چاہئے کیونکہ بارڈر کے دونوں جانب پھیلے بنجر علاقوں میں رہنا اور روزگار کا حصول ایک دشوار عمل ہے۔
طویل مسافت، گنی چنی آبادیوں اور روایتی طریقہ تجارت کے باعث پاکستان کو چاہئے کہ تقریباً 200 کلومیٹر ایران کے ساتھ اور 50 کلومیٹر تک افغانستان کے ساتھ اسمگلنگ کی سرگرمیوں کو تجارت کا درجہ دے۔
عرصہ دراز سے افغانستان سے گاڑیوں اور ایران سے تیل کی اسمگلنگ ایک نہایت منافع بخش کاروبار کا درجہ حاصل کرچکا ہے اور اسے روکنا ناممکنات میں سے ہے۔ ان گاڑیوں میں آتش گیر مادہ، ہتھیار اور خاص طور پر منشیات بھی اسمگل کی جاسکتی ہیں، یہ اسمگل شدہ تیل اور گاڑیاں تمام پاکستانی کی ضروریات پوری کررہی ہیں۔ رشوت اور جعلی دستاویزات کی فراہمی نے اس کاروبار کو پھلنے پھولنے میں خوب مدد دی ہے۔
بالکل اسی طرح ایران سے اسمگل ہونے والے تیل کے خریدار پاکستان بھر میں موجود ہیں، اس بات کو ماننے میں کوئی عار نہیں کہ ہمارا کسٹم ڈیپارٹمنٹ اور دوسری تمام ایجنسیاں مل کر بھی اس منافع بخش اسمگلنگ کو روکنے میں ناکام رہی ہیں، اس سارے سلسلے کو روکنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ قانونی طور پر درآمد شدہ تیل اور گاڑیوں پر لاگو ٹیکسز کی مد میں کمی۔ جوکہ ممکن نہیں۔
ڈیورنڈلائن کے دونوں جانب موجود دیہات اسمگلنگ میں خاص طور پر ملوث ہیں لیکن اُن سے طریقے سے نمٹا جانا چاہئے یا تو اُن کا ملک انہیں اُن کے دیہات کو اپنے ملک میں شامل کرنے پر راضی ہوجائے یا پھر اُن لوگوں پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ دونوں میں سے کس ملک سے وابستہ ہونا چاہتے ہیں اور یہ افغانستان اور پاکستان کی مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہے۔
ایران پاکستان کے ساتھ اپنے 909 کلومیٹر طویل بارڈر کو محفوظ بنانے کے لئے اس سرحد پر خاردار دیوار کھڑی کررہا ہے، پاکستان کا افغانستان کے ساتھ بارڈر تقریباً 2400 کلومیٹر طویل ہے اور اس تمام علاقے میں پاکستان نے بھی خاردار دیوار کا کام تقریباً مکمل کرلیا ہے تاکہ غیرقانونی داخلے کی روک تھام ممکن بنا سکے۔ بہرحال کوئی رکاوٹ فائدہ مند ثابت نہیں ہوگی جب تک کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مسلسل نگرانی ممکن نہ بنائی جائے۔
باہمی رضامندی سے تینوں ممالک میں ٹیکس فری زون قائم کئے جانے چاہئیں، جس سے دوطرفہ تجارت کو بڑی حد تک فائدہ پہنچے گا، خاص طور پر امریکا کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کے بعد۔
ہم نے ایران کے ساتھ قانونی تجارت کا ایک تحریری خاکہ تیار کرلیا ہے جسے جلد حتمی شکل دے دی جائے گی جبکہ افغانستان کے ساتھ ایسے ہی ایک عدد معاہدہ کی اشد ضرورت ہے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودہ نفری کی تعداد جو بارڈر پر نقل مکانی اسمگلنگ کی روک تھام اور کاروبار سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے، انتہائی ناکافی ہے خاص طور پر افغانستان سے ملنے والے بارڈر پر جہاں ہزاروں لوگ روزمرہ کی بنیاد پر یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں آتے ہیں۔ باہمی رضامندی سے اِس نفری میں اضافہ درکار ہے تاکہ دونوں طرف کے لوگ باآسانی آ جا سکیں اور سرحدی چوکیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جانا چاہئے۔ عوامی سطح پر رابطے استوار کئے جانے چاہئیں تاکہ وہ قدیم تعلق برقرار رہے اور اُسے مزید مضبوط بنانے کی کوشش ہونی چاہئے، اس سے عوام میں خوشحالی آئے گی۔
معاشی ترقی کے لئے تجارت کا فروغ کتنا ضروری ہے اس بات سے کوئی مفکر نہیں پر یہ سارا سلسلہ اُس وقت کھٹائی میں پڑ جاتا ہے جب انتظامی مشکلات کے باعث بارڈرز پر سامان کی ترسیل میں رکاوٹ آتی ہے۔
پرانے طرز اور افسر شاہی کی طرف سے لاگو غیرضروری اقدامات جو کہ کسٹم کے ادارے کی مرہون منت ہیں تجارت اور اُس کی ترقی کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
بارڈر پر تجارت کے مراحل اور سامان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ ترسیل کو سہل اور آسان بنانے کے لئے مراعات مہیا کی جانی چاہئیں۔ بائیومیٹرک سسٹم لاگو کیا جانا چاہئے تاکہ لمبے چوڑے جھنجھٹ سے بچا جاسکے۔
چین پاکستان راہداری کا معاہدہ اب ایک حقیقت کا روپ دھار چکا ہے، پاکستان اور چین دونوں ہی چاہتے ہیں کہ ایران اور افغانستان بھی اس راہداری سے فائدہ اٹھا کر اپنی تجارت کو بہتر بنائیں۔ اس سلسلے میں ایک آسان، کارآمد لائحہ عمل تجویز کرنے کی ضرورت ہے جسے لاگو کرکے تمام ممالک اپنی اپنی تجارت کو نئی جہت دے سکیں گے۔
اختتام
آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر ہم ان خطوط پر گامزن رہے اور بیرونی طاقتوں کی اپنے خلاف کی جانے والے ہر سازش کو ناکام بنانے میں کامیاب رہے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان، ایران اور افغانستان مل کر ”کامن ویلتھ آف خراسان“ ریاست ہائے متحدہ خراسان کی بنیاد رکھ رہے ہوں گے لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم مل جل کر اپنے سرحدی مسائل کا حل نکال پائیں جیسا کہ یورپی یونین نے کیا۔