بھارتی ایجنسیاں پہلے حریت رہنماؤں اور کارکنان کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالتی تھیں، اب تاجروں اور دوسرے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بھی حراست میں لے کر ٹارچر سیلوں میں بند اور ہندوستانی جیلوں میں بھجوایا جارہا ہے، اس کا مقصد انہیں ذہنی طور پر ٹارچر کرنا اور معاشی طور پر مفلوج بنانا ہے تاکہ انہیں جدوجہد آزادی کشمیر سے پیچھے ہٹایا جاسکے
حبیب اللہ قمر
بھارت میں بی جے پی سرکار کی طرف سے ان دنوں مقبوضہ کشمیر میں تاجروں و صنعتکاروں کو معاشی طور پر برباد کرنے کی خوفناک سازشیں کی جارہی ہیں۔ ہندوستانی ایجنسی این آئی اے کے بعد محکمہ انکم ٹیکس کے انویسٹی گیشن ونگ کی جانب سے بھی تاجروں کے گھروں پر چھاپے مارے جارہے اور انہیں ہراساں کیا جارہا ہے۔ حالیہ دنوں میں درجنوں کی تعداد میں کشمیری تاجروں کی رہائش گاہوں اور کاروباری مراکز پر چھاپے مارے گئے ہیں۔ بھارتی ایجنسیاں پہلے حریت رہنماؤں اور کارکنان کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالتی تھیں، اب تاجروں اور دوسرے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بھی حراست میں لے کر ٹارچر سیلوں میں بند اور ہندوستانی جیلوں میں بھجوایا جارہا ہے۔ اس کا مقصد انہیں ذہنی طور پر ٹارچر کرنا اور معاشی طور پر مفلوج بنانا ہے تاکہ انہیں جدوجہد آزادی کشمیر سے پیچھے ہٹایا جاسکے۔ بھارتی حکام کی ہدایات پر سرگرم کشمیریوں کی جائیدادیں بھی ضبط کی جارہی ہیں۔ تحریک آزادی میں حصہ لینے والے جن کشمیریوں کو گرفتار کیا جارہا ہے انہیں وحشیانہ ظلم و بربریت کا نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات ہیں۔ خاص طور پر ہندوستانی جیلیں کشمیریوں کے لئے بدترین اذیت گاہوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ دیکھا جائے تو اس وقت حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، وائس چیئرمین شبیر احمد شاہ اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک سمیت ڈھائی درجن سے زائد کشمیری رہنما نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں سخت مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ بنیادی انسانی ضروریات سے محرومی کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف درج جعلی مقدمات کی سماعت میں غیرضروری تاخیر کی جارہی ہے۔ نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں ہی دختران ملت جموں کشمیر کی سربراہ سیدہ آسیہ اندرابی، نعیم احمد خان، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، غلام احمد گلزار، مشتاق الاسلام، الطاف احمد شاہ، ایاز محمد اکبر، پیر سیف اللہ اور انجینئر عبدالرشید قید ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر قاسم فکتو، محمد یوسف میر، محمد یوسف فلاحی، محمد رفیق گنائی، حیات احمد بٹ، غلام قادر بٹ، محمد شفیع شریعتی، انسانی حقوق کے رہنماؤں خرم پرویز، محمد احسن اونتو، صحافی آصف سلطان اور فہد شاہ سمیت حریت کانفرنس کے رہنماؤں اور کارکنوں، نوجوانوں اور سول سوسائٹی کے ارکان سمیت ہزاروں کشمیری کالے قوانین پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں، تاہم تمام تر بھارتی مظالم کشمیری عوام کو اپنی حق پر مبنی جدوجہد آزادی کو ترک کرنے پر مجبور نہیں کرسکے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت سرکار اور فوج کے دباؤ پر کشمیری لیڈروں اور سرگرم کارکنان کو ہندوستانی جیلوں میں منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے، کچھ عرصہ قبل سیدہ آسیہ اندرابی کے شوہر اور مسلم دینی محاذ کے سربراہ ڈاکٹر محمد قاسم فکتو اور کشمیری لیڈر ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی سمیت دیگر سرگرم کشمیری قیدیوں کو رات کے اندھیرے میں سری نگر سینٹرل جیل سے جموں کی مختلف جیلوں میں بھجوا دیا گیا جہاں ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر قاسم فکتو کو تاحیات عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے اور وہ پچھلے قریباً تیس سال سے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی گزشتہ 17 برس سے قید ہیں۔ دونوں کشمیری لیڈروں کے بارے میں ریاستی کورٹ نے واضح فیصلہ دے رکھا تھا کہ انہیں وادی کشمیر سے باہر کسی جیل نہیں بھیجا جائے گا۔ یہ فیصلہ ہندوستانی سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی روشنی میں سنایا گیا تھا کہ قیدیوں کو ان کے گھروں سے قریب ترین جیلوں میں رکھا جائے تاکہ ان کے اہل خانہ اور دوسرے عزیز و اقارب کو ملاقات میں آسانی رہے لیکن بھارت سرکار اپنی ہی عدالتوں کے دیئے گئے فیصلوں کو جوتے کی نوک پر رکھتی ہے اور کسی طور پر ان پر عمل درآمد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ سری نگر کی سینٹرل جیل سے جموں کی مختلف جیلوں میں کشمیری قیدیوں کو منتقل کئے جانے پر پورے کشمیر میں زبردست احتجاج کیا گیا۔ کشمیری تنظیموں اور حریت پسند قائدین نے کشمیری قیدیوں کو وادی کشمیر سے باہر دوسری جیلوں میں بھیجے جانے کی شدید مذمت کی اور اس سلسلہ میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مہم شروع کی گئی جس پر تاریخی ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہرے کئے گئے تاہم غاصب بھارت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور وہ ابھی تک اس روش پر عمل پیرا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں نے منظم سازش کے تحت ایک رپورٹ جاری کی جس میں سری نگر سینٹرل جیل کو عسکریت پسندوں کی بھرتی کا اہم مرکز قرار دیا اور کہا گیا کہ جیل میں موجود کشمیری قیدیوں نے مبینہ طور پر متوازی انتظامی ڈھانچہ اور امیرزندان کی قیادت میں ایک مجلس شوریٰ تشکیل دے رکھی ہے۔ کشمیری تنظیموں کی جانب سے ہر نئے کشمیری مجاہد کو اسی وقت بھرتی کیا جاتا ہے جب جیل کے اندر سے اس کی باقاعدہ منظوری دی جاتی ہے۔ بھارتی ایجنسیوں کا کہنا تھا کہ کشمیر کی سب سے بڑی جیل سے متعلق تیارہ کردہ یہ رپورٹ ہندوستانی وزارت داخلہ اور ریاستی افسران کو بھیج دی گئی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ جیل کی صورتِ حال سے متعلق رپورٹ پہلے بھی بھیجی گئی اور سیکیورٹی بڑھانے اور مزید سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کی بات کی گئی تھی لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ بھارتی ٹی وی چینلز کی جانب سے جموں کشمیر میں ہندوستانی ایجنسیوں کی اس نام نہاد رپورٹ کی بنیاد پر گمراہ کن پروپیگنڈہ کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا گیا کہ کشمیری جیلوں میں موجود دیگر تمام کشمیری قیدیوں کو بھی وادی کشمیر سے باہر جیلوں میں منتقل کیا جائے اور پھر اسی جھوٹے پروپیگنڈا کی آڑ میں کئی کشمیریوں کو جموں اور بھارت کی تہاڑ اور دوسری جیلوں میں منتقل کردیا گیا۔ وادی کشمیر کی جیلوں میں بھی کشمیری قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کی داستانیں آئے دن منظرعام پر آتی رہتی ہیں تاہم اس کے باوجود کشمیریوں کو ذہنی اذیت سے دوچار کرنے کے لئے بھارتی فوج اور ایجنسیوں کی شروع دن سے کوشش رہی ہے کہ انہیں بھارتی جیلوں میں بھجوایا جائے تاکہ آسانی سے جسمانی و ذہنی ٹارچر کا نشانہ بنایا جاسکے۔ بھارت خود کو دُنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت قرار دیتا ہے مگر بھارت میں کشمیریوں کے حقوق قطعی طور پر محفوظ نہیں اور جس طرح انڈیا میں انسانی حقوق کی پامالیاں کی جارہی ہیں پوری دُنیا میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ بھارتی جیلیں کشمیریوں کے لئے ابوغریب اور گوانتاناموبے سے بھی بدتر حیثیت رکھتی ہیں جہاں نہ تو انہیں بروقت طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور نہ ہی انہیں نماز اور قرآن پاک پڑھنے کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ یہ باتیں بھی ریکارڈ پر ہیں کہ کشمیری قیدیوں کو صبح سویرے بھجن گانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اگر وہ انکار کریں تو انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کشمیری حریت پسند لیڈروں کو جیلوں میں سلو پوائزننگ کا بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جس پر ڈاکٹر محمد قاسم، مسرت عالم بٹ اور یاسین ملک سمیت قریباً تمام کشمیری لیڈر مختلف امراض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ بھارت میں عمر قید کی سزا پانے والے ملزم 14، 15 سال بعد رہا ہوجاتے ہیں لیکن کشمیریوں کو تاحیات قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ سیدہ آسیہ اندرابی کے شوہر ڈاکٹر محمد قاسم سمیت دیگر کئی حریت رہنما اور سرگرم کشمیری ایسے ہیں جو اپنی سزائیں پوری کرنے کے باوجود جیلوں میں قید ہیں اور انہیں رہا نہیں کیا جارہا۔
کشمیری قیدیوں کو اگرچہ بھارتی حکام کی ایما پر ملکی قوانین کو پاؤں تلے روندتے ہوئے وادی کشمیر سے باہر جیلوں میں منتقل کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے تاہم بھارت سرکار تمام کشمیریوں کو ریاست سے باہر جیلوں میں بھیجنا چاہتی ہے۔ جموں کشمیر ہائیکورٹ بار اور کشمیری قوم کے ہر طبقہ نے اس کی ہمیشہ مخالفت کی ہے۔ کشمیری نوجوانوں کے عسکریت پسندی کی جانب مائل ہونے کے پیچھے بھارتی فورسز کا تشدد، ٹارچر اور ان کے ساتھ کیا جانے والا ذلت آمیز سلوک ہے۔ کشمیری قیدیوں کو ہندوستانی ایجنسیوں نے ہی تذلیل اور تشدد کا نشانہ بنا کر عسکریت پسندی کی جانب دھکیلا ہے۔ ہزاروں نوجوانوں کو ٹارچر سیلوں میں رکھا گیا اور تضحیک آمیز سلوک کا نشانہ بنایا گیا جس پر ان میں انتقامی جذبہ کی آگ بھڑکی اور وہ بھارتی فورسز کے خلاف برسرپیکار ہوئے۔ کشمیری ماہرین کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ پولیس تھانے بدترین اذیت گاہوں میں تبدیل کر دیئے گئے ہیں جو کشمیری جوانوں کو عسکریت کی راہ اپنانے پر مجبور کررہے ہیں۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ مسرت عالم بٹ، یاسین ملک اور سیدہ آسیہ اندرابی سمیت دیگر رہنماؤں پر بے بنیاد مقدمات ختم کرنے اور جیلوں میں بدترین مظالم کے حوالہ سے مضبوط آواز بلند کرے اور اس سلسلہ میں اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام فورمز پر حریت پسند کشمیری رہنماؤں پر ڈھائے جانے والے ظلم و جبر کا معاملہ اٹھایا جائے۔ اگرچہ ان سے مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے کوئی توقع نہیں رکھی جاسکتی تاہم بھارت کے غاصبانہ کردار کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنے کے لئے ایسے اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔