Thursday, May 9, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بابری مسجد۔۔ تاریخ در تاریخ کب کیا ہوا؟

ایک طویل عدالتی جدوجہد کے بعد 9 نومبر 2019ء کو سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا اور ایودھیا میں واقع بابری مسجد کے انہدام کو پوری طرح غیرقانونی بتا کر اراضی کی ملکیت اسی ہندو فریق کو سونپ دی جو مسجد کی مسماری کا ذمہ دار تھا
زاویہئ نگاہ رپورٹ
ایک طویل عدالتی جدوجہد کے بعد 9 نومبر 2019ء کو سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا اور ایودھیا میں واقع بابری مسجد کے انہدام کو پوری طرح غیرقانونی بتا کر اراضی کی ملکیت اسی ہندو فریق کو سونپ دی جو مسجد کی مسماری کا ذمہ دار تھا۔ واضح رہے کہ ایودھیا تنازع میں 30 ستمبر 2010ء کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے اپنے فیصلے میں 2.77 ایکڑ متنازع اراضی کو سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا کے درمیان برابر یعنی تین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے خلاف 14 فریقین نے عدالت میں اسپیشل پرمیشن پٹیشن (خاص اجازت عرضی) دائر کی۔ سپریم کورٹ نے 5 دسمبر 2017ء کو واضح کیا تھا کہ وہ 8 فروری سے ان درخواستوں پرسماعت شروع کرے گا۔ 5 اگست 2020ء میں حکومت ہند کی جانب سے ایودھیا میں شاندار تقریب کے دوران رام مندر تعمیر کے لئے بھومی پوجن کی گئی اور وزیراعظم نریندر مودی خود اس تقریب میں شامل ہوئے اور 40 کلو چاندی کی اینٹ سے بنیاد رکھی۔ آئیے اس موقع پر جانتے ہیں کہ ایودھیا میں سنہ 1528ء سے لے کر آج تک تاریخ در تاریخ کیا کیا ہوا؟
ایودھیا کی تاریخ
ء1528 ایودھیا میں میر باقی نے بابری مسجد کی تعمیر کرائی۔
ء 1949خفیہ طور سے بابری مسجد میں رام کی مورتی رکھ دی گئیں۔
ء 1959نرموہی اکھاڑے کی طرف سے متنازعہ مقام کے تعلق سے ٹرانسفر کی عرضی داخل کی۔
ء 1961میں یو پی سنی سنٹرل بورٹ نے بھی بابری مسجد پر قبضہ کی عرضی داخل کی۔
ء 1986متنازع مقام کو ہندو عقیدت مندگان کے لئے کھول دیا گیا۔ اسی سال بابری مسجد ایکشن کمیٹی تشکیل ہوئی۔
ء 1990لال کرشن اڈوانی نے ملک گیر رتھ یاترا کا آغاز کیا۔
ء1991 رتھ یاترا کی لہر سے بی جے پی اتر پردیش کے اقتدار میں آ گئی۔ اسی سال مندر تعمیر کے لئے ملک بھر سے اینٹیں بھیجی گئیں۔
چھ دسمبر 1992ء ایودھیا پہنچ کر ہزاروں کار سیوکوں نے بابری مسجد کو شہید کردیا۔ اس کے بعد جگہ جگہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔ پولس نے لاٹھی چار ج کیا اور فائرنگ میں کئی لوگوں کی موت ہوگئی۔ جلد بازی میں ایک عارضی رام مندر بنا دیا گیا۔ سابق وزیراعظم نرسمہا راؤ نے مسجد کی ازسرنو تعمیر کا وعدہ کیا۔
سولہ دسمبر 1992ء بابری مسجد انہدام کے لئے ذمہ دار صورتِ حال کی جانچ کے لئے ایم ایس لبراہن کمیشن تشکیل دی گئی۔
ء 1994الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں بابری مسجد انہدام کے تعلق سے مقدمہ کا آغاز ہوا۔
چار مئی 2001ء خصوصی جج ایس کے شکلا نے بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی سمیت تیرہ رہنماؤں کو سازش کے الزام سے بری کردیا۔
یکم جنوری 2002ء اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے ایک ایودھیا کمیشن کا قیام کیا جس کا مقصد تنازع کو حل کرنا اور ہندو و مسلمانوں سے بات کرنا تھا۔
یکم اپریل 2002ء ایودھیا کے متنازع مقام پر مالکانہ حق کے تعلق سے الہ آباد ہائی کورٹ کی تین ججو ں کی بنچ نے سماعت کا آغاز کیا۔
پانچ مارچ 2003ء الہ آباد ہائی کورٹ نے محکمہ آثار قدیمہ کو کھدائی کرنے کا حکم دیا تاکہ مندر یا مسجد کے حوالے سے ثبوت مل سکیں۔
بائیس اگست 2003ء محکمہ آثار قدیمہ نے ایودھیا میں کھدائی کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ میں رپورٹ پیش کردی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مسجد کے نیچے 10 ویں صدی کے مندر کے باقیات کا اشاروہاں ملتا ہے۔ اس رپورٹ کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے چیلنج کیا۔
ستمبر 2003ء عدالت نے فیصلہ دیا کہ مسجد انہدام کے لئے اکسانے والے 7 ہندو رہنماؤں کو پیشی پر بلایا جائے۔
جولائی 2009ء لبراہن کمیشن نے کمیشن تشکیل کے 17 سال بعد وزیراعظم منموہن سنگھ کو اپنی رپورٹ سونپی۔
چھبیس جولائی 2010ء معاملہ کی سماعت کررہے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے فیصلہ محفوظ رکھا اور تمام فریقین سے آپسی رضامندی سے حل نکالنے کی صلاح دی۔ لیکن کوئی فریق آگے نہیں آیا۔
اٹھائیس ستمبر 2010ء سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے متنازع معاملہ میں فیصلہ دینے سے روکنے والی عرضی خارج کردی جس کے بعد فیصلہ کی راہ ہموار ہوئی۔
تیس ستمبر 2010ء الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے تاریخی فیصلہ سنایا، جس کے تحت متنازع زمین کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ایک حصہ رام مندر، دوسرا سنی وقف بورڈ اور تیسرا نرموہی اکھاڑے کو دے دیا۔
نو مئی 2011ء سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی۔
اکیس مارچ 2017ء سپریم کورٹ نے معاملہ کو آپسی رضامندی سے حل کرنے کی صلاح دی۔
انیس اپریل 2017ء سپریم کورٹ نے بابری مسجد انہدام کے معاملے میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت بی جے پی اور آر ایس ایس کے کئی رہنماؤں کے خلاف مجرمانہ مقدمہ چلانے کا حکم سنایا۔
سولہ نومبر 2017ء ہندو گرو شر ی شری روی شنکر نے معاملہ کو حل کرنے کی کوشش شروع کی اور اس ضمن میں انہوں نے کئی فریقوں سے ملاقات بھی کی۔
فروری 2018ء باقاعدگی سے سماعت کی اپیل خارج کردی گئی۔ 8 فروری کو سنی وقف بورڈ کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل راجیو دھون نے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے پر باقاعدہ سماعت کریں لیکن بنچ نے ان کی اپیل مسترد کردیا۔
ستائیس ستمبر 2018ء ”مسجد اسلام کا لازمی جز نہیں“ معاملہ کو بڑی بینچ کے سامنے بھیجنے سے انکار۔ عدالت نے 1994ء کے اسماعیل فاروقی بنام یونین آف انڈیا معاملہ میں فیصلہ سناتے ہوئے فیصلہ سنایا تھا کہ ”مسجد اسلام کا لازمی جز نہیں“۔ اس کو چیلنج کرنے والی عرضی کو سپریم کوٹ مسترد کردیا لیکن یہ بھی واضح کیا کہ وہ فیصلہ مخصوص صورتِ حال میں زمین کو تحویل میں لینے کے لئے دیا گیا تھا اور اس کا اثر کسی دوسرے معاملہ پر نہیں ہوگا۔
انتیس اکتوبر 2018ء سپریم کورٹ نے مقدمہ کی جلد سماعت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے معاملہ کو جنوری 2019ء تک کے لئے ملتوی کردیا۔
آٹھ مارچ 2019ء سپریم کورٹ نے معاملے کو ثالثی کے لئے بھیجا۔ پینل سے 8 ہفتوں میں کارروائی ختم کرنے کو کہا گیا۔
اگست 2019ء ثالثی پینل حل تلاش کرنے میں ناکام رہا۔
یکم اگست 2019ء کو ثالثی پینل نے رپورٹ پیش کی۔
دو اگست 2019ء کو سپریم کورٹ نے کہا کہ ثالثی پینل اس کیس کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس معاملہ کی روزانہ سماعت 6 اگست 2019ء سے سپریم کورٹ میں شروع ہوئی۔
سولہ اکتوبر 2019ء سپریم کورٹ میں بابری مسجد معاملہ کی سماعت مکمل ہوئی اور فیصلہ محفوظ رکھا گیا۔
نو نومبر 2019ء سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ سنایا گیا کہ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کے لئے اراضی ٹرسٹ کو سونپ دی جائے اور حکومت اس ٹرسٹ کو تشکیل دے۔ اس کے علاوہ متبادل کے طور پر سنی وقف بورڈ کو کسی دوسرے مقام پر مسجد تعمیر کے لئے زمین دی جائے۔

مطلقہ خبریں