Saturday, July 19, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاکستان اور ترکیہ۔۔ ترقی کی دوڑ میں اتحادی

اگر آپ امن سے رہنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے جنگ کی تیاری رکھنا ہوگی، وزیراعظم شہباز شریف
پاکستان اور ترکیہ کے گہرے برادرانہ تعلقات ہیں، ہم نے پاکستان میں حالیہ سیلاب سے متاثرہ پاکستانی بھائیوں کی ہرممکن مدد کی ہے، پاک ترک میلجم منصوبے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں، دوطرفہ دفاعی تعاون پاکستان اور ترکیہ کے باہمی تعلقات کا بنیادی ستون ہے، پاکستان اور ترکیہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے متحد ہیں، رجب طیب اردوان
ڈاکٹر رابعہ خان
پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے ترکیہ کا دو روزہ دورہ کیا، اس کی دعوت ترکیہ کے صدر رجب طیب ادوان نے دی تھی۔ وزیراعظم پاکستان نے استنبول شپ یارڈ میں پاک بحریہ کے لئے چار میلجم کارویٹ جہازوں میں سے تیسرے جہاز پی این ایس خیبر کی لانچنگ تقریب میں شرکت کی اور یہاں خطاب بھی کیا۔ بعدازاں وزیراعظم پاکستان اور ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے مشترکہ پریس کانفرنس میں گفتگو کی۔ اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ یک جان دو قالب اور مثالی برادر ملک ہیں۔ پاکستان ترکیہ کے ساتھ دوطرفہ تجارت سمیت تمام شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لئے پُرعزم ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف بھی پاکستان اور ترکیہ متحد ہیں، پاکستان اور ترکیہ نے ہمیشہ ہر مشکل میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو جانی و مالی نقصان پہنچا، اس حوالے سے بھی ترکیہ نے پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پاکستان اور ترکیہ کے گہرے برادرانہ تعلقات ہیں، ہم نے پاکستان میں حالیہ سیلاب سے متاثرہ پاکستانی بھائیوں کی ہرممکن مدد کی ہے، پاک ترک میلجم منصوبے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دوطرفہ دفاعی تعاون پاکستان اور ترکیہ کے باہمی تعلقات کا بنیادی ستون ہے، پاکستان اور ترکیہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے متحد ہیں، ترکیہ کے صدر نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف زیرو ٹالیرنس پالیسی پر گامزن ہیں اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی ہرممکن مدد کریں گے، دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہماری ترجیحات میں شامل ہے، پاکستان اور ترکیہ عالمی فورمز میں یکساں موقف رکھتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے استنبول شپ یارڈ میں پاک بحریہ کے لئے چار میلجم کارویٹ جہازوں میں سے تیسرے جہاز پی این ایس خیبر کی لانچنگ تقریب سے بھی خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ اگر آپ امن سے رہنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے جنگ کی تیاری رکھنا ہوگی۔ وزیراعظم نے کہا پاکستان اور ترکیہ کے تاریخی اور برادرانہ تعلقات کے حوالے سے آج ایک اور عظیم دن ہے کیونکہ ہم پاک بحریہ کے لئے دوسرے میلجم کارویٹ خیبر کا افتتاح کررہے ہیں۔ یہ تاریخی موقع ہمیں 1920ء میں لے گیا ہے جب ترکیہ میں ہمارے بھائی اور بہن آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ برصغیر کے مسلمان ان کے حق میں مہم چلا رہے تھے اور ترک بہن بھائیوں کے لئے عطیات جمع کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح ہمارے تعلقات کی تاریخ مضبوط ہوتی گئی ہے۔ اپنے ترک بہن بھائیوں کے لئے جو بھی ہمدردانہ تعاون کیا گیا اس کو نہ صرف یاد رکھا گیا بلکہ ترکیہ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہا۔ ترکیہ زلزلے اور سیلاب کے دوران پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔ ترکیہ نے ہر عالمی فورم پر کشمیر سمیت تمام معاملات میں پاکستان کا ساتھ دینے میں ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کیا۔ پاکستان اور ترکیہ دفاعی صلاحیت کے فروغ کے لئے وسیع بنیاد پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا یہ منصوبہ بھی جارحیت کے لئے نہیں بلکہ دفاع کے لئے ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ آج دُنیا میں کشیدگی کا ماحول ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان تنازع نے دُنیا میں کئی قسم کے مسائل کھڑے کر دیئے ہیں۔ روس اور یوکرین سے گندم کی درآمد کے معاملے میں صدر اردوان کا کردار قابل ستائش ہے کیونکہ انہی کوششوں کی وجہ سے یوکرین سے گندم کی درآمد ہوئی اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک بڑے بحران سے بچ گئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کا ہمارا درآمدی بل گزشتہ برس کے دوران 25 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ وزیراعظم نے ترک سرمایہ کاروں کو توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی پیشکش کی۔ وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ وہ صدر اردوان کو تجویز دینا چاہتے ہیں کہ آئیں مل کر کاربن کے اخراج کو روکیں اور ان شعبوں میں سرمایہ کی حوصلہ افزائی کریں۔
پاکستان اور جمہوریہ ترکیہ کے تعلقات کی نوعیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ماضی میں آر سی ڈی منصوبہ بنایا گیا تھا جس کے تحت پاکستان، ایران اور ترکی کو ون بیلٹ ون روڈ کے پیٹرن پر اکٹھا کرنے کا منصوبہ تھا لیکن باوجوہ یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکا۔ سرد جنگ کے دور میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات دوستانہ ہی رہے لیکن دونوں ملکوں کی قیادت کی ترجیحات میں فرق آ گیا۔
ادھر افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا اور اس انقلاب کو بچانے کے لئے سابق سوویت یونین کی افواج افغانستان میں داخل ہوگئیں۔ پاکستان چونکہ اس انقلاب سے متاثر ہوسکتا تھا، اس لئے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی ساری توجہ افغانستان کی جانب مرکوز کردی اور امریکا اور نیٹو کیمپ میں رہ کر افغان مجاہدین کی مدد کی۔ اسی دوران ایران میں شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی حکومت ختم ہوگئی اور وہاں آیت اللہ خمینی کی رہنمائی میں انقلابی حکومت قائم ہوگئی۔
جمہوریہ ترکیہ بھی سیاسی اتار چڑھاؤ کا شکار ہوگیا، ان حالات میں آر سی ڈی کا منصوبہ کہیں بیچ میں ہی رہ گیا۔ اب چونکہ عالمی حالات تبدیل ہو رہے ہیں، پاکستان اور ترکیہ جمہوری نظام کا حصہ ہیں، ان دونوں کی ترجیحات اور اہداف بھی مشترکہ ہیں، اس لئے حالیہ برسوں میں پاکستان اور ترکیہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ ترکیہ نے کشمیر کے تنازع پر جس طرح کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا ہے، کسی دوسرے مسلم ملک نے اتنی دلیری کے ساتھ بات نہیں کی ہے۔ پاکستان میں ترکیہ کے سرمایہ کاروں نے بھاری سرمایہ کاری کررکھی ہے اور مزید سرمایہ کاری بھی آ رہی ہے۔ اسی طرح پاکستانی سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد ترکیہ میں کاروبار کررہی ہے اور وہاں کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستان اور ترکیہ تاریخی، نسلی اور ثقافتی اعتبار سے بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ دیکھا جائے تو وسط ایشیا اور پورے جنوبی ایشیا کے ساتھ پاکستان اور ترکیہ تاریخی، نسلی اور ثقافتی اعتبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان کبھی تنازع پیدا نہیں ہوا، بانی ترکیہ مصطفی کمال پاشا اور ان کے نظریے کی حامل حکومتیں ہوں یا اسلامی مائنڈسیٹ رکھنے والی حکومتیں ہوں، پاکستان اور ترکیہ کے درمیان کبھی کوئی تنازع پیدا نہیں ہوا ہے۔
آج بھی پاکستان اور ترکیہ مختلف عالمی فورمز پر ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔ ترکیہ کے یورپ کے ساتھ معاملات ہوں، شام کا تنازع ہو یا اسرائیل کے ساتھ معاملات ہوں، نیٹو کے ساتھ کوئی ایشو ہو، پاکستان نے ہمیشہ ترکیہ کے موقف کی تائید کی ہے۔ اسی طرح ترکیہ نے بھی ہر مشکل گھڑی میں پاکستان اور اس کے عوام کا ساتھ دیا ہے۔ دونوں ملکوں کے پاس ترقی کے لئے وسائل موجود ہیں۔ دونوں ملک سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی دیگر مسلم ملکوں کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں ہیں۔ پاکستان اور ترکیہ میں جمہوریت قائم ہے، اس لئے اگر پاکستان اور ترکیہ تعمیر و ترقی کے لئے مشترکہ منصوبہ بندی کریں اور اس پر عمل درآمد کا شفاف نظام بنائیں تو دونوں ملک آنے والے چند برسوں میں ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔ اس وقت دونوں ملکوں کے لئے عالمی حالات بھی سازگار ہیں، امریکا، مغربی یورپ، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان، چین اور جنوبی کوریا بھی دونوں ملکوں کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔ ایسے حالات سے دونوں ملکوں کو خصوصاً پاکستان کو بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی معیشت کو اس وقت سیاسی استحکام اور سرمائے کی اشد ضرورت ہے۔ ترکی اور عرب ممالک سرمائے کی کمی کی ضرورت کو پورا کرنے میں بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اسی طرح اگر ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوجائے تو عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات مزید بہتر ہوتے چلے جائیں گے اور پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری بڑھے گی۔ پاکستان کو ٹورسٹ ڈیسٹی نیشن بھی بننا چاہئے۔ پاکستان کے پاس تاریخ بھی موجود ہے اور تاریخی آثار بھی موجود ہیں۔ ان مقامات کے تحفظ کا مناسب بندوبست کیا جائے۔ روڈ انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر توجہ دی جائے، سیاحوں کے لئے سہولیات کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی جائے اور اس حوالے سے بے جا قسم کی پابندیاں اٹھا لی جائیں تو پاکستان سیاحت کے شعبے سے بھی اربوں ڈالر کما سکتا ہے۔ اس وقت بھارت اور بنگلہ دیش سیاحت سے بھاری زرمبادلہ کما رہے ہیں اور ان کی حکومتیں سیاحت کو مزید پُرکشش، کم خرچ، آرام دہ بنانے کے لئے بھاری سرمایہ کاری کررہی ہیں۔ پاکستان کو بھی اس حوالے سے کام کرنا چاہئے۔

مطلقہ خبریں