سی آئی ایس ایس اور آئی آئی ایس ایس کا مشترکہ ورکشاپ۔۔مشیر اسٹرٹیجک پلاننگ ڈویژن لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد احمد قدوائی کا خطاب
گزشتہ 5 عشروں سے خطے میں تزویراتی عدم استحکام کا ہدف ہے، بھارت دانستہ امن خراب کرنا چاہتا ہے، خطے کی ترقی و خوشحالی کے لئے امن ناگزیر ہے، عالمی طاقتیں چین کے باعث بھارت کی پشت پر ہیں، اوکس اور کواڈ جیسے فورم کی بھارت کو شہ افسوسناک ہے، خطے میں امن بگڑا تو عالمی عدم استحکام بھی پیدا ہوگا جنوبی ایشیا کے استحکام میں پاکستان کا کردار۔۔ تزویراتی استحکام۔۔ خطے کی ترقی و خوشحالی کیلئےناگزیر۔۔
عالمی طاقتیں چین کے باعث۔۔ بھارت کی پشت پر۔۔ 1962ء سے بھارت روایتی و ایٹمی ہتھیاروں کے حصول پر مستعد ھارت نے 2013ء میں بالاکوٹ پر چڑھائی کی پاکستانی فضائیہ نے بھارتی طیاروں کو بے بس کردیا 2 طیارے گرائے۔۔ فائٹر پائلٹ ابی نندن کو گرفتار کیا بھارتی فوج کے سربراہ اور اعلیٰ افسران بھی ہماری زد پر تھے پاکستانی سمندر میں بھارتی آبدوز کو بھی ڈٹیکٹ کرلیا گیا بھارت کی جارحیت کے باوجود پاکستان نے تحمل کا مظاہرہ کیا تناؤ کے باعث دونوں ایٹمی طاقتیں جنگ کے دہانے پر تھیں 2022ء میں بھارتی براہموس شورکوٹ کی حدود میں آگیا ایٹمی میزائل کا آ جانا غلطی نہیں بلکہ بھارتی حکمت عملی تھی۔۔!! بھارت کا یہ اقدام خطے میں محوپرواز کمرشل جہازوں کیلئے بھی خطرہ تھا پاکستان نے اس موقع پر بھی تحمل و برداشت کی پالیسی اپنائی۔۔
رپورٹ: سید زین العابدین
السلام علیکم خواتین و حضرات میں آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں، یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ سی آئی ایس ایس-آئی آئی ایس ایس کے پانچویں ورک شاپس میں تعلیمی ماہرین اور دانشوروں سے خطاب کرنے کا موقع ملا، آپ میں سے کچھ دانشور ابتدا ہی سے کسی دہائیوں سے ہمارے ساتھ ہیں، میں نے محسوس کیا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے ماہرین کا یہ پیشہ ورانہ فورم ہے جو سال بہ سال مضبوط اور مستحکم ہوتا جارہا ہے اور متحرک ہو کر احسن انداز سے ساؤتھ ایشیا کی تزویراتی استحکام میں دونوں ملکوں کے درمیان توازن پیدا کررہا ہے، یہ وقت ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی تزویراتی سیاست میں منظم طریقے سے ٹیکنالوجی اور ترقی کا کام کرتا رہے۔
اس ضمن میں میرے خیال میں اس فورم کو مستقل مزاجی اور تسلسل سے کام کرنا ہوگا۔ اس فورم کے دونوں جانب کے ارکان انتہائی قابل قدر دانشور اور ماہرین ہیں، جو کئی عشروں سے ان معاملات کو دیکھ رہے ہیں اور انتہائی ماہرانہ اور علمی تجاویز دے رہے ہیں، جن کا مطمع نظر ادارتی انداز سے ماضی اور موجودہ حالات پر رہنمائی کرنا ہے، میرے خیال میں یہ فورم آگے بڑھتا جارہا ہے۔
آئی آئی ایس ایس-سی آئی ایس ایس جیسے بین الاقوامی فورم پر مجھے پورا اعتماد ہے کہ ان کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی، مختلف نقطہ نظر کا پیش ہونا اگرچہ بعض اوقات وہ آپس میں مخالفت بھی کررہے ہوتے ہیں مگر ایک ثمرآور نتیجہ میں ان کا بنیادی کردار ہوتا ہے، نتیجہ خیز اور تزویراتی ہدف کی جانب بڑھنے میں مددگار ہے، میری دُعا ہے کہ یہ فورم مزید مضبوط سے مضبوط تر ہو کر سنہری مستقبل کے لئے مل کر کام کرے۔
میں برطانیہ کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز کے وفد کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں۔
اگر ہم ایک نظر دوڑائیں اور اپنی یادداشت پر زور دیں تو ہمیں یہ محسوس ہوگا کہ بنیادی تزویراتی حقیقت میں غیریقینی تزویراتی استحکام اور عدم استحکام میں بنیادی تبدیلی کا باعث ہے۔ فروری 2020ء لندن میں اس حوالے سے میں گزشتہ پانچ دہائیوں سے جو 1971ء کی پاک بھارت جنگ سے شروع ہوتے ہیں، نشاندہی بھی کرچکا ہوں اور مثالیں بھی دے چکا ہوں، وقت گزرنے کے ساتھ یہ دور پھر پلٹ آتا ہے، پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ساؤتھ ایشیا میں تزویراتی استحکام کو یقینی بنائے اور کسی کو اجازت نہ دے کہ تزویراتی توازن اور خطے کے امن کے لئے خطرناک ہوسکے، کسی ملک کو اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ غیرمحسوس انداز میں جنوبی ایشیا کے تزویراتی توازن کو بگاڑ سکے۔میں اس بات کو اس طرح واضح کروں گا کہ بھارت کا المیہ ہے کہ وہ چین کے خطرے کے پیش نظر خطے میں عدم توازن پیدا کرکے پاکستان کو ہدف بنا رہا ہے۔ میں ایسے سات واقعات بتا سکتا ہوں جس میں بھارت نے چین سے خطرے کا بہانہ بنا کر خطے کے تزویراتی استحکام کو نقصان پہنچایا، اس کا جائزہ لیں تو ہر عشرے میں ایسے واقعات مل جائیں گے جب متعدد انداز سے غیرمتوازن ہتھیاروں، دفاعی نظام، روایتی اور ایٹمی ہتھیاروں کے ذریعے خطے میں جارحانہ صورتِ حال پیدا کی گئی۔ ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں کے حصول کے ذریعے نفرت انگیز غیرمتوازن حکمت عملی اختیار کی گئی، ساتھ ہی ہماری بین الاقوامی سرحد کے نزدیک بھاری ہتھیاروں سے فوجی مشقیں کی گئیں، جس سے دو مواقعوں پر پاک بھارت جنگ کے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔ضرورت پڑنے پر بین الاقوامی مداخلت کے باعث شدت کم ہوئی اور پُرسکون ماحول بنا، بھارت نے ایٹمی دھماکے، بیلسٹک، کروز میزائل کے تجربات کرکے ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احمقانہ انداز سے بڑے طمطراق کے ساتھ زمینی اور فضائی فوجی کارروائی اور سرجیکل اسٹرائیک کا جھوٹا دعویٰ کیا، حالیہ برسوں میں مختلف جتھوں کو آلہ کار بنا کر عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش بھی ہوئی، اس میں کچھ اتحادی بھی شامل ہوئے جن کو عالمی قوتوں کی حمایت حاصل رہی تاکہ چین کو کنٹرول میں رکھا جاسکے۔
اسی صورتِ حال کو میں فروری 2020ء میں بھی بیان کرچکا ہوں، میں اسی کو دھراتے ہوئے گزشتہ پانچ عشرے سے بھارت کی ان کارروائیوں کا ذکر کرتا ہوں جو اس نے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے کیا، پاکستان کسی بھی نتیجے پر دھمکی یا خطرے کی پرواہ کئے بغیر اس کو بھلا نہیں سکتا۔ پاکستان ذمہ داری کے ساتھ ناحق دخل اندازی کے اس رویہ کو برداشت کرتا رہا ہے۔ ماضی میں بھی اور حالیہ دنوں میں بھی وہ ہر قیمت پر استحکام اور توازن میں بگاڑ پیدا نہیں ہونے دے گا۔
ایک مثال دیتا ہوں جو زیادہ پرانی نہیں ہے، اگر ہم اپنی یادداشت پر غور کریں 27 فروری 2019ء کو پاکستانی فضائیہ نے ترکی بہ ترکی جواب دے کر اس کی تلافی کردی کیونکہ بھارتی فضائیہ کسی خوش فہمی میں مبتلا تھی لیکن بھارتی فضائیہ کا جواب 24 گھنٹے کے اندر دے کر پاکستان نے بالاکوٹ پر اپنی بالادستی کو ثابت کیا اور بھارت کو بے حس و بے حرکت کرکے اس جسارت کی پاداش میں اس کے 2 لڑاکا طیارے کشمیر میں گرا دیئے اور ایک بھارتی فضائیہ کے پائلٹ کو گرفتار کیا، پھر اسے رہا کرکے اس کے وطن بھیج دیا جبکہ راجوڑی سینٹر میں بھارت کی سینئر قیادت بریگیڈیئر ہیڈ کوارٹر میں ہماری زد پر تھی، اسی طرح پاکستان بحریہ نے اپنے سمندری حدود سے بھارتی آبدوز کو دیکھ لیا لیکن اُسے کوئی نقصان پہنچائے بغیر واپس جانے دیا اور پھر ہیلی کاپٹر حادثے میں بھارت نے اپنے ہی 7 شہریوں کو مروایا۔ پاکستان نے واضح پیغام دیا کہ تزویراتی استحکام مقصد اور ہدف ہے جسے ہر قیمت پر برقرار رکھا جائے گا اور جواب دینے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔
بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان تزویراتی استحکام کو برقرار رکھے گا۔ میں دوبارہ کہوں کہ پاکستان قومی سلامتی اور دیرپا قومی مفادات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے تزویراتی استحکام کو امن کے لئے اہمیت دیتا ہے، مجھے یقین ہے کہ میرا پیغام سمجھ لیا گیا ہوگا۔
تقریباً 2 سے ڈھائی سال گزرے ہیں جب اس فورم کے تحت ہم مل چکے ہیں، اگر اس ورکشاپ کا خلاصہ کریں تو یہ چھوٹے سے بڑے مسائل کو اُجاگر کرنے کا مظہر ہے، ورکشاپ کے قوائد و اہداف کے اندر رہتے ہوئے اس کے اختتام پر یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ دونوں سیشن میں ساؤتھ ایشیا کے تزویراتی استحکام اور عدم استحکام کو سائنسی و سیاسی لحاظ سے واضح کیا گیا ہے، اس سے قبل افتتاحی سیشن میں آئی آئی ایس ایس کا مونوگراف ٹائٹل ایٹمی ہتھیار اور جنوبی ایشیا کا تزویراتی استحکام بڑے لگن کے ساتھ تاثر اور حقیقت کے مطابق پیش کیا گیا۔ مجھے اختلاف رائے کا حق حاصل ہے میں اس اس مونوگراف سے اختلاف کرتے ہوئے ذی وقار Mr. Antoine (Antwine) Levesques, Mr. Desmond Bowen اور Mr. John Gill جن کا علمی حوالے سے بہت کام ہے اور علمی و تعلیمی خدمات ہیں سے عرض کروں گا کہ اس پر مزید بات کریں، افتتاحی سیشن میں دو اسپیکرز نے اس پر بہت کچھ کہا تھا۔
اگر ہم دو سے ڈھائی سال پہلے کے حالات پر غور کریں تو کرونا کی وبا سے پوری دُنیا کا نظام صحت تباہ کا شکار ہوا۔ عالمی سیاست کی جوڑبندی نے اس وبا کے ذریعے دُنیا کو متحرک رکھنے سے روکے رکھا۔ عالمی طاقتوں کی مسابقت اور مقابلہ بازی نے دُنیا کو اس وبا میں دھکیل دیا تھا، متاثرہ ملکوں کی اکثر آبادی مفلوج ہوچکی تھی، یہ ہماری تاریخ کا غلط رُخ تھا۔
اہم یہ ہے کہ اس وقت یورپ کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جس سے یوکرین جنگ کا خاتمہ ہوسکے، ہم امریکا کو دیکھ چکے ہیں کہ اس نے چین کے معاملے میں تیزی سے اقدامات کئے اور ایشیا پیسفک کی وجہ سے افغانستان سے بھی نکل گیا، اس نے مشرق وسطیٰ میں بھی اپنی موجودگی کم کرلی، یوکرین جنگ سے توجہ ہٹائی گئی تو یہ پھیل سکتی ہے، کم از کم اس وقت امریکا اور چین کو مسابقت کو ختم کرنا ہوگا، اسی طرح امریکا اور روس کی بھی مسابقتی پالیسی پر نظرثانی کرنا پڑے گا، شنگھائی تعاون تنظیم کو مختلف زاویوں سے امریکا بمقابلہ چین و روس کے درمیان جاری مسابقت کو ختم کرنے میں کردار ادا کرنا ہوگا، یوکرین جنگ کے تزویراتی سیاسی اور معاشی اثرات جنوبی ایشیا پر پڑ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ عالمی طاقتوں کی مسابقت اور مقابلہ بازی کا سایہ بھی ہمارے خطے کی تزویراتی استحکام کو متاثر کررہا ہے، اوکس اور کواڈ خطے میں بھاری اسلحہ رکھنے کی حوصلہ افزائی کے بھی اثرات پڑ رہے ہیں، اس تناظر میں بھارت مغرب کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے اور رکاوٹ کے دونوں جانب اپنا کام کررہا ہے، بھارت مغرب سے تمام فوائد حاصل کررہا ہے مگر چین کے سامنے بھیگی بلی بن کر کسی تبصرے یا موقف سے گریز کرتا ہے، اب اس کی قیمت ادا کرنے کا وقت ہے، یوکرین جنگ سے متعلق بھارتی پالیسی مفادانہ ہے، اُسے مغرب سے بھی جڑے رہنا ہے جبکہ مغرب روس پر پابندیاں لگا رہا ہے، یہ سامنے کے حقائق ہیں کہ مغرب اس کھیل کو بغور دیکھ رہا ہے، یہ بھارت کے کسی کام نہیں آئے گا، ہم مودی کی پیوٹن سے ملاقات میں کی گئی تقریر سے کسی طور مرعوب نہیں ہوئے ہیں کیونکہ روس بھارت کی سفارتی دوغلی پالیسی سے بخوبی واقف ہے۔
اوکس کے لئے بھارت اور اس کے سہولت کار بہت کچھ حاصل کرچکے ہیں جسے بھارت عملی صورت دینا چاہتا ہے، بھارت مستقبل میں ایٹمی پھیلاؤ سے متعلق بھی سہولت کا خواں ہے، آسٹریلیا کے ذریعے آٹھ نیوکلیئر آبدوز 2040ء تک مکمل ہوجائے گی، اس سے جنوبی ایشیا میں دوبارہ عدم استحکام شروع ہوجائے گا کیونکہ طاقت کا کھیل دوبارہ شروع ہورہا ہے، یہ دیکھنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے کہ اس کے تزویراتی اثرات پڑیں گے، یہ پاکستان کے تزویراتی استحکام اور تحفظ کے لئے خطرہ بنے گا، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ کروڑوں پاکستانی ساؤتھ ایشیا میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے بے دھڑک اقدامات کریں گے۔ یہ دھمکی نہیں ہے بلکہ بچاؤ کے لئے اقدام ہوگا، اس کی ماضی میں مثال موجود ہے کہ بین الاقوامی اہداف پاکستان کے بغیر خطے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکے ہیں، کیونکہ پاکستان کے عدم تحفظ سے متعلق کوئی اقدام قبول نہیں ہے مگر اس کے ساتھ اور بھی مثالیں ہیں، پاکستان کبھی بھی صفوں میں عدم استحکام نہیں آنے دے گا اور بین الاقوامی برادری کی اس حوالے سے پالیسی کو تسلیم نہیں کرے گا۔
اس تناظر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بھارت کا خیال ہے کہ وہ چین کا خطرہ دکھا کر پاکستان کے خلاف خطے کا طاقتور ملک بننے کی خواہش کو عملی جامہ پہنا سکے، بھارت کی بنیادی خواہش ہے کہ وہ مغرب کی حمایت سے چین کے خلاف کھڑا ہوسکے، چین جنوبی ایشیا کے تزویراتی استحکام پر اپنی پالیسی اور حکمت عملی کا کھل کر اظہار کرچکا ہے، تاریخ سے واضح ہے کہ چین کا کارڈ کھیلا جا چکا ہے جو کہ کچھ زیادہ ہوگیا ہے، بھارت مسلسل مغرب کے ہتھیاروں سے خود کو مسلح کررہا ہے، بھارت کو ہتھیاروں کی اس دوڑ اور پھیلاؤ میں کھلی چھوٹ ہے، بدقسمتی سے تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بھارت کی عسکری طاقت کی خواہش کا ایک تسلسل ہے، 1962ء اور اس کے بعد ایٹمی ہتھیاروں پر دسترس اس کی پالیسی رہی ہے، ڈوکلام اور لداخ میں یہ دیکھا جا چکا ہے، نام نہاد عدم مداخلت اور معاہدہ جو لداخ کے معاملے میں ایک فارمولے کے تحت کیا گیا وہ 2020ء سے اس فارمولے میں ناکام چلا آ رہا ہے، اب اسے وہاں سے نکلنا ہوگا۔
میں ایک اور مسئلہ کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں، 2020ء میں لندن میں ان عناصر کی طرف نشاندہی کرچکا ہوں، ناصرف جنوبی امریکا کے تزویراتی استحکام کے لئے خطرہ ہیں بلکہ وہ گزرتے وقت کے ساتھ مزید الجھن پیدا کرسکتے ہیں اور اس کا پھیلاؤ دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، گزشتہ دو سے ڈھائی سال میں ایسے خطرات بڑھے جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے تھے، یہ یاد دلاؤں کہ بنیاد پرست ہندوتوا کو پنپنے، مہلک اور زہریلی کارروائیوں کے لئے بھارت کے تمام حلقوں کی پشت پناہی رہی، بھارتی حکومت ہندوتوا کی اس گونج کو مغرب سے چھپانا چاہتی ہے، وہ مغرب کے ساتھ مل کر بڑے پیمانے پر اپنا ایٹمی عسکری اثر پھیلانا چاہتی ہے اور بنیادپرست ایٹمی صلاحیت تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں، یہ زہریلے اقدامات ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کے لئے انتہا مہلک ہوسکتے ہیں، دراصل بھارت کے اسی ہندوتوا کی وجہ سے بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کو خطرہ ہے جو جنوبی ایشیا کے تزویراتی امن کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔
بھارتی انتہاپسند لیڈروں کو پاکستان کے خلاف زمینی کارروائی کا نشہ چڑھا ہوا ہے، فروری 2019ء میں بالاکوٹ میں ایسا ہی کچھ کیا گیا جس کے نتیجے میں دو جوہری ہتھیاروں کے حامل ملک میں ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی، پاکستان نے اس کا برجستہ اور دھماکہ خیز جواب دیا مگر تحمل بھی دکھایا جو پاکستان کے ذمہ دار ملک ہونے کی دلیل ہے۔
رواں سال مارچ میں بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا، بھارت گزشتہ تین سال سے یہی کررہا ہے، بھارتی جنتا پارٹی نے اپنی فوج کو پاکستان کی سرحد کے قریب تعینات کرکے ایٹمی براہموس میزائل سے مسلح کرکے غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، یہ حکمت عملی افقی اور عمودی دونوں سطح پر کی گئی ہے اور اپنے اہداف کو متعین کرکے کی گئی ہے، پاکستانی علاقوں میں میزائل کو چھوڑا گیا اور موقف اختیار کیا گیا کہ یہ تکنیکی غلطی سے ہوگیا۔بھارت کا مقصد بہت واضح ہے وہ پاکستانی فضائیہ کی حربی صلاحیت اور جوابی کارروائی کو آزمانا چاہتا ہے، بھارت کو میزائل نصب کرنے میں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ دونوں ملکوں کی فضا میں سات سے آٹھ منٹ میں درجنوں کمرشل جہاز فضا میں رہتے ہیں۔
میں پوری ذمہ داری اور اعتماد سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ حادثاتی طور پر نہیں ہوا بلکہ یہ بھارت کی عیاری ہے، پاکستان کی سرحد کے نزدیک ایٹمی میزائل کا نصب ہونا سیاسی لیڈر شپ کی اجازت اور اعلیٰ سطح کی عسکری قیادت کی شب و روز مشاورت اور تکنیکی تیاری کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ میزائل کو نصب کرنے والے اس کو رکھنے والا اس مشق کو کرنے پر مامور عملے کی مکمل شراکت رہی، فوری میزائل نصب کرنے میں کم از کم دس سے پندرہ فوجی افسران اس کے علاوہ 100 سے زائد افراد اور براہموس اسٹرٹیجک میزائل کا گروپ بھی شامل ہوتا ہے۔
خواتین و حضرات میں خود اسٹرٹیجک بلاسٹک اور کروز میزائل کے نصب کرنے، ترتیب بنانے، ٹیسٹ کرنے، اس کو لانچ کرنے کے لئے اپنے سپاہیوں کو سکھانے کے عمل کی بطور ڈائریکٹر جنرل اسٹرٹیجک پلاننگ ڈویژن کی حیثیت سے پندرہ سال تک تجربات کرتا رہا ہوں، تقریباً ان کی تعداد پچاس تک ہوگی۔ میں اپنے میزائل اور میزائل ٹیکنالوجی سے پوری طرح واقف ہوں، اس کی تکنیکی تیاری کے مراحل کی ترتیب جانتا ہوں، اس کو صف آرا کرنے کی مشق اور مروجہ اصول کو اختیار کئے بغیر میزائل کسی جگہ نہیں رکھا جاتا، ایٹمی صلاحیت کا حامل بلاسٹک اور کروز میزائل انتہائی جدید مشین اور تمام جزئیات کے ساتھ مروجہ اصولوں کے تحت کنٹرول کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ خود نہ پھٹ سکے، اگر اس کے لانچ کرنے میں کوئی خامی رہ گئی ہو، یہ انفنٹری رائفل کی طرح ہتھیار کی صفائی کے دوران حادثاتی طور پر نہیں چل سکتا، بھارت نے مضحکہ خیز انداز میں اس مشق کی کہانی کو حادثاتی کہا، اسے تکنیکی اور آپریشنل زبان میں مکمل فتنہ گری کہا جاسکتا ہے۔ کچے دھاگے سے تیار کیا ہوا یہ تماشا ہماری اور دُنیا کی آنکھوں کے سامنے ہوا، سنجیدہ ماہرین اس احمقانہ کہانی کو ماننے کے لئے تیار نہیں، آئی اے ایف کے افسران نے رپورٹ کیا کہ یہ غلطی نہیں بلکہ لازمی طور پر پاکستان کے خلاف ایک آپریشن کیا گیا تھا۔ میں اس بات پر زور دوں گا کہ بھارت اپنے آپ کو درست کرلے اور خاموشی کے ساتھ اس کی تلافی کرے، دونوں مواقعوں 2013ء بالاکوٹ اور 2022ء شورکوٹ کے واقعات میں پاکستان نے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا اور بھارت کے پیدا کردہ غیرذمہ دارانہ تناؤ کو بتدریج کم کیا اور اپنی توانائی کو جنوبی ایشیا کے امن پر مرکوز رکھا، پاکستان اس پر بے دھڑک اقدام بھی کرسکتا تھا، پاکستان کی بالغ نظری کو کمزوری پر محمول کرنا اور حدود سے باہر آ جانا تزویراتی استحکام کے لئے نقصان دہ ہے، حادثات کا یہ انداز عالمی برادری کو حساس بنا رہا ہے کہ وہ بھارت کے مستقبل کے آپریشن کے بارے میں غور کرے۔
تزویراتی استحکام پر کوئی بھی پاکستانی اس وقت تک بات نہیں کرتا جب تک کہ جنوبی ایشیا میں موجود اختلافات کا حل نہ ہو، جوکہ خطے کے تزویراتی استحکام سے منسلک ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے خطے میں امن و استحکام بہت مشکل ہے، یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب مقبوضہ کشمیر کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مطمئن کرکے اس کا قابل قبول حل نہیں نکلتا۔ بھارت، پاکستان اور کشمیریوں کو مطمئن ہونا ضروری ہے، بھارت اور دُنیا کشمیر سے متعلق قرارداد پر عمل کرنے میں تاخیر کرکے قتل عام کرنے کے دن کو بڑھا رہی ہے۔ یہ نسلی ریاست کی بدترین شکل ہے جس میں سیاسی انداز سے ظلم و بربریت کو چھپایا جارہا ہے، کشمیری اس کو ہمیشہ کے لئے قبول کرنے کو تیار نہیں، کشمیری اپنا خون بہا رہے ہیں، وہ انسانی جذبے کے تحت اور جبر کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں اور یہی تاریخ ہے بھارت کو بالآخر اس بات سے سبق حاصل کرنا ہوگا کہ دُنیا کی پچھلی صدی میں آزادی کی تحریک کو دبایا نہیں جا سکا تھا، جہاں تک جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام کا مسئلہ ہے یہ اختلافی مسائل کو مدبرانہ، قابل احترام اور دوراندیشی کے بغیر ممکن نہیں ہے، اس میں پاکستان کا حصہ یہ ہے کہ وہ کشمیریوں کی اخلاقی اور سیاسی مدد آزادی کی تحریک کی کامیابی تک جاری رکھے گا، اس کے تزویراتی مفاد حاصل ہوں گے۔
جنوبی ایشیا کے استحکام اور عدم استحکام کے ضابطہ کار پر کچھ مسائل کی نشاندہی اس طرح کروں گا کہ مختلف اوقات میں یہ خطرناک دہانے تک آ جاتے ہیں، یہ پاکستانی منظرنامے میں ایسا ہی ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس بھارت کا اور عالمی منظرنامہ بھی ہے، عالمی سیاست کا دباؤ اور اس کے اثرات بھی خطے پر پڑتے ہیں، اس ورکشاپس میں متعدد مرتبہ اس فورم پر اس کا اظہار کیا جا چکا ہے جو دُنیا تک پہنچانے کا اہم ذریعہ ہے، جنوبی ایشیا کے تزویراتی استحکام کی مختلف جہتیں ہیں، آج دوبارہ ہمیں موقع ملا ہے کہ اس کی جانچ کریں، جائزہ لیں صرف باتوں کی حد تک نہیں بلکہ حدف کے مطابق حکمت عملی بنائیں جس پر سیشن میں تذکرہ کیا جا چکا ہے، ہمیں اس سے آگے جا کر جائزہ لینا ہے اور ضروری اقدامات کرنے ہیں جو مستقبل میں اس مشکل تزویراتی استحکام کو لاسکیں کیونکہ خطے میں دونوں ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے پر نظر جما کے دیکھ رہی ہیں۔