Tuesday, July 22, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

مشرقی آندھی میزائل کا استعمال

نصرت مرزا

نینسی پلوسی امریکی ایوانِ عام کی اسپیکر کے دورۂ تائیوان 2 اگست 2022ء کو کرکے تمام دُنیا میں تہلکہ مچا دیا اور دُنیا کو جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔ چین نے امریکا کو اُن کے دورے سے پہلے متنبہ کیا تھا کہ اگر نینسی پلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا تو اُس کے جہاز کو تائیوان کے دارالحکومت تائی پے میں اترنے نہیں دیا جائے گا مگر چین کے سخت رویہ کو دیکھ کر امریکی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ دفاع نے اِس دورے میں یہ اعلان کرکے ابہام پیدا کیا کہ وہ ایک چین کو مانتے ہیں اور تائیوان کو ایک الگ ملک تسلیم کرنے نہیں جا رہے ہیں۔ اگرچہ اس سے پہلے امریکی صدر جوبائیڈن یہ کہہ چکے تھے کہ اگر تائیوان پر حملہ کیا گیا تو وہ اس کا دفاع کریں گے۔ چین اور امریکا کے درمیان چین کے قیام یعنی 1949ء کے بعد سے انتہائی کشیدگی کا عالم تھا۔ نینسی پلوسی امریکی اقتدار کے ایوانوں میں عہدے کے لحاظ سے تیسری بڑی طاقتور شخصیت کی مالک مانی جاتی ہیں اور وہ اصل چین کے خلاف بیان بازی کرتی رہی ہیں۔ اس وقت جب روس کا دباؤ یوکرائن پر بڑھ گیا ہے اور یورپ میں یہ بات عام طور سے کہی جارہی ہے کہ یوکرائن یہ جنگ ہار چکا ہے، جو ایک پروپیگنڈا بھی ہوسکتا ہے مگر یہ بات طے شدہ ہے کہ یوکرائن دباؤ کا شکار ہے تو یورپ کو بھی کافی مشکلات درپیش ہیں تو اس وقت نینسی پلوسی کا دورۂ تائیوان اس بات کا غماص ہے کہ امریکا یورپ میں اپنے دائرۂ اثر کو کمزور نہیں دیکھنا چاہتا، وہ ایسے حالات پیدا کررہا ہے جیسے دُنیا عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے اور جنگ مغرب اور مشرق کے درمیان ہے، اگر یورپ کو کچھ وقت مل گیا تو وہ اس بیانیہ سے صرفِ نظر کرے گا اور نیا بیانیہ کو جنم دے گا کہ امریکا کی شہنشاہیت تمام ہوئی اور اب دُنیا ہمہ قطبی بن گئی ہے، جس میں امریکا کے علاوہ چین، روس اور یورپ بھی یہ ایک طاقتور بلاک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ روس اِس یوکرائن کی جنگ کو طویل کرکے موسم سرما تک لے جانا چاہتا ہے تاکہ یورپ کو تیل و گیس کی ضرورت اِس بیانیہ کو قبول کرنے پر مجبور کردے۔ اس پر امریکا روس کو تنہا کرنے میں لگا ہوا ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے اور اس تنظیم میں موجود تضادات کو ابھار رہا ہے، دوسرے وہ روس کو ایک ظالم کے روپ میں پیش کررہا ہے اور دُنیا میں اُس کو تنہا کرنا چاہتا ہے مگر روسی وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے افریقہ کا دورہ کرکے اپنے آپ کو تنہائی سے بچایا ہے اور چوتھے چین کی روس کی مدد کو کم سے کم کرنا چاہتا ہے کیونکہ روس کا وہ تیل جس کو خریدنے کے لئے یورپ پر امریکا نے پابندی لگا دی ہے وہ چین نے خرید لیا ہے۔ نینسی پلوسی کے اس دورے نے چین کے اخراجات بڑھا دیئے، اس نے تائیوان کے دورہ پلوسی پر سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا اور اس نے فوجی مشقیں جو 2 اگست سے 6 اگست 2022ئتک جاری رہیں، اس میں اس نے اصل اسلحہ استعمال کیا اور خاص طور سے ایک جدید ہائپر سپر سونک میزائل ڈی ایف-17 استعمال کیا جو آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ تیز رفتار ہے۔ اس کے علاوہ اس نے جے-20 اسٹیلتھ لڑاکا طیاروں کی پروازیں تائیوان کے چاروں اطراف کیں اور روزنامہ ”گلوبل ٹائمز“ کے مطابق پہلی مرتبہ یہ پرواز تائیوان پر بروز جمعرات 3 اگست 2022ء کو باقاعدہ کی گئی۔ یہ مشق تائیوان کے شمالی اور جنوبی اطراف بھی کی گئی، جس ہوا نیوز ایجنسی کے مطابق یہ بحری مشقیں 3 اگست 2022ء تک جاری رہیں، جس میں اصل اسلحہ استعمال کیا گیا، اس نے نہ صرف تائیوان کے بحری بلکہ فضائی حدود کے اطراف اپنے قابو میں تھا۔ اس میں چھ میری ٹائم علاقہ جات شامل تھے۔ جہاں تک ڈی ایف-17 میزائل کی بات آئی ہے جو ڈنگ فنگ کا مخفف ہے جس کا مطلب ہے مشرقی آندھی، جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ یہ آواز سے پانچ گنا تیز رفتار اور یہ آہستہ آہستہ چلنے والے جہازوں یا طیارہ بردار جہاز کو مارنے کے کام آتا ہے اور اس کو طیارہ بردار جہاز کا قاتل بھی کہا جاتا ہے۔ نینسی پلوسی دورہ مکمل کرکے جا چکی ہیں، اب امریکا نے چین پر دباؤ بڑھانے کے لئے بی-52 بمبار طیارے جو آٹھ ایٹمی ہتھیار لے جا سکتے ہیں، بی-52 بمبار کے مقابلے کے چین کے پاس جے-20 طیارے ہیں، جو قریب قریب بی-52 بمبار طیارے کی صلاحیت کے حامل ہیں، اس کے علاوہ چین کے پاس اور بھی ہتھیار ہیں، یہ بات چین کبھی منظرعام پر نہیں لاتا، تاہم امریکا نے جنگ کے میدان کو آسٹریلیا تک پھیلا دیا ہے۔ امریکا نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک اور کانگریس کا وفد تائیوان بھیج دیا جس سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور چین نے دوبارہ فوجی مشقیں شروع کردی ہیں، اس طرح کانگریس چین کو اشتعال دلا رہے ہیں اور امریکی حکومت لیپاپوتی کرکے معاملے کو دبانے کی کوشش کررہی ہے مگر وہ امریکی منصوبے کا حصہ ہے کہ چین کو مشغول رکھا جائے۔ چینی حکام کا کہنا ہے کہ وہ فوجی مشقیں اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک تائیوان چین کا حصہ نہ بن جائے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ تائیوان سے خوفناک آوازیں سنائی دے رہی ہیں کیونکہ 1992ء کے بعد کسی امریکی بڑے عہدیدار نے تائیوان کا دورہ کیا ہے اور امریکی ایوان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے دورے کو چین نے انتہائی سنجیدہ لیا ہے اور امریکا کو متنبہ کیا کہ اُس کے اثرات بہت زیادہ خراب ہوسکتے ہیں، اس دورہ کو شدید اشتعال انگیزی قرار دیا۔ 1949ء کے بعد امریکا اور چین کے درمیان تعلقات پہلے کبھی اتنے خراب نہیں ہوئے، تائیوان کی حکومت چین کی جنگ خانہ جنگی کی شکست خوردہ حکومت ہے اور وہ اپنے آپ کو چین کا اصل وارث سمجھتی ہے اور ایک عرصہ تک وہ اقوام متحدہ میں چین کی نمائندگی کرتی رہی ہے۔ واشنگٹن تائیوان کی حکومت کی مدد چین کو کمزور کرنے اور اس پر دباؤ بڑھائے رکھنے کے لئے استعمال کرتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا کے اس سلسلے میں ارادے نیک نہیں ہیں کیونکہ چین نے بھارت کا 4 ہزار کلومیٹر کا رقبہ پر قبضہ کر رکھا ہے مگر بھارتی وزیراعظم اس پر ردعمل کا اظہار نہیں کرتے، وہ سمجھتے ہیں کہ جب چین اور امریکا کے درمیان جنگ ہوگی تو بھارت اس پر ردعمل کرے گا اور چینیوں سے یہ علاقہ ہی نہیں بلکہ پورا لداخ بھی چھین لے گا جبکہ بھارت میں ان کے علاقہ پر چینی قبضہ پر کافی بے چینی پائی جاتی ہے، لگتا ہے کہ امریکا نے بھارت کو یقین دہانی کرا رکھی ہے کہ وہ اس کی مدد اس طرح اور اس وقت کرے گا جب وہ چین پر حملہ آور ہوگا اور اسی لئے نریندر مودی نہ وزیرخارجہ جے شنکر کی سن رہا ہے اور نہ ہی فوج کے افسران کی، وہ امریکا کے وعدہ پر تکیہ کئے ہوئے ہے اور تنقید کا نشانہ بھی بن رہا ہے مگر چین کے خلاف جارحانہ اقدام سے گریز کررہا ہے۔ دوسری طرف امریکی کہتے ہیں کہ چین کا معاملہ قابل بندوبست ہے، وہ صورتِ حال کو بگڑنے نہیں دیں گے اور معاملات کو سنبھال لیں گے جبکہ نینسی پلوسی صورتِ حال کو بگاڑنے میں لگی ہوئی ہیں اور حالات کو خراب سے خراب تر کئے جارہی ہیں۔ اس کے مقابلے میں چینی کافی تنہا ہیں، ابھی تک وہ حساب کتاب اور اقتصادی ترقی کے خواب سے آگے نہیں نکلے، وہ اسٹرٹیجک معاملات کو اس طرح نہیں دیکھ پا رہے ہیں جس طرح امریکا صورتِ حال کو سمجھ کر اپنی بالادستی قائم کرنے میں لگا ہوا ہے اور روسی پہلے کام کر جاتے ہیں اور پھر سوچتے ہیں کیونکہ اُن کا سرد قوم سے تعلق ہے جو ایک پہاڑی اور غصہ کی تیز قوم ہے، اگرچہ ہنری کسنجر امریکا کو گرتی ہوئی شہنشاہیت تسلیم کرتے ہیں مگر ابھی تک وہ شہنشاہیت گری نہیں ہے، امریکی بالادستی کی جنگ زورشور سے لڑرہے ہیں، البتہ امریکا یہ سمجھتا ہے کہ چین سے اگر جنگ ہوئی تو اس کے دُنیا بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں اڈے ہیں اور کئی بحری بیڑوں کو شدید نقصان پہنچے گا، اس لئے وہ جنگ کے علاوہ چین اور روس کے خلاف ہر حربہ استعمال کرے گا مگر صورتِ حال کا جو رُخ ہے اور صف بندی کی جارہی ہے جیسا کہ سینٹ کام کے کمانڈر کا پاکستان آنا وہ اس بات کی خبر دیتا ہے کہ امریکا جنگ کی تیاری کررہا ہے اور معاملات بالآخر جنگ پر ہی جا کر منتج ہوں گے۔

مطلقہ خبریں