میر افسر امان
محمد کلیم اکبر صدیقی صاحب سے میری ملاقات 1982ء میں ہوئی جب میں اپنی ملازمت کے سلسلے میں کراچی سے ملتان تبدیل ہو کر گلگشت کالونی میں 1986ء تک مقیم رہا۔ صدیقی صاحب جماعت اسلامی کے رکن ہیں۔ انہوں نے ایک کتاب جماعت اسلامی پاکستان کے کارکن کی یادداشتیں کتاب مرتب کی ہے۔ تحفتاً میں بھیجی۔ اس کتاب میں جماعت اسلامی کے متعلق ان کے علم میں آنے والے کچھ واقعات اور کچھ رسالے ایشیا لاہور سے لے کر جماعت اسلامی کے واقعات کو بیان کئے ہیں۔ یہ کتاب ایک 1949ء واقعاتی تاریخ بن گئی ہے۔ ان کے بڑے بھائی محمد عقیل صدیقی میں جماعت اسلامی کے رکن بنے۔ ان کے بھائی محمد عقیل صدیقی کے رکن بن جانے اور جماعت اسلامی کے کاموں میں فعالیت کی وجہ سے ان کا گھر 190۔بی گلگشت کالونی ملتان جماعتی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ لکھتے ہیں کہ 1955ء میں مجھے دیکھی اور سنی باتوں کو یادداشت میں محفوظ رکھنے کی صلاحیت حاصل ہوگئی۔ 1955ء مولانا سید مودودیؒ کی رہائی کے بعد ملتان جماعت کے دفتر میں مولانا مودودیؒ سے پہلی ملاقات ہوئی۔ 1956ء کا وہ جلوس بھی یاد ہے جو آئین پاکستان کے نفاذ پر بسلسلہ تشکر جماعت نے نکالا تھا۔ شعور سنبھالتے ہی جماعت اسلامی کو گھر میں دیکھا اس لئے کہیں اور جانے کی ضرورت نہ پڑی۔ الحمداللہ 60 سال سے زیادہ اس تعلق میں گزر گئے۔ ہفتہ روزہ ایشیا لاہور جماعت اسلامی کا ترجمان رسالہ ہے۔ اس میں دو تین مرتبہ اپنی تحریریں برائے اشاعت ارسال کیں جن کو ادارہ نے باکمال مہربانی ”کارکن کی ڈائری“ کے عنوان سے شائع کیا۔ حوصلہ افزائی پر یہ سلسلہ تقریباً ایک سال سے زائد چلا۔ بہت سارے افراد نے تحریروں کی ستائش کی۔ یہ تحریریں مذکورہ رسالے کے بہت سے شماروں میں محفوظ تھیں۔ مطالعہ کے شوقین افراد کو سارے رسالے جمع کرنے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہیں۔ اس لئے ادارہ ایشیا کے شکریہ کے ساتھ تمام تحریروں کو کتابی صورتیں میں شائع کیا۔ لکھتے ہیں قرآن کے مطابق دنیا میں دو ہی جماعتیں ہیں۔ ایک حزب اللہ اوردوسری حزب شیطان۔ حزب اللہ کی زمین پر اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے مشن پر گامزن ہے جبکہ حزب شیطان، اللہ سے بغاوت پر گامزن ہے۔ مولانا مودودیؒ سے آٹھ سال کی عمر میں ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مولانا کی ملتان جیل سے رہائی کے بعد دفتر جماعت اسلامی میں ملاقات ہوئی۔ مولانا نے پیار سے نام پوچھا۔ جب میں نے نام کلیم اکبر صدیقی بتایا تو مسکرا کرکہنے لگے: بیٹا آپ کا نام پوچھا ہے۔ سارے گھر والوں کا نہیں۔ سامعین نے سن کر قہقہہ لگایا۔ احساس ہوا کہ بات کوئی مزیدار ہے۔ لکھتے ہیں جماعت اسلامی دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے قربانی کے جانوروں کی کھالیں جمع کرتے ہیں۔ الحمداللہ 55 سال سے یہ کام کررہے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ جب ملتان میں 1962ء اسٹیڈیم قلعہ کہنہ قاسم باغ میں دو روزہ اجتماع ہوا تو اس جلسہ عام کی موبائل پبلسٹی کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ لکھتے ہیں جماعت اسلامی کے رفقاء ملتان میں جامع العلوم کے نام سے ایک ایسا مدرسہ قائم کیا جس کا نصاب مولانا مودودیؒ کی منظوری سے تیار ہوا۔ اس مدرسے سے جدید تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ایک مستند عالم دین بھی تیار ہوتے ہیں۔ آج یہ ملک کا معروف ادارہ ہے۔ بہت وسیع و عریض اور پُرشکوہ عمارت میں قائم ہے۔ سیکڑوں اقامتی بچے ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ جدید رہائشی ہاسٹل موجود ہیں اور طلباء کو انتہائی معیاری کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ لکھتے ہیں صدیوں سے غلاف کعبہ مصر سے تیار ہو کر آتا تھا۔ مصر اور سعودی عرب کے تعلقات کسی وجہ سے خراب ہوئے تو سعودی عرب کے شاہ بن عبدالعزیز نے سید مودودیؒ سے رابطہ کر کے غلاف کعبہ پاکستان میں تیار کرنے کے لئے کہا۔ سید مودودیؒ کے کہنے پر ایک دین دار شخص حاجی محمد یعقوب صاحب نے لاہور میں غلاف کعبہ تیار کیا۔ عوام کے مطالبے پر پورے ملک میں غلاف کعبہ زیارت کے لئے لاہور سے پشاور اور لاہور سے کراچی تک ٹرین کی ایک بوگی میں غلاف کعبہ کو سجایا گیا۔ عوام بوگی میں ایک طرف سے داخل ہو کر زیارت کر کے دوسری طرف سے نکل جاتے۔ اس طرح غلاف کعبہ کی زیارت عوام نے کی۔ ملتان میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کی خواہش پر غلاف کعبہ کی زیارت کے لئے تاریخی قلعہ کہنہ قاسم باغ کے صدر دروازے پر غلاف کعبہ کو لٹکا کر مرد و خواتین کو زیارت کرائی گئی۔ غلاف کعبہ تیار کئے جانے کے بعد سعودی سفیر کے حوالے کرنے کے لئے عوام کے مطالبے پر ایک کمیٹی بنائی گئی۔ اس کمیٹی میں تمام علماء شریک تھے۔ طے ہوا کہ شاہی مسجد سے ایئرپورٹ تک جلوس کی شکل میں غلاف کعبہ لے جایا جائے۔ ایئرپوٹ پر ایک پُروقار تقریب کے بعد سعودی سفیر کے حوالے کیا جائے۔ لوگ باوضو ہو کر جلوس میں شریک ہوں۔ راستے میں اللہ کے ذکر اور درود سے جلوس کا استقبال کریں۔ پروگرام کے مطابق رات کو سید مودودیؒ کی صدارت میں موچی دروازہ پر جلسہ ہوا۔ لکھتے ہیں کہ میں بڑے بھائی محمد نعیم صدیقی کے ساتھ مرحوم کے ساتھ جب لاہور پہنچا تو جلسہ میں علامہ اظہر حسین زیدی خطاب کررہے تھے۔ انتطامیہ کی طرف سے چھٹی نہ ملی تو انہوں نے کہا کہ کل حکومت نے چھٹی نہیں کی۔ میں کہتا ہوں کہ کل چھٹی ہے۔ ہر غلط کام کرنے کی۔ اللہ رسولؐ کی نافرمانی کی۔ جھوٹ ملاوٹ کی۔ عریانی و فحاشی کی۔ الغرض دفتروں کی چھٹی نہیں ہے، ہر برائی کی چھٹی ہے۔ ٹرک کے ذریعے غلاف کعبہ ایئرپورٹ پہنچایا گیا۔ سید مودودیؒ نے عربی زبان میں پاکستان کو غلاف کعبہ کی تیاری کا اعزاز پر خادمین حرمین شریفین کا اپنی طرف اور پاکستانی قوم کی طرف سے شکریہ ادا کیا۔ نظامت کے فرائض کوثر نیازی نے ادا کئے۔ لکھتے ہیں کہ کوثر نیازی اور میں نے اپنی دلچسپی اور سکون قلب کے لئے اخبارات، خصوصاً روزنامہ کوہستان سے غلاف کعبہ سے متعلق تمام خبریں، فوٹو اور تفصیلات تراش کر ایک رجسٹر میں چپساں کرلیں۔ پچاس سال بعد یہ سارا ریکارڈ پروفیسر نورو جان کو پشاور ارسال کردیا تاکہ وہ اپنے تحقیقی اور تالیفی کام میں استعمال کرسکیں۔ کوثر نیازی 1964ء میں جماعت سے وابستہ رہے۔ اس نے اپنا ایک رسالہ ”شہاب“ کا اجرا کیا۔ غلاف کعبہ کے نام سے ایک ”کتابچہ“ مرتب کیا۔ مادر ملت کے الیکشن میں جماعت اسلامی کو مؤقف کی سپورٹ کے لئے ”کیا اسلامی ملک میں عورت سربراہ بن سکتی ہے“ کتابچہ مرتب کیا۔ یہ سب چیزیں جماعت اسلامی کے کارکن خریدتے رہے اور عوام میں تقسیم کرتے رہے۔ کوثر نیازی بھی اس سے مالی فائدہ اُٹھاتے رہے۔ جب وہ معاشی مفادات میں یکتا ہوگئے تو اختلافات کا سہارا لے کر حکمرانوں کی گود میں جا بیٹھے۔ لکھتے ہیں کہ مولانا سید مودودیؒ کی مقبولیت سے ڈکٹیٹر ایوب خان پریشان تھے۔ 1963ء کے لاہور کے جلسہ پر فائرنگ کرائی، ایک کارکن شہید ہوا۔ پھر جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی۔ عدالت نے اس پابندی کو ختم کیا۔ لکھتے ہیں 1964ء میں مولانا سید مودودیؒ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ لکھتے ہیں 1965ء نومبر میں سید مودودیؒ ملتان اسلامی جمعیت کے سالانہ جلسہ میں شرکت کے لئے تشریف لائے تو کاشانہ صدیقی میں سید مودودیؒ کو وضو کرانے کی سعادت انہیں حاصل ہوئی۔ مختصر یہ کہ یہ کتاب محمد کلیم اکبر صدیقی کی یادداشتوں سے بھری پڑی ہے۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں اور عام آدمیوں کو اگر جماعت اسلامی کا تعارف چاہتے ہیں تو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔