Wednesday, July 23, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

فوج کو یہ دوطرفہ جنگی مشق بھی کر گزرنی چاہئے

فوج کی جنگی مشقوں میں تقریباً ہر سال دو ایسی مشقیں بروئے عمل لائی جاتی ہیں جن کو موسم گرما کی اجتماعی مشق اور موسم سرما کی اجتماعی مشق کہا جاتا ہے، ان مشقوں کے دو مقاصد ہوتے ہیں ایک یہ کہ جنگ جب آتی ہے تو یہ نہیں دیکھتی کہ موسم گرم ہے یا سرد، لہٰذا فوج کو ہر موسم میں تیار رکھنے کے لئے یہ مشقیں کی جاتی ہیں
لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان
کالم نگاری بھی فوج کی جنگی مشقوں کی طرح ایک مشکل ایکسرسائز ہے۔ فوج کی جنگی مشقوں میں تقریباً ہر سال دو ایسی مشقیں بروئے عمل لائی جاتی ہیں جن کو موسم گرما کی اجتماعی مشق اور موسم سرما کی اجتماعی مشق کہا جاتا ہے۔ ان مشقوں کے دو مقاصد ہوتے ہیں ایک یہ کہ جنگ جب آتی ہے تو یہ نہیں دیکھتی کہ موسم گرم ہے یا سرد، لہٰذا فوج کو ہر موسم میں تیار رکھنے کے لئے یہ مشقیں کی جاتی ہیں۔ ان کا لیول مختلف ہوتا ہے، بعض اوقات کور کے لیول (بالعموم تین ڈویژن) پر ان ایکسرسائزوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ آرمی لیول کی ایکسرسائز شاذ ہی کی جاتی ہے۔ اس کی وجوہات چند درچند ہیں۔ مثلاً ایک تو ان میں زندہ ایمونیشن کا استعمال کیا جاتا ہے۔ (ڈمی ایمونیشن بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اس کا حجم کم ہوتا ہے) دوسرے ان میں مادی سازوسامان کا خرچ بھی ہوتا ہے، ٹینک، توپ خانہ، بکتربند اور دوسری ”نرم“ گاڑیاں، ڈرون، چھوٹے اسلحہ جات از قسم رائفل، لائٹ مشین گن، ہیوی مشین گن اور مارٹر وغیرہ استعمال ہوتے ہیں۔ ان کا ایمونیشن بھی خرچ ہوتا ہے، ایکسرسائز میں توڑپھوڑ ایک معمول کا عمل ہے، جن علاقوں میں یہ ایکسرسائز کی جاتی ہے ان میں دور و نزدیک آبادیاں بھی ہوتی ہیں، مزروعہ علاقوں میں فصلوں کا نقصان الگ ہوتا ہے جس کے لئے فوجی بجٹ کا ایک حصہ مختص کیا جاتا ہے۔
ان مشقوں میں زیادہ تر ”دوطرفہ مشقیں“ ہوتی ہیں یعنی اپنی ہی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ایک کو دشمن اور دوسرے کو دوست تصور کرلیا جاتا ہے، یہ ایکسرسائز بروئے عمل لانے سے پہلے اس کے حسن و قبح، مقاصد اور مقصودات وغیرہ پر بحث و مباحثہ کیا جاتا ہے۔ جس حصے کو دشمن تصور کیا جاتا ہے وہ حملہ آور فریق کے ہر وار اور اس کی ہر ٹیکٹکس کا جواب دیتا جاتا ہے جو بالعموم ”کاغذی“ ہوتا ہے، ”عملی“ نہیں اور جب یہ مشق ختم ہوجاتی ہے تو اس کے کمانڈروں اور اسٹاف افسروں کی ایک میٹنگ بلائی جاتی ہے جس میں ایک ایک کا تجزیہ کیا جاتا ہے، ریفری اور امپائر بھی ساتھ ہوتے ہیں جو غیرجانبدار ہو کر اس ایکسرسائز کے مختلف آپریشنوں پر نقد و نظر کرتے ہیں۔ دونوں فریقوں کی پلاننگ سے لے کر تکمیل تک کے تمام مراحل کی چھان بین کی جاتی ہے۔ حملہ آور کی فتح کے بعد ماپ اَپ آپریشن کی دار و گیر کے معاملات پر بھی تنقید ہوتی ہے۔
اگر یہ مشق ڈویژنل لیول کی ہو تو کورکمانڈر بھی اس کو دیکھنے آتے ہیں، ان کے ساتھ ان کا عملہ بھی ہوتا ہے۔ وہ بریفنگ اور ڈی بریفنگ کو بڑی احتیاط اور یکسوئی سے سنتے ہیں اور پھر اس پر پیشہ ورانہ تبصرہ کرتے ہیں۔ ان ایکسرسائزوں میں کورکمانڈروں کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بٹالین اور بریگیڈ کمانڈروں کی کارکردگی کیسی رہی ہے، اس کارکردگی کو بچشم خود دیکھ اور بہ گوشِ خود سن کر یہ فیصلہ بھی کرنا ہوتا ہے کہ کس بٹالین کمانڈر کو بریگیڈ کمانڈر کے رینک میں پروموشن دینی ہے، اس پروموشن میں آفیسر مذکور کا سارا عسکری بائیوڈیٹا بھی اگرچہ سامنے ہوتا ہے لیکن اس طرح کی ایکسرسائز بھی ایک اہم سنگِ میل تصور کی جاتی ہے۔
موسم گرما اور موسم سرما کی اجتماعی مشقوں کے لئے بجٹ کا خیال بھی پیشِ نظر رہتا ہے۔ بعض اوقات ان مشقوں میں جانی نقصانات بھی ہوتے ہیں، مالی نقصانات میں مادی نقصانات (از قسم چھوٹے بڑے ہتھیار اور سازوسامان وغیرہ) کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔ اگر مختلف وجوہات کی بنا پر سال کے دونوں موسموں (گرما اور سرما) میں یہ مشقیں نہ کی جا سکیں تو ایک مشق تو ضرور کی جاتی ہے، گرما اور سرما کا امتیاز روا نہیں رکھا جاتا۔ وجہ یہ ہے کہ جب حقیقی جنگ آتی ہے تو موسم سے پوچھ کر نہیں آتی۔ 1965ء کی جنگ ستمبر میں ہوئی تھی جس میں موسم معتدل تھا، 1971ء کی جنگ دسمبر میں ہوئی تھی جب موسم سرما زوروں پر تھا اور کارگل وار (یا تنازع) مئی تا جولائی میں ہوا جس میں پہاڑوں کی چوٹیاں برف پوش تھیں۔ لیکن چونکہ یہ جنگ صرف لائن آف کنٹرول پر لڑی گئی اس لئے محدود تھی۔ اس میں فضائیہ کا رول بھی محدود تھا جبکہ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں تینوں سروسوں یعنی آرمی، نیوی اور ایئرفورس کا استعمال کیا گیا۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستان کا مقابلہ ایک ایسے دشمن سے ہوتا رہا ہے جو رقبے، آبادی، وسائل اور جنگی ساز و سامان وغیرہ میں ہم سے تین چار گنا بڑا تھا، یعنی ہمارے ایک سولجر کا مقابلہ دشمن کے تین سولجر سے، ہمارے ایک ٹینک کے مقابلے میں دشمن کے تین ٹینک اور ہمارے ایک طیارے کے جواب میں دشمن کے تین طیارے ان جنگوں میں استعمال ہوئے۔
ایک اور عنصر یہ بھی تھا کہ ان جنگوں میں ہمارے غنیم کو بیرونی طاقتوں کی حمایت اور حربی اعانت حاصل تھی۔ ہندوستان ایک بڑی مارکیٹ ہے جس کے مقابلے میں پاکستان بمشکل ایک تہائی مارکیٹ ہے لیکن دنیا کی جنگی تاریخ میں 313 کا مقابلہ 1000 سے ہوتا رہا۔ لیکن 313 کو تو آسمانی مدد حاصل تھی، ہم نے جب ایک اور تین کے تناسب سے ماضی کی جنگیں لڑیں تو ان میں ”آسمانی مدد“ نہیں صرف ”روایت“ حاصل تھی اور یہ روایت ہی بالآخر ہمارے کام آئی۔ اب 1998ء سے لے کر اب تک کی ربع صدی میں ہمارے پاس جوہری طاقت تو ہے لیکن آبادی کی تقسیم بلکہ اس کی پولرائزیشن نقش بر دیوار ہے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر آئندہ ہماری جنگ اپنے روایتی دشمن سے ہوئی تو اس ”جوہری جنگ“ کا انجام کیا ہوگا۔
اکیسویں صدی میں پاک فوج نے اس تسلسل سے جنگی مشقیں منعقد نہیں کیں جو 20ویں صدی کے نصفِ آخر میں کی تھیں۔ لیکن وائے افسوس کہ اب ہمیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں ہمارے اپنے اندر ایسے دشمن موجود ہیں جو ملک کو سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے غیرمستحکم رکھنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ ہم نے مستقبل کی جنگوں کا سارا ملبہ اپنی افواج پر ڈال دیا ہے اور اس افسوس سے بھی بڑا افسوس یہ ہے کہ خود فوج نے اس ملبے کو اپنے سر پر اٹھانے کا اہتمام کرنے کی طرف پس قدمی تو شروع کی ہوئی ہے لیکن آہستہ رو ہے۔۔۔۔ مارشل لاء بے شک نہ لگایا جائے لیکن ملکی حالات کو صراطِ مستقیم پر ڈالنے کے لئے بھی تو کوئی جنگی مشق کی جائے۔ سیاسی کشمکش نے ملک کی امن و امان کی فضا کو ایک عرصے سے تار تار کر رکھا ہے۔ فوج کو اس کا نوٹس لینا چاہئے اور جو فریق غلطی پر ہو یا ملک دشمنی کا ارتکاب کر رہا ہو اس کے کرتا دھرتاؤں کو کسی ایک جگہ بٹھا کر صورتِ احوال کی سنگینی کا احساس دلانا چاہئے۔ چپ بیٹھ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ مشق یک فریقی نہیں دو فریقی ہونی چاہئے۔ فوج، پاکستان کی خارجی اور داخلی سرحدوں کی نگہبان اور محافظ ہے۔ اسے سربگریبان ہو کر سوچنا چاہئے کہ جب سیاسی حالات اس نہج پر جائیں تو زیادہ انتظار نہیں کھینچنا چاہئے۔ اگر عوام کے کسی طبقے میں فوج کے بارے میں کوئی غلط فہمی پائی جائے تو اسے دور کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔
عمران خان نے 16 جولائی 2022ء کو جس ”یوٹرن“ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ لاکھ غلط اور بے بنیاد سہی لیکن اس تاثر کو بیخ و بُن سے اکھاڑ پھینکنے کی ذمہ داری بھی تو فوج پر ہے…… لہٰذا اس ایکسرسائز کو بروئے عمل لانے میں کسی موسم گرما یا موسم سرما کا انتظار نہیں کرنا چاہئے۔

مطلقہ خبریں