بیس خدمات کے شعبوں کا کام بڑھ جاتا ہے، نسلہ ٹاور کا فیصلہ غیرمنصفانہ ہے، عدالت نے بحریہ ٹاؤن، بنی گالا سمیت دیگر پروجیکٹس کو ریگولرائز کیا، 780 گز زمین لیز تھی، 340 گز پر عدالت میں کیس چل رہا تھا، سرکاری دفاتر سے ایک نقشہ بغیر رشوت کے پاس نہیں ہوسکتا، PEC سے مل کر فریش انجینئرز کیلئے انٹرن شپ پروگرام شروع کیا ہے، 30 ہزار PEC، دس ہزار آباد نوجوان انجینئرز کو کام سیکھنے کے دوران معاوضہ ادا کرے گا، غیرقانونی تعمیرات میں بلڈرز نہیں ٹھیکیدار ملوث ہیں
سچ ٹی وی کے اینکر پرسن، معروف تجزیہ کار اور کالم نگار نصرت مرزا کا پروگرام ”سچ بات“ میں آباد کے چیئرمین محسن شیخانی سے انٹرویو
رپورٹ: سید زین العابدین
سچ ٹی وی کے اینکر پرسن، معروف تجزیہ کار اور کالم نگار نصرت مرزا نے اپنے پروگرام ”سچ بات“ میں آباد کے چیئرمین محسن شیخانی کا انٹرویو کیا، جس میں کراچی میں تعمیراتی سیکٹرز کے حوالے سے پیش آنے والے مسائل اور مشکلات کا احاطہ کیا گیا۔
نصرت مرزا: آباد بلڈرز کی سب سے بڑی تنظیم ہے، آپ کے آنے سے اس ادارے میں کیا بہتری آئی ہے؟
محسن شیخانی: اس شہر کے لئے بلکہ پورے سندھ کے لئے آپ کی خدمات سب کے سامنے ہے، میرے لئے یہ اعزاز ہے کہ آپ ہمارے بزرگ ہونے اور میرے والد صاحب کے دوست ہونے کی حیثیت سے قابل احترام ہیں، آباد کی بنیاد 1972ء میں سینیٹر مظہر صاحب، مستی خان صاحب اور دیگر لوگوں نے رکھی تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے کراچی میں تعمیراتی صنعت کی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے اس ادارے کو قائم کیا، اس زمانے میں کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور دیگر سرکاری ادارے بھی تھے، ان لوگوں نے ایک حکمت عملی ترتیب دے کر تعمیرات کا آغاز کیا، اس وقت پورے پاکستان میں آباد کے دفاتر ہیں، اسلام آباد گوادر میں آفس کھول رہے ہیں، کراچی کے ساتھ حیدرآباد اور لاہور میں موجود ہیں، آباد میں بلڈرز کے مسائل کے ساتھ عوامی شکایات جو بلڈرز کے خلاف آتی ہیں، انہیں بھی حل کیا جاتا ہے، حکومت کے ساتھ مل کر پالیسی بناتے ہیں، ٹیکس کے مسائل کو حل کروانا آباد کی رکنیت کے لئے لازم ہے کہ کمپنی رجسٹرڈ ہو، انکم ٹیکس ادا کرتی ہو، ان کے پاس کمرشل پلاٹ ہو اور تعمیراتی صنعت کے حوالے سے ان کا پس منظر ہو۔ آباد کی کوشش ہے کہ بے روزگاری ختم کرنے میں حکومت کی مدد کریں، ٹیکس کلیکشن میں اپنا حصہ ڈالیں، لوگوں کو بہتر رہائشی و کاروباری مرکز بنا کر دیں، یعنی ملک کی معیشت کو بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، ہاؤسنگ سیکٹر کے ساتھ 72 دیگر انڈسٹری منسلک ہوجاتی ہے، یعنی تعمیرات کے ساتھ 72 مختلف شعبوں کا روزگار بھی چل پڑتا ہے، کسی بھی ملک کی اکانومی مشکل میں ہو یا کساد بازاری کا سامنا ہو تو اس انڈسٹری کو چلایا جاتا ہے، گزشتہ حکومت نے بھی Covid-19 کے دوران اس سیکٹر پر خصوصی توجہ دی اور تعمیرات کے شعبے کی طرف راغب کیا، اگر تعمیرات کے شعبے پر توجہ نہیں دیں گے تو عوام کچی آبادیوں میں رہیں گے، انہیں بنیادی شہری سہولیات نہیں ملیں گی، جس سے ماحول میں خرابی پیدا ہوگی، نااُمیدی جنم لے گی اور کرائم بڑھے گا، مایوسی بڑھنے سے ملک سے محبت نہیں کریں گے کیونکہ جب خاندان محفوظ نہیں رہے گا تو وہ کیسے اس صورتِ حال کو برداشت کریں گے، اس لئے دُنیا میں یہ رحجان ہے کہ ہر شہری کو تمام بنیادی سہولیات کے ساتھ رہائش مہیا کی جائے، کم سے کم لاگت کے رہائشی یونٹس بننے چاہئیں، ہمارے ملک میں یہ رواج نہیں تھا، گزشتہ حکومت نے اس تعمیراتی سیکٹر کو صنعت کا درجہ دیا، اس دور میں ہر چیز کی قیمتیں کئی گنا بڑھنے سے تعمیراتی صنعت بھی متاثر ہوئی، جو اسٹیل ایک لاکھ روپے ٹن تھا، Covid-19 کے بعد 2 لاکھ زیادہ ہوگیا، سیمنٹ کی بوری 450 سے 850 روپے تک ہوگئی، اس پر غیریقینی ملکی سیاسی صورتِ حال سے بھی معاملات خراب ہورہے ہیں، ڈالر کا ریٹ روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہا ہے، اس منفی صورتِ حال کا اثر مارکیٹ پر پڑتا ہے، اگرچہ یہ عارضی ہے انشااللہ حالات بہتر ہونے لگیں گے، تعمیراتی سیکٹر کے چلنے سے 72 دیگر صنعتوں کو مدد ملے گی، پلمبرنگ، انجینئرز، لکڑی، بجلی کا کام کرنے والے، رنگ و روغن کرنے والے سب سے بڑھ کر فارغ التحصیل انجینئرز اور عام مزدوری کرنے والوں کو روزگار ملتا ہے، تقریباً 52 شعبے اور 20 خدمات کے شعبے کیلئے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔
نصرت مرزا: آباد میں 2500 رجسٹرڈ ممبرز ہیں، 1250 ایکٹو ہیں، بلڈرز کے خلاف جب عوام کی شکایات آتی ہیں تو آباد کس طرح متاثرین کو ریلیف فراہم کرنا ہے کیا نظام ہے؟
محسن شیخانی: آباد میں اس حوالے سے ایک کمیٹی ہے جو ان شکایات کو درج کرتا ہے، پھر اس کا ازالہ کرنے کے اقدامات کرتا ہے، آن لائن بھی شکایات وصول کی جاتی ہیں، یہاں آ کر درخواست دیں تب بھی ہم کارروائی کرتے ہیں، دونوں پارٹیوں کو بٹھا کر تصفیہ کراتے ہیں، کمیٹی کیسز کا جائزہ لے کر جس کا حق مارا گیا ہو اس کی دادرسی کرتی ہے، 70 فیصد شکایات حل ہوجاتی ہیں۔
نصرت مرزا: اس وقت پوری دُنیا کی طرح پاکستان میں بھی کساد بازاری ہے، بیرونی طاقتوں کا ہدف بھی ہے، اگرچہ ہم اس کا ذکر نہیں کرتے لیکن کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا تعمیراتی سیکٹر خطرے میں نہیں ہے؟
محسن شیخانی: خطرہ تو سر پر منڈلا رہا ہے جب آپ نے ایک یونٹ اپنے کلائنٹ کو مہنگائی کا اندازہ لگاتے ہوئے ایک کروڑ میں فروخت کردیا ہے، پہلے 3000 روپے اسکوائر فٹ تعمیرات کا خرچہ تھا، اب 5000 تک پہنچ گیا ہے، یہ بہت بڑا فرق ہے، مہنگے اور بڑے پروجیکٹس میں اتنا مسئلہ نہیں ہوتا لیکن لوئر اور لوئر مڈل کلاس کے منصوبوں میں بڑے مسائل آنے لگے ہیں، اتھارٹیز میں قوانین بنے ہوئے ہیں کہ ایسی صورتحال میں کلائنٹ کا کیا خیال رکھا جائے، کوشش ہے کہ تعمیرات کے اس بڑھتے فرق سے عام کلائنٹ متاثر نہ ہو، کم تعمیراتی منصوبے میں یہ مسئلہ زیادہ اٹھتا ہے، ہمیں بلڈرز کو بھی دیکھنا ہوتا ہے کیونکہ پھر وہ بھاگ جاتے ہیں اور لوگوں کا سرمایہ ڈوبنے کا خطرہ ہوتا ہے، ایسی صورتِ حال اس وقت ہے، ہم اداروں کے ساتھ بیٹھ کر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
نصرت مرزا: غیرقانونی تعمیرات کے خلاف آباد کا کیا کردار ہے، 80، 80 گز پر چھ چھ منزلہ عمارت بنانے والوں کو کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے، کیا یہ آباد کے دائرے کار میں نہیں ہے؟
محسن شیخانی: آباد اس میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے، یہ بلڈرز نہیں ہوتے، ٹھیکیدار وغیرہ یہ کام کرتے ہیں، ان کا کوئی دفتر نہیں ہوتا، کوئی پلاٹ خریدا وہیں تعمیر شروع کردی، باقاعدہ دفتر نہیں بناتے نہ ہی کوئی رابطے کا پتہ ہوتا ہے، نہ ہی یہ لوگ متعلقہ اداروں سے منظوری لیتے ہیں نہ ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں، جب کوئی بھی عمارت بنائی جاتی ہے تو اس کا کوڈ ڈیزائن کیا جاتا ہے، اس کا سوٹیلڈٹیٹ ہوتا ہے پھر اس کا اسٹرکچر ڈیزائن ہوتا ہے، اس اسٹرکچر پر جتنے فلور بنائے جاتے ہیں اسی حساب سے سریہ استعمال کیا جاتا ہے تاکہ وہ عمارت زلزلہ کی شدت کو برداشت کرسکے، یہ وہ تعمیرات ہیں جو چند سال کے بعد گر جاتی ہیں، بلڈرز 16 پاؤنڈ اسٹیل پر اسکوائر لگاتے ہیں، ان عمارتوں میں چھ سے سات پاؤنڈ اسٹیل کا استعمال ہوتا ہے، کوئی ادارہ ان کی جانچ پڑتال نہیں کرتا، یہ قابل مذمت و گرفت ہے کیونکہ عوام کی زندگی سے کھیلا جارہا ہے۔
نصرت مرزا: اگر غیریقینی سیاسی صورتِ حال اور کساد بازاری ہو تو عموماً بلڈرز کام کو دانستہ سست کر دیتے ہیں، اس ماحول میں جب سپریم کورٹ کا بلڈر کے خلاف فیصلہ آجائے تو اس کے کیا اثرات پڑتے ہیں؟
محسن شیخانی: اس منفی ماحول کا اثر تعمیرات کے ساتھ ہر سیکٹر پر ہوتا ہے، اس سے کیش فلو رک جاتا ہے کیونکہ سرمایہ پبلک سے آنا ہے جب لوگ بلڈرز کی پیمنٹ روک لیں گے تو مجبوراً ہمیں کام کو سست کرنا یا روکنا پڑتا ہے، اگر ڈالر 160 سے 180 اور 200 روپے ہوجائے تو ہر پراڈکٹ مہنگی ہونے لگتی ہے، آپ کوئی سودا کررہے ہیں تو وہ بھی روک دیتے ہیں، اگر کوئی بکنگ یا سودا کیا ہوا ہے تو وہ ختم ہوجاتا ہے، میں نے اسٹیل کا سودا کیا ہو اور وہ مہنگا ہوگیا ہے تو ہمیں اس کی سپلائی نہیں ملتی، اسی طرح سیمنٹ مہنگا ہوگیا ہے تو پرانے ریٹ کے مطابق نہیں ملتا۔
نصرت مرزا: جب ایک سودا آپ نے کرلیا ہے، اسٹیل خرید لیا ہے، اب صورتِ حال تبدیل ہوگئی ہے تو وہ کیسے مہنگا کرسکتا ہے، وہ تو آپ کو دینے کا پابند ہے کیا وہ قیمت بڑھا دیتا ہے؟
محسن شیخانی: جب اس پر حکومت ڈیوٹی بڑھا دے گی یا روپے کی قدر گرے گی اسٹیل باہر سے آتا ہے، اسکریپ درآمد کیا جاتا ہے، ڈالر کی قیمت بڑھنے سے اس کا اثر پڑتا ہے، 9 سے 10 ماہ پہلے اسٹیل ایک لاکھ 12 سے 10 ہزار روپے فی ٹن تھا، اس وقت 2 لاکھ 16 ہزار روپے فی ٹن ہے، سیمنٹ 450 سے 500 روپے تھا، اب 650 سے 900 روپے ہے۔
نصرت مرزا: سیمنٹ تو ہماری مقامی پراڈکٹ ہے، یہ کیوں مہنگی ہورہی ہے؟
محسن شیخانی: سیمنٹ سیکٹر والوں کا کہنا ہے کہ ہم کوئلہ باہر سے منگواتے ہیں، کوئلے کی قیمتیں بڑھنے سے پیداواری لاگت بڑھ رہی ہے اس لئے سیمنٹ مہنگا ہوتا جارہا ہے۔
نصرت مرزا: کوئلہ ہم کیوں درآمد کررہے ہیں کیا تھر کا کوئلہ استعمال نہیں کیا جارہا؟
محسن شیخانی: تھر کا کوئلہ اس معیار کا نہیں ہے جس کی ضرورت ہے، اس میں فاسفورس کی کمی ہے وہ ہیٹ پیدا نہیں کرتا جو مطلوب ہوتا ہے البتہ کوئٹہ کا کوئلہ کچھ مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے۔
نصرت مرزا: جب آپ کی ملاقات وزیراعظم اور آرمی چیف سے ہوتی ہے تو ملک کی غیریقینی سیاسی صورتِ حال کا ذکر کرتے ہیں؟
محسن شیخانی: ان مسائل کا فنانس منسٹر، وزیراعظم، صوبائی حکومتوں اور آرمی چیف آتے ہیں تو ان سے بھی ذکر کرتے ہیں، معیشت کی صورتِ حال بتاتے ہیں، مارکیٹ کے رحجان سے آگاہ کرتے ہیں، دُنیا میں سارا کاروبار Sentiment سے چلتا ہے، اگر غیریقینی ہوگی تو اس کے منفی اثررات پڑیں گے، مقامی لوگ سرمایہ کاری کریں گے تو باہر سے بھی سرمایہ آئے گا، قرضہ لے کر کسی کو سبسڈی کیسے دے سکتے ہیں، آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنا پڑیں گے، پیٹرولیم مصنوعات سے سبسڈی واپس لینا پڑے گی۔
نصرت مرزا: کیا سندھ کی صوبائی حکومت آپ کے ساتھ تعاون کرتی ہے؟
محسن شیخانی: کسی حد تک ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ تمام ادارے آؤٹ آف کنٹرول ہیں، واٹر بورڈ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، ریونیو، سب رجسٹرار ہو سوسائٹیز ہوں تمام جگہ معاملات خراب ہیں، ایک عام آدمی کوئی نقشہ پاس کروانے جائے تو رشوت دیئے بغیر کام نہیں ہوسکتا، بلڈرز کے خلاف اتنے عدالتی فیصلے آجاتے ہیں کہ وہ کام ہی نہیں کرسکتا، کوئی طریقہ کار طے نہیں ہے کہ یہ کام اس ادارے اور اس انداز سے قانونی ہوجائے۔
نصرت مرزا: یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا، اس کے اہداف تھے، اتنی خرابیاں دیکھنے کے بعد کیا محسوس کرتے ہیں؟
محسن شیخانی: جو بھی آ رہا ہے وہ اپنے مفاد کے لئے کام کررہا ہے، ملک کے مفاد میں کوئی کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اس لئے مسائل بڑھ رہے ہیں اور دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہمیں اس ملک کو ترقی یافتہ بنانا تھا لیکن ہم نے اس کا کیا حشر کردیا ہے۔
نصرت مرزا: عمران خان کے دور میں تعمیراتی صنعت کو سہارا دیا گیا، اس کے کیا مثبت اثرات پڑے؟
محسن شیخانی: عمران خان نے تعمیراتی سیکٹر کے حوالے سے جو پالیسی بنائی اس کی آئی ایم ایف سے منظوری لینے میں بہت مشکل ہمیں آئی، Covid-19 سے دو سال قبل وہ یہ کوشش کررہے تھے، انہوں نے آئی ایم ایف کو قائل کیا کہ اگر تعمیرات کے شعبے کو یہ ریلیف دیں گے تو اس سے منسلک دیگر شعبوں پر بھی مثبت اثرات پڑیں گے، انہوں نے اسے انڈسٹری کا درجہ دیا، بینکس کو متفق کیا کہ کم شرح سود پر ہاؤسنگ فنانس ہونا چاہئے اور سبسڈائز کیا۔
نصرت مرزا: فنانس کے حوالے سے ہاؤس بلڈنگ کا ادارہ تو موجود تھا کیا اُسے بند کردیا؟
محسن شیخانی: ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے پاس چھ سے ساتھ ارب روپے کا فنڈ تھا، آج کل تو چھ، چھ ارب روپے کا ایک پروجیکٹ ہوتا ہے، ان کی 50 ہزار سے ایک یا ڈیڑھ لاکھ روپے لون دینے کی استطاعت تھی جس میں اضافہ نہیں کیا گیا، وہ بھی مارکیٹ ریٹ پر لون دیتے تھے جبکہ اب تعمیراتی صنعت اپنی بڑھتی لاگت کی وجہ سے بہت مہنگی ہوگئی ہے، بڑا سرمایہ چاہئے ہوتا ہے، اُسی مناسبت سے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن نے خود کو گروم نہیں کیا، اس لئے ان کا کردار بتدریج ختم ہوتا چلا گیا۔
نصرت مرزا: نسلہ ٹاور کیوں گرا؟ اس کے متاثرین کو اب تک معاوضہ کیوں نہیں دیا گیا؟
محسن شیخانی: یہ رہائشی بلڈنگ غلط گرائی گئی، اس کو نہیں گرنا چاہئے تھا، سابق چیف جسٹس نے 14 مختلف پروجیکٹس کو گرانے کا حکم دیا تھا مگر فالواَپ وہ صرف نسلہ ٹاور کا لیتے تھے، بحریہ ٹاؤن، کانسٹی ٹیوشن ایونیو اسلام آباد، بنی گالا سمیت چار مختلف پروجیکٹس کو ریگولرائز کیا، ان پروجیکٹس میں تو بہت سی خلاف ورزی کی گئی تھی، عدالتی موقف کے مطابق نسلہ ٹاور کے 780 گز کی لیز تھی جبکہ 340 گز کی لیز نہیں تھی، سوسائٹی نے الاٹمنٹ دی تھی، کورٹ میں اس حوالے سے سندھی مسلم سوسائٹی اور کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا کیس تھا، اس کا فیصلہ کورٹ سے آ جاتا تو 340 گز کی بھی لیز ہوجاتی، یہ تعمیراتی سیکٹر کے لئے بدترین فیصلہ تھا، عوام کو بے گھر کرکے ان کی بددُعائیں لی گئیں، اللہ سے ڈرنا چاہئے۔
نصرت مرزا: کیا نسلہ ٹاور کے کیس کا نورمقدم قتل کیس سے کوئی ربط ہے کیونکہ جعفر ذاکر، عبدالقادر کے قریبی رشتہ دار تھے، ممکن ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے پیغام دیا گیا ہو؟
محسن شیخانی: اس میں اگر ان کا کوئی معاملہ تھا تو اس سے نسلہ ٹاور کے مکینوں کا کیا تعلق ہے، ان بیچاروں کو تو اب تک معاوضہ بھی نہیں ملا، اس پروجیکٹ کے اونر کا انتقال بھی ہوچکا ہے، عدالت نے وہ پراپرٹی اپنے تحویل میں لے لی ہے کہ جب یہ زمین خالی ہوگی تو متاثرین کو ملے گی، ہماری کوشش ہے کہ وہ پروجیکٹ دوبارہ تعمیر کریں جس کی مد میں کچھ معاوضہ متاثرین دے دیں تاکہ انہیں آشیانہ مل جائے، آباد کی کوشش ہے کہ یہ کام جلد از جلد ہوجائے یا پھر یہ پلاٹ بیچ دیا جائے اور متاثرین کو ان کا معاوضہ مل جائے لیکن اُس سرمائے سے ایسا فلیٹ اب ملنا ناممکن ہے، ان کا سرمایہ تو اس مہنگائی میں آدھا رہ گیا۔
نصرت مرزا: پاکستان انجینئرنگ کونسل کے تعاون سے این ای ڈی اور دیگر انجینئرنگ کی جامعات میں زیرتعلیم طلبا کے لئے کیا منصوبہ بنایا ہے؟
محسن شیخانی: ہمارے بچے انجینئرز بننے کے بعد ملازمت تلاش کرنے لگتے ہیں، انہیں جاب نہیں ملتی تو پاکستان انجینئرنگ کونسل نے ہمیں کہا کہ جب بچے تعلیم مکمل کرنے والے ہوں تو آپ لوگوں کی سائٹس پر ان سے کام لیا جائے جیسے میڈیکل کے طلبا ہاؤس جاب کرتے ہیں اس دوران طلبا کو 20 ہزار پاکستان انجینئرنگ کونسل دے 10 ہزار آباد ادا کرے تاکہ ایک سال کے دوران وہ کام کرتے ہوئے تجربہ حاصل کرلیں گے، اس طرھ وہ ایک لاکھ تک کا معاوضہ حاصل کرنے کے قابل ہوجائیں گے، جب ہاؤس جاب مکمل ہوجائے گی تو وہی ادارہ یا بلڈر اُسے ملازمت فراہم کرے گا، پاکستان انجینئرنگ کونسل اور آباد کی جانب سے یہ بڑا اقدام ہے کیونکہ اتنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اگر بچہ ملازمت حاصل نہ کرسکے جبکہ وہ ذہین بھی ہو تو مایوسی پھیلتی ہے، پاکستان انجینئرنگ کونسل اپنی ویب سائٹ پر فارغ التحصیل طلبا کی تفصیلات رکھے گا، ہم وہاں سے اپنے کام کی نوعیت کے مطابق انجینئرز کو لے لیں گے، اس منصوبے کے ذریعے بے روزگاری سے بچانا ہے۔
نصرت مرزا: کراچی میں کچھ بہت بڑے بڑے بلڈرز بھی ہیں، کیا وہ آباد کے ممبرز ہیں؟
محسن شیخانی: آپ کا اشارہ جس طرف ہے وہ ہمارے ممبر تو ہیں لیکن ان کی اپنی اجارہ داری ہے، شروع میں تو ایکٹو ممبرز تھے لیکن اب وہ اپنی اجارہ داری قائم کئے ہوئے ہیں، ان کی اپنی ایک حیثیت بن چکی ہے۔