زاویہئ نگاہ رپورٹ
بلوچستان تھنک ٹینک نیٹ ورک کے اس سیمینار میں معزز اراکین عزت مآب گورنر بلوچستان میر جان محمد جمالی صاحب، بریگیڈیئر آغا احمد گل، بریگیڈیئر ظاہر کاظمی، ڈاکٹر ظفر خان، بلوچستان تھنک ٹینک نیٹ ورک کے ارکان، معزز اسپیکرز حضرات، معزز مہمانانِ گرامی اور خواتین و حضرات کا شکرگزار ہوں کہ ا نہوں نے اپنی مصروفیات کے باوجود اس سیمینار میں شرکت کی۔
اس سے پہلے کے میں بی ٹی ٹی این کے ایک رکن کی حیثیت سے اپنی معروضات پیش کروں آپ جانتے ہیں کہ موسم کی خراب صورتِ حال کی وجہ سے ہمارا جہاز لینڈ نہیں کرسکا تھا مجبوراً ہمیں واپس کراچی لوٹناپڑا۔
میں آپ تمام مہمانوں کا اس سیمینار میں شرکت پر دل کی گہرائیوں سے شکرگزار ہوں، بلوچستان تھنک ٹینک نیٹ ورک کا یہ پہلا سیمینار ہے۔ آپ لوگ دوردراز کے علاقوں سے آکر اس مذاکراہ میں شریک ہوئے وہ قابل ستائش ہے۔
سب سے زیادہ عزت مآب گورنر بلوچستان کا شکر گزار ہوں جن کی شرکت بلوچستان تھنک ٹینک نیٹ ورک کے لئے حوصلہ افزائی کا باعث ثابت ہوگی۔
اس سیمینار میں اسپیکرز حضرات نے جس غیرمعمولی انداز سے بلوچستان کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے میں ان کا مداح بن گیا ہوں۔ انہوں نے موضوع کی گہرائی اور اس کی افادیت بہت علمی اندا ز سے واضح کی ہے۔ اس سے بلوچستان کی تزویراتی اہمیت کی بحث اور تجزیہ کرنے والوں کے لئے نئی راہ کا تعین ہوا ہے۔ یہ ایک علمی بحث اور کچھ حاصل کرنے کا دن بن چکا ہے۔
بین الاقوامی اور علاقائی حالات کے مطابق آج کا بلوچستان مختلف طاقتوں کے درمیان باہمی دلچسپی کے حصول کے حوالے سے ایک مقابلے کا میدان بنا ہوا ہے۔ اس کوتزویراتی محل وقوع کی وجہ سے اسکو ایک مرکز کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، جس کے مدار کے گرد علاقائی سیاست گھوم رہی ہے۔ (1904ء سے 1919ء)Mackinder’s Heartland theory پیش کئے گئے نظریہ کو اگر پیش نظر رکھوں تو انہوں نے کہا تھا کہ مشرقی یورپ پر قابو پالیا جائے تو اردگرد کے تمام یورپی جزائر کے ساتھ ساتھ ایشیا اور افریقہ اس زمانے کی دُنیا کو کنٹرول کرنا ممکن ہوسکے گا۔ 100 سال پرانا یہ نظریہ آج بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اس سے قطع نظرکہ یہ نظریہ کتنا کامیاب یا ناکام رہا، تاہم یہ نظریہ ہوبہو بلوچستان کی موجودہ اہمیت کے پیش نظر اس سے مماثلت رکھتا ہے جو بھی بلوچستان پر اپنا تسلط اور قبضہ برقرار رکھے گا وہ اس کے واضح فوائد حاصل کرسکے گا کیونکہ یہ افغانستان کی راہداری پھر سینٹرل ایشیا اور پھر میکنڈر کی مرکزی دُنیا بشمول یورو ایشیا اور افریقہ پر قابو پالے گا، بلوچستان کی علاقائی گریٹ گیم میں اہمیت اس طرح بھی واضح ہوتی ہے کہ وہ دو خطوں کو ملا تا ہے اور ان کو گرم پانی بحیرہ عرب اور بحرِ ہند تک رسائی دیتا ہے۔
جیسا کہ بریگیڈیئر احمد گل نے اپنے ابتدائی خطاب میں کہا کہ بلوچستان ناصرف پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے بلکہ یہ تزویراتی محل وقوع کی وجہ سے اہم خطہ ہے، نہایت ہی اعلیٰ مدبروں نے اپنے خطاب میں بلوچستان کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے یہ بتایا کہ بلوچستان اپنے معاشی اہمیت اور تزویراتی خصوصیت کی بنا پر پاکستان کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے، اسی طرح یہ بلوچستان کے عوام بلکہ پورے پاکستان کے عوام کے لئے بھی بہت زیادہ فوائد لئے ہوئے ہے۔
بلوچستان پاکستان کا ایک حساس صوبہ ہے کیونکہ اس کی وسیع سرحدیں ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں جو پاکستان کی مغربی سرحد کے تحفظ اور اس کے معاشی خوشحالی کے لئے بھی اہمیت کی حامل ہے۔
ماضی کی روسی سلطنت Czar کے سربراہ پیٹر اعظم کے جانشین موجودہ دور کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور 19 ویں صدی کی برطانوی سلطنت اور 20 ویں صدی کے اوائل کے بیک وقت دو سپرطاقتیں،چین اور امریکا اور دورِحاضر کی علاقائی طاقتیں پاکستان، بھارت، ایران اور وسطی ایشیا کے ممالک اس خطہ میں یا تو اسٹرٹیجک مفادات رکھتی ہیں یا پھر معاشی، سماجی، ثقافتی اور وجوہات کی بنا پر ان کی اس خطہ میں دلچسپی ہے، ان ممالک کی ایک طویل فہرست ہے جن کے مفادات کے رُخ یا تو متصادم ہیں یا ان کے مفادات مشترک ہوجاتے ہیں۔ یہ ہی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر بین الاقوامی دانشوروں اور آج کے سیمینار میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے والے اس بات کو اُجاگر کرتے نظر آتے ہیں کہ بلوچستان اپنے تزویراتی حیثیت کی بنا پر بہت اہمیت کا حامل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بلوچستان میں وہ تمام صلاحیت موجود ہے جو خطے میں متحرک تجارت کا مزکر بن سکے اور زمین بند ملک افغانستان کو وسطی ایشیا کے ممالک سے تجارتی اور معاشی لحاظ سے جوڑ سکے۔ ساتھ ہی مشرق وسطیٰ، افریقہ، یورپ کی باہمی تجارت کو فروغ دینے کا باعث بن سکے، پاکستان کا یہ صوبہ بیک وقت پاکستان اور وسطی ایشیا کے ملکوں کے لئے تجارتی راہداری ہے جو پُرامن افغانستان اور پُرامن بلوچستان کا ضامن بھی ہوگا۔
چین کی ترقی اور بڑھتی تجارت میں بلوچستان مرکز کی حیثیت سے بین الاقوامی سیاست، مستقبل کی معیشت اور باہمی مفادات میں اہمیت کا حامل ہے، چین خطے کے ترقی یافتہ ممالک سے پاک چین اقتصادی راہداری کے ذریعے جڑنا چاہتا ہے، گوادر کی گہری بندرگاہ جس قدر پاکستان کے لئے اہم ہے اسی طرح چین کے لئے بھی ہے، ساتھ ہی بلوچستان کے لئے اتنا ہی اہمیت کا حامل ہے لیکن تعاون اور مسابقت کو مد نظر رکھتے ہوئے میں تصادم یا کسی کو آگے بڑھنے سے روکنا درست بات نہیں ہوگی البتہ مقابلے کے مثبت رحجان کی اپنی جگہ اہمیت ہے، ایسی صورت میں بین الاقوامی اور علاقائی قوتوں کو امن استحکام اور تضادات کے حل کو یقینی بنانا ہوگا، تاکہ سب کیلئے جیت اور کامیابی کا باعث بن جائے۔ یہ بات سب کو ذہن نشین کرلیناچاہئے کہ پاک چین اقتصادی راہداری خطے کی اقتصادی ترقی اور باہمی تجارتی رابطے کے لئے ناگزیر ہے اور پورے خطہ کے مفاد میں ہے کیونکہ دو خطوں کو جوڑتے ہوئے بلوچستان، ان کو گرم پانی اور بحر عرب میں پہنچ کر بحر ہند تک رسائی دیتا ہے۔
بدقسمتی سے خطے کے ممالک اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اختلافی امور کا شکار ہورہے ہیں، خصوصاً چین کی بڑھتی ہوئی تزویراتی حیثیت کو امریکا محدود کرنا چاہتا ہے، جس میں بھارت سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے۔، اسی طرح پاک چین اقتصادی راہداری ہے جس کو امریکا کی جانب سے خطرہ اور خدشات ہیں اور اسی لئے خطے میں بھارتی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش ہے، پاک چین اقتصادی راہداری کو کنٹرول کرنے کے لئے امریکا جنوبی بحر چین میں مسائل کھڑے کررہا ہے۔ ساتھ ہی آبنائے ملاکا میں بھی رکاوٹ ڈالی جارہی ہے کیونکہ دوسری سمندری راہداریوں کے بند ہونے کی صورت میں چین کے لئے آبنائے ملاکا متبادل گزر گاہ ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کی کوشش ہے کہ وہ چین کو محدود کریں جس کے لئے وہ مختلف گروپس تشکیل دے رہے ہیں مثلاً کیو یواے ڈیاور اے یوکےیوایس جیسی تنظیمیں ہیں، دوسری جانب ایشیا کے مختلف ممالک بشمول پاکستان اس تناؤ میں غیرجانبدار رہنے کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں، وہ مسابقت کے ساتھ باہمی تعاون پر یقین رکھتے ہیں، چین کو محدود رکھنے کی عالمی طاقتوں کی کوشش جاری ہے اور مستقبل میں اس میں مزید تیزی آنے کا امکان ہے۔
اس وقت مختلف خطرات درپیش ہیں کیونکہ بڑی طاقتیں اپنے ہدف کے حصول کے لئے برسرپیکار ہیں، خدشہ یہ ہے کہ کوئی بڑا المیہ رونما نہ ہوجائے۔موجودہ حالات کی بناء سرحدی تنازعات اور تحفظ کے مسائل سامنے آرہے ہیں، اگر اس حوالے سے پاکستان کی بات کریں تو بلوچستان میں یہ کام شروع ہوچکا ہے، چومکھی جنگ جاری ہے، پاکستان ان تمام مسائل پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، ہم پر دباؤ ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری سے دور ہوجائیں اسکی وجہ سے پاکستان کو اس وقت مختلف سیکورٹی مسائل کا سامنا ہے کیونکہ چین کی ترقی ”بیلٹ روڈ پہل“ اور پاک چین اقتصادی راہداری اس کی اہم وجوہات ہیں، امریکا اپنی تزویراتی پالیسی میں بظاہر میانہ روی رکھنا چاہتا ہے، تاہم بھارت کے جدید نیوکلیئر پروگرام اور بحر ہند میں اس کی بڑھتی فعالیت پاکستان کے لئے ناقابل برداشت ہے، چابہار اور بحر ہند کی بندرگاہوں کے درمیان مسابقت کا ماحول ہے، اس میں بلوچستان بڑی طاقتوں کے درمیان اہم کردار ادا کرسکتا ہے، بلوچستان کا استحکام، امن اور خوبصورتی اس ہدف میں مددگار ہیں تاہم یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ بلوچستان کو عدم استحکام کا شکار کیا جارہا ہے جو ناصرف ایک خوبصورت صوبہ تھا بلکہ امن اس صوبہ کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔
میں ایک فوجی افسر ہوں، 80 اور 90 کے عشرے کے دوران تقریباً 11 سال بلوچستان کے مختلف علاقوں میں خدمت کا موقع ملا، میں ذاتی طور پر اس بات کا اظہار کرتا ہوں کہ مختلف جگہوں پر تعیناتی کے دوران ہر لمحہ خوشگوار اور زندگی سے بھرپور رہا، میں نے کوئٹہ میں گھر بنایا، اسی طرح سبی، ژوب کے دلکش ماحول سے لطف اندوز ہونے کا متعدد مرتبہ موقع ملا، بلوچستان کی قدرتی ناہموار پہاڑی سلسلے کی خوبصورتی اپنی طرف کھینچتی ہے، یہاں پھلوں کی بہتات ہے اور اس کی مٹھاس آپ کو اپنی جانب راغب کرتی ہے، لذیذ کھانے آپ کا دل لبھاتے ہیں، زیارت کے دورہ کے دوران خوبصورت جھیلیں، ندیاں اور سب سے بڑھ کر بلوچ، پشتون اور ہزارہ کی شاندار مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوا ہوں، بلوچستان میرا پسندیدہ صوبہ ہے، میری خواہش ہے کہ میں بار بار یہاں آؤں۔
اس مرتبہ مجھے آپ لوگوں کے ساتھ بلوچستان آ کر بڑی خوشی ہوتی، تاہم موسم کی خرابی کے باعث ممکن نہ ہوسکا، اس لئے میں برقی ذرائع کا سہارا لے کر آپ سے مخاطب ہوں۔ اگرچہ یہاں کی بدحالی اور غربت نے دل کو رنجیدہ اور ہراساں کردیا ہے، ریاست نے انسانی ترقی کے مختلف شعبوں کو نظرانداز کیا ہے، جس کے باعث بلوچستان مسلسل مشکلات کا شکار ہے، اگر یہ کہا جائے کہ یہ انتہائی نظرانداز ہونے والا صوبہ ہے تو یہ غلط نہ ہوگا، یہاں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، سیاسی شعور کی بیداری کے ساتھ تمام قوتوں کو اس جانب راغب کرنا ہوگا کہ وہ عوام کی خوشحالی اور بلوچستان کی ترقی کے لئے مل کر کردار ادا کریں۔
پاکستان کو اس پر تزویراتی سیاست کے غضب ناک حملے کا موثر جواب دینا ہوگا، اس کے لئے بلوچستان کی ترقی کو فوقیت دینا ہوگی، میرے نزدیک معاشی اور سماجی ترقی کے لئے تیز رفتاری سے کام کرنا ہوگا، اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے، میں کئی عشرے سے یہ سنتا آ رہا ہوں کہ خصوصی معاشی پیکیج بلوچستان کی صوبائی حکومت کو دیا جارہا ہے، جو بلوچستان کے حق میں بہت کارآمد ثابت ہوگا، لیکن زمینی حقائق کیا ہیں، کیا ان پیکیجز کے ثمرات نظر آ رہے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ کچھ زیادہ نہیں۔
ایک طویل عرصے سے پاکستان منظم طریقے سے امن کے لئے کوشاں ہے اور تذویراتی سیاست کے محرکات کے پاکستان اور بلوچستان پر پڑنے والے اثرات کا سامنا کررہا ہے، ہمیں اس وقت صوبے کی معاشی ترقی کی شدید ضرورت ہے، پہلے ہی بہت وقت ضائع کرچکے ہیں، سماجی معاشی بہتری کے منصوبوں اور احکامات پر فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے بلکہ بلوچستان کو اس کے ثمرات فوری میسر آئیں اور مشکلات کا خاتمہ ہوسکے۔
یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ سلگتے معاملات کو فوری حل کیا جائے، پانی کی کمی کا مسئلہ ہے جس کے حل کے اقدامات ضروری ہیں کیونکہ اس کی سطح خطرے کے نشان کو چھورہی ہے، پھر مقامی آبادی اس مسئلے سے وجہ سے عدم تحفظ کا شکار ہے، تعلیم کی زبوں حالی، صحت، بے روزگاری، کمزور حکومت اور بدعنوانی کے ساتھ بلوچ بھائیوں کے شدید تحفظات ہیں، جو مزاحمت کی ایک وجہ ہے، اگر ان معاملات کو حل کرنے میں ناکام رہیں گے تو مشکلات بڑھیں گی،پہلے ہی بے چینی زیادہ ہے، مستقبل میں تحفظات اور بڑھتی بے چینی کو ختم کرنا ہے تو سیاسی اور معاشی محرومی کو ختم کرنا ہوگا۔
بیرونی طاقتیں مسلسل بڑھتے ہوئے خلا کو استعمال کررہی ہیں جو پاکستان کے مفاد کے خلاف ہے، اس میں ہم کسی کو ذمہ دار ٹھہرا کر اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔
یہ پاکستان اور اس کے ساتھ بلوچستان کے بھی مفاد میں ہے کہ ہم زیادہ قوت اور تیزی کے ساتھ کام کریں جو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کی ترقی اور بہتری کے لئے ضروری ہے، یہ صرف بلوچستان کے مفاد میں نہیں بلکہ پاکستان کے ہر خطے کے مفاد میں ہے۔
اس سے قبل کے میں اپنی گزارشات کو ختم کروں، میں بلوچستان تھنک ٹینک نیٹ ورک کو اس سیمینار کے کامیاب انعقاد پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ آج کا دن بہت معلوماتی اور کارآمد رہا، بلوچستان تھنک ٹینک نیٹ ورک نے بہت کم عرصے میں بہت زیادہ مقاصد حاصل کئے ہیں، ناصرف بلوچستان کے تعلیمی حلقوں میں اپنا ایک خاص مقام بنا لیا ہے بلکہ پورے پاکستان میں ان کی کاوشوں کا قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جس کا سہرا بریگیڈیئر احمد گل، ڈاکٹر ظفر خان اور ان کی بہترین ٹیم کو جاتا ہے۔
میں اس سیمینار میں نہایت علمی و اعلیٰ مقالات پیش کرنے والوں کا شکرگزار ہوں جن کے خطاب سے بلوچستان کے مختلف معاملات اُجاگر ہوئے اور ہمیں اس کی اہمیت سمجھنے کا موقع ملا۔ ساتھ ہی ان مہمانوں کا شکریہ جو اس میں شریک ہوئے اور ہمیں وقت دیا۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں Buitems کے وائس چانسلر فاروق صاحب کا شکریہ ادا کروں کہ انہوں نے اس کام میں بی ٹی ٹی این کا ساتھ جس قدر تعاون کیا کہ ان کی حمایت کے بغیر بی ٹی ٹی این کے لئے اس سیمینارکا انعقاد ناممکن تھا۔
آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔