ڈاکٹر توصیف احمد خان
اخباری اطلاعات کے مطابق افغانستان میں خواتین ریاستی قوانین کے باعث دباؤ کا شکار ہیں، طالبان نے گزشتہ سال کے وسط میں کابل پر قبضہ کیا تھا۔ طالبان کی حکومت خواتین کی تعلیم، ان کے روزگار کے بارے میں کسی حتمی پالیسی پر متفق نہیں ہوسکی ہے۔ اب طالبان کے سپریم رہنما ہیبت اللہ اخونزادہ نے فتویٰ دیا ہے کہ خواتین کو سر سے پاؤں تک کا برقعہ پہننا لازمی ہوگا، جو خواتین سرکاری دفاتر میں کام کرتی ہیں، انہوں نے لمبا برقعہ استعمال نہ کیا تو وہ ملازمت سے برطرف کردی جائیں گی۔ پردہ نہ کرنے والی خواتین کے محرم مرد بھی سزا کے مستحق ہوں گے۔ اس سے قبل طالبان حکومت نے خواتین کے محرم مرد کے بغیر گھر سے نکلنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ حکومت کے فیصلہ میں کہا گیا تھا کہ جو خواتین تنہا گھر سے نکلیں گی انہیں کوڑے مارے جائیں گے۔ اسی طرح افغان حکومت نے خواتین کی تنہا ڈرائیونگ کا حق بھی چھین لیا تھا۔ طالبان نے 20 سال قبل کابل پر قبضہ کیا تھا اور ملا عمر خلیفہ بن گئے تھے۔ اس زمانہ میں طالبان کی حکومت نے خواتین اور غیرمسلم افراد پر سخت پابندیاں عائد کردی تھیں۔ خواتین کے تعلیمی ادارے بند کردیئے گئے تھے، خواتین کے محرم کے بغیر گھر سے نکلنے کو سنگین جرم قرار دیا گیا تھا اور جو خواتین تنہا گھر سے نکلتی تھیں انہیں شہروں کے چوک پر کوڑے مارے جاتے تھے۔ اس طرح غیرمسلم افغان شہریوں کو ایک مخصوص لباس پہننے کا پابند کیا گیا تھا اور ان پر جزیہ (ٹیکس) عائد کردیا گیا تھا۔ خواتین اور اقلیتوں پر پابندیوں کے خلاف افغانستان میں خواتین نے اس زمانہ میں بھی تاریخی مزاحمت کی تھی اور پوری دُنیا سے افغان خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا مگر طالبان کی حکومت خواتین اور اقلیتوں کے بارے میں کسی قسم کی لچک دکھانے کو تیار نہیں تھی، یہی وجہ تھی کہ مڈل کلا س سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد نے بڑے پیمانے پر ملک چھوڑ دیا تھا، ہزاروں افراد پاکستان اور ایران میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے اور اتنی ہی تعداد میں لوگوں نے یورپی ممالک میں سیاسی پناہ لی تھی۔ اس دور کی کئی خواتین کی غمزدہ داستانوں نے یورپ اور امریکا کے میڈیا پر خوب پذیرائی حاصل کی تھی۔ پاکستان میں ملا عمر کے چاہنے والے کئی اکابرین خواتین کے حالاتِ کار کے بارے میں ان خبروں کو جھوٹ قرار دیتے تھے۔ پاکستان میں ریڈیو اور ٹی وی چینلز پر یہ ایک پسندیدہ موضوع بن گیا تھا۔جب گزشتہ برسوں میں طالبان کی فتوحات کی خبریں آنے لگیں تو عمران خان اور دائیں بازو کے رہنماؤں نے کہنا شروع کیا کہ اب والے طالبان اور 20 سال پرانے طالبان میں زمین آسمان کا فرق ہے، موجودہ طالبان تعلیم یافتہ ہیں، ان میں سے کچھ نے یورپ اور امریکا کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ہے اور یہ دور ماضی کے مقابلہ میں مختلف ہوگا۔ جب گزشتہ سال اگست میں کابل پر طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو خواتین کے تعلیمی اداروں کی بندش کی خبریں آنے لگیں۔ طالبان حکومت نے کئی ماہ بعد خواتین کے اسکول کھولنے کا اعلان کیا مگر نئی پابندیاں عائد کردی گئیں اور اچانک اسکول بند کردیئے گئے۔ اس طرح حکومت نے خواتین کی یونیورسٹیاں کھولنے کا بھی اعلان کیا مگر یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم پر پابندی لگا دی گئی۔ طلبا اور طالبات کیلئے علیحدہ کلاس روم مختص کردیئے گئے۔ خواتین کی تعلیم کیلئے مخصوص مضامین مختص کئے گئے اور ماہرین نے اس خوف کا اظہار کیا کہ طالبات پر مخصوص مضامین کی تعلیم حاصل کرنے سے سائنس کے اساتذہ کی قلت پیدا ہوجائے گی جس سے افغانستان کا تعلیمی نظام براہِ راست متاثر ہوگا۔ اب پردہ اور محرم کے بغیر خواتین کے گھروں سے نکلنے کی پابندیوں کے بعد خواتین میں پسماندگی مزید بڑھ جائے گی۔ ایک طرف تو طالبان حکومت کی خواتین کی تعلیم پر عائد سخت پابندیاں ہیں، دوسری طرف حامد کرزئی اور پھر ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومتوں میں خواتین کی تعلیم اور ان کے روزگار کے حق پر خصوصی توجہ دی گئی، تعلیم یافتہ اور برسرروزگار خواتین کی تعداد بڑھی، ان تعلیم یافتہ خواتین میں اساتذہ، وکیل، صحافی، جج، سرکاری اہلکار اور مذہبی افسران شامل تھے۔ فرانسیسی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق افغان خواتین نے طالبان حکومت کے خلاف براہ راست مزاحمت کی حکمت عملی اختیار کی ہوئی ہے، ان خواتین نے طالبان کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد مختلف شہروں میں مظاہرے کئے، ان مظاہروں کی قیادت نے طالبان کے مظالم کو آشکار کیا۔ ایک افغان شہری خاتون نے بتایا کہ ”وہ پہلے بھی طالبان کی جیل میں بند رہی تھیں مگر وہ اپنی سوچ کو ختم نہیں کرسکتیں۔“ افغانستان کے صوبہ ہرات سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے کہا کہ ”وہ طالبان کے سپریم لیڈر کے احکامات پر مجبوراً عمل کررہی ہیں تاکہ ان کے شوہر اور بھائی وغیرہ، ریاستی جبر سے محفوظ رہ سکیں۔“ اس صدی کے پہلے عشرہ میں ملا فضل اللہ نے سوات پر اپنی حکومت قائم کی تھی تو خواتین کے تعلیمی ادارے بند کردیئے گئے تھے اور گھر سے تنہا باہر نکلنے والی خواتین کو کوڑے مارے جاتے تھے۔ سوات کے ایک چوک پر ایک عورت کو کوڑے مارنے کی ویڈیو نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا مگر رجعت پسندوں نے اس ویڈیو کو جعلی قرار دینے کی ایک مہم شروع کی تھی۔ پشاور پولیس نے گزشتہ سال ویڈیو میں نظر آنے والے مرد جس کی شناخت محمد علی کے نام سے ہوئی کو گرفتار کیا تھا۔ ملزم محمد علی نے پشاور ہائیکورٹ میں ضمانت کی عرضداشت داخل کی تھی۔ گزشتہ ماہ ملزم محمد علی کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی گئی۔ نوبل انعام یافتہ سوات کی بیٹی ملالہ یوسف زئی نے اس ظلم کی داستان ”گل مکئی“ کے نام سے بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر تحریر کی تھی، یوں دُنیا ملالہ سے واقف ہوئی تھی۔ طالبان کے جنگجوؤں نے ملالہ کی جان لینے کی کوشش کی تھی مگر وہ زندہ بچ گئیں۔ طالبان کے نظریات سے متاثرہ گروہ آج تک ملالہ سے نفرت کے بیانیہ پر زور دیتا ہے۔ ملالہ نے افغانستان کی خواتین کی صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی حکومت آدھی آبادی کو ناخواندہ اور گھروں میں بند رکھنا چاہتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں افغانستان میں پھر ایک ممکنہ انسانی المیہ کے خدشہ کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی آدھی آبادی بھوک کا شکار ہوگئی ہے۔