سی ایم رضوان
وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے چین کے دو روزہ سرکاری دورے کے دوران چینی ہم منصب کے ساتھ ون آن ون اہم ملاقات کی اور چینی اسٹیٹ کونسلر اور وزیرخارجہ وانگ یی کے ساتھ بھی مشاورت کی۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں نے پاکستان اور چین کے درمیان مضبوط تجارتی اور اقتصادی تعاون پر خصوصی توجہ کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری پر تیز رفتار پیش رفت، صدر شی جن پنگ کے وژنری بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا فلیگ شپ پروجیکٹ بھی زیربحث آیا۔ دونوں فریقین نے اہم علاقائی اور بین الاقوامی امور پر بھی وسیع پیمانے پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں وزرائے خارجہ نے ملاقات میں پاک چین اقتصادی راہداری میں پیشرفت پر بھی بات چیت کی۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کا یہ پہلا دورۂ چین ہے۔ وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کا یہ دورہ پاکستان اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 71 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک یادگاری اور تہنیتی دورہ تھا۔ قبل ازیں چین کے اسٹیٹ کونسلر وانگ یی نے وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کو وزیرخارجہ کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد کا خط بھی لکھا تھا اور دونوں وزرائے خارجہ نے اس سے قبل 11 مئی کو ورچوئل میٹنگ بھی کی تھی۔ یہ دورہ دونوں فریقوں کے درمیان اعلیٰ سطحی تبادلوں کا حصہ تھا جس میں حال ہی میں چینی وزیراعظم لی کی چیانگ کی طرف سے وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کو مبارکباد کا پیغام اور 16 مئی کو دونوں وزرائے اعظم کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت بھی شامل ہے۔
اس سے قبل وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کا دورۂ امریکا بھی اس حوالے سے ایک یادگار، تاریخی اور دبنگ دورہ ثابت ہوا، جس میں بلاول بھٹو زرداری نے سابق وزیراعظم عمران خان کے دورۂ روس کا جس طرح دفاع کیا شاید عمران خان کے اپنے ترجمان بھی نہ کر پاتے۔ پاکستانی سیاست میں ایک طرف تو صورتِ حال یہ ہے کہ اگلے لمحے کا علم نہیں کہ کب اور کیسے بڑے فیصلے کا اعلان ہوجائے۔ اس تیزی سے بدلتی صورتِ حال میں سیاست دان ایک دوسرے پر الزامات بھی عائد کررہے ہیں اور سخت زبان کا استعمال بھی معمول بن گیا ہے، تاہم ایسے میں ایک ایسے ملک سے قدرے خوش آئند خبر آئی ہے جو گزشتہ چند ماہ سے خاصی تنقید کی زد میں تھا۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے امریکا کے اہم دورے پر دونوں ممالک کے تعلقات میں موجود سردمہری کو کم کرنے کی ایک کامیاب، منفرد اور یادگار کوشش کی۔ ایسے میں بلاول بھٹو سے جہاں دورے کے دوران ماضی میں ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی اقوامِ متحدہ کی تقریر کی بازگشت سنی جاتی رہی وہیں ان سے ان کی والدہ بینظیر بھٹو سے متعلق بھی سوال پوچھے گئے، تاہم سابق وزیراعظم عمران خان کے دورۂ روس سے متعلق سوال کا جواب ان کے اس دورے کا سب سے نمایاں پہلو بن گیا تھا۔
نیویارک میں جب وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری سے ایک پریس بریفنگ کے دوران پوچھا گیا کہ عمران خان کے دورۂ روس کے باعث یورپ اور امریکا میں خاصی مایوسی پائی جاتی ہے تو آپ اس سے کیسے نبردآزما ہوں گے۔ اس پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میں سابق وزیراعظم کے دورۂ روس کا دفاع کروں گا۔ انہوں نے یہ دورہ اپنی خارجہ پالیسی کے حساب سے کیا۔ کسی کی بھی چھٹی حس اتنی اچھی نہیں ہوتی، ہمیں کسی بھی صورت میں اس بارے میں علم نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ وہ وقت ہوگا جب موجودہ (روس، یوکرین) تنازع شروع ہونے جا رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے نزدیک پاکستان کو اس معصومانہ اقدام پر سزا دینا غیرمنصفانہ ہوگا، ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ جب میں پاکستان کے وزیرخارجہ کی حیثیت سے کام کرتا ہوں تو میں صرف پاکستان پیپلزپارٹی کے حمایتیوں کی نمائندگی ہی نہیں کررہا ہوتا بلکہ پورے پاکستان کے عوام کی نمائندگی کررہا ہوتا ہوں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے رواں برس فروری کے اواخر میں روس کا دورہ کیا تھا جسے سفارتی اعتبار سے نہایت اہم سمجھا جا رہا تھا تاہم ان کی روسی صدر ولادی میر پوتن سے ملاقات ایک ایسے موقع پر ہوئی جب روس کی جانب سے یوکرین پر حملہ کیا جا چکا تھا۔
بعدازاں اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے اور عمران خان کے وزیراعظم کے عہدے سے ہٹنے کے بعد سے عمران خان کی جانب سے بارہا اس دورے کا ذکر کیا جاتا رہا ہے اور ان کی جانب سے کئی دعوے بھی سامنے آئے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہیں مبینہ طور پر امریکا کی جانب سے روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی سزا دی گئی ہے۔ عمران خان اس حوالے سے امریکی سازش کا ذکر بھی پوری شدومد سے کرتے رہے ہیں لیکن بلاول بھٹو نے امریکی میڈیا کے سامنے امریکا میں بیٹھ کر ناصرف عمران خان کے دورۂ روس کو پاکستان کی ریاستی پالیسی کا حصہ قرار دیا بلکہ یہ بھی اصولی موقف اختیار کیا کہ روس کے ساتھ سفارتی تعلقات پر امریکا سمیت کسی بھی ملک کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔
سوشل میڈیا پر وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کو سابق وزیراعظم عمران خان کے بیان کا دفاع کرنے پر خاصی پذیرائی مل رہی ہے اور اکثر افراد سابق وزیراعظم عمران خان کے بیرونِ ملک دوروں کے دوران دیئے گئے بیانات کا حوالہ بھی دے رہے ہیں۔ امریکا کے دورے پر جانے کے بعد سے یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بلاول بھٹو کو اس انداز میں سابق وزیراعظم عمران خان کے کسی بیان یا اقدام کا دفاع کرنا پڑا ہو۔ اس سے قبل بھی معروف امریکی صحافی کرسٹیان نے جب ان سے عمران خان کے افغانستان کے بارے میں دیئے گئے بیان کے بارے میں پوچھا جس بیان میں عمران خان نے طالبان کے افغانستان پر قبضے کو ”غلامی کی زنجیروں سے آزادی“ سے تشبیہ دی تھی تو بلاول بھٹو نے عمران خان پر تنقید کرنے کی بجائے کہا تھا کہ ہماری توجہ مستقبل پر ہے، کیونکہ اگر ماضی کے الزامات کے بارے میں بات کی جائے تو امریکا کو بھی افغانستان کے حوالے سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
عوام الناس اس حوالے سے وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کو بڑا پن دکھانے پر ان کی تعریف کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ شاید عمران خان ان کی جگہ ہوتے تو ایسا نہ کرتے۔ بلاول بھٹو نے اپنے رویے اور بیانات سے دکھایا ہے کہ آپ اپنے ملک کی نمائندگی اس طرح کرتے ہیں۔ اپنے حریف کے اقدام کا دفاع کرنے کے لئے بڑا پن اور ہمت چاہئے ہوتی ہے۔ اس ہمت کے اظہار پر بلاول بھٹو کے اس اقدام کی تمام افراد کی جانب سے تعریف کی جانی چاہئے۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن اس وقت وہ پاکستان کی نمائندگی کررہے ہیں اور پاکستان سے کوئی بھی اور کچھ بھی پہلے نہیں آ سکتا۔ بلاول بھٹو نے ثابت کیا ہے کہ اگر آپ سفارت کاری کے بارے میں کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو آپ بلاول بھٹو سے سیکھ سکتے ہیں۔
بلاول بھٹو کا یہ پہلا سفارتی چھکا ہے جس نے عمران خان کو اخلاقی اور سفارت کاری کی کریز سے آؤٹ کردیا ہے۔