Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

چہرے نہیں نظام کو بدلنا ہوگا۔۔

اس بدبو دار نظام سے نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ اس بدبودار گٹر پر ایسا ڈھکن رکھا جائے کہ اب اس کی سڑاند کبھی نہ آسکے، اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے انتخابی عمل میں اصلاحات کریں
قاسم جمال
بلآخر عمران خان کی حکومت ریاست مدینہ کا خواب دکھاتے دکھاتے 3 سال 7 ماہ اور 10 دن اقتدار میں رہنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ پاکستان کی جمہوری تاریخ میں کوئی یہ انہونا واقعہ نہیں ہے پاکستان کی 74 سالہ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن عمران خان پاکستان کے وہ واحد حکمراں ہیں جنہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر جانا پڑا۔ قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خان کی شہادت سے لے کر کسی جمہوری حکومت کو اپنا وقت پورا نہیں کرنے دیا گیا۔ 16 دسمبر 1971ء کو ایک شرمناک فوجی شکست اور بنگلا دیش کے قیام کے بعد 20 دسمبر 1971ء کو جنرل یحییٰ نے اپنے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات مجبوراً ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کر دیئے تھے۔ 14 اگست 1973ء کو ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنے، بھٹو کی طرز سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن آپ بلاشبہ پاکستان کے مقبول ترین وزیراعظم تھے۔ 5 جولائی 1977ء تک وزیراعظم کے عہدے پر رہے اور اپنی حکومت کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے قبل از وقت انتخاب کرانے کے لئے اقتدار چھوڑ دیا۔ اس طرح وہ بھی اپنے پانچ سال مکمل نہیں کرسکے۔ اس سے قبل لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے انہوں نے 1947ء میں اقتدار سنبھالا اور 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک جلسہ میں انہیں گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ ان کی حکومت کا دور چار سال اور دو ماہ تھا، اس کے بعد خواجہ ناظم الدین نے 17 اکتوبر 1951ء کو وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا لیکن مذہبی فسادات پر قابو نہ پانے کی وجہ سے گورنر جنرل نے ان کو 17 اکتوبر 1953ء کو برطرف کردیا اور ان کا دور ایک سال چھ ماہ پر مشتمل تھا، اس کے بعد محمد علی بوگرہ 17 اپریل 1953ء کو پاکستان کے وزیراعظم بنے اور انہوں نے 11 اگست 1955ء کو استعفیٰ دے دیا۔ ان کی حکومت دو سال اور تین ماہ رہی۔ اس کے بعد چوہدری محمد علی نے اگست 1955ء میں وزیراعظم کے عہدے کا چارج سنبھالا، حکمراں جماعت کے اندرونی اختلاف 12 ستمبر 1956ء کو ان کی برطرفی کا باعث بنے۔ چوہدری محمد علی کے بعد حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیراعظم بنے لیکن ریاستی اداروں کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے ان کو 18 اکتوبر 1957ء کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا، ان کی حکومت ایک سال اور ایک ماہ رہی۔ اس کے بعد 6 اکتوبر 1957ء میں ابراہیم اسماعیل چندریگر کو وزیراعظم کا عہدہ ملا۔ ابراہیم اسماعیل تحریک عدم اعتماد کا شکار ہوئے انہوں نے 16 اکتوبر 1957ء کو استعفیٰ دیا۔ وہ دو ماہ سے بھی کم عرصہ کے لئے وزیراعظم کے عہدے پر رہے۔ ملک فیروز نون نے 16 دسمبر 1957ء کو وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا، 7 اکتوبر 1958ء میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد ان کو برطرف کیا گیا اور ان کا دورِ حکومت دس ماہ سے بھی کم تھا۔ نورالامین 7 دسمبر 1971ء کو وزیراعظم بنے وہ دو ہفتوں سے کم پاکستان کے وزیراعظم رہے۔ پاکستان سے بنگلا دیش کی علٰیحدگی کے فوراً بعد انہوں نے 20 دسمبر 1971ء کو اپنا عہدہ چھوڑ دیا۔
بنگلا دیش کے قیام کے بعد پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آئی اور تین سال گیارہ ماہ تک ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں رہے ضیاء الحق کے مارشل لا نے بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کیا بلکہ انہیں تختہ دار پر بھی لٹکا دیا گیا۔ ضیاء الحق نے مارچ 1985ء میں غیرجماعتی انتخابات کرائے جس کے نتیجے میں محمد خان جونیجو ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن جمہوریت اس ملک کو راس نہ آسکی، 29 مئی 1988ء کو ضیاء الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کردیا۔ جونیجو تین سال اور دو ماہ وزیراعظم کے عہدے پر رہے۔ 2 دسمبر 1988ء کو ملک میں ہونے والے انتخاب کے نتیجے میں بینظیر بھٹو مسلم دُنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں اور ان کی حکومت کو صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن کے الزام میں 6 اگست 1990ء کو برطرف کردیا۔ ان کی حکومت ایک سال آٹھ ماہ رہی۔ اس کے بعد 6 نومبر 1990ء کو میاں محمد نواز شریف نے اقتدار سنبھالا اور ان کی حکومت بھی کرپشن کے الزامات کے تحت 18 اپریل 1993ء کو صدر نے برطرف کردی، عدالتی فیصلے کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت بحال ہوگئی تھی اور انہوں نے اپنا عہدہ بھی سنبھال لیا تھا تاہم فوج سے اختلافات کے بعد انہوں نے استعفیٰ دیا، ان کا دور حکومت دو سال اور سات ماہ تھا۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت برسر اقتدار آئی اور بے نظیر بھٹو 19 اکتوبر 1993ء میں دوسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئی لیکن نومبر 1996ء میں ان کی پارٹی ہی کے صدر فاروق احمد خان لغاری نے ان کو برخاست کردیا تھا۔ 17 فروری 1997ء کو نواز شریف ایک بار پھر اقتدار میں آئے لیکن جنرل پرویز مشرف نے انہیں فوجی بغاوت میں حکومت سے نکال دیا۔ پرویز مشرف کی جانب سے کرائے جانے والے 2002ء کے انتخابات میں 21 اکتوبر 2002ء کو ظفر اللہ خان جمالی کو وزیراعظم منتخب کیا گیا اور پھر 2004ء ظفر اللہ خان جمالی بھی پرویزمشرف سے اختلاف کے باعث مستعفی ہوگئے۔ 20 اگست 2004ء کو شوکت عزیز وزیراعظم منتخب ہوئے اور وہ 16 نومبر 2007ء تک 3 سال 79 دن تک شوکت عزیز ملک کے وزیراعظم رہے۔ نئے انتخاب کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی اور سید یوسف رضا گیلانی 25 مارچ 2008ء کو ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن 19 جون 2012ء کو یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں نااہل قرار دیا گیا، وہ 4 سال 86 دن اقتدار میں رہے، ان کے بعد ان کی پارٹی کے راجا پرویز اشرف کو 22 جون 2012ء کو نیا وزیراعظم منتخب کرلیا گیا اور وہ 25 مارچ 2013ء تک ملک کے وزیراعظم رہے۔ 2013ء کے انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی اور نوازشریف 5 جون 2013ء کو تیسری بار ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن 28 جولائی 2017ء کو 4 سال 53 دن اقتدار میں رہنے کے بعد انہیں نااہل قرار دیا گیا اور مسلم لیگ (ن) کے ہی شاہد خاقان عباسی 29 جولائی 2017ء کو ملک کے نئے وزیراعظم منتخب ہوئے اور 30 مئی 2018ء تک اقتدار میں رہے۔ 2018ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے ملک بھر میں کامیابی حاصل کی اور 18 اگست 2018ء کو عمران خان پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے ریاست مدینہ کا دعویٰ کرنے والے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی اور 11 اپریل 2022ء کو حزب اختلاف کی جماعتوں کی حمایت سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے میاں محمد شہباز شریف پاکستان کے 23 ویں نئے وزیراعظم منتخب ہوگئے ہیں۔
پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں بڑے نشیب وفراز آئے ہیں۔ انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے بعد کالے انگریز اور اشرفیہ اس ملک کے اقتدار پر قابض ہوگئی۔ اس ملک کی عوام کو کبھی جمہوریت کے نام پر اور کبھی مارشل لا کے نام پر جرنیلوں نے لوٹا اور کبھی ریاست مدینہ کا نام لے کر دین سے محبت کرنے والو کو دھوکا دیا گیا۔ عمران خان کا سب سے بڑا جرم یہ کہ انہوں نے پورے ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا تھا اور تو اور اسٹیٹ بینک کو بھی آئی ایم ایف کے حوالے کیا گیا اور پاکستان کا اسٹیٹ بینک سے کنٹرول اور تعلق کو ختم کردیا گیا۔ شہباز شریف جب اپوزیشن میں تھے تو بڑی چیخ پکار مچا رہے تھے لیکن جیسے ہی وہ اقتدار میں آئے تو ان کے 14 طبق روشن ہوگئے۔ وزیر خزانہ کی دوڑیں لگ گئیں اور وہ فوری واشنگٹن پہنچے اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کئے اور ایک سال مزید آئی ایم ایف سے معاہدے کی توسیع کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ عمران خان جب اقتدار میں نہیں آئے تھے تو برملا کہتے تھے کہ وہ خود کو گولی مار لیں گے لیکن کبھی آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے لیکن کپتان نے شاندار یوٹرن لیا اور آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر ناصرف یہ کہ سجدہ ریز ہوگئے بلکہ آئی ایم ایف کے کارندوں کو بھاری تنخواہوں پر ملک پر مسلط بھی کردیا۔ عمران خان غلط تھے تو یہی غلطی شہباز شریف کی حکومت کر رہی ہے۔ ملک میں سودی نظام جاری ہے، ایک طرف ریاست مدینہ کی باتیں کی جاتی تھی اور دوسری جانب اللہ اور اس کے رسولؐ سے کھلی جنگ کی جارہی ہے۔ آپ زمین پر کیکر کا بیج بو رہے ہیں اور اُمید کر رہے ہیں اور قوم کو خواب دکھا رہے ہیں کہ اس میں سے انگور نکلیں گے۔
74 سال سے چہرے بدل بدل کر یہ اشرافیہ ہمارا استحصال کررہی ہے۔ کرپشن، لوٹ مار، اقربا پروری سے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا گیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ 74 سال سے جاری اس فرسودہ اور بدبو دار نظام سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے جس نے اس ملک کی عوام کو بھوک، افلاس، غربت، بے روزگاری، خودکشیوں اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ شہباز شریف اس ملک کے 23ویں وزیراعظم ہیں، ان سے قبل 22 وزیراعظموں نے کچھ نہیں کیا تو یہ کون سا تیر مار لیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب پوری قوم پاکستان کو بچانے کی جدوجہد کرے۔ میرا چور زندہ باد اور تیرا چور مردہ باد کی سیاست کو اب ہمیشہ کیلئے دفن کردینا چاہئے اور نظام کی تبدیلی کیلئے فیصلہ کن جدوجہد شروع کی جائے۔ 74 سال سے ایک مخصوص ٹولہ اور کلب اس ملک کے اقتدار پر قابض ہے اور چند خاندانوں کی ہمیشہ سے ہی اجارہ داری ہے اور ان کے ہی بیوی بچے بہن بھائی باری باری اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور پارلیمانی جمہوریت ایک تماشا بن گئی ہے۔ اس بدبو دار نظام سے نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ اس بدبودار گٹر پر ایسا ڈھکن رکھا جائے کہ اب اس کی سڑاند کبھی نہ آسکے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے انتخابی عمل میں اصلاحات کریں۔ موجودہ نظام مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں انتخابی اصلاحات کے لئے تمام سیاسی، مذہبی جماعتوں سے مذاکرات کئے جائیں اور تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں پاکستان کو بچانے اور اسے دلدل سے نکالنے کیلئے متناسب نمائندگی کے اصول پر راضی ہوں۔ دنیا کی کئی جمہوریتوں میں متناسب نمائندگی کا سسٹم رائج ہے جو کہ بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ موجودہ نظام نے ملک کو تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔ الیکشن میں دھونس، دھاندلی اور دولت کی ریل پیل کے کلچر کو ختم کئے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ملک میں 74 سال سے باطل کا نظام مسلط ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے پوری قوم کو جکڑا ہوا ہے اور اس سے نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ فوری طور پر ملک میں متناسب نمائندگی کا نظام نافذ کیا جائے، متناسب نمائندگی کے انتخاب واحد حل ہے، جو اس قوم کی ڈوبتی کشتی کو دریا پار لگا سکتی ہے۔ چہروں کی تبدیلی کے تماشے اب ختم ہونے چاہئیں، اب ضرورت ہے کہ ہم ناصرف یہ کہ اس فرسودہ نظام کو بدلیں بلکہ اس پورے سماج کو بھی بدلیں اور لٹیروں کے راج کو بھی بدلیں۔

مطلقہ خبریں