اگر آج پاکستان سلامت ہے تو اس کے پیچھے شہیدوں کا لہو ہے۔۔
موجودہ دور ففتھ جنریشن وار کا ہے جس کو انفارمیشن وار فیئر بھی کہا جاتا ہے، اس میں ملک میں غلط فہمیاں پھیلائی جاتی ہیں، حکومت اور فوج کے بارے میں عوام کے دلوں میں نفرت پھیلائی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ملک توڑپھوڑ کا شکار ہوتا ہے، ملک میں افراتفری پھیلتی ہے، ملک میں سول وار شروع ہوجاتی ہے جس سے دشمن ممالک کو ایک خستہ اور نرم ہدف مل جاتا ہے
عقیل انجم اعوان
پاک فوج، یہ نام سنتے ہی ہر محب وطن کے دل میں عزت و محبت کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بنا کسی دُنیاوی مفاد کے ہمارے دفاع کی خاطر جسم کو جھلسا دینے والی گرمی اور لہو کو جما دینے والی سردی میں اپنی زندگی کی پروا کئے بغیر اپنے فرض کی ادائیگی میں ہمہ وقت سرگرم عمل رہتے ہیں۔ ملک کی محبت ہر محبت سے بڑھ کر ان کے دلوں میں رچی بسی ہوتی ہے۔ نہ ہی اپنوں سے الفت اور نہ ہی زندگی کی چاہت ان کو اپنے مقصد سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ کرتی ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کون سا جذبہ ہے کہ یوں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے پاک افواج کے جوان دشمن کے سامنے ہر لمحہ سینہ تانے کھڑے ہوتے ہیں، فضا میں بھی، زمیں پر بھی اور سمندر میں بھی۔ جان بھلا کس کو پیار نہیں ہوتی، سرحدوں کی حفاظت تو کئی ملکوں کی افواج کرتی ہیں لیکن 74 سالوں کے مختصر عرصے میں دُنیا کی منظم ترین، انتہائی طاقت ور اور بے پناہ نڈر فوج کا اعزاز ہماری پاک فوج کو حاصل ہے۔ ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ پاک فوج کا نصب العین ہے اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک پاکستان کی ناصرف جغرافیائی بلکہ نظریاتی سرحدوں کا تحفظ کرنا ہے۔ اگرچہ نظریاتی سرحدوں کا تحفظ کرنا ہمارے سیاستدانوں، علمائے کرام اور صحافیوں کا کام ہے مگر بدقسمتی سے یہ بھی ذمہ داری کسی حد تک فوج کے کاندھوں پر آن پڑی ہے۔ بہت ساری ذمہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ فوج نے یہ ذمہ داری بھی ہنسی خوشی سنبھال لی ہے اور کسی حد تک وہ اس میں کامیاب جارہی ہے۔ کوئی قوم بھی اس وقت تک زندہ نہیں رہ سکتی جب تک وہ اپنے ملک میں نظریے کی جان سے بڑھ کر حفاظت نہیں کرتی۔ پاک فوج نے ناصرف اپنی سرزمین کی خاطر قربانیوں کی ایک لمبی داستان رقم کی بلکہ عالمی امن فورس میں بھی پاک فوج کا کردار نمایاں ہے۔ پاکستان نے 1960ء میں اقوام متحدہ کی امن فورس میں شمولیت اختیار کی اور پانچ دہائیاں گزرنے کے باوجود اب بھی عالمی امن اور استحکام میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے۔ پاک فوج ایک بے مثال فوج ہے جس کی پوری دُنیا میں گونج ہے۔
ہمارے ملک میں بدقسمتی یا پھر خوش قسمتی سے پاک فوج ایک ایسا ادارہ بن گیا ہے جو ناصرف بیرونی بلکہ اندرونی جارحیت و خطرات سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ موجودہ دور ففتھ جنریشن وار کا ہے جس کو انفارمیشن وار فیئر بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں ملک میں غلط فہمیاں پھیلائی جاتی ہیں۔ حکومت اور فوج کے بارے میں عوام کے دلوں میں نفرت پھیلائی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک توڑپھوڑ کا شکار ہوتا ہے۔ ملک میں افراتفری پھیلتی ہے۔ ملک میں سول وار شروع ہوجاتی ہے۔ جس سے دشمن ممالک کو ایک خستہ اور نرم ہدف مل جاتا ہے۔ پاک فوج پچھلی دو دہائیوں سے ایسے حالات سے نمٹتی آ رہی ہے اور اپنی وفاداری سے عوام کے سامنے سرخرو ہو کر وطن کو فضا کو پُرسکون بنائے ہوئے ہے۔ اگر فوج ایسے کڑے وقت میں ملک کی اندرونی حالات کو نظرانداز کردے تو ملک افراتفری و توڑ پھوڑ کا شکار ہو کر دُنیا میں مذاق بن کر عالمی سطح پر غیرمستحکم ممالک کی فہرست میں شامل ہوجائے گا۔
کلمے کی بنیاد پر بننے والی ریاست لٹیروں، عیاشوں، بدقماشوں اور ملک و قوم کے غداروں کی نہیں بلکہ اسلام کی جاگیر ہے۔ اس کے ذرے ذرے میں شہیدوں کا خون شامل ہے۔ آج اس ملک کی سلامتی کے پیچے وردی والے ہیں۔ یہ وہ وردی ہے جو سر پر کفن باندھ کر دن رات ایک کرکے دشمن کو للکار رہی ہے۔ اس وردی کو بدنام کرنا چھوڑیں، اپنے اور اس ملک کے آنے والے کل کی فکر کریں جس پر یہودونصاریٰ کی نظریں لگی ہوئی ہیں کہ کب یہ اندرونی لحاظ سے کمزور ہوتا ہے۔ جمہوریت کے دعوے کرنے والوں ذرا اس ملک کی حفاظت کے لئے اپنے بیٹے بھی قربان کرو، شاید تمہیں اس وردی کی قدر ہو۔ برطانیہ کے شاہی خاندان بھی تو فوجی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ وہ بھی اپنے بیٹوں کو ملک کی حفاظت کے لئے مامور کریں۔ لیکن یہ ایسا کیوں کریں گے ان کے بچے تو باہر کے ملکوں میں بادشاہوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں، اس غریب عوام کے پیسے سے۔ جمہوریت کے نام پر پاکستان پر حکمرانی کرنے والوں نے آج تک ملک کو دیا ہی کیا ہے۔ نیب نے جس پروجیکٹ پر ہاتھ ڈالا وہی کرپشن سے بھرا پڑا تھا۔ دوسری طرف پاکستانی نوجوان طبقہ ڈگری ہولدر ہونے کے باوجود بھی بے روزگاری کا شکار ہے۔ سفارش کے بغیر ملازمت ملنا مشکل ہوگیا ہے۔ میرٹ تو دور کی بات ہے میرٹ کی تو دھجیاں اڑ چکی ہیں اور قابل لوگ ملکی ترقی میں آگے آنے سے محروم ہیں۔
جنرل ایوب خان کا دور ترقی اور خوشحالی کا دور سمجھا جاتا ہے۔ منگلا اور تربیلا ڈیم جنرل ایوب خان کے نمایاں کارناموں میں شامل ہیں۔ اس کے بعد جمہوریت کے دعوے داروں نے اقتدار سنبھالا اور حالات آج ہم سب کے سامنے ہیں۔ ملک کا پیسہ لوٹ کر دوسرے ملکوں میں اپنی جائیدادیں بنائی گئیں۔ غریب عوام جو پہلے مفلسی کی چکی میں پس رہی ہے اوپر سے قرضوں کا بوجھ جو دن بدن بڑھتا جارہا ہے وہ بھی ہماری ہی جیبوں سے ادا ہونا ہے۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کی کرپشن پر کتابیں لکھی جانی لگی ہیں پھر کہتے پھرتے ہیں ہمارے ساتھ ناانصافیاں ہورہی ہیں۔
اگر تم نے ملک کے لئے کچھ اچھا کیا ہوتا تو آج حالات تمہارے حق میں ہوتے۔ پاکستانی فوج اور عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنانا یہ تو انہوں نے اپنے اوپر لازم سمجھ لیا ہے۔ آج اگر پاکستان سلامت ہے تو اس کے پیچھے وردی ہے۔ یہی وردی والے سرحدوں پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں اور ہم اس ملک میں سکون کا سانس لے رہے ہیں۔ اگر ملک کو ان جمہوریت کے دعوے داروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے گلے میں غلامی کے طوق ہوں گے۔
اگر ہم ملک کے چند سال پہلے کے حالات دیکھیں تو جگہ جگہ مسجدوں میں بم دھماکے، اسکولوں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کا کیا قصور ان کو بھی یہ دہشت گرد نشانہ بنا رہے تھے اور ملک کے کونے کونے میں خون میں لت پت لاشیں دکھائی دیتی تھیں لیکن ان وردی والوں کی بدولت آج ملک میں امن کی ہوا قائم ہے۔ اگر ملک پر کوئی بھی قدرتی آفت آئے سب سے پہلے یہی وردی والے اپنی عوام کی مدد کرنے کو پہنچ جاتے ہیں۔ عوام کے دلوں میں ان وردی والوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا اتنا آسان نہیں، عوام باشعور ہے۔ خدارا اس ملک کے ساتھ اگر کوئی ادارہ مخلص ہے تو اس کو مخلص ہی رہنے دیں، اس کے خلاف عوام کے اندر نفرت پیدا نہ کریں۔ افواج پاکستان کو بُرا بھلا کہنے والوں سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کے مطابق پاک فوج اپنا فرض صحیح طریقے سے ادا نہیں کررہی تو آپ پاک فوج میں جا کر بھرتی ہوجائیں جب آپ کے سینے پہ آ کر گولی لگے گی یا بم آپ کے جسم کے پرخچے اڑا دے گا، تب آپ فوجیوں کی قربانیوں کا احساس کر پائیں گے یا ایسا کریں اپنے جوان بیٹوں کو فوج میں بھرتی کروا دیجئے۔ جب آپ کے بچے شہید ہو کر لہو لہو ہو کر ااپ کے سامنے آئیں گے تب شاید آپ سمجھ سکیں گے پاک فوج کیا کرتی ہے اور ملک کی ترقی میں اس کی کیا اہمیت ہے۔
پاکستان کے استحکام کے لئے افواجِ پاکستان کا کیا کردار ہے میرے لکھے گئے الفاظوں سے بڑھ کر ہے۔ اس کا اندازہ پاک افواج کے شہداء کے یتیم بچوں کے معصوم چہروں کو دیکھ کر، جوانی میں بیوگی کی ردا اوڑھ لینے والی میری بہنوں کی خاموش سسکیوں کو سن کر، صبر کا گھونٹ پیتے ان جوانوں کے ماں باپ کی سرخ آنکھوں پر نظر ڈال کر لگایا جاسکتا ہے۔ ہم چاہے ان کی قدر نہ کریں مگر اللہ پاک ان کی بہت قدر کرنے والا ہے۔