افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد پاک امریکا تعلقات کی نوعیت اب خالصتاً دوطرفہ ہے جوکہ اپنی جگہ بہت اہم ہے کیونکہ اب بھی امریکا پاکستانی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے اور 2010ء سے دونوں ملکوں کے درمیان اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے تحت مختلف شعبوں مثلاً تعلیم، صحت، زراعت، آبی وسائل کی ترقی، وومن ایمپلائمنٹ اور غربت کے خاتمے کیلئے تعاون جاری ہے مگر اس سے باہر علاقائی یا عالمی سطح پر امریکا کی کسی حکمت عملی میں پاکستان شامل نہیں ہے
ڈاکٹر رشید احمد خاں
کسی زمانے میں کہا جاتا تھا اور غالباً سچ ہی کہا جاتا تھا کہ ”اسلام آباد میں اقتدار کا راستہ واشنگٹن سے ہو کر گزرتا ہے“۔ اسی دور میں پاکستان کے ایک سیاسی رہنما، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور سابق صدر ایوب خان کے بھائی سردار بہادر خان نے کہا تھا کہ پاکستان میں ہر حکومتی تبدیل کے پیچھے امریکا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہم امریکا سے کتنے مرعوب تھے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب گورنر جنرل غلام محمد نے چائے کے لئے بلا کر خواجہ ناظم الدین کو برطرف کیا (حالانکہ چند دن پیشتر بجٹ کی منظوری دے کر آئین ساز اسمبلی ان کی حکومت پر اعتماد کا اظہار کر چکی تھی) تو وزیراعظم کی خالی کرسی پر بٹھانے کے لئے مقتدرہ کی نظر اس شخص پر پڑی جو امریکا میں پاکستان کے لئے سفارت کاری کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔
اسی زمانے میں امریکا نے چین مخالف سیٹو (ساؤتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن) قائم کیا اور پاکستان کی حکومت کو اس میں شمولیت کی اتنی جلدی تھی کہ نہ تو فیصلے کی کابینہ سے منظوری لی گئی اور نہ ہی اسمبلی سے اس معاہدے کی توثیق کروائی گئی۔ صدر اسکندر مرزا نے مرکز میں سیاست کو میوزیکل چیئرز کا کھیل بنانے کے لئے ری پبلکن پارٹی تشکیل دی، تو خان عبدالقیوم خان نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب امریکا میں ڈیموکریٹک پارٹی برسر اقتدار ہوتی ہے تو پاکستان میں ڈیموکریٹک فرنٹ وجود میں آ جاتا ہے (یاد رہے کہ 1954ء میں مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کے مقابلے میں حصہ لینے والے متحدہ محاذ کا نام ڈیموکریٹک فرنٹ تھا) اور جب امریکا میں ری پبلکن پارٹی کی حکومت ہوتی ہے تو پاکستان میں ری پبلکن پارٹی قائم کردی جاتی ہے۔ 1955ء میں امریکا نے ترکی، ایران، برطانیہ، فرانس اور عراق پر مشتمل ”معاہدۂ بغداد“ قائم کیا۔ عالم عرب کے عوام اس معاہدے کے سخت خلاف تھے اسی لئے عراق کے علاوہ کسی عرب ملک کو اس میں شامل ہونے کی جرأت نہ ہوئی، لیکن پاکستان نے محض اس لئے اس کی رکنیت اختیار کرلی کہ 1953ء کے پاک امریکا سکیورٹی پیکٹ کے تحت پاکستان کو امریکی فوجی اور اقتصادی امداد، معاہدۂ بغداد، جو بعد میں سینٹو کے نام سے مشہور ہوا، میں شمولیت سے مشروط تھی۔
23 مارچ 1956ء کو پاکستان کے پہلے آئین کے نفاذ کا اعلان کردیا گیا۔ مذہبی جماعتوں نے کہا کہ یہ آئین اسلام کے مطابق ہے، جمہوریت پسند طبقوں نے اسے جمہوری قرار دیا اور صوبائی خودمختاری کی علم بردار سیاسی جماعت کے سربراہ حسین شہید سہروردی نے کہا کہ اس آئین کے تحت صوبائی خودمختاری کے مطالبے کو 90 فیصد حد تک تسلیم کرلیا گیا ہے۔ ایک سال کے التوا کے بعد اس آئین کے تحت ملک کے پہلے عام انتخابات ہونا تھے، مگر اس سے پہلے ہی 7 اکتوبر 1958ء کو آئین منسوخ کر کے مارشل لاء نافذ کردیا گیا، جو چار سال اپنی اصل شکل اور اس کے بعد اگلے سات سال تک سویلین لبادے میں جاری رہا۔
اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ 1958ء میں مارشل لاء کے نفاذ کی واحد وجہ امریکا کا یہ خوف تھا کہ اگر ملک میں آزادانہ، شفاف اور بغیر کسی مداخلت کے انتخابات ہوئے تو پاکستان میں ایسی سیاسی پارٹیاں برسر اقتدار آ جائیں گی جو ناصرف عسکری معاہدوں میں پاکستان کی شرکت کی مخالف ہیں بلکہ پاکستان کے لئے ایک آزادانہ اور غیرجانبدارنہ خارجہ پالیسی کی حامی بھی ہیں۔ 1963ء تا 1970ء کی ایوب مخالف عوامی تحریک کے مطالبات میں دفاعی معاہدوں (سیٹو، سینٹو) سے پاکستان کی علیحدگی بھی شامل تھی اور جلسوں اور جلوسوں میں سب سے بلند آواز میں جو نعرہ لگایا جاتا تھا وہ ”امریکی سامراج مردہ باد“ کا نعرہ تھا۔ اس کے باوجود قائدِ تحریک ذوالفقار علی بھٹو کو کہنا پڑا کہ ویتنام میں جنگ ہارنے کے باوجود ایشیا میں امریکا کا اہم کردار جاری رہے گا۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو صاحب نے سیٹو میں تو پاکستان کی رکنیت ختم کردی مگر سینٹو کی رکنیت برقرار رکھی، بلکہ بڑی کوشش کے بعد پاکستان کے لئے امریکی ہتھیاروں کی فروخت بحال کروائی، جو 1971ء کی جنگ کی وجہ سے ایک بار پھر بند کردی گئی تھی۔
امریکا اور پاکستان کے مابین تعلقات کی اس کیفیت کی دو اہم وجوہات تھیں ایک یہ کہ ناصرف معاشی بلکہ دفاعی لحاظ سے بھی پاکستان کی حالت بہت پتلی تھی اور ان دنوں پوری دنیا میں امریکا واحد ملک تھا جو کمزور معیشت والے ملکوں کو مالی یا عسکری امداد دے سکتا تھا اسی لئے خود قائداعظم نے 1947ء میں امریکا سے مارشل پلان کی طرز پر پاکستان کے لئے امدادی پیکیج کی درخواست کی تھی مگر امریکا نے اس درخواست کو اس لئے اہمیت نہ دی کہ اس وقت سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ کی وجہ سے امریکا کی توجہ یورپ پر مرکوز تھی۔ بعد میں جب چین میں کمیونسٹ انقلاب کی کامیابی کے نتیجے میں سرد جنگ کا فوکس جنوب مشرقی ایشیا پر شفٹ ہوا اور مشرقی وسطیٰ میں عرب قوم پرستی کی ابھرتی ہوئی لہر سے امریکی اور مغربی مفادات کو خطرات لاحق ہوئے تو پاکستان جیسے ملکوں میں امریکا کی دلچسپی پیدا ہوئی اور اسی دلچسپی یا اثر و رسوخ کو پاکستان جیسے دیگر ممالک مثلاً فلپائن، تھائی لینڈ اور ترکی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا ذریعہ بنایا گیا۔
1980ء کی دہائی میں افغانستان پر روسی حملے اور 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان کو امریکا کے لئے ایک دفعہ پھر بنا دیا تھا، مگر اگست 2021ء کے بعد افغانستان کے حوالے سے امریکا کے لئے پاکستان کی ختم ہو چکی ہے۔ اب افغانستان میں امریکی فوجیں موجود نہیں جن کے لئے امریکا پاکستان کے راستے سپلائی روٹ کا محتاج ہو، نہ ہی امریکا افغانستان میں جنگ میں الجھا ہوا ہے جس کے لئے اسے پاکستان اڈوں کی ضرورت ہو، اس لئے امریکا اور پاکستان کے موجودہ تعلقات کی نوعیت ماضی سے بالکل مخالف ہے۔ ماضی میں تعلقات تھے یعنی سرد جنگ کے دور میں پاکستان نے امریکا کو اپنے ہاں اڈے قائم کرنے کی اجازت دی اور امریکا اس کے بدلے پاکستان کو معاشی امداد اور ہتھیار فراہم کرتا تھا۔ ضیا الحق کے دور میں پاکستان نے امریکا کو روس کے خلاف لڑنے والے افغان مجاہدین کو مالی امداد اور ہتھیار فراہم کرنے کی سہولت دی اور اس کے بدلے پاکستان کو امریکا نے معاشی اور فوجی امداد کے نام پر اربوں ڈالر کا پیکیج دیا۔ اسی طرح کا ایک اور امدادی پیکیج کیری لوگر بل افغانستان میں موجود امریکی افواج کو سپلائز فراہم کرنے اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے کے عوض پاکستان کے لئے امریکی امداد کا ذریعہ تھا۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد پاک امریکا تعلقات کی نوعیت اب خالصتاً دوطرفہ ہے جو کہ اپنی جگہ بہت اہم ہے کیونکہ اب بھی امریکا پاکستانی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے اور 2010ء سے دونوں ملکوں کے درمیان اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے تحت مختلف شعبوں مثلاً تعلیم، صحت، زراعت، آبی وسائل کی ترقی، وومن ایمپلائمنٹ اور غربت کے خاتمے کے لئے تعاون جاری ہے، مگر اس سے باہر علاقائی یا عالمی سطح پر امریکا کی کسی حکمت عملی میں پاکستان شامل نہیں ہے۔ پاکستان کی جگہ اب بھارت نے لے لی ہے اس لئے دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے آزاد اور خودمختار ہیں، لیکن پاکستان کی معیشت اور دفاع کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے اب بھی امریکا کے علاوہ کوئی اور ملک متبادل ثابت نہیں ہوسکتا۔