جویریہ صدیق
مجھے ایوی ایشن کی فوٹوگرافی کے علاوہ اس حوالے سے مضامین لکھنے کا بھی بہت شوق ہے۔ بطور رپورٹر، ڈیفنس کبھی میری بیٹ نہیں رہی لیکن مسلح افواج کے ایوی ایشن شعبے میں میری گہری دلچسپی رہی ہے۔ میں خود ریسرچ اور مطالعہ کرکے ایسے مضامین لکھتی ہوں اور جہازوں وغیرہ کی فوٹوگرافی بھی ایک طویل عرصے سے کررہی ہوں۔ پاکستان، بھارت، ترکی، سعودی عرب، آذربائیجان، امریکا اور ترکی کے فضائی بیڑوں پر میری گہری نظر رہتی ہے۔ 2020ء میں جب چین اور پاکستان کی ایئرفورسز کی شاہین نائن مشقیں ہورہی تھیں، اسی وقت میں نے یہ خبر دے دی تھی کہ پاکستان اپنے فضائی بیڑے میں چینی ساختہ لڑاکا طیارے جے ٹین سی شامل کرے گا۔ گزشتہ سال ایک وی لاگ میں مَیں نے اس طیارے کی خصوصیات اپنے ناظرین کو بتائی تھیں تاکہ عوام کو یہ بات پتا چل سکے کہ یہ طیارے پاکستان کے دفاع کے لئے کیوں ضروری ہیں۔ بھارت نے جب رافیل طیاروں کو اپنے فضائی بیڑے میں شامل کیا تو پاکستان کے لئے یہ ناگزیر ہوگیا تھا کہ وہ اپنے فضائی بیڑے میں اس کے ہم پلہ طیارے شامل کرے۔
ہوسکتا ہے کہ یہاں ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ جے ایف 17 تھنڈر کے ہوتے ہوئے ہمیں جے ٹین سی طیاروں کی ضرورت کیوں پیش آئی تو جناب! رافیل، جے ٹین سی اور جے ایف 17، یہ سب الگ الگ خصوصیت والے طیارے ہیں۔ جے ایف 17 تھنڈر کا موازنہ رافیل اور جے ٹین سی کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا، تاہم رافیل اور جے ٹین سی کا موازنہ ہوسکتا ہے۔ اگر ہم جے ایف 17 تھنڈر کا جائزہ لیں تو یہ پاک چین دوستی کا شاہکار ثبوت ہے۔ یہ ملٹی کومبیٹ ایئر کرافٹ ہے جو پاکستان ایئروناٹیکل کمپلیکس اور چنگدو ایئرکرافٹ کارپوریشن چین کے اشتراک سے بنایا گیا گیا ہے۔ اس حوالے سے بلاک تھری طیارے بھی کچھ دن تک پاکستان کے فضائی بیڑے کا حصہ بن جائیں گے۔ اس کی ساخت کی بات کریں تو یہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ اس کا ڈسپلے وائڈ اینگل ہولوگرافک ہے۔ اس میں ایڈونس انفراریڈ میزائل وارننگ سسٹم نصب ہے۔ اس کی اسپیڈ 2470 کلومیڑ فی گھنٹہ ہے۔ اگر اس کے ریڈار کی بات کریں تو اس پر ایکٹو الیکٹرانک سکین ایرے ریڈار نصب ہے۔ 27 دسمبر کو ایئروناٹیکل کمپلیکس کامرہ نے ڈوئل تھنڈر طیارے مکمل کئے اور ان کی پہلی کھیپ کی رونمائی ہوئی۔ ان کو جے ایف تھنڈر بی کا نام دیا گیا ہے۔ بلاک 3 میں ایڈونس ڈیٹا لنک، انفراریڈ سرچ اور ٹریک سسٹم شامل کئے گئے ہیں۔ اس بار 23 مارچ کی پریڈ میں جے ایف 17 تھنڈر کا بلاک تھری نے بھی شرکت کی۔11 مارچ 2022ء کو منہاس ایئربیس کامرہ پر ایک پُروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا جس کے مہمانِ خصوصی وزیراعظم پاکستان عمران خان تھے۔ تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے بھی اس تقریب میں خصوصی طور پر شرکت کی۔ یہ تقریب اس لئے سجائی گئی تھی کہ اس روز 10 جے ٹین سی پاک فضائیہ کا حصہ بنے تھے۔ اس تقریب میں ایف 16، جے ایف 17 تھنڈر اور جے 10 سی نے فلائی پاسٹ کیا۔ جے 10 سی نے منہاس ایئربیس کامرہ پر مہمانوں کے سامنے لینڈ کیا اور داد و تحسین وصول کی۔
پاکستانی پائلٹس نے چین میں ان طیاروں کو اڑانے کی تربیت حاصل کی اور مارچ کے اوائل میں یہ طیارے چین سے اڑا کر پاکستان لائے، جن کو جے ایف 17 تھنڈر نے اسکواڈ کیا۔ ملی نغموں اور فلائی پاسٹ نے حاظرینِ محفل اور ناظرین کا لہو گرما دیا۔ یہ تقریب لائیو نشر کی گئی مگر سرکاری ٹی وی کے کیمروں اور نان پروفیشنل اسٹاف سے جہاز درست طرح سے فوکس نہیں ہوسکے اور ناظرین فلائی پاسٹ کے رنگ اور جہازوں کی ساخت نہیں دیکھ سکے۔ اتنی بڑی تقریب کی پروڈکشن پی ٹی وی کی وجہ سے متاثر ہوئی۔ کسی بھی اعلیٰ پائے کی تقریب کا رنگ پھیکا کرنا یا ساؤنڈ کوالٹی گرانی ہو تو یہ اس میں اپنا حصہ ضرور ڈالتا ہے۔ یہاں تک کہ وزیراعظم صاحب کی تقریر میں بھی تعطل آیا جبکہ آواز بھی بار بار کٹ رہی تھی۔ اتنی اہم تقریب میں نجی میڈیا کو مدعو نہیں کیا گیا، ڈیفنس رپورٹرز اس بات پر شدید رنجیدہ ہوئے۔ وہ لوگ جو سارا سال ایوی ایشن پر لکھتے اور فوٹو اور ویڈیو گرافی کرتے ہیں، ان کو سب سے پہلے مدعو کرکے یہ طیارے دکھانا چاہئے تھے، تاہم ایسا نہیں ہوسکا۔ جب بھارت نے رافیل طیارے منگوائے تھے تو ان کی بھرپور پبلسٹی کی تھی۔ صحافیوں، فوٹوگرافرز، اینکرز، رپورٹرز، بلاگرز سمیت سب کو مدعو کرکے رافیل کے حوالے سے بڑھکیں ماری گئی تھیں مگر ہمارے ہاں نجانے اتنی اہم قومی تقریب سے نجی میڈیا کو دور کیوں رکھا گیا۔ میرے لئے یہ بات باعثِ حیرت ہے۔
اگر طیاروں کی بات کریں تو جے ٹین سی کے 10 طیارے پاک فضائیہ کے اسکواڈرن 15 کا حصہ بنے ہیں۔ اسکواڈرن 15 کوبراز سینٹرل ایئر کمانڈکا حصہ ہے۔ یہ اسکواڈرن 1956ء میں قائم ہوئی اور اس کی بیس منہاس ایئر بیس کامرہ ہے۔ یہ فائٹر اسکواڈرن ہے اور اس کا کام ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ ابھی مزید جے ٹین سی طیارے پاکستان کو ملیں گے۔ اگر ہم اس طیارے کی خصوصیات کی بات کریں تو چینی ساختہ اس لڑاکا طیارے کی لمبائی 16.03 میٹر ہے۔ اونچائی 17 فٹ 10 انچ ہے۔ ونگ ایریا 360 اسکوائر فٹ ہے۔ اس کی کومبیٹ رینج 1300 کلومیٹر ہے۔ اگر اس کے میزائلوں کی بات کریں تو ایئر ٹو ایئر پی ایل ٹین ای ہائی آف بور سائٹ اور پی ایل 15 بی وی آر اور ایئر ٹو سرفیس میزائل، کے ڈی 88 اور وائے جے 91 اس پر نصب ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر میزائل، جیسے لیزر گائیڈڈ، گلائیڈ بم ایل ایس 6 ایس او ڈبلیو، جی بی 2 اے، جی بی 3، جی بی 3 اے وغیرہ بھی اس پر نصب ہوسکتے ہیں۔ سیٹلائٹ گائیڈڈ بموں میں ایف ٹی ون اور اَن گائیڈڈ بموں میں 250 کے جی، 500 کے جی وغیرہ اس کا حصہ بن سکتے ہیں۔ پاکستان ایئر فورس کی طرف سے جاری کردہ فوٹیج میں پاکستان کے جے ٹین سی پر پی ایل 10 اور پی ایل 15 میزائل صاف نظر آرہے ہیں۔ یہ 4.5 پلس پلس جنریشن کا سنگل انجن فائٹر طیارہ ہے۔ جے ٹین طیارے چینی ایئرفورس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں فضا سے فضا، فضا سے زمین اور فضا سے سمندر میں ٹارگٹ کرنے سمیت بہت سے آپشنز ہیں۔ یہ طیارے 2004ء میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی ایئر فورس کا حصہ بنے تھے اور تب یہ جے ٹین اے کہلاتے تھے۔ J10 کے مختلف ویری اینٹس ہیں جن میں جے ٹین اے، جے ٹین بی اور جے ٹین سی شامل ہیں۔ جے ٹین کو یعنی طاقتور ڈریگن بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کو ملنے والے طیاروں میں اے ای ایس اے ریڈار نصب ہوں گے۔ چین کے بعد پاکستان ہی وہ دوسرا ملک ہے جو یہ طیارے استعمال کرے گا۔ پاکستانی کے جے ٹین سی بھارت کے رافیل کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔
اگر ہم رافیل اور جے ٹین سی کا تقابلی جائزہ لیں تو رافیل کی اسپیڈ کی حد 1912 کلومیٹر ہے جبکہ جے ٹین سی کی رفتار کی حد 2400 کلومیٹر ہے۔ جے ٹین سی میں ایسا ریڈار نصب ہے جس میں 1400 ٹرانسمیٹر ریسور موڈیول ہیں جبکہ رافیل کے ریڈار میں آر بی ای 2 میں 838 موڈیول ہیں۔ جے ٹین سی سنگل انجن اور رافیل ڈبل انجن ہیں، البتہ جے ٹین سی تھرسٹ لائٹ ہے جو اس کو بہتر انجن پرفارمنس دکھانے کا موقع دیتا ہے۔ جے ٹین سی کے ہتھیاروں میں پی ایل 15 میزائل ہیں جبکہ رافیل میں میٹ یور لگے ہیں۔ دونوں جہاز کروز میزائل سے لیس ہوسکتے ہیں۔ جے ٹین سی کی فیری رینج 3200 کلومیٹر ہے اور رافیل کی رینج 3700 کلومیٹر ہے۔ جے ٹین کی سروس سیلنگ 18 ہزار میٹر ہے اور رافیل کی سروس سیلنگ 15835 میٹر ہے۔ جے ٹین سی پاکستان کے دفاع کو مضبوط کریں گے۔ ان کی پاکستان کے فضائی بیڑے میں شمولیت خوش آئند ہے۔