Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ریکوڈیک اور سیندک

لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان
ریکوڈیک کا لفظ پاکستانیوں کی اکثریت کے کانوں کے لئے ایک نامانوس سا لفظ ہے جس کا صوتی تاثر فارسی کے لفظ ”لق و دق“ کے مماثل ہے۔ از راہ اتفاق اس بلوچی زبان کے ریکوڈیک اور فارسی زبان کے لق و دق کے معانی بھی یکساں ہیں …… دونوں کا مفہوم ”ریت کا وسیع میدان“ ہے۔
ویسے تو 2011ء میں بھی ریکوڈیک کا نام بڑے تسلسل سے میڈیا پر آتا رہا تھا۔ اس وقت کے چیف جسٹس نے بزعمِ خود قومی غیرت میں آکر غیرملکی کمپنی سے جو معاہدہ ہوا تھا، اسے منسوخ کردیا تھا۔ وہ کمپنی بین الاقوامی تجارتی عدالتِ انصاف میں چلی گئی اور فیصلہ اس کے حق میں ہوگیا۔ پاکستان کو جرمانہ ادا کرنے کو بھی کہا گیا جو خاصا ”بھاری بھرکم“ تھا۔ 2011ء لے کر اب تک کے 11 برسوں میں پاکستان لیت و لعل کرتا رہا اور ساتھ مذاکرات بھی جاری رکھے۔ بالآخر پاکستان کی مساعی بارآور ثابت ہوئیں اور کمپنی اور پاکستان کے درمیان ایک نیا معاہدہ عمل میں آیا۔
میں نے اس کالم میں عمداً معاہدے کے شرکاء کا نام اور اس کی ٹیکنیکل تفصیلات بیان کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہ تمام کچھ ہمارے میڈیا پر آتا رہا ہے اور جو قاری اس معاہدے کے سیاق و سباق، ماضی و حال اور نفع و نقصان کی تفصیلات جاننا چاہیں وہ گوگل پر جا کر دیکھی جاسکتی ہیں۔ قارئین کے لئے اس معاہدہ کی تین شقیں باعثِ صد اطمینان ہوں گی…… ایک یہ کہ کمپنی 11 ارب ڈالر کے جرمانے سے دست بردار ہوگئی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ کمپنی 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے ریکوڈیک کی کان کنی میں ازسرِنو مصروف ہوجائے گی اور تیسرے پاکستان کے 8 ہزار مزدوروں، کارکنوں، مستریوں اور انجینئروں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔ جب سونے اور تانبے کی اس کان سے یہ قیمتی دھاتیں نکلنا شروع ہوں گی تو اس کا 50% منافع کمپنی (بیرک گولڈ آف کینیڈا) کو ملے گا، 25% بلوچستان کی صوبائی حکومت کو اور 25% وفاقی حکومت کے حصے میں آئے گا۔
ناامیدی اور مایوسی اگرچہ کوئی اچھی بات نہیں ہوتی لیکن پاکستان اس طرح کی خوش خبریوں سے پہلے بھی کئی بار گذارا اور آخر میں مایوس ہوا ہے۔ خوش خبری تو یہ ہے کہ آنے والے 100 برس تک یہ کان سونا اور تانبہ اگلتی رہے گی۔ اور دنیا کی سونے تانبے کی سب سے بڑی کان ہونے کے ناتے پاکستان کو اگر 50% منافع بھی ملا تو اس سے سارا ملک ”نہال“ ہوجائے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو نہ صرف آئی ایم ایف جیسے اداروں کے پاس جا کر ”گداگری“ نہیں کرنی پڑے گی بلکہ ہمارا ملک خود آئی ایم ایف کے سرمایہ دار ممالک کی صف میں شامل ہوجائے گا۔ مسرت و شادمانی کے یہ امکانات کتنے دل خوش کُن ہیں ان کا تصور اقتصادی تناظر میں پاکستانیوں کے دلِ صد چاک چاک کو صد باغ باغ کرنے والا ہے!
لیکن کچھ ایسی ہی خوش خبری 2018ء میں بھی جب عمران خان نے نیا نیا عہدۂ وزارتِ عظمیٰ سنبھالا تھا قوم کو دی گئی تھی۔ کہا گیا تھا کہ ساحلِ کراچی پر بحیرۂ عرب میں ایکسکلوزف اکنامک زون ) میں تیل کی زیرِآب کھدائی جاری ہے اور شواہد روشن ہیں کہ ان زیرِزمین کنوؤں سے اتنا تیل نکلے گا کہ پاکستان کی انرجی ضروریات ناصرف پوری کردے گا بلکہ ہم انشاء اللہ تیل برآمد کرنے والے ممالک کے کنسورشم میں شامل ہوجائیں گے۔ عمران خان نے ٹی وی پر آکر ایک سے زیادہ مرتبہ اس خوش آئند مستقبل کی نوید دی تھی۔ لیکن پھر جوں جوں وقت گزرا، یہ امیدیں بجھتی گئیں اور چند ہی ہفتوں میں ”اندھیرا“ چھا گیا…… خدا نہ کرے ریکوڈیک کا بھی یہی حال ہو اور قوم ایک بار پھر ماضی کی آزمائش سے گزرے۔ مجھے دو تین باتیں اس معاہدے میں اور بھی کھٹکتی ہیں۔ ایک یہ کہ سونے تانبے کی پیداوار 6 برس بعد شروع ہوگی۔ اس دوران میں بیرک گولڈ کمپنی پاکستان کی افرادی قوت کو تکنیکی تربیت مہیا کرنے کی کیا تدابیر کرے گی، اس کے بارے میں تاحال کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔ 8000 پاکستانی کاریگروں میں کتنے لوگ اعلیٰ انجینئرنگ معلومات سیکھ سکیں گے اور ان کی نظری ٹریننگ کے لئے جو تکنیکی درسگاہیں قائم کی جائیں گی وہ ریکوڈیک سے کتنی دور یا نزدیک ہوں گی۔ فی الحال بتایا گیا ہے کہ جو علاقہ اس کان کنی کے لئے لیز پر دیا گیا ہے اس کا کل رقبہ 100 مربع کلومیٹر ہے۔ یعنی اس کا طول اور عرض 10، 10 کلومیٹر ہے۔ بہت کم پاکستانیوں نے ریکوڈیک کا یہ علاقہ دیکھا ہوگا جو بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے…… مجھے دو بار وہاں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ لیکن ان ایام میں (1970ء کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں) ریکوڈیک کا نام کسی نے بھی نہیں سنا تھا۔ یہ ایریا بعد میں دریافت ہوا۔ اس وقت اس کے نزدیک (مغربی سمت میں) سیندک کے سونے اور تانبے کے ذخائر تھے۔ میں ان ایام میں (1970ء تا 1973ء) قلات اسکاؤٹس خضدار میں پوسٹ تھا کہ تفتان (براستہ نوشکی) جانا پڑا۔ گرمیوں کے دن تھے اور کوئٹہ سے تفتان تک 400 میل (600کلومیٹر) کا فاصلہ تھا۔ میں خضدار سے کوئٹہ پہنچا اور وہاں سے نوشکی میں قیام کرتا ہوا احمد وال، دلبندیں وغیرہ سے گزر کر تفتان پہنچا۔ مجھے روسی جیپ دی گئی جس کا اسٹیرنگ بائیں طرف تھا۔ میرے ہمراہ جیسا کہ ان ایام میں ایس او پی تھی، ایک حفاظتی گارڈ بھی تھی جو ڈھائی ٹن ڈاج میں سوار میری جیپ کے پیچھے پیچھے چلی آ رہی تھی۔ سڑک اگرچہ بلیک ٹاپ نہیں تھی لیکن ہموار اور فراخ تھی۔ آج کل تو بلیک ٹاپ ہوچکی ہے۔ گرمی شدید تھی۔ پانی کی دو چھاگلیں بھر کر جیپ کے دائیں بائیں باہر کے شیشوں کے ساتھ لٹکائی ہوئی تھیں۔ ہر 80، 100 کلومیٹر کے بعد گاڑی کے ریڈی ایٹر میں تازہ اور ٹھنڈا پانی ڈالنا پڑتا تھا۔ دور دور تک کسی آبادی کا نام و نشان نہ تھا، گاہ گاہ کوئی بس یا نجی گاڑی گزرتی تھی۔ یہاں پہلی بار میں نے سراب کا نظارہ کیا۔ لگتا تھا پانی کا ٹھاٹھیں مارتا دریا ہے جس کے کناروں پر سرسبز درخت کھڑے جھوم رہے ہیں جو جیپ سے صرف ایک کلومیٹر دوری کے فاصلے پر ہیں۔ لیکن ہم کئی میل تک چلتے رہے اور یہ سراب (معراج) بھی ساتھ ساتھ آگے دوڑتا رہا۔…… دوسرا منطر دائیں بائیں کی پہاڑیوں اور صحرائی نشیب و فراز میں کلانچیں بھرتے ہوئے ہرن تھے۔ مجھے اقبال کا یہ شعر یاد آیا ؎
ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام
وہ حضر بے برگ و ساماں وہ سفر بے سنگِ میل
تفتان سے چند میل پیچھے ایک کچی سڑک دائیں طرف مڑ رہی تھی جس پر گاڑیاں آ جا رہی تھی اور ساتھ ہی ایک لوہے کا بورڈ برلبِ سڑک نصب تھا جس پر ”سیندک کاپر فیلڈ“ لکھ کر تیر کا نشان بنایا ہوا تھا۔ میں نے اخباروں میں یہ نام سن رکھا تھا۔ ڈرائیور کو کہا کہ گاڑی دائیں طرف موڑے، میں نے سیندک کاپر فیلڈ دیکھنی ہے۔ کچھ آگے بڑھے تو وہ مناظر نظر پڑے جو آج بھی آپ گوگل پر دیکھ سکتے ہیں۔ میں وہاں تادیر گھومتا رہا اور خیموں میں جاگزیں چینی اور مقامی آفیسرز سے باتیں کرتا رہا۔ آج بھی یہ فیلڈ چین کی ایک کمپنی کے پاس لیز پر ہے اور پاکستان کو باقاعدہ اس کا معاوضہ اور رائلٹی ملتی ہے۔ یہ سفر بہت معلوماتی اور سحر انگیز تھا۔ چند ماہ بعد دوبارہ سیندک سے گزر کر شمال کی طرف ملیشیا کی ایک چیک پوسٹ میں رات گزارنے کا اتفاق ہوا۔ یہ داستان بھی بہت دلچسپ اور علاقائی معلومات سے لبریز ہے۔ میں ایک ڈائری میں اس سفر کی ”ریکی رپورٹ“ لکھتا رہا جس کا ذکر پھر کبھی سہی۔ تفتان میں ایرانی پوسٹ بھی پاکستانی چاغی ملیشیا کے بالمقابل واقع تھی۔ میں نے فارسی کا تازہ تازہ کورس کیا ہوا تھا۔ وہاں جا کر ایرانیوں سے گپ شپ رہی۔ میرا ڈرائیور اور گارڈ کے باقی لوگ حیران تھے کہ میں کس روانی اور بے تکلفی سے ایرانیوں سے ہم کلام ہو رہا ہوں۔
ریکوڈیک گولڈ اینڈ کاپر فیلڈ بعد کی دریافت ہے۔ کینیڈا کی فرم نے اگر پاکستان کا 11 ارب ڈالر جرمانہ معاف کیا ہے، 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور 50% منافع پاکستان کو دیا ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سونے اور تانبے کی وہ مقدار کتنی ہوگی جو آنے والے برسوں میں یہاں سے نکال کر کینیڈا وغیرہ بھیجی جائے گی۔ سیندک کی کانوں سے بھی چین جو کچھ نکالتا ہے اس کی کوئی ارضیاتی تفصیل پاکستانیوں کو معلوم نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی زمین ”بیچنے“ کی بجائے خود اسے ”خریدیں“ اور اس سے 100% منافع حاصل کریں …… اور خدا جانے سیندک اور ریکوڈیک کے نواح میں اور کتنی اس طرح کی کانیں زیرِزمین پوشیدہ ہیں جن کا ہم پاکستانیوں کو علم نہیں۔

مطلقہ خبریں