بھارت سے کروز میزائل کا پاکستان میں فائر ہونا غلطی تسلیم نہیں کیا جاسکتا، منیر اکرم
بھارت کی اشتعال انگیزی ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے ہمیں سخت اقدام کرنا ہوگا، نصرت مرزا
بھارت انتہائی غیرذمہ دار ایٹمی ملک ہے تناؤ بڑھا رہا ہے، ضمیر اکرم
امریکا اور عالمی برادری کو بھارتی اشتعال انگیزی کا نوٹس لینا چاہئے، محمد علی سید
تقریباً 120 کلومیٹر پاکستان کے اندر بھارتی میزائل کا آجانا انتہائی مہلک ہوسکتا تھا، بسمہ مرزا
رپورٹ: سید زین العابدین
کراچی میں رابطہ فورم انٹرنیشنل کے زیراہتمام بھارت کی جانب سے کروز میزائل پاکستان میں فائر کئے جانے کے مضمرات کے موضوع پر ویبنار کا انعقاد کیا گیا۔ ویبنار کی نظامت کے فرائض ماہنامہ انٹریکشن کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بسمہ مرزا نے ادا کئے جبکہ ویبنار میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم، رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین نصرت مرزا، اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مندوب ضمیر اکرم اور پاکستان ایئرفورس اسٹرٹیجک تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر محمد علی سید نے خیالات کا اظہار کیا۔
منیر اکرم (اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب)
یہ انتہائی حساس معاملہ اور سنگین واقعہ ہے، عالمی برادری کو بھارت کے خطرناک عزائم کو دیکھنا ہوگا دوسرا ہمیں اپنے تحفظ کے لئے کچھ اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات ہوں تو اس سے نمٹا جاسکے، میں نے سیکیورٹی کونسل اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گورنیس کو اس حوالے سے پاکستان کا موقف تحریر کی صورت میں بھیجا ہے تاکہ بھارت سے اس پر بازپرس کی جائے اور اس کی وجوہات معلوم کی جائیں، اگر یہ حادثہ اور غلطی تھا تو اس کا ذمہ دار کون ہے کیوں ایسا ہوا اور مستقبل میں ایسا نہ ہو، اس کے لئے بھارت کو کیا حفاظتی اقدامات کرنا ہوں گے، دوسرا یہ کہ اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے پاکستان کے ساتھ مشترکہ تحقیقات کی جانی چاہئے تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ کیا یہ غلطی تھی یا دانستہ ایسا کیا گیا، اگر یہ غلطی سے ہوا تو اس پر بھارت کو کیا ایسے اقدامات اٹھانے ہوں گے جس سے مستقبل میں اس کا اعادہ نہ ہو، دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ سول ایوی ایشن کے حوالے سے بھی انتہائی خطرناک ہے کیونکہ اقوام متحدہ کے زیرنگرانی انٹرنیشنل ایوی ایشن کا ادارہ کام کرتا ہے جو مسافر جہازوں ICA کے محفوظ سفر کے لئے SOP’s طے کرتا ہے اور بیک وقت کئی مسافر طیارے فضا میں ہوتے ہیں، اگر یہ میزائل کسی مسافر طیارے کو ہٹ کر دیتا تو اس کے انتہائی خطرناک نتائج نکلتے، اس لئے اس کی مکمل اور غیرجانبدارانہ تحقیقات ہونا چاہئے تاکہ یہ بات یقینی بنائی جاسکے کہ بھارت اپنے عسکری معاملات کی خامیوں اور کوتاہیوں کو دیکھے، بھارت کے غیرذمہ دارانہ عمل پر شفاف تحقیقات عالمی سطح پر ہونا چاہئے، پاکستان اسے انسانی غلطی تسلیم نہیں کرسکتا۔
نصرت مرزا (چیئرمین رابطہ فورم انٹرنیشنل)
بھارت کی جانب سے اشتعال انگیزی کے پے درپے اقدامات ہورہے ہیں، 2016ء میں بھارت کی سب میرین کو پاک بحریہ نے اپنی حدود میں ڈٹیکٹ کیا پھر 2019ء، 2021ء اور گزشتہ دنوں 3 مارچ کو بھی بھارت کی سب میرین ہمارے ایکسکلوسیو اکنامک زون میں داخل ہوئی، یہ سارے اقدامات ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہین، پاکستان خطے میں تناؤ کم کرنا چاہتا ہے مگر بھارت کا رویہ انتہائی غیرذمہ دارانہ ہے جس کا عالمی برادری کو نوٹس لینا چاہئے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مندوب ضمیر اکرم کا کہنا تھا کہ ہمیں تحقیقات کا انتظار کرنا چاہئے تاکہ اس کی نوعیت کا اندازہ ہوجائے، ہمیں اندازے اور خیالات کے بجائے اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ کیا یہ حادثہ تھا اگر ایسا ہے تو یہ بھارت کی عسکری صلاحیت پر سوالات اٹھاتی ہے کہ وہ پروفیشنل رویے کا مظاہرہ کرنے کے قابل نہیں ہے، یہ عالمی برادری کو بھی غور کرنا چاہئے کیونکہ اس طرح کسی میزائل کا غلطی سے فائر ہونا انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ اور شدید اختلافات ہیں، اس سے قبل سب میرین کے پاکستانی علاقے میں آنے کا بھی واقعہ ہوا، یہ انتہائی سنجیدگی کے رویے کا تقاضا کرتا ہے اور پاکستان نے ایک ذمہ دار ملک ہونے کا مظاہرہ کیا ہے۔بھارت ایک غیرذمہ دار ایٹمی ملک ہے، وہ اشتعال انگیزی کرکے خطے میں تناؤ بڑھانا چاہتا ہے جبکہ پاکستان بھارت کے منفی اقدامات کو سفارتکاری کے ذریعے عالمی برادری پر عیاں کررہا ہے۔
ضمیر اکرم (اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مندوب)
یہ انتہائی سنگین معاملہ ہے اس کی مکمل اور غیرجانبدارانہ تحقیقات ہونا چاہئے، اسے صرف حادثہ یا غلطی کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا نہ ہی اپنے اندازے لگائے جاسکتے ہیں، اس کے تزویراتی محرکات ہیں، اگرچہ DGMO’s اس پر مذاکرات کرتے رہے ہیں لیکن بھارت کی اشتعال انگیزی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، یہ کام دانستہ بھی لگتا ہے اگر اسے غلطی مان لیا جائے تو یہ بھارت کی عسکری صلاحیت خصوصاً نیوکلیئر کیپبلٹی کے لئے تباہ کن ہے کیونکہ یہ ثابت ہورہا ہے کہ بھارت ٹیکنیکلی اپنے ایٹمی میزائل کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، کوئی بھی میزائل لانچ کرنے کے SOP’s ہوتے ہیں، یہ کوئی سول ادارے کے ماتحت تو نہیں ہے، اس کا باقاعدہ ایک دفاعی نظام ہوتا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایٹمی میزائل بھارت کے فوجی اڈے سے غلطی سے فائر ہوجائے، اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ بھارت کا دفاعی نظام ناکارہ اور صلاحیت سے عاری لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو پروفیشنل ازم سے عاری ہیں۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اس وقت ہورہا ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ ہے، پاکستان اس پر فوری ردعمل دے سکتا تھا لیکن پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہے، اس نے اس کو عسکری حوالے سے جواب دینے کے بجائے نظرانداز کیا، یہ پاکستان کے ذمہ دار ایٹمی ملک ہونے کی دلیل ہے، اگرچہ سفارتی سطح پر اس کو عالمی برادری کے سامنے اس مسئلہ کو اٹھایا جائے گا، اگرچہ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان بڑے اختلافی معاملات ہیں، ایسے موقع پر اس طرح کا بھارتی اقدام انتہائی قابل مذمت ہے۔
محمد علی سید (ڈائریکٹر اسٹرٹیجک تھنک ٹینک، پاکستان ایئرفورس)
یہ بھارت کی تزویراتی لحاظ سے انتہائی غیرذمہ دارانہ حرکت ہے، میں اس واقعہ کے حوالے سے چار رُخ پیش کرنا چاہوں گا، پہلا اس کے ٹیکنیکل معاملے دوسرا آپریشنل اور تیسرا اس کی ڈاکٹرائن کیا ہے، چوتھا اس کے سفارتی مقاصد کیا ہیں، ٹیکنیکل معاملے پر بات کریں تو بھارتی رویہ انتہائی نان پروفیشنل ہے، بھارت کے وزارت دفاع کی جانب سے اس واقعہ پر جو بیان جاری کیا گیا اسے پاکستان نے مسترد کردیا اور اسے غلطی سے فائر ہونے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کے دفترخارجہ نے بھارتی بیان کو مسترد کرتے ہوئے اس پر کچھ سوالات کھڑے کردیئے جن کے جوابات بھارت کو دینا ہوں گے، بھارت کی جانب سے اس پر تحقیقات کے لئے سرکاری بیان جاری کیا گیا، جسے پاکستان نے مسترد کردیا، پاکستان کا موقف ہے کہ ایک آزاد اور عالمی سطح کا پینل اس کی تحقیقات کرے تاکہ عالمی برادری بھی حقائق جان لے کہ اس کے کیا مقاصد تھے اور بھارت کس قدر غیرذمہ دار ملک ہے، براہموس کروز میزائل ہے جبکہ بھارتی حکام کہتے ہیں کہ یہ غلطی سے فائر ہوگیا، یہ بات تسلیم نہیں کی جاسکتی کیونکہ کروز میزائل کو لانچ کرنے کے بڑے حساس مراحل ہوتے ہین، اس کو ایک انسانی غلطی کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، دوسری بات یہ ہے کہ بسمہ مرزا ابتدا میں یہ کہہ چکی ہیں کہ یہ زمین سے زمیں پر مار کرنے والا میزائل تو نہیں تھا جس کی سمت اہداف کے مطابق تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے، تیسرا یہ کہ اس کو کنٹرول کرنے والے جب دیکھ رہے تھے کہ غلطی سے فائر ہوگیا ہے تو انہوں نے بھارت کی حدود میں ہی اسے کیوں تباہ نہیں کیا کیوں پاکستان میں 124 کلومیٹر تک اندر آنے دیا گیا۔
بسمہ مرزا (ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ماہنامہ انٹریکشن)
بھارت کا براہموس میزائل پاکستان کی جانب فائر کیا جانا ایک انتہائی غیرذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز عمل ہے، اس کے خطے اور عالمی سطح پر سنگین مضمرات ہوسکتے ہیں، 9 مارچ کے اس واقعہ کے بعد ہمارے میڈیا پر یہ نیوز بریک ہوئی جس پر آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس کرکے اس کی تفصیلات سے آگاہ کیا، انہوں نے بتایا تھا کہ 9 مارچ کو بھارت کی جانب سے کروز میزائل پاکستان کے علاقے میاں چنوں میں آ گرا۔ بھارت کی یہ پُراسرار حرکت انتہائی حساس ہے، اگرچہ یہ بارودی مواد سے خالی تھا، یہ بھارتی راجھستان سے فائر ہوا جو 40 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتا ہوا پاکستان میں تقریباً 120 کلومیٹر تک آیا۔ یہ بھارت کی فضا میں تقریباً 6 منٹ رہا، اس کی سمت کو تبدیل کیا جاسکتا تھا اور تقریباً تین منٹ اور 24 سیکنڈ تک یہ پاکستان کی حدود میں پراز کرتا رہا، یہ میزائل تقریباً 9 منٹ 40 سیکنڈ تک فضا میں رہا، پاکستان میں جتنی دیر یہ فضا میں تھا اُس دوران 2 بین الاقوامی پروازیں اور 3 مسافر جہاز پاکستان کی فضا میں موجود تھا، بین الاقوامی پروازیں قطر اور سعودی ایئرلائنز کی تھیں، اگر یہ میزائل کسی مسافر جہاز سے ٹکرا جاتا تو اس کے انتہائی ہلاکت خیز نتائج آتے، میں یہ بتاؤں کے براہموس میزائل کو بھارت نے 2019ء میں راجھستان کے فوجی اڈے پر نصب کیا ہوا ہے، جس کو آپریٹ کرنے کے لئے اسرائیلی ماہرین آئے تھے، ہدف پاکستان کے شہر ہیں، اس سارے واقعہ پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں، سب سے پہلے سوال تو یہ ہے کہ یہ میزائل پاکستان کی فضائی حدود میں 3 منٹ 24 سیکنڈ رہا کیونکہ ہماری ایئرفورس نے اس کے خلاف ایکشن نہیں لیا۔ دوسرا سوال یہ بنتا ہے کہ کیا براہموس کروز میزائل ٹیکنیکل فالٹ کے باعث اس پر بھارت کے فوجی اڈے سے خودبخود فائر ہوسکتا ہے؟ تیسری بات یہ ہے کہ اس کی ٹائمنگ بہت اہم ہے کیونکہ 23 مارچ پاکستان کا اہم دن ہے، یہ بھارت کی غلطی سے نہیں ہوا بلکہ اس کے پس پردہ ایک منظم سازش اور تیاری ہے۔