ڈاکٹر رشید احمد خاں
کئی روز سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لئے روس اور یوکرین کے وفود کے درمیان جس بات چیت کا آغاز ہوا تھا، وہ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئی، لیکن مذاکرات کے سلسلے کو ختم نہیں کیا گیا۔ اس میں حصہ لینے والے دونوں ملکوں کے وفود اپنی اعلیٰ قیادت کے ساتھ صلاح مشورے کررہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل ڈھونڈنے اور جنگ بندی کی امید ابھی باقی ہے، لیکن دونوں ملکوں کو مسئلے کا پُرامن حل تلاش کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ حالات تیزی سے خطرناک صورتِ حال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
بات چیت کے آغاز پر روس نے یوکرین کے بڑے شہروں کی طرف اپنی فوجوں کی پیش قدمی کی رفتار کو آہستہ کردیا تھا، لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق روسی فوج اپنے ٹینکوں اور دور مار توپوں کے ساتھ یوکرین کے بڑے شہروں کی طرف دوبارہ بڑھ رہی ہے اور اس نے ان شہروں پر حتمی حملہ کرنے سے پہلے فضائی بمباری کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ دوسری طرف امریکا اور اس کے اتحادی ممالک، جن میں برطانیہ، یورپی یونین، آسٹریلیا اور جاپان بھی شامل ہیں، نے روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا اعلان کرکے اس کی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان اقتصادی پابندیوں نے روس پر کافی سخت دباؤ ڈالا ہے۔ اس کی کرنسی یعنی ”روبل“ کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں ایک تہائی گر چکی ہے۔ امریکا کی سرکردگی میں ترقی یافتہ ممالک نے روس کے خلاف صرف اقتصادی پابندیاں ہی عائد نہیں کیں، بلکہ دیگر شعبوں مثلاً ثقافت اور کھیلوں میں بھی روس کے بائیکاٹ کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
سفارتی لحاظ سے بھی روس کو دُنیا میں الگ تھلگ کرکے اسے زبردست دباؤ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے مگر مغربی ممالک یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ محض اقتصادی پابندیوں اور سفارتی بائیکاٹ سے کسی ملک کو اپنی پالیسی ترک کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے روس کو بقول ان کے ”یوکرین پر حملے کی سزا دینے کے لئے“ اب دیگر اقدامات کے بارے میں بھی غور شروع کردیا گیا ہے۔ ان اقدامات میں یوکرین کی حکومت کو اسلحہ اور ہتھیار مہیا کرنے کے علاوہ بین الاقوامی رضاکار افراد کو یوکرین پر حملہ آور فوج کے خلاف لڑنے کی اجازت دینا بھی شامل ہے۔
اگرچہ امریکا اور نیٹو کی طرف سے اس جنگ میں یوکرین کا ساتھ دے کر براہ راست روسی فوجوں کے خلاف کارروائی کا کوئی امکان نہیں، لیکن نیٹو کی طرف سے یوکرینی فوج کی امداد کے لئے دیگر مہلک ہتھیاروں کے علاوہ لڑاکا طیارے بھی فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ چونکہ روس نے فضائی حملوں اور راکٹوں کے استعمال سے یوکرین کے ہوائی اڈوں کے رن ویز کو سب سے پہلے تباہ کیا تھا، اس لئے کہا جاتا ہے کہ یوکرین میں روس کی فوج کے خلاف ان طیاروں کو ہمسایہ ملک پولینڈ کے ہوائی اڈوں سے اڑایا جائے گا۔ یہ واضح نہیں کہ پولینڈ نے اس پر اپنی رضامندی ظاہر کی ہے یا نہیں لیکن اگر پولینڈ یا یوکرین کے دیگر ہمسایہ ممالک کے ہوائی اڈوں کو استعمال کرتے ہوئے نیٹو کے بمبار اور لڑاکا طیاروں نے یوکرین میں روس کی فوج کو نشانہ بنانے کا آغاز کردیا تو پھر جنگ کے دائرے کو وسیع ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا، کیونکہ فریقین یعنی روس اور نیٹو اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے پر تیار نہیں۔ اس لئے صورتِ حال کے مزید بگرنے کا سخت خطرہ موجود ہے۔ امریکا، یورپی یونین اور برطانیہ کے اتحاد اور روس کے درمیان اقتصادی محاذ پر ہی نہیں حربی میدان میں بھی تصادم کا خطرہ موجود ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں نے دیگر کئی ممالک کو بھی اپنا ہمنوا بنا کر روس پر فوری جنگ بندی اور یوکرین سے فوجیں نکالنے کے لئے دباؤ میں اضافہ کردیا ہے۔ اس کے لئے ایک طرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس بلا کر ایک قرارداد کے ذریعے روس سے جنگ بندی اور فوجوں کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور دوسری طرف جن ممالک کے ساتھ امریکا کے قریبی معاشی اور تجارتی تعلقات ہیں، سفارتی ذرائع سے ان کی حمایت بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان میں مقیم مغربی ممالک کے سفارتخانوں کی طرف سے حکومت پاکستان کو ایک خط ارسال کیا گیا جس میں حکومت پاکستان سے یوکرین میں روسی مداخلت کی مذمت کرتے ہوئے وہاں سے اپنی فوجیں واپس بلانے کو کہا گیا ہے۔ پاکستان نے یوکرین میں روسی فوجی کارروائی کی حمایت نہیں کی، بلکہ اس مسئلے پر وزیراعظم نے جنگ کے بجائے مذاکرات کی حمایت میں بیان دے کر دراصل روسی موقف سے اختلاف کا اظہار کیا ہے، لیکن امریکا اس سے مطمئن نہیں کیونکہ جیسا کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان امریکا کا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے، پاکستانی برآمدات کے لئے امریکا اس وقت سب سے بڑی منڈی ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لئے امداد کا انحصار بہت حد تک امریکا کی رضامندی پر ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ایف اے ٹی ایف کی لٹکتی تلوار سے محفوظ رہنے کے لئے پاکستان کو امریکا کی حمایت کی ضرورت ہے۔ تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے باوجود، دونوں ملک متعدد امور پر باہمی تعاون کو ناصرف اپنے قومی مفادات بلکہ خطے کے امن، سلامتی، استحکام اور خوشحالی کے لئے بھی ضروری سمجھتے ہیں، خصوصاً پاکستان امریکا کی ناراضی مول لے کر اپنی معیشت کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔
وزیراعظم عمران خان کی حکومت پاکستان کی پہلی یا واحد حکومت نہیں، جسے اس تلخ لیکن واضح حقیقت کا سامنا کرنا پڑا ہوا، البتہ موجودہ حکومت کو درپیش چیلنج بعض حالات کی وجہ سے زیادہ پیچیدہ ہیں۔ ایک طرف معیشت کی گرتی ہوئی صورتِ حال ہے جس کے بارے میں متفقہ رائے یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی امداد کے بغیر یہ اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکتی۔ افغانستان میں جنگ جس طرح ختم ہوئی اور امریکا کو جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، اس کی وجہ سے صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ پہلے ہی پاکستان سے ناراض ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے یوکرین بحران کے عین دوران روس کا دورہ کرکے اور روسی صدر ولادیمیر پوتن، جسے بائیڈن نے اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں ”آمر“ کہہ کر یوکرین کے خلاف جارحیت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، کے ساتھ ملاقات کرکے امریکا کو پاکستان سے مزید ناراض ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اس ناراضی کے اظہار کے طور پر امریکا کے مرکزی ریزرو بینک نے نیویارک میں ایک بینک کی برانچ کو تقریب 60 ملین ڈالر کا جرمانہ کیا ہے۔ اسلام آباد میں مقیم مغربی سفارتکاروں کی طرف سے یوکرین کے بحران میں روس کی فوجی مداخلت کی مذمت کا مطالبہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا امریکا پاکستان سے افغانستان میں ”ڈومور“ کا مطالبہ کرتا تھا۔ اگر افغانستان میں امریکی توقعات پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے امریکا پاکستان سے ناراض ہو کر اس کی فوجی اور اقتصادی امداد بند کرسکتا ہے تو یوکرین کے مسئلے پر روسی اقدام کی مذمت سے گریز کرکے پاکستان امریکا کو اپنے خلاف مزید اقدام کرنے کی دعوت دے سکتا ہے۔ یہ اقدامات امریکی منڈی میں پاکستانی درآمدات پر دی گئی مراعات کے خاتمے یا ایران کی طرح روس کے ساتھ تجارت اور اقتصادی تعاون پر پابندیوں کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔ حکومت ملک کی لاغر معیشت کے ساتھ امریکا اور اس کے اتحادیوں کا دباؤ برداشت کرسکتی ہے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا!