حقیقت یہ ہے کہ امریکا سے بڑھتے ہوئے فاصلوں میں روس کی قربت کے ساتھ ساتھ چین سے مضبوط تعلقات کا اعادہ سفارتی محاذ پر پاکستان کے لئے تاریخی طور پر انتہائی اہمیت کا حامل ہے
علی حسن
پاکستان اور روس کے درمیان طویل عرصے تعلقات میں گرم جوشی نہیں رہی تھی۔ وزیراعظم عمران خان ایسے موقع پر روس کا سرکاری دورہ کررہے ہیں جب ایک طرف یوکرین پر روس نے حملہ کردیا ہے اور بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے تو دوسری طرف وزیراعظم پاکستان کو بھی اپنے ملک میں حزب اختلاف کی جانب سے ایسے مسائل کا سامنا ہے جو حزب اختلاف کے خیال میں ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیابی کے ساتھ پیش کر کے ان کی حکومت ختم کرا سکتی ہے۔ ملک کے اندر پائی جانے والی صورتِ حال بظاہر وزیراعظم کے حق میں نہیں جاتی ہے لیکن روس میں بھی داخلی صورتِ حال یوکرین کی وجہ سے کشیدگی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ یوکرین کے معاملہ پر پاکستان روس کو کچھ سمجھانے سے تو رہا لیکن روس کو یہ تو باور کرایا جا سکتا ہے کہ جنگ کی بجائے مذاکرات کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ بلاکوں کی سیاست کی وجہ سے پاکستان کو ماضی میں تاریخی طور پر نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان کو دو لخط ہونا انتہائی نقصان دہ ثابت ہوا تھا لیکن روس اس وقت بھارت کا اتحادی تھا اور امریکا پاکستان کی مدد کو نہیں پہنچ سکا تھا۔ وزیراعظم ضرور کہیں کہ پاکستان کسی کیمپ کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکا سے بڑھتے ہوئے فاصلوں میں روس کی قربت کے ساتھ ساتھ چین سے مضبوط تعلقات کا اعادہ سفارتی محاذ پر پاکستان کے لئے تاریخی طور پر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان میں مبصرین وزیراعظم کے دورۂ روس کے حوالے سے منقسم رائے رکھتے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیراعظم کا دورۂ روس طے کرنے سے پہلے روس یوکرین کشیدگی کو مدنظر رکھنا چاہئے تھا۔ اور لوگ سمجھتے ہیں کہ آج کے پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے اس کے پیش نظر اس کی کوئی خاص اہمیت ہی نہیں ہے۔ البتہ بعض کا کہنا ہے کہ جیسے بھی حالات ہوں، حکومت کو تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ماضی میں امریکا کا ساتھ دینے پر پاکستان کو بہت نقصان ہوا، لہٰذا اب ہم کسی بلاک کا حصہ نہیں بنیں گے۔ روس کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ روس، چین اور امریکا سمیت تمام طاقتوں کے درمیان تعاون انسانیت کے مفاد میں ہے۔ بیرونی امداد کو ایک لعنت قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے ملکوں کو غلط فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ اس غیرملکی امداد کی وجہ سے اپنا نظام نہیں بنا سکے، ایکسپورٹ نہیں بڑھا سکے، خودانحصاری نہیں رہی۔ پاکستان کو گیس کی قلت کا سامنا ہے۔ روسی کمپنی پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن تاخیر کا شکار رہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایران پر سے بھی پابندیاں ختم ہوجائیں۔ وزیراعظم پاکستان کے روسی صدر پیوٹن کے ساتھ ملاقات میں جس کا دورانیہ بھی بڑھا دیا گیا ہے، تین ارب ڈالرز کے مجوزہ منصوبے کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ روس کے سی پیک کا حصہ بن جانے پر بھی تبادلہ خیال ممکن ہے۔
پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان شہید نے روس کا دعوت نامہ ملنے کے باوجود امریکا کا دورہ کرنے کو ترجیح دی۔ ایسا کیوں ہوا تھا یا کیا گیا تھا۔ پس منظر میں کیا عوامل تھے۔ امریکا کے ساتھ تعلقات نبھانے کے لئے پاکستان نے تمام اقدامات اور کوششیں کیں لیکن نتائج پاکستان کی توقعات کے برعکس اس لئے نکلے تھے کہ جیسے پاکستان کے سابق صدر ایوب خان نے اپنی خود نوشت ”جس رزق سے پرواز میں آتی ہو کوتاہی“ میں لکھا ہے کہ پاکستان دوست چاہتا ہے، آقا نہیں۔ یہ بات براہ راست امریکا کے لئے تھی۔ بعد میں بھی ہر پاکستانی حکمران یہ کہتا رہا کہ ہمیں امداد کی بجائے ہمارے ساتھ تجارت میں اضافہ کیا جائے۔ جہاں تک سابقہ سوویت یونین روس اور پاکستانی حکمرانوں کے دوروں کا تعلق ہے تو وہ زیادہ کثرت سے نہیں ہوئے۔ پاکستانی وزیراعظم، فوجی آمر، منتخب اور غیرمنتخب صدور اور گورنر جنرل 3 مئی 1950ء سے اب تک قریباً 43 بار امریکا کا دورہ کرچکے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 3 اپریل 1965ء کو صدر ایوب خان نے ماسکو کا پہلا سرکاری دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران سوویت یونین نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا جس میں بھارت اور پاکستان کو تاشقند اعلامیہ پر دستخط کرنے کے قابل بنایا گیا تھا۔
سوویت اور پاکستان کے درمیان ہتھیاروں کا پہلا معاہدہ 1968ء میں ہوا تھا جس پر بھارت کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا۔ 1970ء میں جنرل یحییٰ خان بھی سابق سوویت یونین کا دورہ کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود بھارت پاکستان کے خلاف سفارتی محاذ استعمال کرنے پر سرگرم تھا۔ پاکستان اور روس تعلقات میں کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب سوویت یونین نے بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیا۔ یہ ایسا وقت تھا جب بھارت پاکستان کے داخلی معاملات میں کھلی مداخلت کر رہا تھا۔ اس دفاعی معاہدے نے بھارت کے اس وقت کے حکمرانوں میں نئی امیدیں پیدا کردی تھیں۔ بھارت نے پاکستان پر جنگ تھونپ دی اور پاکستان دولخط ہوگیا تھا۔ اس معاہدے کے بعد بھی پاکستان کے حکمرانوں نے نامعلوم کیوں ایسے حالات پیدا ہونے دیئے کہ جب روسی صدر پوڈ گرنی نے صدر پاکستان کو نومبر 1971ء میں لکھا تھا کہ شیخ مجیب الرحمان کو فوری رہا کیا جائے۔ صدر پاکستان نے روسی صدر کے خط کا جواب سفارتی آداب سے ہٹ کر دیا تھا۔ دوسرا موقع اس وقت آیا تھا جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پولینڈ کی قرارداد پر غوروفکر اور بحث کی بجائے پاکستان کے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان کی جانب سے نامزد وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اجلاس میں قرارداد پھاڑ دی اور واک آؤٹ کر گئے۔ قرارداد پھاڑنے جیسے انتہائی قدم اور واک آؤٹ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ بعد میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان ایک بار پھر روس کے خلاف استعمال ہوا جس کے بعد پاکستان اور روس کے تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے۔ امریکا نے پاکستان کو روس کے خلاف ہر لحاظ سے استعمال کیا۔ خطے میں ہونے والے اس کھیل سے پاکستان کو کئی لحاظ سے نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں نے بہت تلخ حالات دیکھے ہیں۔ اب حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان بڑی طاقتوں کی دوستیوں پر انحصار کرنے کی بجائے اپنی ضرورتوں پر بھرپور توجہ دے۔ دُنیا جہان کا درد اپنے سینے میں نہ رکھے۔ جس درد کی دوا ہی نہیں ملے اسے پالا ہی کیوں جائے۔
یاد رہے کہ روس جانے سے پہلے وزیراعظم نے ایک روسی ٹی وی چینل کو جو انٹرویو دیا اس سے بھی وزیراعظم کے دورۂ ماسکو کے پس منظر کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اس انٹرویو کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ وہ کسی ملٹری مہم جوئی اور فوجی آپریشن پر یقین نہیں رکھتے، روس اور یوکرین تنازع کے پُرامن طریقے سے حل کے خواہاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے اختلافات کا حل نکالا جائے۔ ماضی میں پاکستان، امریکی بلاک کا حصہ بنا جس کے باعث پاکستان کو امداد ملی مگر اس امداد کی وجہ سے ہم اپنے ادارے مضبوط نہیں کرسکے۔ بیرونی امداد ایک لعنت ہے، اس کے لئے ممالک کو غلط فیصلے کرنے پڑتے ہیں، امداد کے باعث ہم نے ترقی کے اصل محرکات اور عوامل پر توجہ نہیں دی اور صرف امداد پر انحصار کے عادی ہوگئے۔ اب ہم کسی ملک کے بلاک کا حصہ نہیں بنیں گے، دُنیا بلاکس میں تقسیم ہے، ہم چاہتے ہیں کہ تقسیم ختم ہو اور پُرامن طریقے سے مسائل کا حل نکالا جائے، امریکا نے افغانستان میں طاقت کا استعمال کیا، افغانستان میں طاقت کا استعمال کرکے کیا حاصل کیا گیا، دُنیا نے دیکھ لیا کہ امریکا کو افغان جنگ سے کیا حاصل ہوا، کسی بھی تنازع کو جنگ کے ذریعے حل کرنا بے وقوفی ہے۔ میں کسی ملٹری مہم جوئی اور فوجی آپریشن پر یقین نہیں رکھتا، ہم چاہتے ہیں مذاکرات کے ذریعے اختلافات کا حل نکالا جائے جبکہ روس اور یوکرین معاملات کے پُرامن طریقے سے حل کے خواہاں ہیں۔ کرونا کی وجہ سے دُنیا کی معیشت کو دھچکا لگا، دُنیا ابھی کرونا کے اثرات سے نکل نہیں پائی، اگر ایک اور تنازع میں گئی تو مزید مشکلات ہوں گی، ترقی پذیر ممالک کسی سردجنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے، ہماری بنیادی توجہ اس بات پر ہونی چاہئے کہ کیسے لوگوں کو غربت سے نکالیں۔ سمجھ نہیں آرہا روس، یوکرین کشیدگی اتنی کیسے بڑھی، اس کشیدگی کی وجہ سے پیٹرول مہنگا ہوا، انسانیت کو بہت سے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، دُنیا کو درپیش چیلنجز میں سے ایک ماحولیاتی آلودگی بھی ہے، ماحولیاتی آلودگی دُنیا کو متاثر کررہی ہے، موسمیاتی تبدیلی بھی ایک بڑا چیلنج ہے، ہمیں بطور انسان اپنی ذمے داریوں کو ادا کرنا چاہئے اور دُنیا سے غربت کے خاتمے کے لئے، عوام کی مشکلات کے خاتمے کے لئے مل کر کام کرنا چاہئے۔ کوئی ملک تنہا ترقی نہیں کرتا بلکہ خطے ترقی کرتے ہیں، خطے کا ایک ملک متاثر ہو تو دوسرا بھی لازمی متاثر ہوتا ہے، جیسے ایران پر پابندیوں کے باعث پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مسائل کا شکار رہا، چاہتے ہیں ایران پر عائد پابندیاں ختم ہوں، ہم ایران سے سستی گیس حاصل کرسکتے ہیں۔ روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے روس کے ساتھ باہمی تعلقات ہیں اور ہم ان تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ پاک بھارت تعلقات سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اقتدار میں آتے ہی بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی، خواہش ہے کہ بھارت بھی ہندوتوا کے بجائے لوگوں کو غربت سے نکالنے پر توجہ دے، چاہتے ہیں بھارت لوگوں کو غربت سے نکالنے کے لئے کام کرے، ہمارے خطے میں غربت بہت زیادہ ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ کشمیر ہے، موجود بھارت گاندھی اور نہرو کا نہیں، مودی کا ہے، میں جس بھارت کو جانتا تھا یہ اب ویسا نہیں، بھارت کو ہندوتوا کے بجائے انسانیت پر توجہ دینی چاہئے، ہم بھارت سمیت پوری دُنیا کے ممالک سے تجارت تعلقات چاہتے ہیں۔