ایرانی وزیر داخلہ کے دورے میں ایک نئی ڈویلپمنٹ یہ ہوئی ہے کہ پاک ایران بارڈر کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف میں مارکیٹیں قائم کی جائیں گی اور جن اشیاء کی اسمگلنگ ہوتی ہے وہ ان مارکیٹوں میں رکھی جائیں گی
لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان
ایرانی وزیر داخلہ ڈاکٹر احمد واحدی صاحب 14 فروری 2022ء پاکستان کے ایک روزہ دورے پر آئے۔ اپنے ہم منصب شیخ رشید احمد صاحب کے علاوہ ان کی ملاقاتیں وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ہوئیں۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ اس دورہ میں زیادہ فوکس پاک ایران بارڈر سیکورٹی پر رہا۔ جیسا کہ بالعموم ایسے دوروں میں خبر دی جاتی ہے کہ طرفین کے وزراء (یا زعماء) نے علاقائی اور بین الاقوامی سیکورٹی اور امن و امان کے موضوعات پر گفتگو کی، ایسا کچھ جناب واحدی کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے نہیں کہا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سارا زور پاک ایران سرحد کی بارڈر سیکورٹی پر رہا۔ یہ بارڈر گوادر سے لے کر شمال میں تفتان تک 900 کلومیٹر طویل ہے۔ علاقہ زیادہ تر صحرائی ہے اور بارڈر پورس ہے (یعنی ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے کے لئے کئی ایسے راستے ہیں جن پر کوئی سیکورٹی فورس تعینات نہیں اور نہ ہی کی جا سکتی ہے) یہ بارڈر چونکہ کوہستانی نہیں بلکہ ریگستانی ہے، اس لئے اس میں جنگلہ بندی کے مسائل کی بھرمار اور مشکلات نہیں۔ لیکن اس کے باوجود حالیہ ایام میں بظاہر ایران کی طرف سے آئے ہوئے دہشت گردوں کے حملے ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں پنجگور پر پاکستانی علاقے کی ملٹری تنصیبات پر خودکش دہشت گردوں نے جو حملہ کیا اور جس میں پاکستان کے کئی سولجرز شہید ہوگئے وہ بالخصوص تشویش انگیز تھا۔
ان دہشت گردوں سے جو اسلحہ بارود پکڑا گیا وہ زیادہ تر وہی تھا جو امریکی فوجی 15 اگست 2021ء میں کابل سے نکلتے ہوئے وہاں چھوڑ گئے تھے۔ یہ اسلحہ بارود جن لوگوں کے ہاتھ لگا ان میں ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) اور (بلوچ نیشنل آرمی) کے پاکستان دشمن عناصر شامل تھے۔ پنجگور کا علاقہ ایران کے صوبہ بلوچستان کے بالمقابل واقع ہے، آبادیاں خال خال ہیں اس لئے یہ علاقہ علیحدگی پسند دہشت گردوں کی جنت بھی ہے۔ جو علیحدگی پسند اس خودکش حملے میں پکڑے گئے تھے ان سے جو معلومات حاصل ہوئیں ان کے تانے بانے افغانستان کی بجائے ایران سے ملتے تھے۔ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی جسمانی تلاشی (بعد از ہلاکت) لی گئی تو اس میں ایسی اشیاء بھی ملیں جو ایران سے لی گئی تھیں اور ان پر ایرانی مہریں وغیرہ ثبت تھیں۔ بعض ایسی چیزیں (بالخصوص اشیائے خوردونوش) بھی تھیں جو اس بات کا سراغ دیتی تھیں کہ وہ ایرانی علاقے سے خریدی گئی تھیں۔ ان اشیائے خوردونوش کے علاوہ بعض لباس بھی ایرانی بتائے جاتے ہیں۔ ایک گفتگو میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے اس طرف صاف صاف اشارہ کیا ہے کہ یہ خودکش حملہ آور ایرانی بلوچی (سیستانی) علاقے سے پنجگور میں آئے تھے۔ اس کے علاوہ اور بھی شواہد ہوں گے اور گرفتار شدہ دہشت گردوں نے اور بھی بہت کچھ بتایا ہوگا جس کو، ظاہر ہے، بوجوہ افشا نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اسی دوران دو واقعات اور بھی پیش آئے جو پاک ایران تعلقات کے تناظر میں تشویش خیز تھے (اور ہیں)…… ایک تو یہ کہ ہمارے نئے ڈی جی آئی ایس آئی نے ایران کا ایک ہنگامی دورہ کیا۔ اس کی اطلاع کسی پاکستانی یا ایرانی میڈیا پر نہیں دی گئی…… اور دوسرا پاکستانی آرمی چیف کا پنجگور کا دورہ تھا۔ اس دورے کا بیشتر وقت آرمی چیف نے ٹروپس سے بات چیت میں گزارا، ان کی ہمت بندھائی اور ان کو تسلی دی کہ وہ اگرچہ نگاہوں سے دور بیٹھے ہیں لیکن پاکستان کی عسکری قیادت کے دل سے دور نہیں ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے علاقے کے عمائدین سے بھی بات چیت کی اور ان سے خطاب کے دوران ان کو بھی یقین دلایا کہ پاکستان اس علاقے کو ایک دور افتادہ علاقہ نہیں سمجھتا۔ اب بلوچستان کی ترقی، پاکستان کی ترقی ہے، سی پیک کے کئی منصوبے ان علاقوں میں زیرتکمیل ہیں۔ تربت، گوادر اور خضدار میں پاک آرمی کا ایک ایک انفنٹری ڈویژن صف بند ہے جن کی یونٹیں اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی بجا آوری میں دن رات مشغول و مصروف ہیں۔
اسی روز اے آر وائی کے ایک اینکر (ارشد شریف) نے پورے ایک گھنٹے کا پروگرام پنجگور سانحے پر آن ایئر کیا۔ اس میں بریگیڈیئر، کرنل اور میجر رینک کے افسروں کے علاوہ کئی عہدیداروں (حوالدار، نائک، لانس نائیک اور سپاہیوں) کا انٹرویو بھی کیا۔ ان کی بریفنگ میں بتایا گیا کہ خودکش حملہ آور کس جانب سے آرمی کیمپ میں داخل ہوئے اور 72 گھنٹوں تک کیوں ایک کمرے میں محصور رہ کر بالآخر جہنم رسید ہوئے، ان کے اسٹرٹیجک عزائم کیا تھے اور کن بیرونی ملکوں سے ان کے رابطے تھے۔ جو عسکری سازوسامان ان دہشت گردوں کے قبضے سے تحویل میں لیا گیا اس میں شبانہ بصری آلات (نائٹ ویژن گاگل)، سیٹلائٹ ٹیلی فون اور ایسے کئی جدید ترین آلات تھے جو امریکی ساختہ تھے اور پاکستانی فورسز کے قبضے میں آئے۔
یہ امر باعثِ صد افسوس ہے کہ پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات اگر کشیدہ نہیں کہے جا سکتے تو مثالی بھی نہیں کہلا سکتے۔ دونوں طرف کھچاؤ اور اضطراب انگیزی کی کیفیت موجود ہے۔ دونوں اپنی اپنی وجوہات لے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ دونوں کا مذہب، روایات اور ثقافتی اقدار ایک ہیں لیکن اس کے باوجود اور بہت سے نوکیلے خار ہیں جو ایرانی بلوچستان اور پاکستانی بلوچستان کے دشت و کہسار میں پائے جاتے ہیں …… کلبھوشن سے شروع کریں تو آج تک درجن بھر سے زیادہ ایسے واقعات ان دونوں ممالک میں وقوع پذیر ہوچکے ہیں کہ جن پر طرفین ایک انگلی نہیں کئی انگلیاں اٹھا سکتے ہیں!
ایرانی وزیرداخلہ نے جن پاکستانی اربابِ اختیار سے بات کی اس میں بارڈر سیکورٹی کا مسئلہ سرفہرست رہا۔ اس مسئلے کے حل کے لئے پہلے بھی کئی بار ورکنگ گروپ اور کمیشن وغیرہ تشکیل دیئے گئے لیکن مسائل جوں کے توں رہے (اور ہیں) بظاہر یہ دونوں ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کی دوستی کا دم بھرتے ہیں لیکن:
ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں؟
جس طرح پاک افغان سرحد پر جنگلہ بندی ایک بڑا مسئلہ ہے اسی طرح پاک ایران بارڈر پر بھی 900 کلومیٹر طویل سرحد پر جنگلہ لگانا اور اس پر افرادی قوت تعینات کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ انسانی اسمگلنگ اور غیرانسانی اسمگلنگ دونوں بڑے دردِسر ہیں۔
ایرانی وزیر داخلہ احمد واحدی صاحب کے دورے میں ایک نئی ڈویلپمنٹ یہ بھی ہوئی ہے کہ اس پاک ایران بارڈر کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف میں مارکیٹیں قائم کی جائیں گی اور جن اشیاء کی اسمگلنگ ہوتی ہے، وہ ان مارکیٹوں میں رکھی جائیں گی۔ مثال کے طور پر ایرانی پیٹرول پاکستانی پیٹرول سے سستا ہے، خشک میوہ جات، ایرانی ظروفِ خوردونوش، ملبوسات، قالینیں اور اس قسم کی درجنوں چیزیں ایران سے اسمگل ہو کر پاکستان آتی ہیں۔ پاکستان سے ایران اسمگل ہونے والی اشیاء تعداد اور مقدار میں مقابلتاً کم ہیں۔ ان مارکیٹوں کا قیام اور ان کے لئے انفرااسٹرکچر کھڑا کرنا (پکی سڑکیں اور عمق میں چھوٹے بازاروں کا قیام وغیرہ) ایک وقت طلب مسئلہ ہے۔
میرا خیال ہے پاکستان کو اس 900 کلومیٹر (600 میل) طویل سرحد پر نہ صرف جنگلہ بندی کرنی پڑے گی بلکہ اس کے ساتھ ایک پکی سڑک بھی تعمیر کرنی پڑے گی جس پر دن رات گشتی دستے سفر کرسکیں۔ یہ کام پاکستان کی نسبت ایرانی بلوچستان میں زیادہ آسان ہوگا۔ ایک تو ایرانیوں کے ہاں سرمائے کی کمی نہیں اور دوسرے ان کا جو ایرانی مال اسمگل ہو کر پاکستان جاتا ہے اس کو باقاعدہ بنانے میں ایران کا مالی فائدہ زیادہ ہے۔