میر افسر امان
قاضی حسین احمدؒ میاں طفیل محمدؒ کے بعد ۷۸۹۱ء میں جماست اسلامی کے تیسرے امیر منتخب ہوئے۔ قاضی صاحب ؒ۲۱/ جنوری ۸۳۹۱ء کو صوابی کی تحصیل نوشہرہ کے ایک مردم خیز گاؤں زیارت کاکاخیل میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد جمعیت علمائے ہند کے اعلیٰ عہدے دار تھے۔ قاضی حسین احمدؒ کا نام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے نام پر رکھا گیا۔ قاضی صاحبؒ کا سسرالی خاندان سید احمد شہیدؒ اور سید اسماعیل شہیدؒ کی تحریک کا حصہ رہا ہے۔ یہ خاندان جب جماعت اسلامی کا حصہ بنا تو اس خاندان کے چشم و چراغ قاضی صاحبؒ کے اندر، مولانا سید ابوالااعلیٰ مودودیؒ کی انقلابی تعلیمات کی وجہ سے نکھار پیدا ہوا۔ قاضی صاحب ؒجماعتی اور غیرجماعتی حلقوں میں یکساں مقبولیت کے حامل تھے۔ جماعت اسلامی کے اندرونی اور بیرونی حلقوں کی متفقہ رائے ہے کہ جماعت کے بنیادی دستور پر عمل کرتے ہوئے جماعت اسلامی کو عوامی جماعت بنانے میں قاضی صاحبؒ کی سیماب طبیعت کا بڑا دخل ہے۔ جہاد کشمیر، افغانستان، فلسطین، چیچنیا، برما کے روہنگیا، مغرب کے وسط میں بوسنیا اور عراق اور دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے استعماری طاقتوں سے لڑتے رہے، قاضی صاحبؒ نے ان سب کی پشیتبانی کی۔ جماعت اسلامی کی ۲۲ سالہ امارت سے ۹۰۰۲ء میں فارغ ہو کر بھی ”ادارہ فکرو عمل“ کے تحت ۲۱۰۲ء میں ایک عالمی کانفرنس ”وحدت امت“ کے موضوع پر اسلام آباد میں منعقد کی۔
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مختلف قسم کی خوبیوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ قاضی صاحبؒ پیدائشی مرد مجاہد، سیماب طبیعت، جدوجہد اور ہردلعزیز شخصیت کے حامل تھے۔ مولانا مودودیؒ کے زمانے سے ہی اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لئے ضرورت کے مطابق نئی راہیں اور نئے تجربات کرنا جماعت اسلامی کی روایت رہی ہے۔ جیسے انسانی حقوق کی بحالی کے لئے جماعت نے لبرل، لیفٹ اور رائٹ کے ساتھ مل کے کام کیا۔ اسلامی دستوری مہم کا آغاز جماعت اسلامی نے کیا۔ اس کے لئے مشترکہ محاذ ۰۵۹۱ء کی دہائی میں قائم ہوا۔ سیاسی جماعتوں کا متحدہ حزب اختلاف بنا، جس میں اسلام پسند، قومیت پسند اور سیکولرسٹ سب شریک تھے۔ ختم نبوت کی تحریک اور پھر بھٹو کے خلاف ۹ جماعتی قومی جمہوری اتحاد بنا جس میں جماعت اسلامی سمیت سب سیاسی دینی جماعتیں شامل تھیں۔
قاضی صاحب کی سوچ تھی کہ جماعت اسلامی کی انتھک قیادت کی محنت سے کافی لوگ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے کے لئے تیار ہو چکے ہیں، لہٰذا اب اس نیکولس کو استعمال کر کے اسلام دشمنوں سے فائنل راؤنڈ کھیلانا چاہئے، اسی لئے قاضی صاحبؒ جماعت اسلامی کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے جماعت اسلامی سے باہر لوگوں کے قابل عمل مشوروں کو بھی جگہ دی۔ اسی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے، قاضی صاحبؒ نے شوریٰ کے مشورے سے جماعت میں عوامی روح پھوکنے کے ۳۱۳ ساتھیوں کی معیت میں ”کاروان دعوت و محبت“ کے ذریعے پورے ملک میں ہلچل مچا دی۔ ۰۹۹۱ء مینار پاکستان پر کل پاکستان اجتماع کر کے تسلسل کے ساتھ اجتماعات کرنے روایت تازہ کی۔
جماعت اسلامی میں متفق کی اصطلاح کی جگہ ”ممبر“ کے نام سے ممبر سازی کی۔ مظلوموں کی دادرسی، خدمت اور ان کے مسائل حل کرنے کے لئے جماعت اسلامی میں پبلک ایڈ کمیٹیوں کی بنیاد رکھی۔ نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لئے پاسبان بنائی۔ مگر یہ منصوبہ صحیح نہج پر نہ چل سکا۔ شوریٰ کے مشورے سے اسے ختم کرکے اس کی جگہ شبابِ ملی بنائی گئی۔ اب جماعت اسلامی نے نوجوانوں میں کام پھیلانے کے لئے جماعت اسلامی یوتھ بنائی (جے یو آئی) ہے۔ الجزائر میں تحریک اسلامی کے الیکشن جیتنے کے تجربے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے، پاکستان میں جماعت اسلامی سے باہر اچھی شہرت رکھنے والے پاکستانیوں پر مشتمل ”پاکستان اسلامی فرنٹ“ کا تجربہ کیا گیا۔ یہ تجربہ بھی جو نتائج نہ دے سکا۔ پاکستان کے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی دینی جماعتوں پر مشتمل متحدہ مجلس عمل بنائی۔ اللہ نے اس میں کامیابی دی۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں اس کے تحت حکومتیں بنیں۔ مرکز میں اپوزیشن کی لیڈر شپ ملی۔ مولانا فضل الرحمان صاحب قائد حزب اختلاف بنے۔ پاکستان میں شیعہ سنی فساد کو ختم کرنے کے لئے ملی یکجہتی کونسل بنائی۔ ملک بھر میں عوامی کارواں، ریلیاں اور دھرنے منعقد کئے۔ اس پر قاضی صاحبؒ دھرنا بابا مشہور ہوئے۔ بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کو آگے برھانے کے لئے قاضی صاحب ؒ نے مختلف طریقوں سے جدوجہد کی۔ کسی میں ناکامی اور کسی میں کامیابی ہوئی، کیونکہ کامیابی اور ناکامی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
قاضی صاحب پر مہمند ایجنسی کے دورے کے دوران ایک گاڑی میں نصب شدہ بم کو ریموٹ کنٹرول سے اُڑا کر شہید کرنے کی کوشش کی گئی۔ قاضی صاحب نے حملے کے بعد اخباری بیان میں اور ایک ٹی وی پروگرام میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔ ان کو معلوم ہے کون لوگ حملہ کرنے والے ہیں۔ اسے اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو قاضی صاحب کو راستے سے ہٹانے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کے ایک پڑوسی مسلمان ملک افغانستان کی اسلامی شناخت ختم کرنے کے لئے اس پر حملہ کیا۔ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کو مدد فراہم کی یا کرتے رہے ہیں۔ کچھ دانستہ اورکچھ نادانستہ… پاکستان کے عوام کو معلوم ہے کہ امریکا کے تھنک ٹینک اُنہیں بار بار مشورے دے چکے ہیں کہ کیمونزم کے بعد اُن کا مدمقابل اسلام ہے۔ پاکستان اور دنیا میں اس کے قائد مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی برپاہ کردہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک ہے۔ پاکستان میں ساری افراتفری کے پیچھے گریٹ گیم کا حصہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں پاکستان کی اسلامی شناخت ختم ہو، انتشار ہو، خانہ جنگی ہو، لاء اینڈ آڈر ہو، اقتصادیات کو تباہ کردیا جائے، پاکستان کو ناکام ریاست ہو، اور بلآخر دنیا میں پروپیگنڈا کر کے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کیا جائے یا اسے اقوام متحدہ کے کنٹرول میں دے دیا جائے۔ اگر کسی کو مزید معلومات چاہئے تو سابق آری چیف جنرل پرویز کیانی کا خط جو انہوں نے امریکا کے صدر اوباما کو اپنے دور میں لکھا مطالعہ کرسکتا ہے، جس میں لکھا ہوا ہے کہ امریکا پاکستان میں دہشت گردی کرا رہا ہے۔ اس کو مقصد پاکستان کو ایک ناکام اسٹیٹ ثابت کر کے اس کے ایٹمی اثاثے بین الاقوامی کنٹرول میں دینا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی میں بھارت، امریکا اور اسرائیل شامل ہیں۔ یہ گریٹ گیم کی شکل میں پاکستان کے اسلامی اور ایٹمی میزائل تشخص کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت پاکستان کا اس لئے مخالف ہے کہ پاکستانیوں کے آباواجداد نے ایک ہزار سال حکومت کی ہے۔ بھارت اس کا بدلہ لینا چاہتا ہے، بھارت نے کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لئے 9 لاکھ فوج لگائی اور بلآخر ۵/ اگست ۹۱۰۲ء کو ریاست کشمیر کی بھارتی آئین میں داخل خصوصی دفعات ۰۷۳/ اور ۵۳/اے کو غیرآئینی طریقے سے یک سر ختم کرکے کشمیر کو بھارت میں شامل کرلیا۔ جماعت اسلامی کشمیر کی ذیلی تنظیم حزب المجاہدین نے اس کے ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ حزب المجاہدین کشمیر میں پچھلے کئی سالوں سے مزاحمت کررہی ہے اور بھارت کشمیریوں کی نسل کشی کررہا ہے۔ یہودی اس لئے پاکستان کے مخالف ہیں کہ اسلامی اور ایٹمی پاکستان عربوں سمیت دینا کے مسلمانوں فطرتی لیڈر ہے۔ اس نے اسرائیل کو تسلیم بھی نہیں کیا، یہودیوں کی نافرمانی کی وجہ سے ربِ کائنات، جہانوں کے رب نے انہیں دھتکار دیا تھا۔ امامت چھین کر امت مسلمہ کو دی تھی۔ پاکستان میں اسلامی نظام قائم کرنے کی صلاحیت ہے۔ اسرائیل کو یہی بات پسند نہیں کہ مسلمان ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلیں۔ یہودیوں نے اللہ کے مقابلے میں سود کا نظام قائم کیا، بے حیائی کا چلن عام کیا، نبیوں کو ناحق قتل کیا، فلسطینیوں کا قتل عام اور ان کے گھروں سے نکال کر فلسطینی عوام پر ظلم کی انتہا کردی۔ اسرائیل ساری مسلم دنیا میں بگاڑ کا سبب ہیں، بھارت، اسرائیل اور امریکا نے پاکستان میں دہشت گردی کرائی اور کررہا ہے۔ پاکستان کے نادان حکمرانوں نے پچھلے ۰۷ سال سے امریکا کو دوست بنایا ہوا ہے جبکہ امریکا کبھی بھی پاکستان کا دوست نہ تھا اور نہ ہے۔ کوئی دوست ملک کسی دوست ملک کو کہہ سکتا ہے میری بات مانوں ورنہ، تمہیں پتھر کے دورمیں پہنچا دیا جائے گا؟ ایسا تو غلام لوگوں کو کہا جاتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست ہرگز نہیں ہوسکتے، اس لئے کہ امریکا کی چالوں کا توڑ کرنے کے لئے قاضی حسین احمدؒ نے ملک سے امریکا کو نکا لنے کیلئے ”گو امریکا گو“ مہم شروع کی۔ شیعہ سنی اتحاد کے خاتمے کے لئے ملی یکجہتی کونسل کو فعال کیا اور پاکستان کے تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کو اکٹھا کیا اور صرف اکٹھا ہی نہیں کیا بلکہ ملی یکجہتی کونسل نے اتحاد و اتفاق کے لئے فی الواقعہ کام کرنا بھی شروع کردیا۔ جمعہ کے خطبات میں مسلمانوں میں اتحاد اتفاق کے علاوہ ملک دشمنوں کی پہچان کا پروگرام شروع کیا… اتحاد مسلمین کے لئے مسلم دنیا کے لیڈروں کو پاکستان میں جمع کیا… امریکی فرنٹ لین اتحادی اور امریکی جنگ سے پاکستان کو باہر نکانے کی سوچ کی رہبری کرتے رہے… قاضی حسین احمدؒ افغانستان کے طالبان جو اپنے ملک سے امریکی/ ناٹو فوجوں کو نکالنے کی جنگ کررہے ہیں، اس کو جائز سمجھتے ہیں… امریکا کے مقامی ایجنٹوں سے کشمکش کرتے رہے… ناٹو سپلائی کی پابندی کے بعد اس کی بحالی کی مخالفت/ مزاحمت کی تحریک کو لیڈ کیا… امریکی حمایت یافتہ این آر او زدہ پیپلزپارٹی کی حکومت کی ملک دشمن پالیسیوں کی مخالفت کرتے رہے… امریکا مخالف سیاسی جماعتوں کے ایک بڑے اتحاد کی پلائنگ کرتے رہے… ملک میں مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست کے لئے لوگوں کو تیار کرتے رہے… اس تناظر میں آسانی سے پتہ لگ سکتا ہے کہ جمہوری طریقے سے جدوجہد کرنے والے قاضی حسین احمدؒ کو راستے سے کون ہٹانا چاہتا تھا۔
۷۶۹۱ء کی بات کہ قاضی صاحبؒ کے میڈیکل اسٹور پشاور پر افغانستان کے مجاہدین کا آنا شروع ہوا۔ پھر مولانا مودودیؒ کی مشاورت اور ہدایت کے بعد قاضی حسین احمدؒ نے افغانستان میں کیمونزم کی یلغار کو رکنے کے لئے پے درپے دورے کئے۔ افغان مجاہدین کا روس کے خلاف جہاد کے لئے نوجماعتی اتحاد بنانے میں مدد کی۔ یہ اسی کی برکت تھی کہ افغانستان میں روس کو شکست ہوئی۔ قاضی صاحبؒ نے کشمیریوں کی مدد میں دل جان سے کام کیا۔ کشمیر کے حریت کانفرنس کے لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ ۵/ فوری ۰۹۹۱ء یوم یکجہتی کشمیر قاضی صاحبؒ کی تجویز سے منانے کی ابتدا ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ بوسینیا میں دکھی مسلمانوں کے لئے مالی امداد کا ایک بہت بڑا پیکیج لے پہنچے۔ چیچینیا کے صدر زیلم خان کو پورے پاکستان کے دورے کرائے، پاکستانیوں سے چیچینیا کے لئے نقد امداد زیلم خان کے حوالے کی۔ دینی علماء اور سیاسی مخالفوں کا خود بھی احترام کرتے تھے اور کارکنوں کو بھی کی تلقین کرتے تھے۔ تمام مکتبہ فکر کے علماء سے قاضی صاحبؒ کے قریبی تعلقات تھے۔ قاضی صاحبؒ نے تبلیغی جماعت کے سالانہ اجتماح میں شرکت کی روایت ڈالی۔ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی، ؒ قاضی صاحب ؒ کے قریبی ساتھی تھے۔ راولپنڈی کے دھرنے میں قاضی صاحبؒ کے ساتھ استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ قاضی صاحبؒ، علامہ شاہ احمد صدیقیؒ کے سالانہ عرس کے میں شرکت کرتے رہے۔ آئیڈیاز اور خیالات رکھنے والی شخصیت تھے۔ انہوں نے ہی اسلام آباد سے تقریباً ۰۵ کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک نیا شہر ”قرطبہ سٹی“ کی بنیاد رکھی۔ رات کو اللہ سے گھڑگھڑا کر دعائیں کرنے والے، دن میں گھوڑوں پر سوار ہو کر اللہ کے دین کو قائم کرنے والے جن مومنین ؓ کا اللہ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے۔ قاضی صاحبؒ انہی صفات پر چلنے والے ایک مرد مومن تھے۔ اللہ اُن کی نیکیوں کو قبول کرے، گناہوں کو معاف کرے۔