دوہزاربائیسء مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا سال ہوگا، نصرت مرز، مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک میں فیصلہ کن موڑ آ گیا ہے، اسد اللہ بھٹو، مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا حل جہاد کے ذریعے ہی نکلے گا، قاری محمد عثمان، موجودہ حکومت نے مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال دیا ہے، سردار نزاکت علی، امت مسلمہ کو مظلوم کشمیریوں کی عملی مدد کرنا ہوگی، مفتی محمد غوث صابری کشمیری، بھارتی درندگی پر مغرب کی خاموشی شرمناک ہے، علامہ احمد رضا، پاکستان کشمیری مظلوموں سے کئے گئے عہد کو پورا کرے، مولانا محمد حسین مسعودی، مظلوم کشمیر کے ہوں یا فلسطین کے اُمت فیصلہ کن کردار ادا کرے، علامہ عبدالخالق فریدی، کشمیریوں سے رائے شماری کرائی جائے، نثار احمد خان، کشمیر کمیٹی اور وزارت ِخارجہ سفارتی سطح پر ناکام ہوچکی، امتیاز خان فاران
کراچی میں رابطہ فورم انٹرنیشنل کے زیراہتمام کشمیر ڈے کی مناسبت سے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ 2022ء مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے سال کے عنوان سے ہونے والی اس آل پارٹیز کانفرنس میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے خطاب کیا۔ رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین معروف تجزیہ کار و کالم نگار نصرت مرزا، جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر اسد اللہ بھٹو، جمعیت علمائے اسلام سندھ کے امیر قاری محمد عثمان، پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سردار نزاکت علی، جمعیت علمائے پاکستان کراچی ڈویژن کے صدر مفتی محمد غوث صابری کشمیری، تحریک لبیک پاکستان سندھ شوریٰ کے رکن علامہ احمد رضا، جعفریہ الائنس کے نائب صدر مولانا محمد حسین مسعودی، متحدہ علماء محاذ کے چیئرمین علامہ عبدالخالق فریدی، پاکستان تحریک انصاف کراچی کے رہنما نثار احمد خان اور کراچی پریس کلب کے سابق صدر امتیاز خان فاران نے خطاب کیا جبکہ مذکورہ جماعتوں کے احباب بھی شریک ہوئے۔ اس کانفرنس میں نوجوان محقق فاروق اعظم جنہوں نے حالیہ دنوں میں تحریک کشمیر پر تاریخ تحریک اور امکانی حل کا جائزہ کے عنوان سے کتاب تحریر کی ہے، وہ بھی موجود تھے۔
نصرت مرزا (چیئرمین رابطہ فورم انٹرنیشنل)
مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ نریندر مودی کے ہاتھ سے معاملات نکل رہے ہیں، ظلم جتنا بڑھے گا مزاحمت کی تحریک اتنی تیز ہوگی، بات مقبوضہ کشمیر سے نکل کر بھارت کے اندر آگئی ہے، بڑھتا ہوا ہندوتوا مسلمانوں کے علاوہ عیسائیوں، دلتوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی مضطرب کررہا ہے، یہ اقدامات بھارت اپنے خلاف اٹھا رہا ہے، درجنوں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں، اس کے ساتھ نریندر مودی پاکستان کے ساتھ سرحدی تناؤ اور لداخ میں چین سے ٹکرا رہا ہے، 27 فروری 2019ء کو بھارتی طیاروں نے پاکستان پر اسٹرائیک کرنے کی کوشش کی تو اسے معلوم نہیں تھا کہ پاکستان کے پاس نئی عسکری ٹیکنالوجی ہے، اس کے طیارے جام ہوگئے اور ہماری ایئرفورس نے انہیں بآسانی نشانہ بنایا، ایک پائلٹ کو زندہ گرفتار کرلیا گیا، ابھی نندن کو بعد میں ہم نے خیرسگالی کے طور پر چھوڑ دیا، ہم بھارت کو سبق سکھانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں، بھارت نے بیک وقت چین اور پاکستان کو للکارا تھا، جس کا خمیازہ اس نے بھگتا، نریندر مودی نے اپنی ایئرفورس کی شکست اور ناکامی کو بادلوں کے گھیرے میں چھپانے کی کوشش کی مگر دُنیا جانتی ہے کہ لڑاکا طیارے بادلوں میں بھی ہدف کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، پاکستان نے جواب میں چھ ہدف کو ٹارگٹ کرلیا، جس میں ان کا آرمی چیف بھی شامل تھا، بھارت کو ہم نے یہ بتا دیا تھا کہ ہم یہ کارروائی کرسکتے تھے مگر اشتعال انگیزی نہیں چاہتے، اس لئے چھوڑ رہے ہیں، بھارت کے دانشور بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان عسکری لحاظ سے بہت آگے ہے، بھارتی دفاعی تجزیہ کار پروین سہامی کا کہنا ہے کہ پاکستان اب بہت آگے ہے، نریندر مودی کو ایک منظم منصوبہ بنانا ہوگا ورنہ ناکامی مقدر ہوگی۔ ہم نے گلگت اور اسکردو انٹرنیشنل ایئرپورٹ میں انڈر گراؤنڈ بیس بنا رکھا ہے جو کسی وقت بھی دشمن کے خلاف کارآمد رہے گا۔ میں بھارت کے دیوبند کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ وہ 25 کروڑ مسلمانوں کی طاقت کو مجتمع کریں اور ایک تحریک چلائیں، جہاد کا اعلان کریں، یقیناً اللہ کی مدد آئے گی، 2022ء کا سال مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا سال ہے۔
اسد اللہ بھٹو (نائب امیر جماعت اسلامی)
مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کے سلسلے کو سات دہائیاں گزر گئیں، اقوام متحدہ میں رائے شماری کے حق میں قرارداد بھی پاس ہوچکی مگر بھارتی تسلط سے آزادی حاصل نہ ہوسکی، 1948ء کی جنگ میں کشمیر کے ایک تہائی حصے کو آزاد کروانے کے بعد ہم بھی خاموش بیٹھ گئے، آزادی کشمیر کی تحریک میں 90 کی دہائی میں بہت کام ہوا، قاضی حسین احمد نے اسی حوالے سے 5 فروری کو کشمیر کی آزادی کے لئے اظہارِ یکجہتی کا دن قرار دیا، جس پر اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی سرکاری طور پر منانے کا اعلان کیا مگر افسوس ہے موجودہ حکمرانوں پر جو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے پر صرف احتجاج کا اعلان کرتے رہ گئے اور اس اعلان پر عمل درآمد بھی نہ کرسکے، ہر جمعہ کو احتجاج کا وعدہ کیا تھا جو بھلا دیا گیا، ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے سے مقبوضہ کشمیر آزاد نہیں ہوگا بلکہ عملی اقدامات کرنا ہوں گے، میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ سفارتکاری کے ذریعے دُنیا کو ہمنوا بنائے اور عملی اقدامات کرے کیونکہ بھارت طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔
قاری محمد عثمان (امیر جمعیت علمائے اسلام سندھ)
مقبوضہ کشمیر میں بھارت جس طرح ظلم و ستم کررہا ہے وہ شرمناک کے ساتھ قابل مذمت ہے بلکہ اس کے خلاف پاکستان کو عملی اقدام کرنا ہوگا، مقبوضہ کشمیر کے شہری جن مشکلات کا شکار ہیں اس کا ہمیں احساس کرنا ہوگا، یہ جنگ ہماری ہے ہمیں ہی لڑنا ہے، عالمی برادری اور اقوام متحدہ قراردادیں پاس کرکے اپنی ذمہ داری ادا کررہے ہیں لیکن عملی اقدامات سے گریز کررہے ہیں، یورپی یونین اور امریکا کو بھارت کا تجارتی بائیکاٹ کرنا چاہئے، انسانی حقوق کے عالمی چیمپئن ظلم و بربریت پر خاموش ہیں، مقبوضہ وادی میں ذرائع ابلاغ پر بھی پابندی ہے، میڈیا کے نمائندوں کو کام کی اجازت نہیں ہے، کب تک ظلم و ستم سے آنکھیں چرائی جاتی رہیں گی، عالمی برادری بھارتی حکمرانوں اور فوجیوں کے ظلم و ستم کے خلاف عملی اقدامات کرے، میں اپنی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ بھارت کے خلاف فیصلہ کن اور جارحانہ حکمت عملی ترتیب دے، اب نتیجہ حاصل کرنے کا وقت ہے، بھارت کے خلاف کارروائی کا وقت ہے، اگر کچھ نہ کیا گیا تو تاخیر ہوجائے گی، کشمیر کمیٹی کے چیئرمین غیرملکی دورے علاج کے لئے کررہے ہیں مگر کشمیر پر عالمی رائے کو ہموار کرنے سے قاصر ہیں، مولانا فضل الرحمن پر الزامات عائد کرتے تھے مگر خود مسئلہ کشمیر کو بھلا بیٹھے، ان کی نااہلی سے نریندر مودی کو یہ جرأت ہوئی کہ اس نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کے مطابق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے، اب فیصلہ کن اور نتیجہ خیز اقدام کرنے کا وقت ہے تاکہ مظلوم کشمیریوں کو آزادی حاصل ہوسکے۔
سردار نزاکت علی (رہنما پاکستان پیپلزپارٹی)
پاکستان مقبوضہ کشمیر کے مظلوم کے ساتھ ہے، عوام تو ساتھ ہیں مگر حکومتی پالیسی افسوسناک ہے، 5 اگست 2019ء کے بعد وزیراعظم نے 27 اکتوبر 2019ء کو ایک تقریر کرکے اپنی ذمہ داری پوری کردی تھی، عمران خان تو مودی کے انتخابات جیتنے کی دُعا کررہے تھے اس دُعا کی قبولیت کے بعد دیکھ لیں کیا حال ہے، 1988ء میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی تحریک میں فاٹا اور دیگر قبائل کے لوگوں کا خون شامل ہے، پورے پاکستان کی قربانیاں ہیں پورا پاکستان وزیراعظم کے ساتھ کھڑا ہے مگر ہماری حکومت اس حمایت کو عالمی سطح پر استعمال نہیں کررہا، وزیراعظم وزیرخارجہ اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سے پوچھیں کہ انہوں نے اس معاملے پر کیا سفارتی کوششیں کیں ہیں، آخری احتجاج فردوس عاشق اعوان کی قیادت میں ہوا تھا جس میں وزیراعظم بھی شریک تھے یا تو یہ احتجاج وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ہوا تھا اس کے بعد حکومت کی طرف سے خاموشی ہے، البتہ قاضی حسین احمد صاحب نے اس پر کام کیا تھا، 5 فروری کا دن ان کی کوششوں کا ثمر ہے، یہ کانفرنس اسی کاوش کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے ہورہی ہے، میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ عملی اقدام کی طرف بڑھیں اور فیصلہ کن کارروائی کریں۔
مفتی محمد غوث صابری کشمیری
(صدر جمعیت علمائے پاکستان، کراچی ڈویژن)
مقبوضہ کشمیر میں جو ظلم ہورہا ہے اس پر پوری انسانیت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عملی اقدام نہ کرسکیں تو کم از کم مذمت ضرور کرے، مظلوم کشمیری نت نئے مظالم کا سامنا کررہے ہیں، کشمیر کو بانی پاکستان نے شہ رگ کہا تھا، ہماری شہ رگ دشمن کے شکنجے میں ہے، ہمیں اس پر عملی کارروائی کرنا ہوگی، دُنیا گزشتہ ڈھائی سال سے کرونا کی وبا کی وجہ سے مختلف پابندیوں کا سامنا کررہی ہے، زندگی کے معاملات مشکل ہوگئے ہیں، اس کا موازنہ کشمیریوں سے کریں جو وبا کے ساتھ بھارتی فوجیوں کی درندگی و بربریت کی وبا کو جھیل رہے ہیں، دس لاکھ سے زائد فوجیوں کے ہتھیاروں کے سامنے ظلم و جبر کی زندگی گزار رہے ہیں، شہادتیں دے رہے ہیں، مسلم امہ جس طرح ایک قوم ہیں اسی طرح تمام کفر ایک قوم ہیں، ہماری سیاسی و عسکری قیادت کو اب فیصلہ کن اقدام کی طرف جانا ہوگا، اتنی بڑی عسکری طاقت کس لئے ہے۔
علامہ احمد رضا
(رہنما تحریک لبیک یارسولؐ اللہ پاکستان)
مقبوضہ کشمیر میں جس طرح انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے وہ المیہ ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ انسانی حقوق پر آواز اٹھانے والا مغرب خاموش ہے، وہ مسلمانوں کے خلاف انتہاپسندی کے جھوٹے الزامات تو عائد کررہا ہے مگر بھارتی حکمرانوں اور وحشی فوجیوں کی مقبوضہ کشمیر میں کی جانے والی درندگی پر خاموش ہے، مغرب اسلاموفوبیا کی تو بات کرتا ہے مگر بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں جس طرح مسلمانوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک ہورہا ہے اُس کے خلاف نہ بولنا ناانصافی ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ عالمی برادری کو بھارت کے خلاف عملی اقدامات کرنا چاہئے، نریندر مودی مسلمانوں کے ساتھ عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف بھی ظلم و ستم کررہا ہے، وہ ایک نسلی ریاست بن چکا ہے، ہندوتوا کے ذریعے نفرت کا ماحول گرم کر رکھا ہے، آر ایس ایس کے غنڈوں نے دیگر مذاہب کے لوگوں کا جینا محال کردیا ہے اس لئے امریکا اور یورپی یونین کو وہاں ہونے والی ناانصافیوں اور ظلم کے خلاف عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ میں اپنی حکومت سے بھی مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اب مزید صبر اور انتظار نہ کرے بلکہ طاقت کا استعمال کرے، ایٹمی طاقت کس لئے ہے اتنی بڑی عسکری فورس کیوں ہے تاکہ دشمن کے دانت کھٹے کئے جاسکیں، وزیراعظم عمران خان اور عسکری طاقت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی دادرسی کے لئے آگے بڑھیں اور دشمن کا سر کچلیں، اس کانفرنس میں جو قرارداد پیش کیں گئیں ہیں ہم اس کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور جو بھی عملی اقدام اٹھایا جائے گا اس کی تائید کریں گے۔
علامہ محمد حسین مسعودی
(نائب صدر جعفریہ الائنس پاکستان)
مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم پر صرف احتجاج سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، ہمیں کشمیریوں کے ساتھ عہد وفا کو نبھانا ہوگا، مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ ؎
کی محمدؐ سے وفا تو نے ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
رسالت مآبؐ کا فرمان تھا کہ مسلمان ایک جدواحد کی طرح ہیں، جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم متاثر ہوتا ہے، اس کے درد کو محسوس کرتا ہے، اسی طرح کسی ایک جگہ مسلمان اگر ظلم و ستم کا شکار ہورہے ہیں تو پوری امت کو اس تکلیف کا احساس ہونا چاہئے، ہم کشمیر کو اپنی شہ رگ کہتے ہیں، اس شہ رگ پر دشمن گزشتہ 75 سال سے قابض ہے اور ہم سفارتکاری سے باہر ہی نہیں آ رہے، افسوس ہے کہ یہ کام بھی ڈھنگ سے نہ کرسکے، دُنیا کو اس پر اپنا ہمنوا نہ بناسکے، اب بہت وقت گزر چکا ہے، ہمیں عملی اقدام کی طرف جانا ہوگا، کشمیر کی آزادی کی تحریک میں فیصلہ کن حصہ ڈالنا ہوگا، مغرب پر بھروسہ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، یہ لڑائی ہماری ہے اسے ہمیں ہی لڑنا ہے، پوری قوم کو اس وقت متحد ہو کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ احتجاج، ایک منٹ کی خاموشی کی رسم ادا کرنے سے باہر نکلے اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے عملی اقدامات کرے۔
علامہ عبدالخالق فریدی (چیئرمین متحدہ علماء محاذ)
5 اگست کے اقدام سے قبل نریندر مودی نے کشمیر کے حریت پسندوں اور جہادیوں کو قید کر رکھا تھا، اگر یہ آزاد ہوتے تو مودی کو اس کا سبق ملتا، مودی اسرائیل کے فلسفے پر عمل پیرا ہے، وہ خون کررہا ہے مظلوموں کو مار رہا ہے، جو لوگ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں حریت رہنما ہیں، انہیں قید کررہا ہے اور پھر اپنے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔
نثار احمد خان (نائب صدر پی ٹی آئی آزاد کشمیر، کراچی)
میں نیلم ویلی آزاد کشمیر کا رہنے والا ہوں، گزشتہ سال میرے بھائی بھارتی فوج کی گولیوں سے شہید ہوچکے ہیں، صرف میرے گھر سے شہادت نہیں ہے بلکہ ہر گھر سے شہادتیں ہیں، ہمارا وزیراعظم نااہل ہے، مان لیا لیکن بھٹو صاحب نے شملی اور بعد میں 90 ہزار فوجیوں کو چھڑاتے ہوئے جو معاہدہ کیا وہ بھی ناکامی تھی، کارگل سے پیچھے ہٹے وہ بھی ناکامی تھی، ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ کشمیریوں سے رائے شماری کرائی جائے، جموں میں آبادی کو تہہ تیغ کیا گیا مگر عالمی برادری خاموش رہی، سابقہ حکومت کے ادوار میں بھی کسی بھی بین الاقوامی فورم پر وزیراعظم آزاد کشمیر کو کیوں نہیں بچایا جاتا، ہمیں فریق بنائیں کیونکہ قتل و استحصال ہمارا ہورہا ہے۔
امتیاز خان فاران (سابق صدر کراچی پریس کلب)
آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ عبدالغفور نے کہا تھا کہ فارن آفس میں کشمیر ڈیکس قائم کی جائے گی، یہ صرف باتیں ہوئیں عمل نہیں ہوئیں، کشمیر کمیٹی کے سربراہ فرانس میں علاج کے لئے جاتے ہیں مگر کشمیر اشو پر کام نہیں کررہے بلکہ وہاں پر پاکستانی صحافی کو دھمکی دیتے رہے، مولانا فضل الرحمن پر الزام لگاتے تھے مگر ان کے دور میں ایسی صورتِ حال نہیں ہوئی، 370 اور 35-A کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیرکشمیریوں کو جائیداد کی خرید و فروخت اور بسانے کی مہم شروع ہوئی، جوناگڑھ کے نواب کو پروٹوکول دے رہے ہیں، ان کی ریاست کو پاکستان کے نقشے میں شامل کررہے ہیں، مگر اس کے ساتھ حیدرآباد دکن کو بھول گئے، دیگر غیرقانونی قبضے والی ریاست کو بھول جاتے ہیں، ہمارے وزیرخارجہ بھی ناکام رہے ہیں، وہ ملتان کی سیاست کے ذاتی مفادات تو سینیٹ میں بیان کرتے ہیں مگر کشمیر کا ذکر نہیں کرتے، صرف کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ نہیں وہ تو پاکستان کا حصہ ہے بلکہ یہ نعرہ لگنا چاہئے کہ ہندوستان میں بنے گا ایک اور پاکستان۔ کشمیری تو روزانہ اپنے شہیدوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کرتے ہیں، کشمیر پاکستان کا حصہ ہے، بس ہمیں عملی طور پر اقدام کرنا ہیں، ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت کا بھی کشمیر سے تھا، بھارت وزیراعظم کے نسل پرستانہ اقدامات سے سب کو پریشان کر رکھا ہے۔ پوری دُنیا کو نریندر مودی کی متعصبانہ پالیسی کے خلاف عملی اقدام کرنا ہوگا۔ آل پارٹیز کانفرنس کے آخر میں 13 نکاتی قرارداد پیش کی گئیں جو متفقہ طور پر منظور کرلی گئیں۔
اقوام متحدہ 2022ء کو کشمیر کی آزادی کا سال قرار دے۔
اقوام متحدہ بھارت کی نسلی ریاست کے خلاف کارروائی کرے۔
بھارتی فوج کی بربریت کے خلاف عالمی فوج کو کشمیر میں تعینات کیا جائے۔
لاکھوں کشمیریوں کی شہادت اور ماؤں بہنوں کی بے حرمتی کرنے کے خلاف بھارتی حکومت اور فوجی قیادت کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمات چلائیں جائیں۔
یورپی یونین مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بھارت کا تجارتی بائیکاٹ کرے۔
اوآئی سی بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقوام کے خلاف ہونے والے جارحانہ اقدامات پر بھارت سے تجارتی لین دین ختم کرے۔
پاکستان کی حکومت مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست 2019ء کے بھارتی اقدام کے خلاف عملی کارروائی کرے۔
سفارتی کوششیں گزشتہ 75 سال سے ہورہی ہیں، اب انتہائی اور فیصلہ کن اقدام کا وقت آچکا، پاکستان کو عسکری کارروائی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
یہ آل پارٹیز کانفرنس حریت رہنماؤں اور مظلوم کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کرتی ہے۔
تمام پابند ِ سلاسل اور نظربند حریت رہنماؤں کو فوری رہا کیا جائے۔
مقبوضہ کشمیر میں میڈیا پر عائد پابندی فوری ہٹائی جائے، میڈیا کے عالمی اداروں اور صحافیوں کو ظلم و بربریت کی کوریج کرنے کی آزادی دی جائے۔
اقوام متحدہ کے زیرنگرانی میڈیا کی ایک تنظیم مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرے اور ظلم و جبر کی داستان کو دُنیا کے سامنے پیش کرے۔
شاہراہ سری نگر کا نام شاہراہ کشمیر رکھا جائے۔