Thursday, July 31, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ون روڈ ون بیلٹ کے ساتھ 140 ممالک جڑ چکے ہیں

بتیس بین الاقوامی ادارے اس کا حصہ ہیں، 9.2 ٹریلین ڈالر کے تجارتی مواقع مل رہے ہیں، پاکستان کو معاشی بحران اور غربت سے نکالنے میں مددگار ہیں، دونوں ملکوں کی آہنی دوستی کو 70 سال کا عرصہ ہوچکا، سی پیک کے منصوبوں کی تکمیل کیلئے فاسٹ فارورڈ بٹن دبانا ہوگا، کرونا کی وبا سے دنیا معاشی تباہی کا شکار ہے، قواد اور اوکوس کے ذریعے مغرب کو کچھ حاصل نہ ہوا، چین تجارت اور ترقی کے ذریعے ملکوں کے دل جیتنا چاہتا ہے، معروف کالم نگار و تجزیہ کار
اور رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین نصرت مرزا کو چائنیز قونصل جنرل کراچی جناب لی بی جیان کا خصوصی انٹرویو
نصرت مرزا: پاکستان چین کے تاریخی تعلقات سے متعلق آپ کیا کہیں گے؟
لی بی جیان: اس سال پاک چین تعلقات کو 70 سال ہوجائیں گے، یہ تعلقات چین کے جمہوری نظام کے تحت ایک تاریخی حوالہ رکھتے ہیں، یہ برابری کی بنیاد پر مثالی تعلقات ہیں جبکہ دونوں ملکوں کا سماجی نظام تاریخی اور ثقافتی پس منظر بھی مختلف ہے، ہمیں اسی حوالے سے مستقبل کو دیکھنا ہے، دونوں ملک مل کر چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے روایتی دوستی کو ترقی اور جدید دُنیا کے تقاضوں سے مقابلہ کرنے کے لئے استعمال کررہے ہیں اور اپنی کمیونٹی کو آنے والے ثمرات سے بہرمند کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
نصرت مرزا: ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے اور سی پیک کیا چین پاکستان کا نیا گلوبل آرڈر ہے، آپ اس سے متعلق کیا فرمائیں گے؟
لی بی جیان: ون بیلٹ ون روڈ (بی آر آئی) کا آغاز چین کا ایک بڑا مشترکہ منصوبہ ہے مگر اس میں پوری دُنیا کے لئے مواقع موجود ہیں، وہ اس میں شریک ہو کر اس سے استفادہ کرسکتے ہیں، بی آر آئی مستقل پھیل رہا ہے، 140 ممالک اور 32 بین الاقوامی ادارے بی آر آئی کے خاندان کا حصہ بن کر مختلف شعبوں میں تعاون کے ذریعے ثمر آور اہداف حاصل کررہے ہیں، چین اور بی آر آئی کے درمیان 9.2 ٹریلین امریکی ڈالر کی تجارت کے مواقع ہیں، یہ ایک بین الاقوامی باہمی تعاون کا ادارہ ہے جس میں سب کا مشترکہ حصہ اور اس کے فوائد ہیں، یہ باہمی مشاورت اور تعلق کو مضبوط کررہا ہے، اس میں شفافیت کا پہلو نمایاں ہے، یہ دُنیا کا ایک وسیع اور پھیلا ہوا تجارتی روابط کا نظام بن چکا ہے، یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو دُنیا کے لوگوں کے لئے اُمید و ترقی کی کرن بن چکا ہے، کووڈ 19 کے دوران بی آر آئی کے شریک کار باہمی اشتراک سے یکسو ہو کر سلک روڈ کی تعمیر اور استحکام کے لئے کام کرتے رہے، ان کا مقصد رہا کہ ایک مربوط سلک روڈ، گرین سلک روڈ اور ڈیجٹل سلک روڈ کا پھیلاؤ جاری رکھیں، اس دوران بہت سے نئے مواقع بھی پیدا ہوئے، یہ سب کچھ مثبت تعاون اور جستجو سے ممکن ہوا، ہم نے معیشت کے استحکام پر زور دے کر دُنیا کو یہ باور کروایا کہ زندگی تمام ممالک میں رواں دواں ہے، چین مضبوط اشتراک سے بی آر آئی کو ایک اعلیٰ درجے کا ادارہ بنا چکا ہے، جو صحت کے جدید تقاضوں، باہمی روابط اور سبز دُنیا کے اہداف کے حصول کے لئے کوشاں ہے۔
نصرت مرزا: سی پیک کے منصوبوں میں تاخیر کی کیا وجوہات ہیں، امریکا، مغربی ممالک اور بھارت کا اس حوالے سے کیا دباؤ ہے؟
لی بی جیان: سی پیک کی ابتدا سے ہی پاکستان کو معاشی اور سماجی فوائد ملنا شروع ہوگئے ہیں جو سب تک پہنچنے لگیں گے، وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ یہ منصوبہ پاکستانی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، چین کی حکومت اسے مکمل کرنے کے لئے ہر طرح کے اقدامات کررہی ہے، اس کی تعمیر سے دونوں ملکوں کے عوام کو فائدہ ہوگا، عوام الناس کی خواہش و اُمید کے مطابق یہ منصوبہ وقت پر مکمل ہونا چاہئے تاکہ عوام کے دل جیتے جاسکیں، کیونکہ اس کے ثمرات عام عوام تک جانے ہیں اس حوالے سے دونوں ملکوں کے عوام اور اداروں کی حمایت اور توجہ قابل دید ہے۔ یہ پاکستان چین کی مشترکہ حکمت عملی اور دونوں ملکوں کے عوام کی باہمی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ سی پیک کے تعمیراتی ڈھانچے تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کررہے ہیں، یہ عوام کے معیارِ زندگی کو بہتر کرنے کے ساتھ صنعتی اور زرعی شعبوں میں تعاون کو ہر قسم کے بیرونی دباؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے تکمیل کو پہنچ رہے ہیں تاکہ دونوں ملکوں کے عوام تک ثمرات منتقل ہوسکیں، اگرچہ کچھ ناپسندیدہ حلقوں ک جانب سے اس کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا گیا کہ اس کے سنہرے پہلو کو سیاہ کرکے دکھایا جائے، ایک منظم انداز سے اس کو نشانہ بنایا گیا، مگر ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ چین اور پاکستان کے عوام یک زبان ہو کر اس کو رد کردیں گے اور دُنیا کو سی پیک کے حوالے سے سچائی دکھائیں گے، دونوں ملکوں نے مل کر اس بات کو یقینی بنا دیا ہے کہ سی پیک منصوبہ باہمی تعاون سے کامیاب ہوگا۔
نصرت مرزا: کووڈ کے بعد آپ نے کس طرح مغرب کے دباؤ سے نمٹنے کی کوشش کی؟
لی بی جیان: اس وقت ہماری دُنیا کو ایک مشکل کا سامنا ہے، یہ ایک ایسا وقت ہے جس میں دُنیا کا امتحان ہے کہ ہم کس طرح اس وبا کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے جو روایتی تبدیلی ہماری زندگی میں آ رہی ہے اس کو مربوط کرتے ہیں، یہ مختلف جہتی معاشی نظام کے تجربے کا وقت ہے جس میں یک قطبی اور کثیر القطبی میں مقابلہ ہے، بین الاقوامی برادری کو گلوبل گورننس کے حوالے سے ایک ایسی صورتِ حال کا سامنا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ ہمیں نئے سرے سے ترجیحات کا تعین کرتے وقت بین الاقوامی امن اور تحفظ کے خطرناک چیلنجز کا سامنا ہے، جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ہے، دُنیا کے اختلافی معاملات کو حل کرنے میں سب کو شریک ہونا ہوگا، تحفظات رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا، تمام خطرات و خدشات اور روایتی و غیرروایتی چیلنجز سے موثر انداز میں نمٹنا ہوگا، اپنے رویوں میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے لئے جگہ بنانا ہوگی، امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لئے پوری دُنیا کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
نصرت مرزا: دُنیا کے تھنک ٹینکس اور اسکالرز کا خیال ہے کہ قواد اور اوکوس ناکام ہوچکے ہیں اور چین بتدریج آگے بڑھ رہا ہے، اس پر آپ کیا کہیں گے؟
لی بی جیان: قواد اور اوکوس باہمی تعاون اور ایجنڈے کے تحت سرد جنگ کے ذریعے اپنے عسکری اہداف کی طرف بڑھتے رہے، ہتھیاروں کی دوڑ، جارحانہ بیانیہ اور تناؤ کو فروغ دیتے رہے، اس میں مقامی طاقتوں اور فریقین کو شامل کرتے رہے، امریکا ایک جتھہ کے ساتھ مل کر ٹکراؤ کا ماحول بناتا رہا، مشترکہ مقاصد کے لئے یہ سب کو دکھایا جاتا رہا مگر وہ دلوں کو مسخر نہ کرسکا اور نہ ہی کامیاب ہوسکا، مختلف ملکوں نے اس پالیسی پر سوالات اٹھائے اور اس کو مسترد کردیا۔
نصرت مرزا: اگر چین سپر پاور بن جائے تو آپ دونوں ملکوں کے فورسز کے درمیان تعلقات کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
لی بی جیان: چین پاکستان سے قائم تزویراتی تعلقات کو اہمیت دیتا ہے، ہم اس کو مزید آگے بڑھائیں گے، اس کے تحت ہی دونوں ملکوں کے درمیان سی پیک منصوبہ شروع ہوا، دیرپا اور طویل دور کے مقاصد کا حصول جاری رہے گا، پاکستان چین کا گزشتہ چھ سالوں سے ایک بڑا تجارتی پارٹنر اور سات سالوں سے سرمایہ کاری کے حوالے سے اہم ملک رہا ہے، بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کے تحت ہم اعلیٰ سطح کے ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کررہے ہیں، اس کا دوسرا حصہ دونوں ملکوں کے درمیان فری ٹریڈ کی صورت میں آئے گا، اس میں بہت بہتری آ چکی ہے، صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے کہا تھا کہ سی پیک کی تکمیل کے لئے دونوں ملکوں کو فاسٹ فارورڈ کا بٹن دبانا ہوگا، چین اس حوالے سے دوررس معاشی اور تجارتی تعاون کے مواقع پیدا کررہا ہے تاکہ پاکستانی برآمدات کو بڑھانے کے مواقع مل سکیں، پاکستان کا تجارتی خسارہ کم ہو کر دونوں ملکوں کی برآمدات برابری کی سطح پر آجائیں، دونوں ملکوں کا سیکیورٹی رسک بھی مشترکہ ہے، کوشش ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہاتھ ملا کر تمام خطرات سے نمٹ سکیں، دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان کی کامیابی اور اس سے نمٹنے کے لئے پاکستانی اقدامات کو سراہتے ہیں، اس حوالے سے غیرروایتی خطرات سے نمٹنے کے لئے بھی پاکستان کو ہر قسم کی دفاعی مدد فراہم کررہے ہیں، دونوں ملکوں کے عوام دوستی اور شراکت داری کا پل تعمیر کررہے ہیں، فائن آرٹ، نشریاتی اداروں، فلم، ٹیلی ویژن، پبلشنگ اور اسپورٹس کے شعبے میں تعاون کو بڑھا رہا ہے، رواں سال دونوں ملکوں نے دوستی کے 70 سالہ کامیاب سفر کی مناسبت سے منایا اور مختلف تقریبات منعقد کیں، سفارتی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لئے ثقافتی تعلقات کو بڑھانے کے ساتھ عوام سے عوام کے تعلق کو مضبوط بنانے کی کوششیں جاری ہیں، دُنیا کو بہتر بنانے کے لئے دونوں ملکوں کو باہمی اشتراک سے مختلف طریقہ کار کے تحت کوششیں کرنا ہوں گی۔
نصرت مرزا: آپ پاکستان کے عوام کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟

لی بی جیان: قونصل جنرل آف جمہوریہ چین کراچی کی حیثیت سے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ گرمجوشی کے ساتھ اس آہنی دوستی کو مزید مضبوط کریں گے، پاکستانی بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے، 2021ء دونوں ملکوں کی لازوال دوستی کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، ہمیں پاکستان کے مسائل کو حل کرنا ہے، ہمیں غربت کے مسائل کا اندازہ ہے، یہ ہمارا پہلا ہدف ہے کہ اپنے دوست ملک اور اس کے عوام کو اس مشکل سے نکالیں، کمیونسٹ پارٹی کے 100 سال مکمل ہونے کی خوشی منا رہے ہیں، ساتھ ہی 14 واں پنج سالہ ترقیاتی منصوبے کے پہلے سال (2021-2025) کو پاکستان کے نام کرتے ہیں، وزیراعظم عمران خان کے نئے پاکستان کے وژن کے مطابق دونوں ملکوں کے لئے نئے مواقع پیدا ہورہے ہیں، 70 سالہ دوستی کے اس سفر کی خوشی کو مل کر مناتے ہیں اور اس کے ثمرات پاکستان کو پہنچانے کے لئے کوشاں ہیں، پاکستان بہن بھائیوں سے چین کے عوام کے رشتے کو مضبوط کرنے میں کراچی کا چائنیز قونصلیٹ پل کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے، خصوصاً سندھ اور بلوچستان کے صوبوں کے ساتھ باہمی تعاون سے سماجی منصوبے، زراعت، تعلیم اور ثقافت کے شعبوں کو بڑھانا چاہتے ہیں، دونوں ملکوں کے عوام مل کر ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھ سکتے ہیں اور خوشحالی کے ایک نئے دور میں داخل ہوسکتے ہیں۔

مطلقہ خبریں