Thursday, July 31, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

کالا کوٹ اور پاکستانی خواتین

پاکستان میں 1960ء کی دہائی میں خواتین نے وکالت کے شعبے میں قدم رکھنا شروع کیا، اس سے پہلے تو قانون کے شعبے میں خواتین کی شمولیت بالکل ہی نہیں تھی، 70 اور 80 کی دہائی میں دو بہنوں عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی نے قانون کے شعبے میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے
شائستہ انجم
ایک صدی قبل تک سفید یونیفارم، سفید دوپٹہ اور کالے کوٹ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ 1923ء کے ایکٹ کے مطابق خواتین کو قانون کے شعبے میں پیشہ ورانہ خدمات کی اجازت دے دی گئی، مگر لیگل پریکٹشنر ایکٹ میں قانونی تبدیلی کردی گئی، جس کے مطابق کلکتہ اور پٹنہ کے ہائی کورٹس نے خواتین کو قانون کے شعبے کے لئے نااہل قرار دے دیا تھا۔ اس ضمن میں خواتین وکلا کی شمولیت کی مخالفت کی وجہ یہ بھی تھی کہ مرد جج حضرات خاتون وکیل کی بے جا طرفداری نہ کریں۔ اس بِل کی مخالفت کرتے ہوئے بھاگل پور ڈویژن کے رکن پارلیمنٹ مولوی اسجد اللہ نے کہا تھا کہ خاتون وکیل ناصرف اپنی نسوانی کشش سے کام لے کر مرد جج حضرات سے بے جا مراعات حاصل کرسکتی ہیں بلکہ دورانِ جرح وہ اپنی شخصیت سے گواہان اور ان کے بیانات پر بھی اثرانداز ہوسکتی ہیں، جبکہ شمال مغربی سرحدی صوبے سے قانون ساز اسمبلی کے رکن خان بہادر عبدالرّحیم خان نے اس بل کی حمایت کرتے ہوئے دلیل دی کہ عدالتوں میں خواتین بیرسٹر کی موجودگی پولیس اور مجرموں تک کو تہذیب اور اخلاق کے دائرے میں رہنے کی طرف مائل رکھے گی۔ یہ ایک مثبت قدم ہوگا۔
مقامِ افسوس ہے کہ آج سو سال بعد بھی جنسِ مخالف کی جانب سے خواتین وکلا، ان کی صلاحیتوں اور قابلیت پر کم و بیش وہی خیالات اور وہی رویّے دہرائے جا رہے ہیں جو ان کی اس شعبے میں ترقی اور اعلیٰ عہدوں کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک نجی محفل میں ایک ریٹائرڈ جج نے کہا کہ خواتین کی پُرشفقت اور حساس فطرت اس شعبے کے ”سخت قانونی معاملات“ کے لئے بالکل ناموزوں ہیں اور اگر وہ اس شعبے میں کام کرنا چاہتی ہیں تو اس کے ”نرم“ حصے میں اپنی خدمات بخوبی انجام دے سکتی ہیں جیسا کہ ”فیملی لا۔“ سو سال قبل دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی خواتین نے قانون کے شعبے میں قدم رکھنا شروع کردیا اور رفتہ رفتہ بطور منصف اور وکیل اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ ترقی پذیر ممالک جس میں پاکستان بھی شامل ہے، یہاں روایتی تعلیم کے حصول میں ہی بہت سی رکاوٹیں ہیں، چہ جائے کہ پیشہ ورانہ تعلیم وہ بھی قانون کا شعبہ جس میں خاتون وکیل کو تھانہ، کچہری، پولیس اور ہر طرح کے مجرمان سے واسطہ لازمی پڑ سکتا ہے۔ معاشرتی طور پر کسی خاتون وکیل کے لئے یہ سب کچھ ناپسندیدہ اور ناخوش گوار ہوتا ہے۔ پاکستان میں 1960ء کی دہائی میں خواتین نے وکالت کے شعبے میں قدم رکھنا شروع کیا۔ اس سے پہلے تو قانون کے شعبے میں خواتین کی شمولیت بالکل ہی نہیں تھی۔ 70 اور 80 کی دہائی میں دو بہنوں عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی نے قانون کے شعبے میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ اگرچہ اس کے بعد خواتین نے اس شعبے میں ڈگریاں تو لے لیں اور لے رہی ہیں مگر ان میں سے صرف گنتی کی خواتین نے ہی بطور وکیل کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ خواتین وکلا کے ساتھ حوصلہ شکن رویہ اور امتیازی سلوک ہے۔ مزید دیگر اہم وجوہات یا رکاوٹوں کی وجہ سے خواتین وکلا ہمت ہار کر وکالت کا شعبہ ترک کر کے تدریس یا کوئی اور شعبہ اپنا لیتی ہیں یا پھر کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں یا لیگل کنسلٹنٹ بن جاتی ہیں۔ عموماً خواتین وکلا کا دائرہ کار دیوانی مقدمات اور فیملی لا تک ہی محدود ہوتا ہے۔ فوجداری قوانین میں خواتین وکلا کی تعداد بہت کم ہے۔ عموماً مرد وکیل، مرد کلائنٹ حتیٰ کے ان کے منشی اور کلرک بھی ان کی قابلیت پر شک کرتے ہیں۔
کچھ ایسی خواتین وکلا بھی ہیں جو وکالت کا لائسنس لینے کے بعد نان پریکٹشنر ہوتی ہیں اور صرف بار کے الیکشن میں ووٹ دینے تک محدود رہتی ہیں۔ سنیئر وکلا حضرات عموماً خواتین وکلا سے صرف تاریخیں لینے کا کام لیتے ہیں اور عدالتوں میں پیش نہیں ہونے دیتے۔ انسانی حقوق کے کمیشن میں ”ویمن ڈے“ پر ایک رپورٹ جاری کی گئی جس میں یہ بتایا گیا کہ جنوب مغربی ایشیا (انڈیا، نیپال، بنگلادیش، سری لنکا) میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس میں کوئی خاتون ابھی تک سپریم کورٹ کی جج نہیں بن سکی۔ باقی چاروں ممالک کی خواتین اعلیٰ عدالتوں یعنی سپریم کورٹس میں اپنے فرائض بخوبی انجام دے چکی ہیں۔ پاکستان میں ہائی کورٹس کے ججز کی تعداد 120 ہے جن میں صرف 7 خواتین ججز ہیں جوکہ کل تعداد کا 5.8 فیصد بنتا ہے۔ حتیٰ کے ضلعی عدالتوں میں خواتین کی کثیر تعداد کو بطور جج مقرر کیا گیا لیکن پھر خواتین ججز کی تعداد میں تیزی سے کمی آئی اور ان کے اختیارات میں بھی۔ مثال کے طور پر پنجاب میں 20 فیصد سول خواتین ججز کی تقرری ہوئی مگر پھر خواتین کی تعداد گھٹ کر سینئر سول ججز میں ان کا تناسب 5 فیصد رہ گیا۔ بالکل اسی طرح ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن عدالتوں میں خواتین ججز کی تعداد 7 فیصد تھی جو 2 فیصد رہ گئی۔ یہی توازن کا بگاڑ آپ کو بار ایسوسی ایشن میں بھی دیکھنے کو ملے گا۔ 1973ء کے آئین کے مطابق بار کونسل کے ارکان کی تعداد 25 تھی جوکہ وکلا کی اعلیٰ کونسل ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس اعلیٰ کونسل میں خواتین وکلا کی شمولیت کبھی بھی نہ رہی۔ بظاہر کچھ نظر نہ آنے والی رکاوٹیں، امتیازی معاشرتی رویے خواتین کی تعلیم کی حوصلہ افزائی تو کرتے ہیں مگر پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بہت سے شعبے جہاں خواتین کام کرتی ہیں انہیں مرد حضرات کی طرف سے بڑی مخالفت اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس میں سے ایک شعبہ قانون کا بھی ہے۔
اگر خواتین بحیثیت وکیل کام کرنا بھی چاہیں تو شادی اور خاندان بننے کے بعد اپنا کام ترک کر دیتی ہیں۔ بالکل اسی طرح دوسرے شعبوں میں بھی خواتین جن کا تعلق امرا کے طبقے سے ہو تو وہ بہت تیزی سے قبولیتِ عام اور کامیابیاں حاصل کرلیتی ہیں، بہ نسبت ان خواتین کے جو غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں یا اقلیتی گروہ سے ہوں، ایسی خواتین سخت مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔ مشکلات تو ہر شعبے میں خواتین کو پیش آتی ہیں مگر قانون کے شعبے میں کچھ مخصوص مشکلات ہیں جن کا سامنا صرف خاتون وکیل یا خاتون ججز ہی کو کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے بہت سے معاملات ایسے ہیں جو تمام دنیا میں قانون کے شعبے میں خواتین کی شمولیت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ 2013ء میں انٹرنیشنل کمیشن آف جیورٹس (آئی سی جے) کی کانفرنس میں عدالتوں میں خواتین کی برابر نمائندگی کا معاملہ اٹھایا گیا۔ اول تو یہاں ایسا کوئی واضح معیار نہیں ہے جس کے تحت جوڈیشنل کمیشن آف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری کی جاسکے۔ اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو قانون کے شعبے میں عموماً جنسی طور پر ہراساں کرنے میں شفافیت کی کمی کی وجہ سے خواتین کا ہی نقصان ہوتا ہے اور یہی سلسلہ تاحال جاری ہے۔
عدالتیں اور بار کے ادارے بڑے پیمانے پر محاسبے سے بالاتر رہتے ہیں۔ اگر وکلا پر جنسی ہراسانی کے الزامات ہوں تو شاید ہی کبھی ان پر لگائے گئے الزامات کی تحقیق کرائی گئی ہو۔ روایتی طور پر یہ شعبہ مرد حضرات کا ہی سمجھا جاتا ہے، اس لئے خواتین وکلا اور ججز کے لیے رہائش، عدالتوں میں الگ ٹوائلٹ اور زچگی اور بچوں کی دیکھ بھال کے لئے چھٹیوں کا کوئی قانون نہیں ہے۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25 یہ حق دیتا ہے کہ خواتین کے ساتھ کوئی جنسی امتیاز روا نہ رکھا جائے گا، مگر خواتین اپنے ذاتی تجربات بیان کرتی ہیں۔ ایک ادارے کے قانونی شعبے کی منیجر خاتون ایڈووکیٹ بحیثیت قانونی ایسوسی ایٹ پہلی نوکری کے تجربات بیان کرتی ہیں کہ ان کا مرد باس جان بوجھ کر اور یہ کہہ کر زیادہ سے زیادہ کام دیتا کہ خاتون کے سکھانے کے لئے یہ واحد طریقہ ہے۔ اپنا ذاتی ”لا ایسوسی ایٹ“ چلانے والی ایک خاتون ایڈووکیٹ نے اپنا ذاتی تجربہ بیان کیا کہ اپنے شعبے میں قدم رکھنے کے ابتدائی سالوں میں انہوں نے دُہری محنت، زیادہ سے زیادہ کام کر کے اور اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے نبھا کر مرد ساتھی وکلا سے اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرا لیا۔ بنیادی طور پور سینئر وکلا اپنی جونیئر وکیل خاتون سے تحقیقی کام کرواتے ہیں۔ کسی لا گریجویٹ خاتون کے لئے محض مقدمے کی تیاری کرنا سودمند نہیں ہوتا کیونکہ عدالت میں پیش ہونا اور مقدمے کی پیروی کرنا ہی قانونی چارہ جوئی کا اصل جزو یا نچوڑ ہے جس سے انہیں دور رکھنے یا محروم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے 350 ملین ڈالر (35 بلین روپے سے زیادہ) عدالتی اصلاحات کی مد میں خرچ کئے تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین ججز کی تعیناتی کو ممکن بنایا جاسکے مگر حالیہ دور میں پورے پاکستان میں صرف 6 خواتین ججز ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی تاحال سپریم کورٹ جج مقرر نہ کی جاسکی۔ بہت سی قانونی چارہ جوئی کی فرمز خود یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ خاتون وکیل کیا کام کرسکتی ہیں اور کیا نہیں۔ ان فرمز کے مالکان کا کہنا ہے کہ وہ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ قانونی چارہ جوئی کے معاملے میں بہت سے مسائل درپیش ہوتے ہیں جیسے عدالتی کارروائی میں کئی کئی گھنٹے گزارنا اور ہر طرح کے مجرموں سے واسطہ پڑنا۔- یہ سب ایک خاتون وکیل کے لئے ناخوشگوار اور تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔
ایک معروف خاتون وکیل جوکہ ایک معروف ایسوسی ایٹ کی ساتھی ہیں کہتی ہیں کہ مردوں کا خواتین کی نسبت سماجی حلقہ بہت وسیع ہوتا ہے، لہٰذا ان کے کلائنٹ اور دائرہ کار بھی وسیع ہوتا ہے۔ اس لئے لا فرمز مرد وکیل کو خواتین وکلا پر ترجیح دیتی ہیں۔ ایک خاتون وکیل نے اس ضمن میں اپنے خیالات کا یوں اظہار کیا کہ مرد حضرات ذہین ومحنتی اور قابل خاتون وکیل کی موجودگی اور اس کی کارکردگی سے خود کو غیرمحفوظ سمجھنے لگتے ہیں۔ اس لئے بھی خواتین وکلا کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ایک خاتون وکیل جو سول پروپرائٹر لا ایسوسی ایٹ سے منسلک ہیں کہتی ہیں کہ بہت ہی کم خواتین ایسی ہیں جنہوں نے اس شعبے میں محدود مواقع اور روایتی اور معاشرتی حدود میں رہ کر اعلیٰ مقام حاصل کیا ہو۔ عدالتوں میں خواتین وکلا ایک ساتھ کئی چیلینجوں کا سامنا کرتی ہیں۔ محدود تعداد میں خواتین ججوں کی اعلیٰ عدالتوں میں تقرری کی جاتی ہے۔ 2009ء میں ایک عدالتی پالیسی کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی خواتین ججوں کی مختص نشستوں کا ذکر نہیں کیا۔ خواتین کی بہت ہی کم تعداد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی ججز مقرر کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ جان بوجھ کر ان کی تقرری کے معیار بہت مشکل بنائے گئے۔ ایک خاتون وکیل نے دعویٰ کیا کہ مرد وکلا خاتون ججز کی عدالت میں پیش ہونے سے خود کو دور رکھتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرد وکلا خاتون جج کی قانون پر مہارت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ وہ اس قابل نہیں ہیں کہ ان کے کسی مقدمے کا فیصلہ اصولوں اور میرٹ پر کریں گی۔ امتیازی سلوک کی ایک اور مثال یہ کہ ابھی تک فیڈرل شریعت کورٹ میں خواتین کی کوئی نمائندگی نہیں۔ یہ وہ آئینی ادارہ ہے جس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ پرانے قوانین کو ردّ کردے یا اس میں کوئی تبدیلی کردے۔ اسلامی نظریاتی کونسل جوکہ جیوری کے متوازی کام کرتی ہے، قانون بناتے وقت اور اس میں تبدیلی کرتے ہوئے خواتین سے ان کی رائے نہیں لی جاتی۔ لہٰذا خواتین خود کو مجموعی طور پر کمزور پاتی ہیں۔ ایک وقت تھا جب خاتون ججز نے نچلی سطح کی عدالتوں میں عائلی مقدمات میں خواتین کے حق میں فیصلے دیئے، لہٰذا خواتین ججز پر اس لئے بھی اعتماد نہیں کیا جاتا کہ وہ خاتون کے معاملے میں جانبدارانہ رویہ اختیار کرتی ہیں۔ خواتین کو زبانی بھی ہراساں کیا جاتا ہے، جس کی کوئی رپورٹ نہیں کی جاتی۔ ایک خاتون وکیل نے 35 سال اس شعبے میں کامیابی سے گزارے مگر اس بنا پر اپنے خاندان کے افراد کی اس شعبے میں آنے کی حوصلہ شکنی کی۔ خواتین کو چاہئے کہ سخت محنت اور لگن کے ذریعے سنجیدگی سے اپنے شعبے میں مہارت حاصل کریں۔ پھر یقیناً عظیم کامیابیاں ان کا مقدر بنیں گی۔ انہیں خود پر اعتماد اور اپنے معاملات اپنے ہاتھ میں رکھنے چاہئیں اور خود پر بھروسا رکھتے ہوئے انصاف کے حصول کے لئے قانونی راستہ تلاش کرنا چاہئے۔ ایک خاتون وکیل کہتی ہیں کہ خواتین کو چاہئے کہ کام کی جگہ ہراساں کئے جانے پر ہراسمنٹ کے قانون کی عملداری کرانے کی کوشش کریں، ایسا کرنا زیادہ سے زیادہ خواتین کو اس شعبے میں قدم رکھنے میں مدد دے گا اور وہ خود کو محفوظ محسوس کریں گی، دوسری صورت میں ان کا مستقبل اس شعبے میں تاریک ہے۔
بہرحال خواتین کو چاہئے کہ اپنے مرد وکلا ساتھیوں کی برابری کی سطح پر آنے کے لئے اس شعبے میں خوب محنت اور مہارت حاصل کریں اور اگر مرد ساتھی کلا ان کے ساتھ نامناسب رویہ رکھیں تو وہ ان کا حوصلے سے سامنا کریں اور انہیں ان کی غلطی کا احساس دلائیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کتنی ہی ذہین ہوں مگر مرد ساتھی آپ کو مقابلے میں پیچھے چھوڑ جائیں مگر آپ کو حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے، اپنے شعبے میں ترقی اور کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے مسلسل محنت، مہارت اور علم کا حصول ضروری ہے۔ قانون کے کچھ شعبے ایسے ہیں جن میں خواتین وکلا کی مہارت تسلیم کی جاتی ہے جیسے کہ فیملی لا سے متعلق کچھ معاملات ایسے ہیں جہاں خواتین کلائنٹ خاتون وکیل کے پاس جانا زیادہ بہتر سمجھتی ہیں کیونکہ وہ خلع، طلاق اور بچوں کی حوالگی کے حوالے سے بہت معاون اور ہمدرد ثابت ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ مستحق خواتین اور مرد کلائنٹ بھی خاتون وکیل سے خدمات لینا پسند کرتے ہیں۔ وہ خواتین وکلا کے حسنِ اخلاق اور نرم رویے، ایمان داری اور فرض شناسی کے حوالے سے انہیں مرد وکیل پر ترجیح دیتے ہیں جو ان سے معقول فیس اور ہمدردانہ رویہ رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی خواتین وکلا کمرشل معاہدے، کارپوریٹ ٹرانزکشن، تجارتی معاہدے اور عائلی جھگڑے بھی بخوبی نمٹاتی ہیں۔ لا فرمز اس حوالے سے خواتین وکلا پر بھرپور اعتماد کرتی ہیں۔ بہت سے ادارے خواتین وکلا سے بطور لیگل ایڈوائزر بھی خدمات حاصل کرتے ہیں اور مطمئن ہوتے ہیں۔

مطلقہ خبریں