Thursday, July 31, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا

ہم گارنٹر نہیں بنے بلکہ سہولت کار رہے، ٹکراؤ کی پالیسی نامناسب تھی، آرمی چیف کا اہم کردار رہا، ملی یکجہتی کونسل کے ذریعے مسلکی ہم آہنگی کو فروغ دیا، 25 مختلف الخیال جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا، مہنگائی انتہا پر ہے، خانہ جنگی کا خطرہ ہے، علمائے کرام کا پینل شریعت کے مطابق جاگیرداری سے متعلق فیصلہ کرے، ادارے شفاف انتخابات کروانے سے قبل نظام ٹھیک کریں، معروف کالم نگار و تجزیہ کار نصرت مرزا کو ملی یکجہتی کونسل کے صدر حضرت علامہ ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کا خصوصی انٹرویو
رپورٹ: سید زین العابدین
حیدرآباد ایک تاریخی شہر ہے، تقسیم ہند کے بعد ہندوستان سے نقل مکانی کرکے آنے والوں کی بڑی تعداد یہاں آ کر آباد ہوئی تھی، ہمارا خاندان بھی اسی شہر میں آ کر بسا تھا، نور محمد ہائی اسکول سے ہم نے میٹرک کیا، جسے سندھ کا علی گڑھ کہا جاتا ہے، ستمبر 1947ء میں ہم پاکستان آ گئے تھے، ہمارے گھر میں فارسی بولی جاتی تھی، ہمارے والد صاحب نے ہمیں فارسی پڑھائی، بوستان گلستان پڑھائی جاتی تھی، ہمارے دادا کی زندگی تک ہمارے گھر میں فارسی بولی جاتی تھی، ہمارے والد فارسی لکھنا بھی جانتے تھے۔
حیدرآباد آنے کا مقصد یہ تھا کہ ملی یکجہتی کونسل کے صدر حضرت علامہ ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر صاحب کے خیالات اپنے پڑھنے اور دیکھنے والوں تک پہنچائیں، صاحبزادہ صاحب ایک بڑے مذہبی رہنما ہیں، مولانا شاہ احمد نورانی کے بعد جمعیت علمائے پاکستان کی آپ ایک بڑی شخصیت ہیں بلکہ دیگر مسالک میں بھی آپ کا ایک اہم مقام ہے، اسی بنا پر آپ کو ملی یکجہتی کونسل کا صدر منتخب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوتا رہا ہے۔
نصرت مرزا: صاحبزادہ ابوالخیر زبیر صاحب آپ کیسے تمام مسالک کو یکجا کر لیتے ہیں؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: مولانا شاہ احمد نورانی کا لگایا ہوا یہ پودا ملی یکجہتی کونسل کی صورت میں ایک تناور درخت بن گیا ہے، تقریباً 20 مختلف الخیال جماعتیں ایک نقطے پر متفق ہیں کہ وطن عزیز میں فرقہ واریت کی آگ نہ بڑھکے، دشمن کی یہ کوشش ہے کہ اس اتحاد کو توڑا جائے مگر ہمارے ساتھ شامل تمام جماعتوں کے رہنماؤں کے تعاون سے دشمن کو ناکامی کا سامنا ہے، بڑے بڑے مسائل آئے، اختلافات اٹھے مگر اُسے دانشمندی سے طے کیا، محرم الحرام کے دنوں میں ہم نے اتحاد و یگانگت کو قائم رکھا، ملی یکجہتی کونسل نے اس حوالے سے بہت کام کیا، آزاد وطن کی یہ نعمت ہے کہ تمام مسالک اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔
نصرت مرزا: گزشتہ دنوں میں تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان جو مصالحانہ کردار آپ لوگوں نے ادا کیا وہ قابل تحسین ہے، دونوں فریقین میں کیا معاملات طے پائے؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: جب بھی تحریک لبیک کے معاملات حکومت سے بگڑے تو اس میں ہمارے علماء و مشائخ کی کمیٹی نے مثبت کردار ادا کیا، اس کمیٹی میں مفتی منیب الرحمن، صاحبزادہ حامد رضا، صاحبزادہ حامد سعید کاظمی، سیالکوٹ کے حامد رضا، پیر میاں جلیل شرق پوری، پیر نظام الدین سیالوی، غلام قطب الدین اور سنی تحریک کے ثروت اعجاز قادری ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ رمضان میں بھی تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول بن گیا تھا مگر اسے علماء و مشائخ کمیٹی کی مدد سے ختم کیا گیا، حکومت سے ہم نے کہا کہ طاقت کے استعمال سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، اسی طرح تحریک لبیک کو سمجھایا کہ ضد سے معاملہ نہیں سلجھے گا۔
نصرت مرزا: کیا معاہدہ طے پایا، کیونکہ منظرعام پر کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی، آپ نے کیا معاہدہ کیا؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر:: ہم نے کوئی معاہدہ نہیں کیا البتہ ثالثی کا کردار ادا کیا ہے، اس سے قبل رمضان المبارک میں بھی ہم کسی معاہدے کا حصہ نہیں بنے بلکہ دونوں کے درمیان مصالحت کروائی تھی، ہم نے دونوں فریقین کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کا فریضہ ادا کیا۔
نصرت مرزا: علامہ سعد رضوی بہت ینگ ہیں، آپ نے انہیں کیسا پایا؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: علامہ سعد رضوی بہت سلجھے ہوئے آدمی ہیں، علماء و مشائخ جب ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے بہت ادب و احترام کیا، ہمیں کہا کہ آپ میرے والد گرامی کے برابر ہیں، اپنا موقف انہوں نے خوش اسلوبی سے پیش کیا، ہمارے مشورے کو بھی سنا وہ خود بھی ٹکراؤ نہیں چاہتے تھے۔
نصرت مرزا: کیا یہ کہنا بہتر نہیں ہوگا کہ آپ لوگوں کی کاوشوں سے تحریک لبیک پھر سیاسی دھارے میں شامل ہوگئی؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: گزشتہ رمضان میں ہم نے جو مصالحانہ کردار ادا کیا تھا، اس کا تحریک لبیک کی جانب سے مثبت جواب نہیں آیا بلکہ ہمیں تو باتیں سنائیں حالانکہ ہم ان کے معاہدے کے گارنٹر نہیں بنے تھے، موجودہ حالات میں بھی ہم گارنٹر نہیں ہیں، وزیراعظم نے ہم سے کہا کہ دو گھنٹے میں علامہ سعد رضوی کو چھوڑ دیتے ہیں، کیا آپ لوگ گارنٹی لیں گے کہ یہ دوبارہ دھرنا نہیں دیں گے، وزیراعظم کا شکوہ تھا کہ میرے تین سالہ دورِحکومت میں تحریک لبیک کے چھ دھرنے ہوچکے ہیں، ہر مسئلہ کا حل دھرنا تو نہیں ہے، سیاسی انداز میں اپنے مطالبات پیش کریں ہم نے یہی موقف تحریک لبیک کے سامنے رکھ دیا، وزیراعظم سے کہا کہ دونوں فریقین بیٹھ کر بات کرلیں، ہم نے صدر پاکستان اور آرمی چیف سے ملاقات کی، وفاقی وزراء سے بھی ملے، نامور ملکی شخصیات سے بھی ملاقات رہی تاکہ مسئلہ کا حل نکالا جائے، تحریک لبیک کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ علامہ سعد رضوی کو رہا کیا جائے، وزیراعظم نے کہا کہ تمام قانونی پہلوؤں سے گزر کر کیونکہ کورٹ میں کیس چل رہا ہے، ہم سعد رضوی کو دو ہفتوں میں رہا کردیں گے لیکن میرے سر پر بندوق رکھ کر یہ کام کروانے کی کوشش ہوگی تو ایسا نہیں ہوگا، اس طرح ہم دباؤ میں آنے لگے تو رٹ آف گورنمنٹ ختم ہوجائے گی۔
نصرت مرزا: حکومت رٹ آف گورنمنٹ کی بات کرتی ہے تو ڈیلور بھی تو کرے، عوام میں مہنگائی کے باعث سخت بے چینی پائی جاتی ہے، ایوب خان کے دور میں چینی مہنگی ہونے سے ان کے خلاف بڑی تحریک چلی تھی، عمران خان کے اندر حکمرانی کی صلاحیت ہی نہیں ہے، وقت پر فیصلہ نہیں کر پاتے، اس حوالے سے ضیاء الحق کو میں نے دیکھا تھا کہ وہ رات کے دو بجے اپنے خاص لوگوں کی میٹنگ بلاتے تھے، فجر میں مولانا وصی مظہر ندوی کے ساتھ ملنے کے لئے گیا تو رات ایک بجے ملاقات ہوئی پھر وہ ہمیں باہر خود چھوڑنے کے لئے بھی آئے، ہماری گاڑی سردی کی وجہ سے ٹھنڈی ہوگئی، اسٹارٹ نہیں ہورہی تھی تو وہ خود دھکا لگانے لگے، وہ تمام کالمز پڑھتے تھے، مجیب الرحمان شامی اور الطاف حسین قریشی کالم لکھنے کے حوالے سے بہت مشہور تھے، ان کے پاس فوراً فون آ جاتا تھا کہ آج یہ کیا لکھ دیا ہے، تعریف کرتے تھے، انور مقصود بھی یہی کہتے رہے ہیں، یہ حکمرانی کا انداز ہے، عمران خان اس سے نابلد ہے؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: حکومت نے الیکشن سے قبل جتنے وعدے کئے تھے کوئی ایک بھی پورا نہیں کیا، تحریک لبیک کے معاملے میں بھی ہم نے وزیراعظم سے یہ کہا کہ آپ بندوق کے ذریعے اپنی رٹ نہیں منوا سکتے، بھٹو صاحب کے خلاف جو تحریک چلی تھی آخر میں بھٹو صاحب نے فوج کو طلب کرلیا تھا اور حکم دیا کہ مظاہرین پر گولی چلاؤ، مولانا شاہ احمد نورانی نے اُس تحریک کا نام نظام مصطفیؐ تحریک رکھا تھا، لوگ بہت جوش میں تھے، کیسے ان پر فوج گولی چلا سکتی تھی، اسی طرح اس معاملے میں بھی وزیراعظم بندوق کے زور پر کچھ نہیں کرسکتے تھے، حکومت نے ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا، ڈکیتی، چوری، راہزنی بڑھ گئی ہے، پشیمان ہونے بجائے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
نصرت مرزا: چینی کے ساتھ گیس کا بحران بھی ہے، گیس گھریلو اور صنعتی صارفین کے لئے نایاب ہوچکی ہے، اگر LNG کے سودے پہلے کرلیتے تو بحران نہیں آتا، اسی طرح چینی پہلے امپورٹ کرلی جاتی تو قیمتیں آسمان پر نہیں پہنچتی، انہیں حکمرانی نہیں آتی، کیا ان کو مزید برداشت کیا جانا چاہئے؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: عام تاثر یہ ہے کہ وزیراعظم جس چیز کا نوٹس لیتے ہیں اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے، عمران خان ناکام ہوچکے ہیں، انہیں خود اقتدار سے الگ ہوجانا چاہئے، وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ بھی نہ کرسکے۔
نصرت مرزا: صاحبزادہ صاحب سفیر کو تحفظ حاصل ہوتا ہے، اسلامی تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ ہے کہ کسی سفیر کو نکالا گیا ہو۔ کیا فرانسیسی سفیر کو نکالنے کا مطالبہ جائز ہے؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: تحریک لبیک نے سفیر کو نکالنے کا مطالبہ نہیں کیا، وہ کہتے ہیں کہ آپ اس مسئلہ کو اسمبلی میں پیش کردیں، مفتی منیب الرحمن بھی یہ بات کہہ چکے ہیں، سب سے اہم مطالبہ علامہ سعد رضوی کی رہائی، شوریٰ کے ارکان کی رہائی، کالعدم کرنے کا حکم ختم کرنا، فورتھ شیڈول سے نام نکالنا تھا، یہ سارے مطالبات تھے۔
نصرت مرزا: آپ علامہ سعد رضوی کا سیاست میں کیا کردار دیکھ رہے ہیں؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: جمعیت علمائے پاکستان نے تحریک پاکستان سے لے کر اب تک ایک مثبت کردار ادا کیا ہے، ہماری سیاسی تحریک میں دھرنے کا تصور نہیں تھا، قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی سیاسی جدوجہد اور سیاسی انداز پر یقین رکھتے تھے، 1973ء کی اسمبلی میں ہمارے سات ارکان تھے، اُس میں سے دو باغی ہوگئے تھے، پانچ رہ گئے تھے، جمعیت علمائے پاکستان کے پانچ ارکان اسمبلی نے قادیانیوں کو کافر قرار دلوانے کا اتنا بڑا کام کردیا، پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان طے کروایا، آئین میں لکھوایا کہ کوئی بھی قانون قرآن و سنہ کے خلاف نہیں بن سکے گا، ان سارے معاملے میں ایک جان ضائع نہیں ہوئی، جوش کے ساتھ ہوش بھی ہونا چاہئے۔سعد رضوی بڑے باصلاحیت ہیں، یقینا ان کا شاندار سیاسی مستقبل ہے۔
نصرت مرزا: عمران خان سے متعلق آپ کیا کہیں گے، کیا انہیں فارغ نہیں کر دینا چاہئے؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: عمران خان سیاست کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں، جنرل باجوہ صاحب کو اس بارے میں سوچنا ہوگا کیونکہ وہی انہیں لے کر آئے تھے۔
نصرت مرزا: آئی ایس آئی کے چیف جنرل فیض حمید پکڑ پکڑ کر سیاست دانوں کو پی ٹی آئی میں لے کر آئے، کراچی اور حیدرآباد کا مینڈیٹ تحریک انصاف کو دے دیا، فیض حمید ہمارے بچے جیسا ہے مگر سیاسی کام اس طرح کیا کہ فوج رسوا ہوئی اور عوام تکلیف میں ہے، اس پر آپ کیا کہیں گے؟

صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: پیپلزپارٹی نے تو اپنا بیان چلا دیا کہ ہم سے 16 سیٹوں کا وعدہ کیا تھا اور دی پانچ نشستیں، یہ ساری باتیں عام آدمی تک پہنچ چکی ہیں کہ عمران خان کو کس طرح لایا گیا، اب جو لے کر آئے تھے وہی انہیں لے جائیں کیونکہ عوام شدید پریشان ہیں اور معاشی حالات خراب ہوتے جارہے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کو چاہئے کہ انہیں واپس لے جائیں۔
نصرت مرزا: کیا ایک قومی حکومت بنانے کا وقت آ گیا ہے؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: جن کے دامن داغدار نہ ہوں انہیں شامل کیا جائے، یہ حکومت بدعنوانی کے خاتمے اور اس کے ذمہ داروں کو سزا دینے کے نعرے کے ساتھ آئی تھی مگر کابینہ میں بیٹھے لوگ بدعنوانی میں ملوث ہیں، اس حمام میں سارے ننگے ہیں، ان سب کو فارغ کرکے بے داغ لوگوں کو قومی حکومت میں شامل کیا جائے۔
نصرت مرزا: ہم دو مرتبہ وزارت میں رہے لیکن ایک روپے کی بدعنوانی کا بھی الزام نہیں ہے، ہمیں 26 ہزار ماہانہ ملتا تھا جبکہ ہم 2 لاکھ روپے خرچ کرتے تھے، نتیجتاً مقروض ہوئے، ہمیں اپنا مکان بیچنا پڑا، وزیر کے ساتھ تین موبائل، بکتربند گاڑی چلتی تھی اس کا خرچہ ہمیں اپنی جیب سے اٹھانا پڑتا تھا، موجودہ حالات میں جو بھی قومی حکومت بنائی جائے اس میں علمائے کرام کو شامل کیا جانا چاہئے، بدعنوانی کا بازار گرم ہے اُسے روکنا ہوگا، مذہبی جماعتوں کا سیاست میں کلیدی کردار ہونا چاہئے، کیا آپ اس مطالبے کے حق میں ہیں؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: ہم خود یہی چاہتے ہیں، 2018ء کے الیکشن سے قبل مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق صاحب سے یہ کہا تھا کہ ملی یکجہتی کونسل میں 25 جماعتیں ہیں اس کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑیں مگر اس پر اتفاق نہیں ہوسکا۔
نصرت مرزا: مولانا فضل الرحمن کے ہوتے ہوئے آپ کو کامیابی نہیں مل سکتی تھی کیونکہ وہ وزیراعظم کے امیدوار ہیں، جہاں جاتے ہیں اپنی CV پیش کر دیتے ہیں، ان کی وجہ سے جماعت اسلامی کو کراچی میں نقصان ہوا، اگر جماعت اسلامی اکیلے انتخاب لڑتی تو ڈیفنس اور اورنگی کی نشست جیت سکتی تھی؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: اگر تمام مذہبی جماعتیں مسالک کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر آ جائیں تو انہیں بھرپور کامیابی مل سکتی ہے، جمعیت علمائے پاکستان نے ملی یکجہتی کونسل کے ذریعے اس اتحاد کو مزید فعال کرنے کی کوشش کی ہے۔
نصرت مرزا: دیکھئے مفتی تقی عثمانی صاحب کہتے تھے کہ ایک لادین طبقہ ہے، ایک مذہبی طبقہ ہے، سیکولر طبقے نے دُنیا کو پکڑا اور دین کو چھوڑ دیا، مذہبی طبقے نے دین کو تھاما اور دُنیا کو چھوڑ دیا، اس طرح دونوں نے ایک ایک غلطی کی ہے لیکن ہماری طرح کچھ لوگ ایسے ہیں کہ وہ دونوں میں توازن رکھتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اقتدار کے پیچے ہیں، ان کا ہدف اقتدار ہے، اچھا اب آجائیں حیدرآباد کے مسائل کی طرف، کیا وجوہات ہیں کہ معاملات ٹھیک ہونے کے بجائے بگڑ رہے ہیں؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: 2018ء کے الیکشن سے قبل بھی سندھ کے اضلاع مسائل کا شکار تھے، اب بھی مسائل ہیں بلکہ بڑھ گئے ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ جس شہر کے منتخب نمائندے ہیں وہ بھی مسائل کے حل میں دلچسپی نہیں رکھتے، اسی طرح اہم عہدوں پر بیٹھنے والے افراد بھی اپنے شہر کے مسائل کی جانب توجہ نہیں دے رہے۔
نصرت مرزا: 2008ء میں جب زرداری صاحب صدر بنے تو کراچی میں آ کر اپنے لوگوں کو یہ سمجھایا کہ اب ہمیں ہمدردی کا ووٹ نہیں ملے گا اس لئے مال بناؤ تاکہ سیاست میں خرچ کیا جاسکے، سندھ یونیورسٹی میں جب ہم پڑھتے تھے تو اندرون سندھ ایک طالب علم ہمارے کلاس فیلو تھے وہ بعد میں محکمہ اطلاعات کے فیڈرل سیکریٹری بنے، وہ میرے پاس آئے اور بتایا کہ اعلیٰ سطح پر یہ فیصلہ ہوا ہے کہ سیاست کے ذریعے مال بناؤ، زرداری ڈاکٹرائن بنایا گیا ہے پی پی سندھ کے تمام اضلاع میں اس فارمولے پر عمل کررہی ہے، میں نے اُسی وقت یہ تمام باتیں اپنے کالم میں لکھ دیں تھیں، کراچی میں دیکھیں ناظم جوکھیو کو انہوں نے مارا صرف اس لئے کہ وہ وڈیرے کے خلاف آواز اٹھا رہا تھا، 6 گریڈ کا افسر ہو یا 17 گریڈ کا اندرون سندھ سے لا کر تعینات کیا جارہا ہے، ان کا ہدف کراچی کو لوٹنا ہے؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: یہ صرف زرداری صاحب کا نظریہ نہیں ہے ہر طبقے کا یہی مقصد ہے سیاست کو کاروبار کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے، پی ٹی آئی کو دیکھ لیں اس کی اے ٹی ایم مشینیں مشہور ہیں، یہ ڈاکٹرائن تو تمام بڑی جماعتوں کا بن گیا ہے صرف زرداری صاحب ہی نہیں ہیں، اس کا مقابلہ ایماندار قیادت اور عوام کی طاقت سے کیا جاسکتا ہے۔
نصرت مرزا: صاحبزادہ صاحب شہروں کے ساتھ دیہی علاقوں میں بھی پی پی زیادتی کررہی ہے، جاتی کے گاؤں میں ایک بچی نہر میں ڈوب گئی، اُس کی لاش لے جانے کے لئے ایمبولینس تک نہیں دی گئی، موٹرسائیکل پر اس کی میت لے جائی گئی لیکن اس کے خلاف مقامی افراد یہاں تک کہ گاؤں کا وڈیرہ بھی آواز اٹھانے سے گھبرا رہا تھا، انہوں نے کہا کہ کیمرا بند کردیں تو پھر میں بات کرسکتا ہوں، یہ حال ہے اندرون سندھ کا، سندھی بھائیوں کو چاہئے کہ ہمارے ساتھ مل کر جدوجہد کریں تاکہ وڈیرہ شاہی سے نجات حاصل ہوسکے، اس میں خطرات ہیں لیکن اس کی پرواہ کئے بغیر اٹھنا ہوگا، آپ اس پر کیا کہیں گے؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: ہمارے ملک کے انتخابات میں چوہدری، وڈیرے، نواب، جاگیرداروں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، ان کی من مانیاں جاری ہیں، کوئی ان کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے، وہ ان لوگوں کے تصرف میں ہیں، خلاف ہوئے تو مار دیئے جائیں گے، حکمران اگر ٹھیک ہوجائیں اور قانون کی عملداری ہو تو خوف کا عنصر ختم ہوجائے گا، قصوروار کو سزا دی جانے لگے گی تو لوگ آگے آ کر آواز اٹھانے لگیں گے، حکومت کو انصاف کرنا ہوگا ورنہ یہی نظام چلتا رہے گا، ایسا نظام آ جائے کہ جرم کرنے پر فوری سزا دی جائے لگے، یہ ایک عارضی حکومت بنا دی جائے جو سارے گند کو صاف کرنے کیلئے قانون پر عملدرآمد کرنے لگے تو معاملات ٹھیک ہوسکتے ہیں۔ چین میں بدعنوانوں کو جرم ثابت ہوجانے پر گولی مار دی جاتی تھی چاہے وہ کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو۔
نصرت مرزا: عمران خان تبدیلی کے نعرے کے ساتھ آئے تھے مگر حالات بدتر ہیں، وہ صرف کھیل جانتے ہیں اور ملک کے ساتھ کھیل رہے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کو اس حوالے سے فیصلہ کرلینا چاہئے کہ کیسے ان معاملات کو ٹھیک کرنا ہے، ایک قومی حکومت بنانا ہوگی جس میں پی پی، ن لیگ، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتیں نہ ہوں، پنجاب کے چوہدری وڈیرے تو انگریزوں کے غلام رہے ہیں، ہندوستان کے لوگ آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے اور شاہ محمود قریشی، چوہدری نثار، حامد ناصر چھٹہ کا خاندان انگریزوں کا ساتھ دے رہے تھے کیونکہ رنجیت سنگھ سے انگریزوں نے نجات دلائی تھی اس لئے ان کے تابعدار بنے ہوئے تھے، قائداعظم ان ٹوڈیز کی حقیقت جانتے تھے اس لئے بیوروکریزی سے کہا تھا کہ میری باسکٹ میں گندے انڈے ہیں، ملک کو آپ لوگ چلائیں لیکن بعد میں پڑھی لکھی خاندانی بیوروکریسی کو بدنام کیا گیا، قمر جاوید باجوہ صاحب کے پاس موقع ہے وہ تمام سیاسی گند کو نکال کر ایک قومی حکومت بنائیں، اس پر آپ کیا کہیں گے؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: آپ نے درست کہا عسکری قیادت کو اس حوالے سے سوچنا ہوگا، تمام بدعنوانوں کو نکال کر ان کو کئے کی سزا دیتے ہوئے ایک قومی حکومت بنائیں اور ایک متعین وقت کے بعد انتخابات کروائیں، پہلے ان کی ڈاکٹرائن، اجارہ داری اور بدمعاشیوں کو ختم کریں تاکہ انصاف پر مبنی ماحول میں ہر طبقہ آزادانہ طریقے سے انتخابات میں حصہ لے اور ایک نئی قیادت سامنے آئے۔
نصرت مرزا: کیا ان جاگیرداروں اور وڈیروں سے زمینیں چھین نہیں لینا چاہئے، اسلام اس حوالے سے کیا احکامات دیتا ہے، ایک مفتی کی حیثیت سے آپ کیا کہیں گے، کیونکہ طاقت کا مرکز پیسہ ہے؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: اس مسئلہ کو مذہبی احکامات کے حوالے سے دیکھنا ہوگا، ان کی جائیداد کو چھوڑیں ان کی بیش بہا طاقت کو ختم کرنا ہوگا، یہ ایک دینی مسئلہ ہے اس کے لئے علمائے کرام کا ایک پینل ہے جس میں یہ سوال رکھا جاسکتا ہے کہ کسی کی ذاتی چیز کو چھینا جاسکتا ہے یا نہیں، فی الحال تو ان کی بداعمالیوں پر قانون کو حرکت میں آنا چاہئے کیونکہ یہ جسے چاہتے ہیں مار دیتے ہیں۔
نصرت مرزا: اچھا بدعنوان کو تو جیل بھیجا جاسکتا ہے، کیا اسلامی قوانین کا نفاذ ہوجانا چاہئے؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: اگر اسلامی قوانین نافذ ہوجائیں تو دوسرے دن ہی تمام معاملات ٹھیک ہونے لگیں گے، الیکشن بھی ٹھیک ہوجائے گا، عوامی نمائندے بھی سدھر جائیں گے اور معاملات دیانتداری سے چلانے لگیں گے، ہم ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے اس سوال کا جواب لینے کی کوشش کریں گے کہ کیا قومی مفاد میں جاگیرداروں اور وڈیروں کی زمینیں بحق سرکار ضبط کی جاسکتی ہیں کیونکہ ہمارے پاس تمام مکاتب فکر کے لوگوں کی نمائندگی ہے، مسائل کے حل کے لئے علما کا ایک کمیشن بھی موجود ہے، اس میں اس مسئلہ پر رائے لی جاسکتی ہے کیونکہ تمام مسالک کے علمائے کرام وہاں موجود ہیں۔
نصرت مرزا: حیدرآباد کو سندھ کا پیرس اس لئے کہا جاتا تھا کہ ہندو عورتیں پرفیوم لگا کر گزرتی تھیں، ہیرآباد کی سڑکیں بہت کشادہ ہوا کرتی تھیں تلک چاڑی تک ایک خوشگوار ماحول ہوا کرتا تھا، یہ ساری باتیں ہمیں نور محمد ہائی اسکول میں پڑھنے اور مسلم ہاسٹل میں رہنے کی وجہ سے معلوم ہوئیں، نور محمد ہائی اسکول 1925ء میں بنا تھا، نور محمد صاحب خود علی گڑھ سے پڑھ کر آئے تھے، اس اسکول سے پڑھنے والے بہت سے افراد اہم عہدوں پر رہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ حیدرآباد کے مسائل ختم ہونے کے بجائے بڑھنے لگے، کیا ایم کیو ایم کا زور ابھی تک موجود ہے؟
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر: ایم کیو ایم کو عوام نے مینڈیٹ دیا، یہ لوگ بھتہ خوری اور بدمعاشی میں لگ گئے، ان کا ایک زور قائم ہوگیا، ظاہر ہے بُری عادت مشکل سے چھوٹتی ہے، ایم کیو ایم کے ایم این ایز، ایم پی ایز رہے، میئر ان کا رہا مگر یہ کام کروا نہیں سکے، دیکھ لیں شہر کا کتنا بُرا حال ہے، ایماندار لوگ آئیں گے تو معاملات ٹھیک ہوں گے ورنہ بگاڑ موجود رہے گا، عمران خان صاحب سے میں نے کہا کہ یہ ریاست مدینہ کا کیسا وژن ہے کہ ایک اوقاف ایکٹ آ گیا ہے جس میں تمام مساجد و مدارس کو پابند کردیا گیا ہے، کسی 18 سال سے کم عمر غیرمسلم کو آپ مسلمان نہیں کرسکتے، میں نے ان سے عرض کیا کہ یہ ہے ریاست مدینہ کا وژن، آپ پاکستان کو ایسی ریاست بنانا چاہتے ہیں جہاں غیرمسلم کو اسلام قبول کرنے سے روکا جائے۔

مطلقہ خبریں