نصرت مرزا
بھارت پاکستان پر بظاہر دو تزویراتی معاملات میں آگے نظر آرہا ہے ایک تو اُس کی ایٹمی ایندھن سے چلنے والی آبدوز جس کو بیٹری چارج کرنے
کے لئے کھلے سمندر میں آنے کی ضرورت ایک طویل عرصہ تک ضرورت محسوس نہیں ہوتی سوائے انسانی ضروریات یا ذہنی دباؤ سے آزادی کے، یاد رہے کہ پاکستان نے دو سال قبل اُس کی ایک آبدوز کو اپنے ساحل سمندر سے ذرا دور گھیرے میں لے لیا تھا اور وہ تین روز تک حالت قید میں رہی جو کسی آبدوز کی موت کے برابر مانی جاتی ہے، اُس کے بعد بھارت نے ایٹمی ایندھن سے چلنے والی آبدوز ایری ہانت متعارف کی جوکہ روس سے پٹے پر لی گئی ہے اور کئی مشکلات سے گزرنے کے بعد اُس کو بھارتی بحریہ کے حوالے کیا گیا، اس آبدوز کے بحریہ کے دسترس میں آنے کے بعد بھارت کی سرگرمیاں کافی بڑھیں اور وہ یہ تاثر دینے لگی جیسے اُس کی ایری ہانت پاکستانی پانی میں موجود رہی ہو، اگرچہ یہ بھارت کی وقتی برتری ظاہر کرتی ہے، میں نے اس پر جب بحریہ کے ماہرین سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو ان کا جواب تھا کہ پاکستانی بحریہ میں ایسی آبدوز کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے، جس سے ہم نے اندازہ یہ لگایا کہ اس پر کام ہورہا ہے اور کوئی چھ ماہ کے اندر اندر ایٹمی ایندھن سے چلنے والی آبدوز کی موجودگی کی خبر مل سکتی ہے، جوکہ بھارت کی بالادستی کو ختم کردے گی، پاکستان خود ایسے کوئی ایسی پیش رفت نہیں کرتا جس سے بھارت کو یہ کہنے کا موقع ملے کہ انہوں نے ایٹمی ایندھن والی آبدوز پاکستان کی وجہ سے حاصل کی جبکہ بھارت کے پاس کوئی برتری کی اسٹرٹیجک ہتھیار آجاتا ہے تو اس کے بعد پاکستان اپنی توجہ اس طرف مبذول کرتا ہے، ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت نے 1974ء میں پوکھران میں ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان کو ڈرانے کی کوشش کی تو خراب حالات اور مشرقی پاکستان کے المیہ کے باوجود پاکستان نے دس برسوں کے اندر اندر یعنی 1984ء میں یہ صلاحیت حاصل کرلی، بھارت نے 11 مئی 1998ء کو پانچ ایٹمی دھماکے کئے تو پاکستان 28 مئی 1998ء کو چھ ایٹمی دھماکے کئے، پانچ چاغی اور ایک خاران کی پہاڑیوں میں۔ اس کے بعد بھارت نے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کے نظریے پر کام شروع کیا اور اس پر 20 بلین ڈالر خرچ کئے کہ پاکستان کے آٹھ کمزور مقامات سے بھارت پاکستان میں گھس آئے اور پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے جواباً پاکستان نے قلیل مدت میں محدود پیمانے کے ایٹمی ہتھیار بنا لئے جیسے ٹاکٹیکل اٹومک وارہیڈس کہا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ 60 کلومیٹر سے لے کر 160 کلومیٹر تک کے فاصلے پر مار کرنے والا میزائل نصر کی ایک سیریز بنا ڈالی جو بھارت کے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کا توڑ تھا یعنی اُن کی جمع شدہ فوجی طاقت جو پاکستان میں گھسنے کی کوشش کرے تو اُس کو پھانپ بنا ڈالے۔ اس ڈاکٹرائن میں بھارت کی اجتماعی حرکت ہونا تھی مگر اس کے بعد اس نے ڈاکٹرائن سے رجوع کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ پہلے حملہ کیا جائے اور پیچھے ہٹا جائے یعنی بعد میں حرکت ہو جس سے پاکستان کو پہلے سے پتہ چلنے کا عنصر کو معدوم کیا جائے اُسے اسٹریٹجی پرو ایکٹو پی اے ایس یعنی فعال حکمت عملی کا نام دیا گیا کہ نقصان پہنچا کر واپس آجایا جائے، واپس آنے کی حرکت کی اطلاع تو ہو مگر حملہ کی اطلاع نہ ہو جس کا پاکستان نے مناسب جواب دینے کا انتظام کرلیا گیا ہے۔ اُس کو حیران کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا اگر پاکستان نے نئے محدود تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال کیا تو اس کے قطعاً یہ معنی نہیں لئے جاسکیں گے کہ ایٹمی حملہ ہوگیا، یہ ایٹمی حملہ کی تعریف میں نہیں آتا اس لئے بھارت کو بھاری نقصان کے لئے تیار رہنا چاہئے، ہم جانتے ہیں کہ اُن کے پاس بھی محدود تباہی پھیلانے والا ہتھیار ’’پراہار‘‘ موجود ہے، اگر پاکستان کے نصر سے اس کا تقابلی جائزہ لیں تو ہمیں ’’نصر‘‘ اپنی صلاحیت کے اعتبار سے بہتر نظر آئے گا۔ پی اے ایس نظریہ کے تحت بھارت فضائی ہتھیاروں کو بے دریغ استعمال کرسکتا ہے۔ یہ بھارت کی محدود جنگ کی تیاری کا مرحلہ ہے، جس کو وہ کسی بھی وقت بھی روبہ عمل لاسکتا ہے مگر پھر پاکستان کے جوابی حملہ جو شاید اُس کے حملے سے شدید تر ہو اس کا وہ متحمل نہیں ہوسکتا ہے اور جس پر اُن کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے جوابی حملہ کیا تو ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے، یہ صورتِ حال بھارت کو اپنے مذموم عزائم سے باز رکھنے کے لئے ایک اچھا ڈراوا ہے، دوسرا اہم نظام جو پاکستان پر برتری کا حامل ہوگا وہ روس کا ایس-400 فضائی نظام ہے وہ خوفناک حد تک خطرناک ہے، کیونکہ یہ نظام پاکستان کے سارے علاقے کو اپنے نظر میں رکھ سکتا ہے اور تدارکی انتظامات کرنے کا اہل ہے، تاہم پاکستان 2020ء تک اس کا متبادل یا توڑ حاصل کر لے گا یا بنا لے گا کیونکہ یہ ہنگامی صورتِ حال ہے اس پر ہنگامی بنیادوں پر کام ہونا چاہئے، دوسرے ہمارے پاس نصر میزائل کی یہ صلاحیت ہے کہ وہ توپوں کے ذریعے بھی داغے جاسکتے ہیں جو 80 سے زیادہ داغے جائیں تو ایس-400 کی بیٹری کو ناکارہ بنا دیں گے۔ اس کے علاوہ یہ نظام آواز سے پندرہ گنا رفتار سے آنے والے میزائل کو روک سکتا ہے جبکہ شاہین III نشانہ پر آکر لگے گا تو اُس کی رفتار آواز سے اٹھارہ گنا ہوگی یعنی وہ ایس-400 کے نظام کو بے اثر کردے گا۔ اگرچہ وقتی طور سے پاکستان میں قدرے پریشانی ہوئی مگر جب اس کا جائزہ لیا تو اس کے کمزور پہلو سامنے آگئے اور اس کے بعد اطمینان کی لہر حاوی ہوگئی کہ پاکستان میں اس سے بہتر نظام پر کام کیا جارہا ہے پھر کروز میزائل اور تیز رفتار میزائل کو روکنے کا معاملہ بھی ہے جس میں یہ نظام بہتر کارکردگی دکھانے سے قاصر ہے، چنانچہ شاہین III ایک کارآمد میزائل ثابت ہوگا اور حتمی جنگ میں تو اس کی کامیابی یقینی ہے، تیسرے یہ بات اہم ہے کہ پاکستان دوسرے حملہ کی صلاحیت بھارت کو محدود جنگ شروع کرنے کی انسان دشمن کوشش روکنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی، کیونکہ بھارت کو تاحال یہ معلوم نہیں کہ ہم اس پر کہاں سے حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ بہرحال پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ بھارت کے اس مہم جوئی کو روکنے کے لئے کوئی ایسا حتمی ہتھیار کا تجربہ کر ڈالے جو بھارت کے چودہ طبق روشن کردے تو محدود جنگ مسلط کرنے سے باز آسکتا ہے۔