محسن فارانی
بھارتی فوج اکتیس برس سے مقبوضہ جموں کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لئے جس بڑے پیمانے پر مسلمان مردوں، بچوں اور عورتوں کا خون بہا رہی ہے، اس کی گواہی محمد مقبول شیخ کے انٹرویو سے ملتی ہے جو سرینگر پولیس ہیڈ کوارٹر میں لاشوں کے پوسٹ مارٹم کے شعبے کے سربراہ تھے۔ بھارتی ہندی اخبار ’’جن ستا‘‘ نے دانشور و شنوناگر کا مقبول شیخ سے کیا گیا انٹرویو جنوری 2001ء کے بعد دوبارہ چھاپا ہے۔ مقبول شیخ نے بتایا کہ 1989ء میں تحریک آزادی کے آغاز کے بعد سے اس کے شعبے میں 12 ہزار سے زیادہ لاشیں موصول ہوئیں جن میں بھاری اکثریت کشمیری مسلمانوں کی تھیں۔ ان کا پوسٹ مارٹم اس کی نگرانی میں ہوا۔ مقبول شیخ کے بقول روزمرہ کے اس معمول نے اسے بڑی حد تک ایک بے حس انسانی جسم میں تبدیل کردیا اور اس کے اندر لطیف انسانی جذبات ختم ہوگئے۔ اسے معمولی سی نیند لینے کے لئے بھی ادویات کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ وہ یہ ملازمت چھوڑنے کا خواہش مند تھا مگر اپنے بچوں کی پرورش کے لئے کوئی دوسرا ذریعہ نہ ہونے کی بنا پر مجبوراً یہ کام کرتا تھا۔ وہ لہو رستی لاشیں دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکا تھا اور دعاگو تھا کہ دنیا کے اس بدقسمت خطے میں پائیدار بنیادوں پر امن قائم ہو۔
مقبول شیخ نے انٹرویو میں کہا: ’’میں اب کوئی کام بھی خوشی سے نہیں کر سکتا کیونکہ دوران پوسٹ مارٹم مردہ جسم کو بار بار اندر سے کھولنا پڑتا ہے۔ تحریک آزادئ کشمیر کے آغاز سے قبل خودکشی یا قتل کے اکا دکا واقعات میں مرنے والوں کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنا ہوتا تھا مگر پچھلے برسوں میں تو روزانہ درجنوں انسانی لاشیں لائی جاتی ہیں اور اکثر اوقات پورے پورے ٹرک بھر کر لاشیں سرینگر کے پولیس اسپتال میں لائی جاتی ہیں جبکہ مرنے والوں کی اکثریت کمسن کشمیری بچوں اور نوجوانوں کی ہوتی ہے اور اکثر اوقات مرنے والے ایک ہی خاندان کے ہوتے ہیں‘‘۔ مقبول شیخ نے دلگیر ہو کر بتایا: ’’میں اپنی زندگی سے اتنا بیزار ہو چکا ہوں کہ بعض اوقات خون سے بھرے ہاتھوں کے ساتھ ہی اپنے اہل خانہ کے ساتھ کھانے میں شریک ہو جاتا ہوں اور جب میرے بچے مجھے یاد دلاتے ہیں کہ آپ نے ہاتھ دھوئے ہیں نہ خون آلود کپڑے تبدیل کئے ہیں، تب میں اس طرف توجہ دیتا ہوں‘‘۔
13 اکتوبر 2018ء کو ’’انڈیا انٹرنیشنل سینٹر‘‘ (دہلی) میں سابق نائب صدر حامد انصاری کے زیرصدارت ’’سرکاری مسلمان‘‘ نامی کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی۔ کتاب کے مصنف بھارتی فوج کے سابق وائس چیف آف اسٹاف جنرل ضمیر الدین شاہ ہیں۔ انہوں نے بھارتی ریاست گجرات کے مسلم کش فسادات (فروری مارچ 2002ء) کے بارے میں چشم کشا انکشافات کئے ہیں۔ اس گھناؤنے المیے میں اس وقت کا وزیراعلیٰ اور آج کا وزیراعظم نریندر مودی پوری طرح ملوث تھا۔ ضمیر الدین شاہ لکھتے ہیں:
28 فروری 2002ء کو میں 3 ہزار فوجی لے کر جودھ پور سے احمد آباد ایئر فیلڈ پہنچ گیا تھا لیکن وزیراعلیٰ مودی نے ہمیں تین دن تک ایئر فیلڈ سے باہر آنے اور فوج تعینات کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ان تین دنوں میں بھارتی غنڈوں نے پولیس کی سرپرستی میں کھلی چھٹی پا کر پورے گجرات میں آگ لگا دی۔ ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ سینکڑوں مسلمان زندہ جلا دیئے گئے۔ ہزاروں خواتین اور بچیوں کی عصمت دردی کی گئی‘‘۔
مودی کی خباثت دیکھئے کہ جنرل ضمیر الدین شاہ کے 3 ہزار فوجیوں کے ساتھ احمد آباد پہنچنے پر اور وزیردفاع جارج فرنانڈس کی موجودگی میں فسادیوں کو گولی مارنے کا حکم دیا اور گاڑیاں فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی لیکن تین دن بعد اس یقین دہانی کو عملی شکل دی جب فسادی، مسلمانوں کو جانی و مالی اور عزت و آبرو کا بے پناہ نقصان پہنچا چکے تھے۔ ضمیر الدین شاہ نے لکھا ہے: ’’اس یقین دہانی کے ذریعے سے مجھے بے وقوف بنایا گیا جس سے مسلمانوں کے بارے میں انتہاپسند ہندوؤں کی ذہنیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر فوج کو بروقت کردار ادا کرنے دیا جاتا تو فساد پر قابو پایا جا سکتا تھا‘‘۔
ہندو افسروں کی مسلمان ساتھیوں کے بارے میں چالبازی ’’بغل میں چھری منہ میں رام رام‘‘ کی عکاسی کرتی ہے۔ جنرل ضمیر الدین شاہ لکھتے ہیں: ’’سرکاری افسر (مسلمان) کسی پوسٹ پر ہو، بے بس ہوتا ہے۔ یہ بڑا المیہ ہے کہ کوئی مسلمان اپنی وفاداری اور حب الوطنی ثابت نہیں کرسکتا۔ ہندو سرکاری افسر جو ملازمتوں میں کولیگز ہوتے ہیں، بظاہر اچھے رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر سماجی رابطوں کی سائٹ پر ان کے خلاف زہر اگلتے ہیں‘‘۔
مئی کے شروع کے دن تھے جب نسیمہ بانو نے اپنے بیٹے توصیف شیخ کو موبائل فون پر کہا تھا: ’’اپنے راستے پر قائم رہنا۔ میں تمہاری کامیابی کے لئے دعاگو ہیں۔ خدا تمہارا حامی و ناصر ہو‘‘۔ اس وقت بھارتی فوجی مجاہد توصیف شیخ کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ اس سے چند ہی لمحے پہلے اس 23 سالہ کشمیری عسکریت پسند نے اپنی والدہ کو فون پر کہا تھا: دعا کریں، میری شہادت قبول ہو‘‘۔ پھر بھارتی فوج کے آپریشن کے بعد توصیف شیخ کی گولیوں سے چھلنی لاش ملی تھی۔ اس نے کشمیر کی آزادی کے لئے اپنی جان نثار کردی تھی۔ غم و غصہ میں مبتلا نسیمہ بانو نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’جنگ میں کشمیری تب تک قربانیاں دیتے رہیں گے جب تک وہ آزادی حاصل نہیں کر لیتے‘‘۔ اپنے جوان بیٹے کی قربانی دینے والی اس عظیم خاتون کے یہ الفاظ حریت پسندوں کو نیا ولولہ دیتے رہیں گے۔
بھارتی فوج کا ظلم جوں جوں بڑھتا ہے، آزادی کے ولولے اور قوی ہوتے جاتے ہیں۔ مقامی لوگ لڑائی کی جگہ جمع ہو کر فوجیوں پر پتھر پھینکنے شروع کر دیتے ہیں اور اس طرح مجاہدین کو وہاں سے بچ نکلنے میں مدد دیتے ہیں۔ تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے بھارتی فورسز نے گزشتہ سال ’’آپریشن آل آؤٹ‘‘ شروع کیا تھا اور آغاز ستمبر 2018ء تک وادئ کشمیر میں 350 سے زائد حریت پسند شہید اور درجنوں گرفتار کئے جا چکے تھے۔ کلگام کے شیخ خاندان کے ان 12 افراد میں ہوتا ہے جو بھارتی فورسز سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ یہ ایک کشمیری خاندان کی قربانیوں کی بے مثال حکایت ہے۔ ابھی جانے اور کتنے خاندان بھارتی فوجی درندوں کی گولیوں سے شہید ہوں گے؟
جولائی 2016ء میں برہان وانی کی شہادت کے بعد قابض بھارتی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے عسکریت پسندوں کی تعداد میں کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ حریت پسند رہنما یاسین ملک نے جرمن خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ’’آج کے نوجوانوں میں اس سے کہیں زیادہ غصہ ہے جیسا بیس برس پہلے ہماری نسل کے نوجوانوں میں ہوتا تھا‘‘۔ ایک اندازے کے مطابق 1980ء کی دہائی کے بعد سے 45 ہزار سے زائد کشمیری بھارتی درندوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں۔ گزشتہ ماہ ڈاکٹر عبدالمنان وانی پاکباز شہدائے کشمیر کے گروہ میں شامل ہوگئے۔ وہ ارضیات میں پی ایچ ڈی کرچکے تھے اور علی گڑھ یونیورسٹی میں ابھی ان کی تعلیم کا سلسلہ جاری تھا کہ 5 جنوری 2018ء کو وہ یونیورسٹی سے غائب ہوگئے۔ جہاد آزادی میں عملی شرکت کا جذبہ انہیں وادئ کشمیر میں کھینچ لایا تھا۔ جہاد کشمیر میں ان کی شمولیت بھارتی ہندو سامراج کے لئے انتہائی پریشانی کا باعث بنی۔ وہ آٹھ ماہ بھارتی فوج کے خلاف برسرپیکار رہے اور 11 اکتوبر کو شاٹھ گنڈ ہندواڑہ کے ایک معرکے میں شہادت پا کر سرخرو ہوگئے۔ اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں وادی میں 25 حریت پسند شہید ہوئے۔ قصاب صفت نریندر مودی کے زیرقیادت برہمنی سامراج نے ایک طرف بھارت کے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے، دوسری طرف مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کے جان و مال اور آبرو سے کھیلنے کے لئے وحشی بھارتی فوجیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے مگر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے مغربی ٹھیکیدار اس ظلم پر خاموش ہیں، کب تک؟
مقبول شیخ نے انٹرویو میں کہا: ’’میں اب کوئی کام بھی خوشی سے نہیں کر سکتا کیونکہ دوران پوسٹ مارٹم مردہ جسم کو بار بار اندر سے کھولنا پڑتا ہے۔ تحریک آزادئ کشمیر کے آغاز سے قبل خودکشی یا قتل کے اکا دکا واقعات میں مرنے والوں کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنا ہوتا تھا مگر پچھلے برسوں میں تو روزانہ درجنوں انسانی لاشیں لائی جاتی ہیں اور اکثر اوقات پورے پورے ٹرک بھر کر لاشیں سرینگر کے پولیس اسپتال میں لائی جاتی ہیں جبکہ مرنے والوں کی اکثریت کمسن کشمیری بچوں اور نوجوانوں کی ہوتی ہے اور اکثر اوقات مرنے والے ایک ہی خاندان کے ہوتے ہیں‘‘۔ مقبول شیخ نے دلگیر ہو کر بتایا: ’’میں اپنی زندگی سے اتنا بیزار ہو چکا ہوں کہ بعض اوقات خون سے بھرے ہاتھوں کے ساتھ ہی اپنے اہل خانہ کے ساتھ کھانے میں شریک ہو جاتا ہوں اور جب میرے بچے مجھے یاد دلاتے ہیں کہ آپ نے ہاتھ دھوئے ہیں نہ خون آلود کپڑے تبدیل کئے ہیں، تب میں اس طرف توجہ دیتا ہوں‘‘۔
13 اکتوبر 2018ء کو ’’انڈیا انٹرنیشنل سینٹر‘‘ (دہلی) میں سابق نائب صدر حامد انصاری کے زیرصدارت ’’سرکاری مسلمان‘‘ نامی کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی۔ کتاب کے مصنف بھارتی فوج کے سابق وائس چیف آف اسٹاف جنرل ضمیر الدین شاہ ہیں۔ انہوں نے بھارتی ریاست گجرات کے مسلم کش فسادات (فروری مارچ 2002ء) کے بارے میں چشم کشا انکشافات کئے ہیں۔ اس گھناؤنے المیے میں اس وقت کا وزیراعلیٰ اور آج کا وزیراعظم نریندر مودی پوری طرح ملوث تھا۔ ضمیر الدین شاہ لکھتے ہیں:
28 فروری 2002ء کو میں 3 ہزار فوجی لے کر جودھ پور سے احمد آباد ایئر فیلڈ پہنچ گیا تھا لیکن وزیراعلیٰ مودی نے ہمیں تین دن تک ایئر فیلڈ سے باہر آنے اور فوج تعینات کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ان تین دنوں میں بھارتی غنڈوں نے پولیس کی سرپرستی میں کھلی چھٹی پا کر پورے گجرات میں آگ لگا دی۔ ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ سینکڑوں مسلمان زندہ جلا دیئے گئے۔ ہزاروں خواتین اور بچیوں کی عصمت دردی کی گئی‘‘۔
مودی کی خباثت دیکھئے کہ جنرل ضمیر الدین شاہ کے 3 ہزار فوجیوں کے ساتھ احمد آباد پہنچنے پر اور وزیردفاع جارج فرنانڈس کی موجودگی میں فسادیوں کو گولی مارنے کا حکم دیا اور گاڑیاں فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی لیکن تین دن بعد اس یقین دہانی کو عملی شکل دی جب فسادی، مسلمانوں کو جانی و مالی اور عزت و آبرو کا بے پناہ نقصان پہنچا چکے تھے۔ ضمیر الدین شاہ نے لکھا ہے: ’’اس یقین دہانی کے ذریعے سے مجھے بے وقوف بنایا گیا جس سے مسلمانوں کے بارے میں انتہاپسند ہندوؤں کی ذہنیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر فوج کو بروقت کردار ادا کرنے دیا جاتا تو فساد پر قابو پایا جا سکتا تھا‘‘۔
ہندو افسروں کی مسلمان ساتھیوں کے بارے میں چالبازی ’’بغل میں چھری منہ میں رام رام‘‘ کی عکاسی کرتی ہے۔ جنرل ضمیر الدین شاہ لکھتے ہیں: ’’سرکاری افسر (مسلمان) کسی پوسٹ پر ہو، بے بس ہوتا ہے۔ یہ بڑا المیہ ہے کہ کوئی مسلمان اپنی وفاداری اور حب الوطنی ثابت نہیں کرسکتا۔ ہندو سرکاری افسر جو ملازمتوں میں کولیگز ہوتے ہیں، بظاہر اچھے رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر سماجی رابطوں کی سائٹ پر ان کے خلاف زہر اگلتے ہیں‘‘۔
مئی کے شروع کے دن تھے جب نسیمہ بانو نے اپنے بیٹے توصیف شیخ کو موبائل فون پر کہا تھا: ’’اپنے راستے پر قائم رہنا۔ میں تمہاری کامیابی کے لئے دعاگو ہیں۔ خدا تمہارا حامی و ناصر ہو‘‘۔ اس وقت بھارتی فوجی مجاہد توصیف شیخ کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ اس سے چند ہی لمحے پہلے اس 23 سالہ کشمیری عسکریت پسند نے اپنی والدہ کو فون پر کہا تھا: دعا کریں، میری شہادت قبول ہو‘‘۔ پھر بھارتی فوج کے آپریشن کے بعد توصیف شیخ کی گولیوں سے چھلنی لاش ملی تھی۔ اس نے کشمیر کی آزادی کے لئے اپنی جان نثار کردی تھی۔ غم و غصہ میں مبتلا نسیمہ بانو نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’جنگ میں کشمیری تب تک قربانیاں دیتے رہیں گے جب تک وہ آزادی حاصل نہیں کر لیتے‘‘۔ اپنے جوان بیٹے کی قربانی دینے والی اس عظیم خاتون کے یہ الفاظ حریت پسندوں کو نیا ولولہ دیتے رہیں گے۔
بھارتی فوج کا ظلم جوں جوں بڑھتا ہے، آزادی کے ولولے اور قوی ہوتے جاتے ہیں۔ مقامی لوگ لڑائی کی جگہ جمع ہو کر فوجیوں پر پتھر پھینکنے شروع کر دیتے ہیں اور اس طرح مجاہدین کو وہاں سے بچ نکلنے میں مدد دیتے ہیں۔ تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے بھارتی فورسز نے گزشتہ سال ’’آپریشن آل آؤٹ‘‘ شروع کیا تھا اور آغاز ستمبر 2018ء تک وادئ کشمیر میں 350 سے زائد حریت پسند شہید اور درجنوں گرفتار کئے جا چکے تھے۔ کلگام کے شیخ خاندان کے ان 12 افراد میں ہوتا ہے جو بھارتی فورسز سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ یہ ایک کشمیری خاندان کی قربانیوں کی بے مثال حکایت ہے۔ ابھی جانے اور کتنے خاندان بھارتی فوجی درندوں کی گولیوں سے شہید ہوں گے؟
جولائی 2016ء میں برہان وانی کی شہادت کے بعد قابض بھارتی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے عسکریت پسندوں کی تعداد میں کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ حریت پسند رہنما یاسین ملک نے جرمن خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ’’آج کے نوجوانوں میں اس سے کہیں زیادہ غصہ ہے جیسا بیس برس پہلے ہماری نسل کے نوجوانوں میں ہوتا تھا‘‘۔ ایک اندازے کے مطابق 1980ء کی دہائی کے بعد سے 45 ہزار سے زائد کشمیری بھارتی درندوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں۔ گزشتہ ماہ ڈاکٹر عبدالمنان وانی پاکباز شہدائے کشمیر کے گروہ میں شامل ہوگئے۔ وہ ارضیات میں پی ایچ ڈی کرچکے تھے اور علی گڑھ یونیورسٹی میں ابھی ان کی تعلیم کا سلسلہ جاری تھا کہ 5 جنوری 2018ء کو وہ یونیورسٹی سے غائب ہوگئے۔ جہاد آزادی میں عملی شرکت کا جذبہ انہیں وادئ کشمیر میں کھینچ لایا تھا۔ جہاد کشمیر میں ان کی شمولیت بھارتی ہندو سامراج کے لئے انتہائی پریشانی کا باعث بنی۔ وہ آٹھ ماہ بھارتی فوج کے خلاف برسرپیکار رہے اور 11 اکتوبر کو شاٹھ گنڈ ہندواڑہ کے ایک معرکے میں شہادت پا کر سرخرو ہوگئے۔ اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں وادی میں 25 حریت پسند شہید ہوئے۔ قصاب صفت نریندر مودی کے زیرقیادت برہمنی سامراج نے ایک طرف بھارت کے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے، دوسری طرف مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کے جان و مال اور آبرو سے کھیلنے کے لئے وحشی بھارتی فوجیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے مگر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے مغربی ٹھیکیدار اس ظلم پر خاموش ہیں، کب تک؟