محمد افضل بھٹی
کرتارپور کا علاقہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کی تحصیل شکرگڑھ، ضلع نارووال میں پاک بھارت بارڈر کے نزدیک واقع ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جس کے اردگرد پاکستان اور بھارت کے درمیان 1965ء اور 1971ء کی جنگیں لڑیں گئیں۔ اس لحاظ سے یہ مقام دونوں ملکوں کی تاریخ میں اہم مقام رکھتا ہے تاہم سکھوں کے لئے یہ علاقہ انتہائی مقدس مقام گردانا جاتا ہے کیونکہ یہ وہ مقام ہے جہاں سکھوں کے گرو، بابا گرونانک اس جہان فانی سے رخصت ہوئے اور ان کی یاد میں یہاں گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور تعمیر کیا گیا۔ پاکستان اور بھارت کے آپسی تعلقات زیادہ تر جنگوں اور لفظی گولہ باری پر مبنی رہتے ہیں جس کا سب سے زیادہ نقصان سکھوں کو ہوتا ہے کیونکہ زیادہ تر سکھ ہندوستان میں آباد ہیں لیکن ان کے اہم مذہبی اور مقدس مقامات پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ جنگ کے ماحول میں پاکستان میں اپنے مذہبی مقامات کی یاترا کے لئے ویزے کے حصول میں انہیں کافی مشکلات پیش آتی ہیں، لہٰذا وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم ہونے کے ہمیشہ متمنی رہتے ہیں۔
جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں بھارت کو امن کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بھارت ایک قدم آگے آئے گا تو ہم دو قدم چل کر جائیں گے۔ مزید یہ کہ انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کی حلف برداری کی تقریب میں کئی نامور بھارتی شخصیات کو بھی مدعو کیا، جن میں سے صرف نوجوت سنگھ سدھو شریک ہوئے جوکہ سابق کرکٹر اور بھارتی پارلیمنٹ کے رکن بھی ہیں۔ اگرچہ ان کے اس فعل پر کافی لعن طعن کی گئی حتیٰ کہ شدت پسندوں کی طرف سے انہیں دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن سدھو جی بلاخوف وخطر اپنے جگری دوست کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئے جسے پوری دنیا نے دیکھا اور دونوں اہم شخصیات کے اس مل بیٹھنے کو نیگ شگون قرار دیا۔
حلف برداری کی اس تقریب میں انتہائی خوشگوار حیرت تب ہوئی جب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نوجوت سنگھ سدھو سے بغل گیر ہوئے اور ان چند لمحوں کی ملاقات میں یہ خوشخبری سنائی کہ آپ بھارت سے امن کا پیغام لائے ہیں تو بدلے میں ہم بھی آپ کو ایک خوشخبری دیتے ہیں وہ یہ کہ پاکستان جلد ہی کرتارسنگھ بارڈر سکھوں کے لئے کھول دے گا جہاں سکھ یاتری بغیر ویزہ کے اپنے اس اہم مذہبی مقام کی یاترا کرسکیں گے۔ حلف برداری کی تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انتہائی پُرمسرت لہجے میں نوجوت سنگھ سدھو نے وزیراعظم عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میرے یار (عمران خان) نے میری جھولی بھر دی ہے۔ مجھے بن مانگے اتنا کچھ مل گیا کہ میں خوشی سے جھوم اٹھا ہوں۔
حلف برداری کی تقریب سے واپسی پر نوجوت سنگھ سدھو کو اپنے ملک میں بے پناہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف سے بغل گیر کیوں ہوئے؟۔ جس حلف برداری کی تقریب میں وہ شریک تھے وہاں آزاد کشمیر کے وزاء بھی موجود تھے جوکہ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اسی طرح کے اور کئی الزامات ان پر لگائے گئے۔ حتیٰ کہ شدت پسندوں کی طرف سے جان سے مار دینے کی دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ کھلم کھلا میڈیا پر پاک بھارت دوستی کا پرچار کرتے رہے اور اپنے جگری دوست عمران خان کا شکریہ ادا کرتے رہے۔
سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کے غیرمتزلزل ارادوں کو دیکھتے ہوئے دوسرے امن پسند لوگوں نے بھی پاک بھارت امن کی آوازیں بلند کرنا شروع کردیں۔ پاکستان تو شروع سے ہی امن کا خواہاں ہے۔ اصل مسئلہ بھارتی شدت پسندی اور ہٹ دھرمی ہے۔ لیکن اب برف پگھلنا شروع ہوگئی ہے کیونکہ پاکستان کی طرف سے کرتار سنگھ بارڈر کھولنے کی دعوت نے صحیح جگہ پر چوٹ کی ہے۔ اگرچہ اگلے سال اپریل یا مئی میں بھارت میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں جس میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی پارٹیاں مسلم اور پاکستان مخالف جذبات کو ابھاریں کیونکہ ہندو ووٹ جیتنے کے لئے یہ امر انتہائی اہم ہے لیکن اس حقیقت کے باوجود بھی بھارتی حکومت نے پاکستان کی کرتار سنگھ بارڈر کھولنے کی دعوت کو سرکاری طور پر قبول کرلیا ہے۔ بھارت کی طرف سے اس مثبت اقدام کی تعریف کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیراطلاعات فواد چوہدری نے اسے امن کی طرف ایک قدم قرار دیا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان جمود ٹوٹنے کے اس عمل کی ہر حلقہ کی طرف سے تعریف کی جارہی ہے۔ بھارت سے آئے سکھ یاتریوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ وزیراعظم عمران خان 28 نومبر کو کرتارپور بارڈر کھولنے کا افتتاح کریں گے تو انہوں نے انتہائی خوشی کا اظہار کیا۔ پاکستان میں یاترا پر آئی ایک بھارتی اداکارہ سونم کپور نے کہا کہ عمران خان صاحب! آپ کی شخصیت میں سچائی ہے۔ آپ دنیا کے لئے پاکستان کا نیا چہرہ ہیں۔ امید ہے کہ آپ دنیا کا پاکستان کے متعلق امیج بدلیں گے۔
اگرچہ پاکستان اور بھارت کے درمیان برسوں سے جمی برف پگھلنا شروع ہوگئی ہے مگر نفرتوں کے گلیشئر پگھلنے میں ابھی وقت لگے گا۔ صدیوں پر محیط ہندو مسلم نفرتیں دنوں میں ختم نہیں ہوں گی لہٰذا وقت کا تفاضا ہے کہ دونوں اطراف سے محبتوں پر مبنی ایسے چھوٹے چھوٹے اقدام کیے جائیں۔ نفرت ایک دم سے اثر کرتی ہے لیکن محبت آہستہ آہستہ اثر کرتی ہے۔ دونوں اطراف سے ایسے چھوٹے چھوٹے اقدامات اٹھائے جائیں جس سے ایک دوسرے پر اعتماد میں اضافہ ہو۔ اگرچہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کا قیام ایک خواب ہے لیکن خواب دیکھنے پر پابندی تو نہیں۔ یورپ صدیوں ایک دوسرے کے خلاف لڑتا رہا اور ان لڑائیوں کے دوران لاکھوں لوگ مارے گئے لیکن باہم متصادم یہ اقوام آج یورپی یونین کے جھنڈے تلے اکٹھی ہو کر امن سے رہ رہی ہیں۔
تو آئیں ہم بھی خواب دیکھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت نفرتیں بھلا کر اکٹھے ہوجائیں۔ باہمی بارڈر کھل جائیں جس سے تجارت پھلے پھولے گی، کھیلوں کے میدان آباد ہوں گے، فنکار و اداکار آئیں جائیں گے۔ کشمیریوں کو ظلم و زیادتی سے چھٹکارہ ملے گا۔ یوں نفرتوں کے یہ گلیشئر پگھل جائیں گے اور ایک دن آئے گا کہ پاکستان اور بھارت کے لوگ بغیر ویزے کے آنا جانا شروع ہوجائیں گے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کرتارپور کا علاقہ سکھوں کے لئے ویزہ فری ہونے والا ہے۔ تو چلیئے گمان کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن و خوشحالی کی بحالی کا راستہ کرتار پور سے ہوکر گزرے گا۔