Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ایس 400 سسٹم۔۔غریب بھارت کا مہنگا دفاعی پروجیکٹ

امتیاز کاظم

ولادی میر پیوٹن بھی آخرکار ’’جپھی بادشاہ‘‘ کے قابو میں آگئے اور پْرانے تعلقات کی تجدید کر ڈالی جوکہ 47ء، 65ء، 71ء سے ہوتے ہوئے 2018ء میں داخل ہوگئے اور بھارت نے 5 ارب ڈالرز کی خطیر رقم سے جدید ترین دفاعی فضائی نظام ایس 400 کی خریداری کے لئے روس سے معاہدے کو آخری شکل دے دی ہے، معاہدے پر دستخط ہونے کی قوی یقین دہانی ہے بلکہ معاہدہ ہوگیا ہے۔ بھارت کی طرف سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس ڈیفنس میزائل سسٹم کے مل جانے سے بھارت کا دفاعی نظام کافی مستحکم اور تقریباً ناقابلِ تسخیر ہوجائے گا۔ اس معاہدے سے جہاں پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے وہاں ٹرمپ کے دوست ’’جپھی اسٹار‘‘ مودی، ٹرمپ اور امریکہ کے لئے پریشانی کا باعث بن گئے ہیں۔ پانچ ارب ڈالرز کا یہ ہی معاہدہ اگر امریکہ کے ساتھ ہوتا تو باعث تشویش نہ ہوتا۔ امریکہ شدت سے محسوس کر رہا ہے کہ روس پھر سے سر اْٹھا رہا ہے اور اس سے امریکہ کی سپرپاور کا تاثر دْھندلا رہا ہے جبکہ امریکہ پہلے ہی چین کی تیزترین معاشی ترقی کی رفتار سے پریشان ہے۔ امریکہ نے بھارت پر پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے لیکن وہ یہ پابندیاں لگا نہیں سکے گا کیونکہ ایشیا میں اْس کا واحد سہارا بھی اْس سے چھن جائے گا اور یہ بات بھارت بھی اچھی طرح سمجھ رہا ہے لہٰذا بھارت نے ٹرمپ کے بیان کو درخوراعتناء نہیں سمجھا۔
یہ جدید ترین میزائل سسٹم روس کے علاوہ صرف چین اور ترکی کے پاس ہے اور اب بھارت بھی اس میں شامل ہونے جا رہا ہے۔ اس ڈیفنس میزائل سسٹم کے مل جانے کے بعد بھارتی فوج کے سرکردہ افراد کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ بھارتی فوج حریف ممالک کی تمام سرگرمیوں پر گہری نگاہ رکھ سکے گی بالخصوص پاکستان کے چپے چپے پر نظر رکھنے کا دعویٰ بھی کیا جارہا ہے۔ دفاعی امور کے ماہر راہول بیدی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’یہ پاکستان کے لئے بہت تشویش کی بات ہوگی، ایس 400 آنے کے بعد بھارت پاکستان پر اور بھی بھاری پڑے گا، دراصل بھارت نے امریکہ سے ہتھیاروں کی خریداری شروع کی تھی تو پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات بڑھنے لگے تھے۔ ایسے میں بھارت کو ڈر تھا کہ روس پاکستان کو ایس 400 میزائل نہ دے دے تو بھارت نے روس کے ساتھ اس سودے میں یہ شرط بھی رکھی ہے کہ وہ پاکستان کو ایس 400 میزائل سسٹم نہیں دے گا‘‘۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پھْرتیاں ملاحظہ فرمائیں کہ ایک ایسا ملک جس کی 27 کروڑ آبادی (یہ کْل آبادی نہیں ہے) انتہائی غربت کا شکار ہے، جسے دو وقت کی روٹی میسر نہیں، وہ بھوک سے مر رہے ہیں، یہ 5 ارب سے اسلحہ/ میزائل سسٹم خرید رہا ہے، یہ کن لوگوں کے لئے خرید رہا ہے جو بھوک سے مر رہے ہیں، یہ مرے ہوئے لوگوں کے لئے اسلحہ خرید رہا ہے، ان کو اسلحہ کی نہیں، ان کو تو روٹی کی ضرورت ہے، بیماریوں کے خلاف لڑنے کے لئے دوائی کی ضرورت ہے۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کی درجہ بندی کے مطابق بھارت کی آبادی غربت میں 131ویں نمبر پر ہے۔ بھارت کی نوبیل انعام یافتہ شخصیت ’’امریتاسین‘‘ نے عوام کی خدمت کے حوالے سے بھارتی حکومت کی ناکامی کے اعدادوشمار پیش کیے جس کے مطابق ہر ایک ہزار بچوں میں سے 50 بچے نوزائیدگی ہی میں مر جاتے ہیں اور ہر لاکھ خواتین میں سے 230 دوران زچگی کے عمل کے دوران موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں اور صرف 65 فیصد بچوں کو بیماریوں کے خلاف ویکسین لگتی ہے۔
بچوں کی کْل آبادی کا نصف غذائی کمی کا شکار ہے۔ ایسے ملک کے لئے ایسی بڑی فضول خرچی یقیناً پاگل پن کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ صرف ہی نہیں بلکہ ایسی حرکت بھارت جیسے غریب ملک کی معیشت کے لئے سمِ قاتل ہے۔ 17ستمبر 1950ء میں پیدا ہونے والے موجودہ پندرہویں وزیراعظم کو ’’سٹھیائے‘‘ ہوئے بھی 8 سال گزر چکے ہیں، یقیناً یہ شخص اپنے عوام کو اناج دینے کے بجائے مہنگا ترین اسلحہ خرید کر اپنے جنگی جنون کو رام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ’’رام رام جپنا پرایا مال اپنا‘‘ کا قائل وزیراعظم دراصل انتہاپسندی، قتل وغارت گری اور لڑائی جھگڑے میں اس وقت سے ہی پڑا ہوا ہے جب یہ 8 سال کی عمر میں لکشمن راؤ انعامدار کے ہتھے چڑھ گیا تھا جس نے اسے کٹر انتہاپسند تنظیم آر ایس ایس (راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ) میں بطور جونیئر کیڈٹ متعارف کرایا۔ چھوٹی عمر سے 68 سال کی پکی عمر تک یہ آر ایس ایس کا ’’بالکا‘‘ اب بھی انتہاپسندی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ آر ایس ایس سے بھاجپا (بھارتیہ جنتاپارٹی بی جے پی) کا بھیس بدلنے والا دراصل نئی کھال میں پْرانا بھیڑیا ہے جس کا دست راست بھی امیت شاہ جیسا سفاک انسان ہے۔ تھیٹر میں دلچسپی رکھنے والے مودی نے پورے ہندوستان کو ’’تھیٹر‘‘ بنا رکھا ہے جہاں وہ ہندوازم، بھارت ماتا کی جے اور گؤرکھشا کے ڈرامے اپنی ہدایت کاری میں کرا کر اْن کا ’’اینڈ‘‘ بھی اپنی مرضی سے کراتا ہے کیونکہ یہ جاناسنگھ برانڈ (بی جے پی کے بانی لیڈران گجرات یونٹ) کی نظریاتی سوچ کا پروردہ ہے، بہرحال ایس-400 میزائل سسٹم خریدنے کے بعد یقینی طور پر بھارتی ڈیفنس سسٹم میں بہتری آئے گی اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے شاید پاکستان ابابیل میزائل کی اپ گریڈیشن کرے۔
ایس-400 زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائل سسٹم ہے جو 400 کلومیٹر تک آپریشنل ہے۔ اسے بنانے کا آغاز 28 اپریل 2007ء کو کیا گیا۔ یہ روسی ساختہ ہے۔ اس کا پْرانا نام ایس-300 پیایم یو 3 ہے۔ اس کی رینج 40این6 میزائلوں کے لئے 400 کلومیٹر، 48این-6 میزائلوں کے لئے 250 کلومیٹر، 9ایم 96ای2 میزائلوں کے لئے 120 کلومیٹر جبکہ 9ایم 96ای میزائلوں کے لئے 40 کلومیٹر ہے۔ اس پروجیکٹ پرکام تو 1980ء میں ہی شروع ہوگیا تھا لیکن روسی ایئرفورس نے اس کا اعلان جنوری 1993ء میں کیا جبکہ 12فروری 1999ء میں اس کا کامیاب ٹیسٹ کرلیا گیا اور 2007ء میں اسے سروس کے لئے منظوری دے دی گئی۔ دراصل یہ پروجیکٹ ایس-300 فیملی سے تعلق رکھتا ہے جو بعد میں تین برانچوں میں تقسیم کردیا گیا یعنی ایس-300-وی، ایس-300- پی اور ایس-300- ایف پھر ایس-300- پی کو پروموٹ کیا گیا یعنی ایس-300- پیٹی اور ایس-300- پیایس۔ یہی ایس-300- پیایس پھر ایس-300- پیایم سے ایس-300- پیایم 1 اور ایس-300- پیایم 2 کے مدارج گزرتا ہوا اپنی آخری شکل ایس-400 کی صورت میں سامنے آیا۔ روس میں یہ سسٹم ’’الیکٹروسٹال‘‘ کے نزدیک لگایا گیا ہے جبکہ یہ سسٹم روس میں بعض دیگر مقامات پر بھی کام کررہا ہے۔ امریکہ کی شام میں مداخلت کے بعد جب ایران اور روس شام کی مدد کو آئے تو نومبر 2015ء میں ایک بیان بھی آیا کہ روس نے شام میں ایس-400 سسٹم نصب کردیا ہے جبکہ مارچ 2014ء میں ولادی میرپیوٹن کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ اس سسٹم کو بیچنے کے اختیارات چین کو تفویض کیے جا رہے ہیں تاہم چین نے بھی 13 اپریل 2015ء کو یہ سسٹم خرید لیا جبکہ ترکی نے بھی یہ سسٹم خرید رکھا ہے۔ اب بھارت دْنیا میں چوتھا ملک ہے جس کے پاس ایس-400 سسٹم ہوگا۔ بھارت ایٹمی قوت ہے، اسے اتنے مہنگے جنگی سسٹم خریدنے کی ضرورت نہیں، یہ غریب ترین ملک ہے جہاں غربت کی شرح سب سے زیادہ ہے، اسے دوسرے ملکوں سے برابری کرنے اور لڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ اسے اپنے ملک کی غربت سے لڑنے کی زیادہ ضرورت اور یہ اپنے داخلی مسائل پر توجہ دے تو بہتر ہوگا۔
بھارت کے اس طرح کے اقدامات اس بات کے غماز ہیں کہ وہ یہ نہیں چاہتا کہ جنوبی ایشائی خطے میں امن قائم ہوسکے۔ اس جدید میزائل سسٹم کی خریداری کا واضح مقصد کشمیر میں جاری مظالم میں اضافہ اور پاکستان کو ڈرانا ہے۔ اس طرح کے بھارتی جارحانہ اقدامات اور جدید اسلحہ کی خریداری پاکستان کو بھی اس بات پر مجبور کرسکتی ہے کہ وہ بھی اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے ایسے اپ ڈیٹڈ ہتھیاروں کے حصول میں لگ جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر جنوب ایشیائی خطے میں ہتھیاروں کے حصول کی ایک نئی دوڑ کا آغاز ہوجائے گا جو کسی بھی طرح دونوں ممالک کے لئے بالخصوص اور پورے خطے کے لئے بالعموم اچھائی کا سبب نہیں بن سکتا۔

مطلقہ خبریں