Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پچاس لاکھ گھروں کا منصوبہ

سید زین العابدین

پاکستان کی سیاسی تاریخ کی یہ واحد عوامی کم محکمہ زراعت کی حکومت ہے جسے 2 ماہ کے بعد ہی سخت تنقید کا سامنا ہے، کسی بھی نئی حکومت کو 100 دن تک اس لئے تنقید سے چھوٹ دی جاتی ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کو واضح کرے اور اپنی حکمت عملی ترتیب دے، تنقید کرنے والے جلد بازی کررہے ہیں لیکن اس کا جواز عوام نے بھی دے دیا حکومت کے دو ماہ پورے نہیں ہوئے کہ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے گڑھ خیبرپختونخوا میں اس کی جیتی ہوئی نشست پر مینڈیٹ تبدیل کردیا، پنجاب میں تو ویسے ہی جعلی مینڈیٹ ہے جس کا اظہار لاہور اور فیصل آباد کے ووٹرز نے خوب کیا، بہرحال نئی حکومت کو جس طرح بھی لایا گیا ہے اُسے موقع ملنا چاہئے، عمران خان کے کچھ اقدامات تو قابل تعریف ہیں، اب جائزہ لیتے ہیں حکومت کے بڑے منصوبوں کا۔ کم آمدنی والے طبقے کے لئے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر، وزیراعظم چاہتے ہیں کہ اس منصوبے کے ذریعے غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کیا جائے، اب سوال یہ ہے کہ کم آمدنی والوں کے لئے سستے گھر کوئی غیرملکی سرمایہ کار کیوں بنائے گا، گھروں کی تعمیر کا اہم سیکٹر سریا، اسٹیل ہے، اس منصوبے کے اعلان سے قبل اگر وزیراعظم پاکستان اسٹیل کو چلانے کا پلان پیش کرتے تو زیادہ بہتر تھا، سیمنٹ سیکٹر تو بہت فعال ہے بلکہ بے لگام بھی ہے، اپنی مرضی سے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کا بہانہ بنا کر سیمنٹ کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ کر چکا ہے۔ 50 لاکھ گھروں کی تعمیر اگر ہر علاقے اور ہر ضلع کے رہن سہن کے مطابق ہو تو لاگت زیادہ نہیں آئے گی، کم آمدنی والے بے گھر افراد کو 90 سے 120 گز کا 3 کمروں پر مشتمل مکان مل جائے تو ان کے لئے بہت ہوگا، 120 گز کا اسکوائر فٹ 1050 بنتا ہے، اسے 850 روپے فی اسکوائر فٹ بھی رکھیں تو ایک یونٹ کی تعمیر پر 8 لاکھ 92 ہزار 500 روپے لاگت آئے گی، جسے 50 لاکھ سے ضرب دیں تو منصوبے کی کُل رقم 45 ارب ڈالر بنتی ہے یعنی آئندہ 5 سال تعمیری شعبے میں حکومت کو تقریباً 45 بلین ڈالر چاہئے جبکہ ان 5 برسوں میں سود اور قسطوں کی مد میں 15 ارب ڈالر کی ادائیگی بھی کرنی ہے جبکہ تجارتی خسارہ سالانہ 25 ارب ڈالر ہے۔ ہنگامی بنیاد پر کم بھی ہوجائے تو 20 ارب ڈالر سالانہ ضرور رہے گا۔
اگر 50 لاکھ گھروں کا پراجیکٹ منافع خوروں کے حوالے ہوا تو اس کی لاگت دوگنی ہوجائے گی، وزیراعظم صاحب اس منصوبے پر بڑے جوش و خروش کا مظاہرہ کررہے ہیں جبکہ دوسری جانب ترقیاتی بجٹ میں کمی کی گئی ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب آپ کے پاس وسائل نہیں ہیں، قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں تو اتنے بڑے منصوبے کو کس طرح مکمل کریں گے، وزیراعظم معاشی حالات ہنگامی بنیاد پر ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو زراعت، لائیو اسٹاک پر توجہ دیں، لائیو اسٹاک سے حلال میٹ کا شعبہ بڑھے گا، حلال میٹ میں ہم فوری سپلائی دے سکتے ہیں، کسی بھی ملک سے معاہدہ ہو تو 15 سے 30 دنوں میں اس کا آرڈر تیار کیا جاسکتا ہے، اسی طرح سی فوڈز کے ذریعے ڈالر لانے کا فوری انتظام ہوسکتا ہے، سمندر سے نکالنا ہے اور بھیجنا ہے لمبا چوڑا کام نہیں ہے، پھر ٹیکسٹائل کے شعبے کی طرف آئیں جس کی مشینری اور مین پاور موجود ہے صرف سبسڈی دینی ہے، مال بننا شروع ہوجائے گا، اسی طرح لیدر انڈسٹری بھی ہنگامی طور پر فعال کی جاسکتی ہے، یہ دونوں شعبے ماضی میں ملکی معیشت میں اہم حصہ ڈالتے رہے ہیں۔ خدمات اور موٹروہیکل شعبے پر خاص توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ خدمات والے (سیلولر فونز) منافع باہر بھیج رہے ہیں، موٹر وہیکل کا شعبہ مہنگی گاڑیاں اور پرزے درآمد کررہا ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھ رہا ہے، سی پیک کے معاہدوں کے ساتھ ان شعبوں کے معاہدوں پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے، وزیراعظم معاشی ماہرین کو پورے ملک سے جمع کریں اور ایک تھنک ٹینکس بنائیں، جس میں رزاق داؤد اور اسد عمر کا کوئی رول نہ ہو بلکہ ماہرین کا انتخاب وزیراعظم خود کریں، ان کے ساتھ نشست رکھیں تاکہ اچھا بُرا سب سامنے آئے۔
بلند و بانگ دعوے تو الیکشن میں کر لئے جاتے ہیں لیکن حکومت میں آکر حقائق کا اندازہ ہوتا ہے، عمران خان نیک نیتی سے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں، اس بات پر سب کا اتفاق ہے، اپوزیشن کا تو کام ہی شورشرابہ ہے اگر گزشتہ جمہوری ادوار کے 10 سالوں میں دیانت داری سے کام ہورہا ہوتا تو آج اتنے بڑے مسائل اور چیلنجز کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، عمران خان ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے معاملے میں جنونی انسان ہیں، ان کا یہ جنون کامیابی کی علامت ہے لیکن خوشامدیوں سے بچنا ہوگا، ابتدائی 2 ماہ میں یہ نظر نہیں آیا ابھی تک خوشامدی چھائے ہوئے ہیں، انہیں کنٹرول کرلیں تو کارکردگی مثبت رہے گی ورنہ تبدیلی کے نعرے سے عوام بیزاری کا اظہار کرنے میں دیر نہیں کریں گے۔

مطلقہ خبریں