Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

معیشت تحفظ پیکیج

نصرت مرزا

اگر یقین محکم ہو اور جہد مسلسل ہو تو کامیابی مقدر بن جاتی ہے، ممکن ہے کہ پاکستان کے نئے وزیراعظم اور قائداعظم کے پاکستان کو نیا پاکستان کا نام دینے والے عمران خان ملک کی معیشت کو مضبوط کر ہی ڈالیں اگرچہ اس وقت انہیں سخت مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا ہے، پہلی بڑی رکاوٹ انہوں نے قریب قریب عبور کرلی ہے کہ انہوں نے 6 بلین ڈالرز کا معیشت تحفظ پیکیج سعودی عرب سے حاصل کرلیا ہے، وہ بھی قدرے پس و پیش اور اگر و مگر کے بعد، سعودی عرب جو خود مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور ترکی، یورپ اور امریکہ کے سخت دباؤ میں ہے، اُسے بہرحال پاکستان کی ضرورت تھی اور پاکستان ہمیشہ سعودی عرب کی ضرورت رہا ہے، پہلے سعودی عرب سے قرضہ لینے یا تیل کا بطور قرض لینے میں شاید اتنی دقت کا سامنا نہ ہوتا اگر خود سعودی عرب معاشی طور سے دباؤ کا شکار نہ ہوتا یا پھر وہ اپنی شرائط قرضہ دینے کی بجائے پاکستان کی سہولت کے مطابق قرضہ نہ دیتا، اگر ارضی سیاست پاکستان اور سعودی عرب کو ضرورت کے رشتے میں نہ باندھ لیتی، یہ عمران خان کی بطور وزیراعظم کے پہلی کامیابی قرار پائے گی مگر پاکستان کی ضرورت اِس رقم سے کہیں زیادہ ہے جتنا کہ پاکستان کی معیشت کے تحفظ کا جو پیکیج ملا ہے، کیونکہ پاکستان کو شاید دسمبر تک کئی بلین ڈالرز ادا کرنے ہوں گے، معیشت کے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کو معمول کے مطابق سانس لینے کے لئے 20 بلین ڈالرز کی ضرورت ہے، اگرچہ ایک معیشت داں ڈاکٹر اشفاق کا یہ کہنا ہے کہ 20 بلین کی بجائے پاکستان کو 8 بلین ڈالرز مل جائیں تو یہ پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے کافی ہے، اگر اُن کی بات کو درست مان لیا جائے تو پاکستان کو اب تک 5 بلین ڈالرز مل چکے ہیں، 3 بلین سعودی عرب اور 2.7 بلین ڈالرز چین سے۔ مگر خود وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اُن کو مزید ڈالرز درکار ہوں گے کیونکہ سود کی ادائیگی کے ساتھ کچھ رقم بھی معاہدے کی شرائط کے مطابق واپس کرنا پڑ رہی ہے۔ دوسری اہم اور سنجیدہ بات جو انہوں نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی وہ یہ کہ بھارت و افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے کے خواہشمند ہیں، اس لئے انہوں نے وزیراعظم کا حلف اٹھاتے ہی بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی تھی کہ جو پیسہ اپنے دفاع پر دونوں ملک خرچ کررہے ہیں وہ عوام پر خرچ کریں، انہوں نے عندیہ دیا کہ بھارت شاید 2019ء کے الیکشن کے بعد مذاکرات پر آمادہ ہوجائے کیونکہ بھارت میں الیکشن، پاکستان کو ہوا بنا کر لڑا اور جیتا جاتا ہے، اسی لئے انہوں نے سرجیکل اسٹرائیک کا شوشہ چھوڑا اور خود بھارت کے دفاعی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ فوج کے ساتھ سیاست نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ بھارت کے ڈی جی ملٹری آپریشن نے یہ کہا کہ اُن کی سرجیکل اسٹرائیک سرحد تک محدود تھی وہ سرحد کے پار نہیں گئے، اس کے بعد بھی بھارت کا اصرار کہ انہوں نے سرجیکل اسٹرائک سرحد پا جاکر ہی کی، عوام کو طاقت کی خودفریبی میں مبتلا کر دینے کے مترادف ہے، سعودی عرب کی معاشی کانفرنس ایک صحافی کی ترکی میں موت متنازعہ بن گئی تھی، اس میں پاکستان کے ضرورت وزیراعظم کا شریک ہونے سے اُس کو قدرے معتبریت ملی، اُن کی چہرہ بچاؤ پوزیشن حاصل کرلی۔ دوسرا سعودی عرب کا مسئلہ یہ بھی کہ پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کو جو شکست ہوئی تو سلطنت عثمانیہ کے علاقہ جات جس میں سعودی عرب بھی شامل تھا، معاہدہ لوزین (1923) کے تحت ایک سو سال کے لئے الگ کردیئے گئے تھے چنانچہ وہ ایک سو سال 2023ء میں پورے ہورہے ہیں اور ترکی اپنے علاقہ جات کی واپسی کا خواہاں ہے، یورپ نے آج سے کئی سال پہلے ہی طیب اردگان کو ترک سلطان کے لقب سے پکارنا شروع کردیا ہے اور اب طیب اردگان نے بھی خود ترکی نشاۃ ثانیہ کے حصول کا اعلان کردیا ہے، ایسی صورت میں سعودی عرب کو اتحادیوں کی ضرورت پڑے گی، 2023ء تک تو ممکن نہ ہو کہ سعودی عرب کو ترکی میں شامل کردیا جائے تاہم کچھ نہ کچھ نئے حالات جنم لیں گے اور نئے سرے سے بندربانٹ ہوگی اور اگر سعودی حکمرانوں نے اندرونی طور پر اپنے آپ کو مضبوط کرلیا اور یمن کی جنگ بند کردی تو وہ بادشاہت قائم رکھ سکیں گے گو انہوں نے پہلے 26 ممالک پر مشتمل اتحادی فوج تیار کرلی ہے، مگر اس سے زیادہ اہم بات اندرونی استحکام اور سنجیدہ انداز کی حکمرانی اُن کو درکار ہے، یمن سے جنگ بندی کا عندیہ شاید وزیراعظم پاکستان کو مل گیا ہے اس لئے ہی انہوں نے سعودی عرب سے واپسی پر اپنی تقریر میں مصالحتی کردار ادا کرنے کا اعلان کیا، ساتھ ساتھ سعودی عرب ترکی کے مسئلہ کو بھی دبانا چاہتاہے۔ ایسی صورت میں پاکستان ناصرف سعودی عرب بلکہ تمام عرب ممالک کی شدید ضرورت ہے اور وہ مگر پاکستان کو قرضوں سے نجات دلا دیں تو پاکستان اُن کی مدد کو آسکتا ہے اور ترکی اور سعودی عرب کے درمیان معاملات سنبھال سکتا ہے، عربوں کے پاس دولت ہے اور ہمارے پاس افرادی قوت کے ساتھ عزم مصمم اور حوصلہ ہے، وزیراعظم عمران خان علامہ اقبال کا حوالہ دیتے ہیں، اگر انہوں نے اُن کے کلام و پیغام کو سمجھ لیا ہے تو وہ دنیا میں پاکستان کا بڑا کردار متعین کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ برصغیر کے مسلم، مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ چاہتے تھے۔ اُن کی سلطنت چھن گئی تھی، وہ ایک عظیم ملک بنانے کا خواب علامہ اقبال کے کلام نے اُن کی دلی خواہش کی ترجمانی کی تو پاکستان کے حصول کے لئے بیش بہا قربانیاں دیں۔ اب پاکستان ایک طاقتور ملک تو ہے مگر تاحال وہ عظیم ملک نہیں بن سکا ہے، اُس کے پاس ماہر افرادی قوت کی فراوانی ہے جسے وہ ابھی تک پوری طرح استعمال میں نہیں لاسکا ہے، اُس کے ساتھ زمین میں چھپے ہوئے خزانے ہیں جنہیں وہ نکال نہیں سکا ہے، پیٹرول، سونا، لوہا، تانبہ سب کچھ اب خود سے آشکار ہورہا ہے جیسے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک علاقے میں چند فٹ زمین گھودی جائے تو خام پیٹرول نکل آتا ہے، وہاں کے عوام اس سے اپنی موٹر سائیکلیں اور دوسرے کام کررہے ہیں، اس کے علاوہ پاکستان کے پاس صنعتی مراکز موجود ہیں جنہیں جدید بنانا اور ٹیکنالوجی کے ذریعے کسی چیز کی قیمت بڑھانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے، ٹیکسٹائل صنعت اب اٹھنے کو پرتول رہی ہے، تاہم پاکستان کو سانس لینے کی قرضہ جات کی ادائیگی کی ضرورت ہے یا ایسے معاہدات کر لئے جائیں جو ہماری معدنی دولت کے کچھ حصہ کے بدلے میں ہمارے قرضہ جات ادا کردے اور مستقبل میں معدنی دولت نکالنے والے ملک اور خود پاکستان کو مستقبل میں بھی فائدہ ہوتا رہے تو یہ ایک اچھا سودا ہوگا۔ سعودی قرضہ کے بعد یہ یقین ہو چلا ہے کہ دوسرے ممالک سے بھی پاکستان کو اچھا خاصا قرضہ مل سکتا ہے، اس کے بعد بھی آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑے تو یہ بڑی بدقسمتی ہوگی، کیونکہ آئی ایم ایف جو قرضہ دے گا اُن شرائط پر دے گا کہ پاکستان کی شرح نمو چار فیصد سے زائد پر نہیں بڑھ پائے گی جبکہ پاکستان کو سالانہ شرح نمو 7 فیصد یا اس کے لگ بھگ چاہئے۔

مطلقہ خبریں